کاروان سلف حصہ اول

ابوالمیزان پس نوشت

مولانا عبدالرؤف خاں ندوی صاحب ۲۷؍اپریل۲۰۲۱ کو ۷۲ سال کے ہوجائیں گے ان شاء اللہ۔ ان کی درجن بھر سے زائد کتابوں کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ما شاء اللہ۔ ممتاز علماء اور اہم شخصیات کی حیات وخدمات پر مشتمل ’کاروان سلف‘ کا جو سلسلہ مولانا موصوف نے ۲۰۱۳ میں شروع کیا تھا اس کے ۶حصے منظر عام پر آچکے ہیں، ساتواں حصہ زیر طبع ہے۔ اللہ رب العالمین مولانا کی تمام علمی خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین
’کاروان سلف ‘پہلے حصے کی پیشانی پر سورہ یوسف کی آیت نمبر۱۱۱سے ’لقد کان فی قصصھم عبرۃ لاولی الالباب‘ترجمے کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ عبرت آموز قصوں کی اس سیریز ’کاروان سلف‘ سے مولانا زیادہ معروف ہیں۔ مولانا موصوف نے تلسی پور(ضلع بلرامپوریوپی) میں جو ’مجلس التحقیق الاسلامی‘ قائم کی تھی اس کے سلسلہ اشاعت میں اس حصے کا نمبر ۳۱ ہے۔ ۴۱۶ صفحات پر مشتمل یہ کتاب گیارہ سو کی تعداد میں ۲۰۱۳ میں شائع ہوئی تھی۔ علماء واعیان جماعت اہل حدیث کے حالات کو محفوظ کرنے کے جذبے سے مولانا موصوف نے یہ جو کام شروع کیا تھا اس کی بنیاد پہلے ہی پڑ چکی تھی۔ مولانا خود وقتا فوقتا اپنے اساتذہ اور مشاہیر علماء کی وفیات لکھتے رہے تھے جو مختلف جرائد ومجلات میں شائع ہوئے تھے۔ انھی تمام مضامین کو اکٹھا کردیا اور جو کمی محسوس ہوئی اسے پورا کرنے کے لیے مولانا محمد اسحاق بھٹی کی دو کتابوں ’دبستان حدیث‘ اور ’گلستان حدیث‘ سے نقل کرلیا ہے۔عرض مرتب(ص۷) اور حرف آغاز (ص۱۲)کے بعد ص۱۵ پر پہلا مضمون ’ضلع گونڈہ، بلرام پور، بستی اور سدھارتھ نگر کی تاریخ اہل حدیث کے چند اوراق‘تسلسل میں تو ص۲۴ تک ہے مگر دوسرے ہی صفحے پر اخیر میں مولانا ندوی کا نام مقام اور تاریخ کے ساتھ لکھا ہوا۔ ان دو صفحات(ص۱۵-۱۶) میں مولانا عبدالغفور ملا فاضل بسکوہری کا مختصر تذکرہ ہے، اس کے بعد مولانا بسکوہری کے حوالے سے ایک اہل حدیث کانفرنس(۲۰-۲۱-۲۲ فروری ۱۹۲۸) کا ذکر کیا گیا ہے اور اگلے صفحے سے ۱۰ علماء وشخصیات کاچند سطری تعارف شامل ہے۔ ص۲۴ پر آخری دو پیراگراف سے پہلے ’ہفت روزہ اہل حدیث امرتسر مارچ۱۹۲۸ء‘ کا حوالہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورے ۸صفحات (ص۱۷تا۲۴)اسی ہفت روزے سے ماخوذ ہیں۔
پھر بالترتیب یہ سارے مضامین یا تو بھٹی صاحب کی کتاب گلستان حدیث سے ماخوذ ہیں یا دبستان حدیث سے جیسے حافظ عبد اللہ غازی پوری(ص۲۵تا۳۴)، مولانا محمد عبدالرحمن محدث مبارکپوری(ص۳۵تا۷۱)، مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی(ص۷۲تا۷۷)، مولانا عبدالسلام مبارکپوری(ص۷۸تا۸۳)، مولانا احمد اللہ محدث پرتاپ گڑھی (ص۸۴تا۸۸)
کچھ مضامین ایسے ہیں جن کی ابتدا میں مولانا ندوی نے نوٹ لگایا ہے اور پھر پورا کا پورا کہیں سے نقل کردیا ہے۔ زیادہ تر بھٹی صاحب کے یہاں سے نقل کیا ہے اور کہیں کہیں مولانا عبد الحمید رحمانی صاحب کے حوالے سے بھی۔ جیسے شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ مبارکپوری پر ان کی تحریر ۴صفحات (۹۶تا۹۹)پر مشتمل ہے۔ نیچے مولانا کانام مع مقام وتاریخ اور پھر وہ کہاں کب شائع ہوا تھا اس کا حوالہ ہے۔ پھر فورا ہی بنا کسی نئی سرخی کے لکھتے ہیں: ’’آئیے شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ مبارک پوری کے مفصل حالات مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ کےقلم سے ملاحظہ فرمائیں‘‘۔ یہ ’مفصل حالات‘ ص۱۰۰ سے ۱۱۳ تک ہیں یعنی ۱۴صفحات۔ بعینہ ۴صفحات پر مشتمل مولانا عبدالقیوم رحمانی پر بھی ان کی تحریر ہے مگر ص۱۷۲ سے ۱۸۰ یعنی ۹ صفحات پر مشتمل جو ضمیمہ ہے اس کی ابتدا یوں ہے: ’’مفسر قرآن کے سلسلہ میں مزید مفصل حالات درج ذیل سطور میں ملاحظہ فرمائیں۔‘‘یہ سطور جہاں ختم ہوتے ہیں وہاں ’عبدالمنان سلفی، ماخوذ جریدہ ترجمان دہلی‘ لکھا ہوا ہے۔
مولانا محمد زماں رحمانی پر ان کے پوتے مولانا عبدالمنان سلفی رحمہ اللہ ہی کا ۲۰۱۳ میں لکھا ہوا مفصل مضمون ص۱۳۲ سے ۱۶۷ تک ہے۔ یعنی کل ۳۶ صفحات ۔ اسی طرح ڈاکٹر اقبال احمد بسکوہری، مولانا ظہیر احمد صدیقی ندوی، مولانا سمیع اللہ ریاضی علیگ، عزیر احمد اسرائیل سنابلی، ڈاکٹر نور اللہ اثری گلرہا اور مولانا ابوالعاص وحیدی کےمضامین بھی شامل کتاب ہیں۔
مولانا رئیس ندوی صاحب کی خودنوشت بھی مولانا موصوف کے مضمون کے بعد شامل ہے۔ (ص۲۵۵ تا۲۶۰)کہیں کہیں کچھ مضامین میں حوالے کے طور پر رسالوں کا نام ہے، لکھنے والے کا نہیں ہے۔
۲۰۱۱ میں مولانا کے گاؤں ہرہٹہ میں ایک اجلاس عام ہوا تھا اس کا خطبہ استقبالیہ بھی مولانا نے اخیر میں شامل کیا ہے۔ (ص۳۹۴تا۴۰۲) پھر اپنے حالات(خودنوشت) لکھے ہیں ۔(ص۴۰۳تا۴۱۲) ص۴۱۳ پر ’کاروان سلف‘ کے حصہ دوم کی فہرست بھی ۳ صفحات پر موجود ہے۔ اور سب سے آخری صفحہ ۴۱۶ پر ’مصنف کی دیگر مقبول کتابیں‘ بھی درج ہیں۔
اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ مولانا موصوف ’کاروان سلف:حصہ اول‘ کے مؤلف ہیں (جیسا کہ سرورق پر درج ہے) مرتب ہیں (عرض مرتب سے پتہ چلتا ہے) اور مصنف بھی ہیں۔(ص۴۱۶)
صاحب کتاب کے کریڈٹ میں الگ الگ جگہوں پر کہیں مؤلف، کہیں مرتب اور مصنف درج ہے اور یہ درست بھی ہے۔ مولانا موصوف نے اپنی اسی ایک ہی کتاب میں یہ تینوں کام کیے ہیں، اپنے مضامین(تصنیف) کے ساتھ دوسروں کے مکمل مضامین(ترتیب) بھی شامل کیے ہیں اور کسی کسی مضمون میں مختلف حوالوں سے معلومات جمع کیا ہے۔(تالیف)
مولانا نے ایک بہتر کام یہ کیا ہے کہ اپنے پرانے مضامین کو جوں کا توں رکھا ہے، اگر کہیں اضافے کی ضرورت محسوس کی ہے تو مضمون کو اپڈیٹ نہیں کیا بلکہ حاشیہ لگا دیا ہے۔
یہ کتاب حوالے کے طور پر مفیدہے۔ حالات جاننے کے لیے بھی اس کتاب سے مدد لی جاسکتی ہے۔ خود مولانا موصوف کا بھی یہی کہنا ہے کہ انھوں نے معلومات جمع کردی ہیں۔
البتہ اس کتاب کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ حوالے اور حالات کے لیے بھی مستفیدین کو بڑی دقت پیش آئے گی۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ تعاون فہرست سے ملتا ہے اور اس کتاب کی فہرست سے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون سا مضمون کس کا لکھا ہوا ہے، یہ جاننے کے لیے ہر مضمون کے آخری صفحے پر جانا پڑے گا۔ اقتباسات کے ساتھ بھی اسی طرح کی پریشانی ہے۔ حوالے تو درج ہیں مگر معلوم ہی نہیں پڑتا کہ کون سا اقتباس کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ کئی کئی صفحات مسلسل بطور اقتباس نقل کردیے گئے ہیں۔
مولانا موصوف نے اپنے مضامین کے ساتھ نام لکھنے کا جو اہتمام کیا ہے وہی باقی لکھنے والوں کے ساتھ بھی کیا ہے۔ سب کے نام مضمون کے آخر میں ہی درج ہیں، البتہ کہیں کہیں مولانا نے لکھنے والے کے نام کی صراحت اپنے نوٹ میں کردی ہے۔ مگر فہرست میں اس کی عدم صراحت سے حوالے کے لیے اس کتاب کی طرف رجوع کرنے والوں کو بڑی پریشانی ہوگی، اس طور استفادہ آسان نہ ہوگا۔
ویسے بھی تاریخ بڑا خشک موضوع ہے، سوانحی حالات اگر ادبی پیرایے میں نہ لکھے گئے ہوں تو قاری مختلف نسبتوں کی بنیاد پر ہی مطالعہ کرتا یا نظر دوڑاتا ہے۔
ممکن ہے ۲۰۱۳ میں یہ کتاب غنیمت رہی ہو، مگر سرچ انجن زمانے والی نسل کے لیے فہرست میں ضروری معلومات کا نہ ہونا اس کتاب کی از سر نو تدوین وترتیب کا متقاضی ہے۔ مولانا نے عرض مرتب میں لکھا ہے کہ :’’شخصیتوں کے تقدیم تاخیر میں ان کے زمانہ وفات کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے بلکہ شخصیتوں کے علم وفضل اور ان کے مرتبہ ومقام کے درجات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ ‘‘یہ ترتیب تب کارگر ہوتی جب یہ کتاب صرف تصنیف یا تالیف ہوتی، یا صرف ترتیب ہی ہوتی۔ اس میں تینوں باتیں ہیں اور اس طرح گتھم گتھا ہیں کہ پوری کتاب میں کہیں کوئی ترتیب دکھائی نہیں دیتی۔ یہ بے ترتیبی استفادے میں بڑی مانع ہے اور اسے دور کرنے کے دو ہی راستے ہیں۔ یا تو اس طرح کی کتابیں صرف تصنیف ہوں یا صرف تالیف ہوں یا صرف ترتیب۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کتاب کو تین حصوں میں بانٹ دیا جائے، تصنیف پہلے رکھ دی جائے، پھر تالیف ہو اور سب سے آخر میں ترتیب کا حصہ ہو۔
اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ہر مضمون کے نیچے کم از کم مولانا موصوف کو اپنا نام مع مقام وتاریخ وغیرہ نہیں لکھنا پڑے گا۔ ظاہر سی بات ہے یہ کتاب ہے، مضمون تو ہے نہیں کہ ہر جگہ نام لکھا جائے۔ تصنیف اور تالیف دونوں حصوں میں صرف ایک ہی جگہ نام لکھنے سے کام چل جائے گا۔ رہا ترتیب والا حصہ تو فہرست میں مضمون کے آگے مضمون نگار کا نام لکھ دیا جائے۔ نوٹ تو صاحب کتاب ترتیب والے حصے میں بھی لگا سکتا ہے۔
قصوں میں عبرت ہونے والی آیت جو اس کتاب کا سرنامہ ہے، اس کا لحاظ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ شخصیتوں کے عبرت آموز واقعات نقل کیے جائیں۔ راوی خود مصنف یا مؤلف ہو یا پھر کوئی دوسرا اس کے حوالے سے نقل کیے جائیں۔ ورنہ تاریخ ولادت، تعلیم، اساتذہ، تلامذہ، تصنیفات وتالیفات، اولاد واحفاد نیز تاریخ وفات میں کیا عبرت؟
یہ سب تو حوالے کی چیزیں ہیں اور کسی بات کی تصدیق وتکذیب کے لیے یا کسی موقع پر ان کے بارے میں کچھ کہنے لکھنے یا کام کرنے کے لیے ان معلومات کی ضرورت پڑتی ہے۔ حوالے کی چیزیں جتنی منضبط اور مرتب ہوں گی اتنی کام آئیں گی۔
جمع کرنا بھی معمولی کام نہیں ہے، جتنی جاں فشانی کے ساتھ مولانا موصوف گزشتہ تقریبا ایک دہے سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں اس کی بھی توفیق کسی کسی کو ملتی ہے۔ مولانا نے جیسا مناسب خیال کیا جمع کردیا۔اللہ رب العالمین انھیں جزائے خیر عطا فرمائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کتاب کو ازسر نو ترتیب دیا جائے۔ دبستان حدیث اور گلستان حدیث کو تو چھوڑ ہی دیا جائے، اب بھٹی صاحب کی ساری کتابیں بڑی آسانی سے دستیاب ہیں۔ ہاں جو اکا دکا دیگر مضامین ہیں کتاب میں ان کی شمولیت کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ مگر اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ ایک حصہ میں صرف خودنوشت حالات ہوں، دوسرے حصہ میں مختلف علماء کے مضامین ہوں اورباقی میں مولانا موصوف کے مضامین۔ ترتیب میں جتنی بہتری ہوگی استفادہ اتنا ہی آسان ہوگا۔ زیادہ بہتر یہی ہوگا کہ حوالے اور عبرت کو مکس نہ کیا جائے۔ حوالے کی باتیں لغت جیسی ہوتی ہیں اور عبرت آموزی قصے کہانیوں جیسی۔ لغت کا ایک پیٹرن ہوتا ہے حوالہ جات کا بھی ہونا چاہیے۔ عبرت آموزی کے لیے تو نفس واقعہ کے بعد بیانیہ اہم ہوتا ہے۔ جتنا موثر اور پرکشش بیانیہ ہوگا قصہ اتنا ہی پڑھا جائے گا۔
یہ کتاب اسٹاک میں نہیں ہے، پی ڈی ایف کاپی جو مولانا کے بلاگ اور کتاب وسنت پر موجود ہے وہ بے ترتیب ہے۔ صفحات آگے پیچھے ہوگئے ہیں۔ ذاتی اور عوامی لائبریریوں میں اس کے نسخے ملنے کے امکانات ہیں۔ سرورق بھی ٹھیک ٹھاک ہے، پس ورق پر مصنف کی نو کتابوں کے سرورق ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000