حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ: حیات و خدمات

عنایت اللہ سنابلی مدنی تعارف و تبصرہ

عرض ناشر
اس کار گاہ ہستی کا حقیقی نور علم کتاب وسنت اور اس کے پاسبان علماء ربانیین و راسخین سے عبارت ہے، نورِ علم کی لو جتنی تیز ہوتی ہے دنیا کی روشنی وضوفشانی اتنی ہی تابناک ہوتی ہے۔ حق پرست علماء عاملین کے بغیر یہ دنیا تاریک اور کال کوٹھری کی مانند ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء ربانیین کا اٹھ جانا اور جہلاء وعلماء سوء کا آجانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ علماء حق دنیا والوں کے لیے روشنی کا مینار ہیں جن کی مثال ستاروں جیسی ہے جن سے انسانیت بحر و بر کی تاریکیوں میں روشنی، راہِ ہدایت اور نشان منزل پاتی ہے، دنیا سے علماء کے اٹھ جانے سے حق پرستوں کے حوصلے سرد پڑتے ہیں جبکہ باطل پرستوں کے لیے باطل کی ترویج اور نشر و اشاعت کے راستے آسان ہوجاتے ہیں، قرب قیامت علم اٹھ جانے اور جہالت پھیل جانے سے مراد درحقیقت دنیا سے علماء کا اٹھ جانا ہے، جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے:
إِنَّ ذَهَابَ الْعِلْمِ أَنْ يَذْهَبَ حَمَلَتُهُ، إِنَّ ذَهَابَ الْعِلْمِ أَنْ يَذْهَبَ حَمَلَتُهُ
[سنن دارمی، حدیث:۲۴۶/مسند احمد ، حدیث:۲۳۹۹۰] بے شک علم کا اٹھنا اُس کے حاملین ( علماء) کا اٹھ جانا ہے، علم کا اٹھنا اُس کے حاملین کا اٹھ جانا ہے۔
اور علماء حق کی موت روئے زمین کی تباہی اور اس میں فتنہ و فساد برپا ہونے کا سبب ہے، فرمان باری:
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا
[الرعد:۴۱] کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں:
خَرَابُهَا بِمَوْتِ فُقَهَائِهَا وَعُلَمَائِهَا وَأَهْلِ الْخَيْرِ مِنْهَا
[تفسیر ابن کثیر: ۴/۴۷۲] کہ روئے زمین کی تباہی اُس کے فقہاء، علماء اور اہل خیر کی موت کے سبب ہوگا۔
یہی نہیں بلکہ علماء ربانیین و راسخین کی موت دین اسلام میں دراڑ اور خلا پیدا کرنے کا سبب ہے۔ حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا:
مَوْتُ الْعَالِمِ ثُلْمَةٌ فِي الْإِسْلَامِ؛ لَا يَسُدُّهَا شَيْءٌ مَا طُرِدَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ
[جامع بیان العلم وفضلہ، از حافظ ابن عبد البر:۱/۵۹۵، نمبر ۱۰۲۱] عالم دین کی موت اسلام میں ایک ایسا خلا ہے جسے رہتی دنیا تک کوئی چیز پُر نہیں کر سکتی۔
اسی بات کی شعری ترجمانی کرتے ہوئے عبد العزیز بن احمد بن سعید دمیری دیرینی (۶۹۴ھ) فرماتے ہیں:
إِذا مَا مَاتَ ذُو علم وتقوى…فقد ثلمت من الْإِسْلَام ثلمه
[طبقات الشافعيۃ الکبری، از امام سبکی:۸/۹۸-۱۰۰]
یہی وجہ ہے کہ سلف امت ہر دور میں علماء کرام کی موت کو دین میں خلا اور نقص قرار دیتے تھے۔ چنانچہ جب خارجہ بن زید بن ثابت رحمہ اللہ (۹۹ھ) کی وفات ہوئی، جو مدینہ کے سات معروف کبار علماء و فقہاء میں سے ہیں اور امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو اس کی خبر دی گئی تو انھوں نے إناللہ وإنا إلیہ راجعون پڑھا اور اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارتے ہوئے فرمایا:
ثُلْمَةٌ -وَاللهِ- فِي الإِسْلاَمِ (اللہ کی قسم! یہ تو اسلام میں بہت بڑا خلا ہے۔ [سیراعلام النبلاء، از امام ذہبی:۴/۴۴۰- تاریخ الاسلام:۲/۱۰۸۸ -تهذیب الكمال، از ابو الحجاج مزی:۸/۱۲]
اور جب معروف تابعی امام عامر بن شراحیل شعبی رحمہ اللہ (۱۰۴ھ) کی وفات ہوئی تو حسن بصری رحمہ اللہ (۱۱۰ھ) نے فرمایا:
إن موته في الإسلام ثلمة
(یقیناً ان کی موت اسلام کا بہت بڑا خلا ہے) [إکمال تهذیب الکمال:۷/۱۳۵]
اسی طرح جلیل القدر عالم قاضی بغداد سعيد بن عبد الرحمن بن عبد الله القرشی المدنی (۱۷۶ھ) کی وفات ہوئی تو بعض شعراء نے ان کے بارے میں کہا؎
ثُلْمَةٌ فِي الإِسْلامِ مَوْتُ سَعِيدِ
شَمِلَتْ كُلَّ مُخْلِصِ التَّوْحِيدِ

سعید بن عبد الرحمن کی موت اسلام کا ایسا خلا ہے جو ہر خالص توحید والے کو شامل ہے۔ [تاریخ الاسلام، از امام ذہبی:۴/۶۲۶-التحفۃ اللطيفۃ في تاريخ المدينۃ الشريفۃ: ۱/۴۰۱]
اسی طرح جب قاضی حرمین شریفین امام عبد الرحمن بن علی بن الحسين رحمہ اللہ (۵۵۴ھ) کی وفات ہوئی تو کسی سیرت نگار نے ان کے بارے میں لکھا؎
خلفت في الإسلام بعدك ثلمة
تبقى على مر الزمان الفاني

آپ نے اپنی وفات کے بعد اسلام میں ایسا خلا پیدا کردیا ہے جو رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ (العقد الثمين في تاريخ البلد الأمين:۵/۴۷)
اسی طرح ریاض سعودی عرب کے جلیل القدر امام، عالم، مفتی، قاضی اور شاہ فیصل وشاہ خالد کے عہد میں متعدد علمی مناصب پر فائز رہنے والے شیخ عبد الله محمد بن حمید رحمہ اللہ (۱۴۰۲ھ) کی جب وفات ہوئی تو دیگر بہت سارے علماء کے علاوہ احمد الغنام نے اپنے قصیدہ میں ان کے بارے میں کہا؎
لقد ثلمت في الدين يا صاح ثلمة
بموت حميد السعي وانقصم الظهر

اے دوست! تو نے قابل تعریف کوشش کرنے والے کی موت کے ذریعہ دین میں بڑا خلا پیدا کردیا ہے اور کمر ٹوٹ گئی ہے۔ (تتمة الأعلام للزركلي، از محمد خیر رمضان یوسف: ۲/۱۸-۱۹)
الغرض اہل علم کی موت کے سبب اسلام میں پیدا ہونے والا دراڑ اور خلا مسلم ہےجو اہل علم و فقہ اور امت کے مخلصین کے لیے فکرمندی کا باعث ہے، لیکن اس کے باوجود ’’وکان أمر اللہ قدراً مقدوراً‘‘،’’واللہ غالب علی أمرہ‘‘ اور ’’وما ذلك علی اللہ بعزیز‘‘ وغیرہ بشارتوں میں امت کے لیے بھر پور تسلی کا سامان ہے۔
مخفی نہیں کہ سال رواں ۲۰۲۰ء میں منتشر عالمی وبا اور اس سے متعلق مرض کووڈ کے نتیجے میں پوری دنیا میں ہونے والی اموات اگر لاکھوں میں ہیں تو عالم اسلام میں وفات پانے والے علماء و فضلاء کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے اور ان میں ایک خاصی تعداد علماء ربانیین و راسخین کی ہے جنھوں نے اپنی عمریں خالص توحید و سنت کی اشاعت، دفاع حق اور رد باطل کے لیے وقف کردیں، انھی میں علم و عمل، زہد وورع، تقویٰ و طہارت اور صلاحیت و صالحیت کی پیکر ایک معروف شخصیت علامہ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کی ہے جن کی پوری زندگی ہمہ جہت علمی کارناموں سے مزین ہے، آپ نے تفسیر، حدیث، فقہ، زبان و ادب اور دفاع حق ورد باطل میں قابل ستائش خدمات پیش کی ہیں۔ یوں تو آپ کی شخصیت کا تعارف ’’تفسیر احسن البیان‘‘ اور ’’خلافت وملوکیت، تاریخی و شرعی حیثیت‘‘ سے زیادہ ہے، لیکن آپ نے رد باطل میں ناموس صحابہ کی حفاظت کرتے ہوئے مودودیت اور رفض و تشیع کو بے نقاب کیا ہے نیز انکار حدیث کے فتنے کی بیخ کنی کے لیے فتنۂ غامدیت کی سرکوبی کی ہے۔ اسی طرح امین احسن اصلاحی کی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ کا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ارکان اسلام، نکاح، طلاق، عیدین، قربانی وغیرہ فقہی مسائل نیز دعوت و تربیت کے موضوعات پر عوام وخواص کی رہنمائی فرمائی ہے جن سے ہم علماءو طلباء اور عوام الناس مستفید ہوتے رہے ہیں۔ فجزاہ اللہ خیراً و جعلھا فی میزان حسناتہ
حرمین شریفین میں حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ سے راقم کی دو یادگار ملاقاتیں
یہ میری سعادت اور خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سنہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۰۱۶ء میں ایک بار پھر حج بیت اللہ کی توفیق بخشی، دوسری خوش نصیبی یہ کہ اس سال حافظ صاحب بھی حج کے لیے تشریف لائے تھے، بہرکیف یہ حج سے چند روز پہلے کی کوئی تاریخ تھی کہ میں اور میرے رفیق سفر برادر مکرم ابو الحسن صاحب مسجد حرام میں صلاۃ مغرب سے فارغ ہوکر کسی ضرورت سے جونہی باہر نکلے شرکہ مکہ ٹاور کے سامنے صحن میں حافظ صاحب ایک نوجوان کے ساتھ وھیل چیئر پر تشریف لاتے ہوئے نظر آئے، برادر محترم شیخ محمد ہارون محمدی صاحب بھی ساتھ میں تھے، ایک روز پہلے آپ کی ان سے ملاقات ہوچکی تھی، انھوں نے فوراً ہمیں بتلایا کہ یہ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب تشریف لا رہے ہیں! انھیں دیکھتے ہی پورے وجود میں مسرت سرایت کرگئی، تیزی سے بڑھ کر آپ سے ملاقات کی، سلام و مصافحہ اور مزاج پرسی کے بعد میں نے آپ کی مسلسل شائع ہونے والی علمی کاوشوں کا تذکرہ کیا اور پوری دنیائے سلفیت میں ان کے انتظار و تجسس اور بالخصوص علمی حلقوں میں ان کی مقبولیت کے بارے میں بتلایا، آپ نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور اللہ کی حمد و ثنا کی۔ پھر میں نے حافظ صاحب سے ان دنوں وطن عزیز ہندوستان کی ریاست مہاراشٹر میں گائے اور اس کی نسل کے ذبیحے پر حکومت کی پابندی کے بعد بھینس کی قربانی کے جواز و عدم سے متعلق اٹھنے والے سوالات اور علماء اہل حدیث کے درمیان ہونے والی چہ می گوئیوں اور اس کی قربانی کے جواز سے عدم اطمینان اور اس بارے میں صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی سے شائع کردہ کتاب کا تذکرہ کیا، تو آپ مسکرائے اور کہنے لگے: جو صورت حال آپ بتا رہے ہیں بالکل یہی معاملہ ہمارے ساتھ بھی پیش آیا تھا، جب ہم نے اپنی کتاب ’’فضائل عشرۂ ذو الحجہ اور احکام ومسائل عید الاضحی‘‘ میں بھینس کی قربانی کے جواز کی بات لکھی تو ملک کے گوشہ گوشہ سے علماء کرام اور مرد و خواتین کے ٹیلیفون آنے لگے اور لوگوں نے کہا: حافظ صاحب یہ آپ نے کیا فتویٰ دے دیا؟ پھر آپ نے بتلایا کہ اگر علماء کرام خالی الذہن ہوکر ایک علمی مسئلے کی حیثیت سے اس کا جائزہ لیں تو انھیں بھینس کی قربانی کے جواز میں کوئی تامل نہ ہوگا!
حافظ صاحب سے یہ ملاقات صحن حرم میں کھڑے کھڑے بڑی مختصر رہی، پھر سلام و تحیہ کے بعد ہم ایک دوسرے سے رخصت ہوگئے۔
حج بیت اللہ سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ طیبہ میں حافظ صاحب رحمہ اللہ سے دوسری تفصیلی ملاقات ہوئی، یہ ملاقات برادر گرامی ڈاکٹر ارقم رئیس مدنی کے ساتھ ان کے خالہ زاد بھائی برادر گرامی فاروق صاحب سلمہ کے دولت کدہ پر ہوئی، لاہور میں حافظ صاحب اور فاروق سلمہ کے مکانات قریب قریب ہیں، فاروق صاحب سلمہ نے حافظ صاحب اور ہم سب کو پر تکلف ظہرانے پر مدعو کیا، صلاۃ ظہر کے بعد مجلس میں طعام کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رہا، اس مجلس میں ہندو پاک میں سلفی دعوت کی ضرورت، امکانات اور مشکلات پر تبادلہ خیال ہوا، حافظ صاحب رحمہ اللہ کی تفسیر احسن البیان کے سلسلے میں مخالفین کی جانب سے شاہ فہد کمپلیکس اور وزارت اسلامی امور سعودی عرب کو موصول ہونے والے اعتراضات کے مالہ و ماعلیہ پر گفتگو ہوئی، اسی طرح حافظ صاحب کے موجودہ جاری علمی کاموں کی بابت استفسار کرنے پر انھوں نے بتلایا کہ مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ پر کام جاری ہے، تقریباً چار سو صفحات لکھے جا چکے ہیں، بقیہ کام جلد ہی مکمل ہوجائے گا اور کتاب شائع کی جائے گی ان شاء اللہ(جو الحمدللہ اب مطبوع ومتداول ہے)، پھر میں نے’’بھینس کی قربانی – ایک علمی و تحقیقی جائزہ‘‘ سمیت صوبائی جمعیت کی چند دیگر مطبوعات حافظ صاحب کے حوالے کی، انھوں نے سرسری طور پر دیکھا اور خوشی کا اظہار کیا، امیر محترم اور ذمہ داران جمعیت کو دعائیں دیں اور یہ سلسلہ برابر جاری رکھنے کی تلقین فرمائی۔ میں نے حافظ صاحب سے ’’بھینس کی قربانی‘‘ کو بالاستیعاب پڑھ کر اُس پر اپنے تاثرات قلمبند کرنے درخواست کی، آپ نے بخوشی قبول فرمائی اور حج سے واپسی پر پاکستان سے لکھ بھیجنے کا وعدہ فرمایا، جو الحمدللہ حج کے بعد برادرم ڈاکٹر ارقم اور فاروق سلمہما کے توسط سے مجھے بذریعہ ای میل موصول ہوا، فجزاھم اللہ خیراً۔ پھر اذان ہوئی اور محلہ کی مقامی مسجد میں صلاۃ عصر ادا کی گئی، بعدہ سلام و دعا کے بعد حافظ صاحب طبیعت ناساز ہونے کے سبب اپنے مرافق کے ساتھ اپنی رہائش گاہ کے لیے روانہ ہوگئے اور کچھ دیرکے بعد ہم بھی اپنے ہوٹل واپس آگئے۔ اللہ تعالیٰ حافظ صاحب رحمہ اللہ کی خدمات قبول فرمائے اور اپنی رحمت سے انھیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین
زیر نظر کتاب حافظ صاحب رحمہ اللہ کی سیرت و سوانح، خدمات اور کارناموں پر مشتمل کبار علماء، طلباء اور آپ کے محبین کے مقالات کا قیمتی مجموعہ ہے، یہ مقالات حافظ صاحب رحمہ اللہ کی سیرت وسوانح کے علاوہ آپ کی ہمہ جہت علمی، منہجی، تحقیقی اور دعوتی و اصلاحی خدمات پر مشتمل ہیں، یہ مجموعہ بحمداللہ نہایت جامع، شامل، خوبصورت اور دلنشیں ہے۔ اس مجموعہ میں مقالہ نگاران کی جد و جہد، محنت اور عرق ریزی کے علاوہ برادر عزیز ابو المیزان نصیر رحمانی سلمہ اللہ کی خصوصی دلچسپی، توجہ اور نگرانی شامل ہے، عناوین کے انتخاب، ترتیب، مقالہ نگاروں سے مسلسل رابطہ اور ساتھ ہی کمپوزنگ اور مسودہ کی تصحیح نیز طباعت کے تمام مراحل میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا، فجزاہ اللہ خیرا۔ مجھے امید ہے کہ یہ مجموعہ اپنے ظاہری و معنوی خوبیوں کی بنا پر حافظ صاحب رحمہ اللہ کی زندگی پر لکھی گئی دیگر تمام کتابوں اور مجموعوں پر فائق ہوگا، ان شاء اللہ۔
اس مجموعہ کی اشاعت پر میں سب سے پہلے اللہ ذو الکر م کا شکر گزار ہوں جس کی توفیق سے ہر کار خیر انجام پاتا ہے، بعدہ اپنے محترم و معزز علماء و فضلاء کا شکرگزار ہوں جنھوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مقالے تیار کیے اور طباعت کے لیے بھیجا۔ اسی طرح امیر محترم شیخ عبد السلام سلفی حفظہ اللہ کا شکر گزار اور ان کے لیے دعا گو ہوں جنھوں نے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے شعبۂ نشر واشاعت سے اس قیمتی مجموعہ کی اشاعت کا فیصلہ کیا، یہ ان کی علم دوستی اور اہل علم و فضل سے محبت اور ان کی خدمات کی قدر دانی کی ایک نمایاں مثال ہے جس کے لیے وہ ہمیشہ سے معروف ہیں، ’’وصدق من قال: إنہ لا یعرف لأھل الفضل فضلھم إلا ذووہ‘‘۔ اسی طرح برادر عزیز نصیر رحمانی سلمہ کا اس عظیم کوشش پر شکر گزار ہوں اور ان کے لیے مزید خیر وسعادت کے لیے دعا گو ہوں۔ اخیر میں دعا ہے کہ اللہ عزوجل تمام معاونین و مخلصین کی کوششیں قبول فرمائے اور انھیں اس کا نیک صلہ عطا فرمائے۔ آمین (۹؍نومبر ۲۰۲۰ء)

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالرحيم بنارسي

مرتب کی خدمت میں مبروک الف مبروک
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

Abdul Rehman Abdul Ahad

کتاب پر تبصرہ کے علاوہ سب کچھ ہے جیسے مصنف کا تعارف پچھلئ یادیں،اور تشکر ہی ہیں۔اس کے مشمولات کیا،ہیں ۔۔کون سے مضامین اچھے ہیں اور کون سے قابل اصلاح ہیں ۔اس پر کوئ بات نہں ہے ۔

وسیم صدیق

یہ کتاب پی ڈی ایف میں چاہیے کسی کے پاس ہے تو سینڈ کر دیں واٹس ایپ نمبر 03007574197

HUMRAN YOUSAF

ماشاءاللہ۔۔ اللہ کریم آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔۔