(ہمارے ایمان کو آزمائش سے دوچار نہ کریں)
دینی اجتماعات میں اکثر ایک چیز کا تجربہ ہوتا ہے، پروگرام کے دوران یا اختتام پر کسی نماز کا وقت ہوتا ہے تو کوئی خوش الحان مؤذن یا امام آگے بڑھ کر اذان دینے یا نماز پڑھانے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔
اچھی آواز اللہ تعالی کی دی ہوئی ایک عظیم نعمت ہے جس کا استعمال و اظہار ایک مستحسن عمل ہے۔ تحديث نعمت کے طور پر یا تعبد یعنی عبادت کی نیت سے اذان یا قرآن کی تلاوت میں اپنی آواز کے حسن کا استعمال و اظہار ایک عبادت ہے، صحیحین کی روایت ہے:
مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ حَسَنِ الصَّوْتِ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ ، يَجْهَرُ بِهِ(اللہ تعالی اچھی آواز والے نبی کی آواز کو -جو بلند آواز سے خوش الحانی کرتے ہوں- جیسے سنتا ہے ویسے کسی اور چیز کو نہیں سنتا)[بخاری:۶۹۸۹/مسلم:۱۳۱۹]
تاہم کسی بھی مؤذن، امام، یا خطیب کے حق میں یہ اقدام اس وقت تک ہی مستحسن ہے جب تک کہ اس کے اس اقدام میں ریا و نمود کا شائبہ نہ ہو۔
کسی بھی خطیب مؤذن یا امام کے لیے یہ ایک مشکل امتحان ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے کس قدر اپنے اخلاص کی حفاظت کرپاتا ہے۔
اس باب میں خود احتسابی کا پیمانہ یہ ہے کہ ہم یہ جائزہ لیں کہ اذان امامت یا خطابت کے دوران ہمارا دل کس طرف مائل ہے، آگے اللہ کی طرف یا پیچھے اپنے سامعین اور مقتدی حضرات کی طرف۔
یہ بات مؤذنين ائمہ اور خطباء سے مخفی نہیں ہے کہ یہ ایک مشکل عمل اور مسلسل جہاد ہے جو انھیں اذان امامت اور خطابت کے دوران خود اپنے نفس کے ساتھ جاری رکھنا پڑتا ہے، شیطان بڑا موقعہ شناس ہے وہ ایسے ہی وقت حملہ آور ہوتا ہے جب نفس پھولا ہوا ہو اورکمزور ہو، لغزش کا یہی وہ مقام ہے جس سے آگاہ کرتے ہوئے سفيان بن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
ما عالجت شيئا أشد علي من نيتي لأنها تتقلب علي(مجھے نیت سے زیادہ کسی اور چیز کو سنبھالنے میں مشکل پیش نہ آئی کیونکہ وہ بار بار پلٹ جاتی تھی، میرے ہاتھ سے نکل جاتی تھی ۔[جامع العلوم والحكم:۱/۷۰]
یوسف بن اسباط اسی حقیقت کو ان الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں:
تخليص النية من فسادها أشد على العاملين من طول الاجتهاد( عمل کرنے والوں کو لمبی عبادت کرنے سے زیادہ نیت کو خلل سے پاک رکھنے میں محنت کرنی پڑتی ہے)[جامع العلوم والحكم:۱/۷۰]
اس لیے بہتر یہی ہے کہ ایسے کسی بھی موقعہ پر جہاں اذان امامت یا خطابت آپ کی ذمہ داری نہ ہو خود کو آگے نہ بڑھائیں تا آنکہ لوگ خود مطالبہ کریں۔
الا اینکہ کسی کو اللہ کی مدد اور اپنے نفس کے مجاہدہ پر کچھ اس قدر یقین ہو کہ اس کی نیت نہیں ڈگمگائے گی، اس کا نفس نہیں پھولے گا تو پھر خیر میں سبقت مستحسن ہے۔
مگر آدمی ایسا نفس کہاں سے لائے ؟ جو عمل سے قبل بھی عمل کے دوران بھی اور عمل کے بعد بھی یکسو ہو اوراللہ کی خوشنودی اس کی جستجو ہو اور اس کا مطمح نظر اللہ کی رضا ہو ؟
رہی سہی کسر وہ سامعین اور مقتدی پوری کردیتے ہیں جو بعد میں تعریف کے پل باندھنے لگتے ہیں۔ والله المستعان
نفس کے ساتھ مجاہدہ کا یہ عمل بسا اوقات بعض ائمہ و مؤذنين وغیرہ کی کرم فرمائی سے سامعین اور مقتدی حضرات تک بھی پہنچ جاتا ہے، ان مؤذنين اور ائمہ کی خوش الحانی نے چاہے انھیں آزمائش سے دوچار کیا ہو کہ نہ کیا ہو بن بلائے مہمان کی طرح ان کو آگے بڑھتے دیکھ کر سامعین میں سے بعض کے دل میں یہ خیال کلبلانے لگتا ہے کہ دیکھو ! ریاکاری کی بھی حد ہے!
بعض ائمہ تو اس امتحان کو مقتدی حضرات کے لیے اور زیادہ مشکل بنادیتے ہیں جب ایسے ہی مخصوص اوقات اور مناسبتوں میں عذاب و حساب کی آیتوں کا انتخاب کرتے ہیں اور دوران نماز ہی خشوع و خضوع کے اثر سے ان کی آواز بھاری ہونے لگتی ہے۔
نماز میں خشیت کا طاری ہونا اور آواز کا بھرا جانا خود بھی تقوی کاایک عظیم مقام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی یہ کیفیت تھی کہ عبداللہ بن الشخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أتيت رسول الله ﷺ وهو يصلي، ولجوفه أزيز كأزيز المِرجل من البكاء(یعنی دوران نماز آپ کے سینے سے ہانڈی کے کھتکھتانے جیسی آواز سنائی دیتی)[ابوداود:۹۰۴] اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یہ صفت تھی کہ جب وہ قرآن پڑھتے تو اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتے روپڑتے۔
لہذا کسی مسجد کے امام پر یہ کیفیت از خود طاری ہوجاتی ہو تو بات الگ ہے۔ تاہم کسی شخص کا کسی پروگرام یا اجتماع کی مناسبت پر خاص طور پر آگے بڑھنا،امام کا خصوصی طور پر ایسی آیتوں کا انتخاب اور ان کی تلاوت کرنا اور تضرع و خشیت کا مظاہرہ کرنا شاید مناسب نہیں ہے۔
ایسے حضرات وہ حوصلہ کہاں سے لاتے ہوں گے کہ جس میں وہ اخلاص کا تحفظ کرپاتے ہوں ؟اور اگر واقعی وہ اس میں کامیاب بھی ہوں تو کم از کم ہم جیسے کمزور ایمان والے سامعین اور مقتدی حضرات پر رحم فرمائیں جو پہلے ہی اپنی نماز میں اپنے نفس کے ساتھ ایک جہاد سے گزر رہے ہوتے ہیں،انھیں مزید امتحان میں مبتلا نہ کریں کہ شیطان آپ کے اخلاص کے حوالے سے ان کا امتحان لینے پر اتر آئے۔
یقین کریں وہ بھی آپ کے ساتھ اس خشوع کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں ، آپ کی اس کیفیت کے حصہ دار بننا چاہتے ہیں تاہم شیطان انھی مذکورہ بالا اسباب کے حوالے سے آپ کے اخلاص کے تئیں ان کے دل میں وسوسہ ڈال رہا ہوتا ہے اس طرح بے چارے ایک نئے مجاہدہ سے دوچار ہوتے ہیں اور اکثر اپنی عبادت میں غفلت اور بے توجہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
لہذا عاجزانہ درخواست ہے کہ ایسی مناسبتوں کو بخش دیں بلکہ باجماعت نمازوں کو بھی بخش دیں،خشوع کے یہ تجربے اپنی انفرادی عبادت میں کریں ، البتہ آپ امام ہوں اور کسی نماز میں بے ساختہ یہ کیفیت آپ پر طاری ہوجاتی ہو تو پھر اللہ سب کا مالک ہے وہی سب کو اخلاص کی دولت سے بھی مالا مال فرمائے گا۔
قارئین!
یہ چند گزارشات ہیں،اذان امامت اور خطابت کی طرح ہر عمل میں ایسے چور دروازے بہت ہیں جہاں سے شیطان خوب حملہ آور ہوتا ہے اور اکثر کامیاب بھی۔ اسی لیے سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے تھے:
كل شيئ أظهرته من عملي لا أعده شيئا ً لعجز أمثالنا عن الإخلاص إذا رآه الناس(اپنے ہر اس عمل کو میں شمار ہی نہیں کرتا جس کو میں نے لوگوں کے سامنے ظاہر کردیا ہو کیونکہ لوگوں کی نظروں میں آجانے کے بعد ہم جیسے لوگوں کا اخلاص کو بچالےجانا ممکن نہیں ہے)
بس اللہ ہی سے امید ہے کہ ہمارے اعمال ناموں کے کٹے پھٹے اوراق محض اپنے فضل خاص سے قبول فرمالے۔
بہت اہم چیز کی طرف آپ نے توجہ دلائی، یہ فتنہ اس وقت عام ہے. جزاکم اللہ خیرا
اللہ تعالٰی ہمیں ہر نیکی میں اخلاص عطا فرمائے،،
اللهم إني أعوذ بك أن أشرك بك شيئاً وأنا أعلمه واستغفرك لما لا أعلم….
ماشاء الله، بارك الله فيك، صدقت
أحنستم يا شيخنا بارك الله فيكم
ماشاءاللہ، عمدہ تحریر اللہ آپ کو جزائے عطاء فرمائے آمین
نہایت ہی لطیف اور نازک مسئلہ کی طرف توجہ دلائی آپ نے، جس میں کوتاہی سے عوام تو عوام علماء کا خسارہ ہے،
عیدین کے موقع پر بھی یہ چیز دیکھنے کو ملتی ہے۔
رب رحیم سب کو خلوص عطا فرمائے، آمین
انتہائ ضروری چیز کی رحنمائ کی ہیں۔جزاکم اللہ خیرا
ما شاء الله!
بارك الله!
ماشاء اللہ شیخ محترم کواللہ جزائے خیر عطا فرمائے بہت اہم چیز کی طرف توجہ مبذول کرائی اللہ ہم سبکوعمل کی توفیق عنایت فرمائے آمین ثم آمین
دی فری لانسر سے جڑنا ہے
بارك الله و زادك الله في علمك و عملك….
اللہ ہر عمل میں اخلاص عطاء فرمائے۔ عمدہ تحریر۔۔۔۔
آمین یا رب العالمین