صنف نازک کو اسلام نے جو عزت اور مقام ومرتبہ عطا کیا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ کائنات کی ایک دبی کچلی، نازک اور معصوم لیکن مجبور ومقہور مخلوق جسے انسان دائرہ انسانیت میں بھی داخل کرنے پر آمادہ نہ تھا، جسے اپنی جیسی ایک ذات سمجھنا تو درکنار، اس کا وجود خود انسان کے لیے سراپا ننگ وعار اور اس کی پیدائش باعث خفت وشرمندگی تھی۔ لیکن حرا کے ایک تاریک غار سے نکلی ایک لاہوتی صدا نے دفعتا انسانوں کے خود ساختہ اصول وضوابط کی پل بھر میں دھجیاں اڑادیں اور تار عنکبوت سے بھی کمزور یہ موہوم اوہام وعقائد یک قلم پاش پاش کر دیے گئے۔ پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ عرب کا ایک چرواہا تن تنہا اٹھا اور اس نے ساری دنیا کو یہ باور کرایا کہ جس ذات کو کیڑوں مکوڑوں سے بھی حقیر سمجھ کر مسل دیا جاتا ہے اور جسے قبل از موت ہی در گور کر دیا جاتا ہے، وہ کوئی معمولی اور حقیر ذات نہیں ہے، وہ ایسی چیز نہیں کہ اس کے ساتھ بہیمانہ اور وحشیانہ سلوک کیا جائے، بلکہ اس محسن نے یہ بتا یا کہ یہ تمھاری ہی جیسی ایک مخلوق ہے، اس کے ساتھ تو تمھارا رشتہ اس وقت سے قائم ہو چکا تھا جب اس دنیا کا اولین انسان پیدا ہوا تھا اور اسی کے ایک عضو سے اس صنف کی تخلیق بھی عمل میں آئی۔ اس محسن نے یہ بھی بتایا کہ عورت کوئی معمولی ہستی نہیں ہے۔ یہ ایک ماں کے روپ میں تمھیں نو ماہ اپنی کوکھ میں رکھتی ہے اور اس دورانیہ میں دنیا بھر کی تکالیف برداشت کرتی ہے اور پھر جب تم اس عالم میں قدم رکھتے ہو تو اس وقت جس مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ مدت رضاعت میں جب تم غذا کے محتاج ہوتے ہو اور تمھارے جسم کو ہلکی اور رقیق خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت وہ خون جگر کو دوددھ کی شکل میں تمھارے منہ میں انڈیل دیتی ہے۔ تمھارا بے وقت کا رونا دھونا، تمھاری شرارتیں، تمھاری معقول و غیر معقول فرمائشیں سب کو ہنسی خوشی برداشت کرتی ہے۔ غرضیکہ اس کی ایک ایک عنایت ونوازش شما رکرانا پڑے تو شاید صفحات کم پڑ جائیں، قلم خشک ہو جائے، کلمات ختم ہوجائیں لیکن پھر بھی ”حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا“۔
اس محسن نے ایک ایک رشتہ کی قدر کرنا سکھایا، اس نے بتایا کہ عورت اگر بہن کے روپ میں ہو تو کائنات کی عظیم نعمت ہے، اگر بیٹی کے روپ میں ہو تو جنت میں داخلہ کا سبب ہے، اگربیوی کے روپ میں ہو تو کائنات کی سب سے قیمتی متاع اور اگر ماں کے روپ میں ہو تو اس کی عظمت کا کیا کہنا۔ الغرض یہ کہ اس ہستی کو محسن انسانیت نے اس قدر مقدس اور محترم بنا دیا کہ وہی ظالم وجابر معاشرہ جس کے استبداد کے سامنے صنف نازک کا سر نہیں اٹھتا تھا اور جس کے قہر سے اس کے نازک آبگینے پاش پاش ہوجایا کرتے تھے، دفعتا وہ سماج اپنے سارے کرتوتوں پر شرمندہ ونادم ہوتا نظر آیا، جن ہاتھوں سے اس نے زندہ دگور کیا تھا وہی ہاتھ اب اس کے محافظ و نگہبان بن گئے، وہ اسے متاع جان کی طرح اور دنیا کی سب سے قیمتی ساز وسامان کی طرح چھپا چھپا کر اور حجاب میں رکھنے لگا کہ مبادا دنیا کی ظالم نظریں اس پر نہ آجائیں اور پھر بجلی بن کر اس کے نازک وجود کو خاکستر نہ کر دیں؎
تجھ سے ہے سازینہ ہستی میں پیدا زیر وبم
تجھ سے فصل گل نے سیکھے رنگ ونکہت کے اصول
اک تبسم ہے ترا روح نشاط آب وگل
تو ہو افسردہ تو فطرت بھی نظر آئے ملول
صنف نازک اپنے اوپر ہونے والی اس قدر شفقت ومروت کو حیرت واستعجاب کے عالم میں دیکھتی ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ جو معاشرہ کل تک اس کے خون کا پیاسا تھا اور اسے زندہ درگور کرنے کے درپے تھا آج اس کی محافظت کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہے، آج اس کی پرورش پر جنت کا پروانہ مل رہا ہے، وہ دیکھتی ہے کہ آج اسے مرد کے پیروں تلے نہیں اس کے برابر میں جگہ مل رہی ہے، وہ دیکھتی ہے کہ اس کی عزت وعصمت سے کھلواڑ کرنے والوں کو سر عام کوڑے لگا کر ذلیل جا رہا ہے، ان پر پتھروں کی بارش برسائی جارہی ہے، وہ دیکھتی ہے کہ اس کے ناموس پر انگلی اٹھانے والوں کو مجمع عام میں سزائیں دی جارہی ہیں۔
جب یہ سارے مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتے ہیں اور خود کو ایک نئی اور محفوظ دنیا میں پاتی ہے تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا ہے۔ اسے ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے، ایسا خواب جس کی تعبیر ناممکن ہے، لیکن جب وہ تصوراتی دنیا سے باہر آتی ہے اور بچشم خود مشاہدہ کرتی ہے تو اسے اپنے سامنے کائنات کا سب سے بڑا محسن نظر آتا ہے۔ وہ محسن جو سات سماوات اوپر کے پیغامات اس کے پاس پہنچاتا ہے، جسے بارگاہ الہی سے ایک مقدس مشن کے لیے بھیجا گیا ہے، جو ایسی ذات کی طرف سے مبعوث ہے جو سب سے زیادہ مہربان اور سب سے زیادہ رحمدل ہے۔ چنانچہ روئے زمین کے اس سب سے بڑے محسن کی تعلیمات کے سایہ عاطفت میں آکر سکھ کا سانس لیتی ہے اور اپنے سارے غموں کو یکلخت بھول جاتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کائنات میں اس محترم ہستی کے ساتھ جو گھناؤنا کھیل کھیلا گیا اور جس طرح سے اس کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا وہ نہ صرف اس کے لیے ناقابل برداشت تھا بلکہ انسانیت کے لیے بھی انتہائی شرم وعار کا باعث تھا، لیکن اسلام کی آمد کے بعد اس ذات کو جو عزت اور مقام ومرتبہ ملا اور اسے جو حقوق دیے گئے رہتی دنیا تک اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ صنف نازک کو اس کی قدروقیمت کو سمجھنا چاہیے اور اغیار کے پر فریب نعروں اور طرح طرح کے پروپیگنڈوں کے دام فریب میں نہیں آنا چاہیے۔ اس کے لیے حقیقی عزت وہی ہے جو اسے اسلام نے عطا کی ہے۔ یہی اس کی سربلندی کے لیے کافی ہے۔ حضرت عمر نے کیا خوب فرمایا تھا ”ہم وہ قوم ہیں کہ اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعہ عزت بخشی ہے۔ اگر ہم نے اسلام کے علاوہ سے سربلندی کی جستجو کی تو پھر ہمیں عزت ہرگز نہیں مل سکتی۔“؎
اس قدر ارزاں نہ کر خود کو تو ہے ایسی متاع
سہل ہے جس کی طلب دشوار ہے جس کا حصول
آپ کے تبصرے