مولانا محمد عدیل سلفی حفظہ اللہ: بہترین استاد، بے مثال مربی

ابوالمیزان منظرنما

زندگی میں کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو نئی راہوں کے لیے سنگ میل ثابت ہوتے ہیں۔ پتھر راہ کے صرف روڑے نہیں بنتے مائل سٹون بھی بنتے ہیں۔ٹھہرے ہوئے پانی میں تحریک پیدا کرتے ہیں۔ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ٹھوکروں سی لگتی ہیں مگر دشائیں ٹھیک کردیتی ہیں۔ کچھ سلوک ایسے ہوتے ہیں جو جابرانہ سے لگتے ہیں مگر دل کی دویدھا دور کردیتے ہیں۔ ایسے سارے لمحے اکثر یاد آتے ہیں۔ وہ چہرے بھی یاد آتے ہیں جو ان لمحوں میں زندہ رہتے ہیں۔ من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ۔ یاد آنا کافی نہیں لگتا، دل کہتا ہے شکریہ ادا کیا جائے اس مہان ہستی کا جس نے بے غرض محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی بات کہی تھی یا ایسا کام کیا تھا جس کا اثر ہماری زندگی پر بہت گہرا پڑا۔
اساتذہ تو سارے ہی کچھ نہ کچھ سکھا جاتے ہیں۔ ماسٹر مشتاق احمد صاحب کا ہی جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔ ان کے علمی فیوض پر ہی ساری (جتنی بھی شدبد ہے) انگریزی دانی کی بنیاد ٹکی ہے۔ ایک ایک استاد سے کئی کئی اپلبدھیاں منسوب ہیں۔
مختلف مواقع پر اساتذہ سے جڑی ہوئی متعدد یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ وہ یادیں تو نجی تجربے ہیں مگر ان سے ایک بہترین استاد اور بے مثال مربی کی جو تصویر ابھرتی ہے اس پر رشک کرنا ہی کافی نہیں ہے، رول ماڈل کے طور پر اس کا بیان بھی ضروری ہے تاکہ انسپر یشن کا سلسلہ چلے۔ تعلیم و تربیت میں اس کا پریوگ ہو۔ استاد استاد بنے، لیکچر ہی نہ دے لچک بھی رکھے رویوں میں، ہمدردی برتے معاملات میں، اپنی خیرخواہی پر طلبہ کی ناپسندیدگی کو ترجیح نہ دے، شاگرد کی ناگواری کو گوارا کرے کہ استاد کا نقطہ نظر ہی مچیور ہوتا ہے۔
کتنا برا لگا تھا مجھے جب مولانا عدیل صاحب نے میرے سوٹ کیس میں وہ تہ خانہ برآمد کرلیا تھا۔ فلمی ہیرو ہیروئنوں کی تصویروں والے چھوٹے چھوٹے بے شمار اسٹیکر سجا رکھے تھے میں نے۔
کتنی مشکل سے ملتے تھے وہ دو روپے مولانا عبدالغنی سراجی صاحب سے۔ کپڑے استری کروانے کے لیے مانگو تو آیرن ہی دے دیتے تھے۔ سموسے کے نام پر کسی طرح مل جانے والے وہ دو دو روپے بے کار اسٹیکروں کی شکل دھارے میرے سوٹ کیس کے نچلے حصے میں سجے رہتے تھے۔ دیکھ کر آنکھوں میں چمک آجاتی تھی، جیسے الگ الگ رنگوں کی گوٹیاں ہوں۔ عمر ہی کتنی تھی، گیارہ سال۔ ماچس کی خالی ڈبیوں کو جمع کرنے کے دن بس ابھی ابھی گاؤں میں گزرے تھے۔ بڑی قیمت تھی ان ڈبیوں کی، بڑے بڑے سودے ہوجاتے تھے۔ آنکھوں کی چمک کے لیے ہم عمر ساتھی مٹھائی دے دیتے تھے تبادلے میں۔
مولانا عدیل صاحب نے سارے اسٹیکر اپنی تحویل میں لے لیے۔ میں ان کے کمرے میں مجرم کی طرح کھڑا تھا، شرمندگی ایسی تھی کہ ہر قسم کے ڈر پر بھاری تھی۔ آنکھوں میں پانی ہی پانی، منظر دھواں دھواں، حلق سوکھا ہوا، کانوں میں سناٹا بج رہا تھا۔ کیا کہا کچھ سنا نہیں مگر وہ بری عادت تبھی چھوٹ گئی۔
ایک بار تیز بخار ہوا، کلاس میں حاضری مشکل تھی، چھٹی کی درخواست لکھ کر جمع کروادیا۔ مولانا نے کلاس روم میں بلوایا حال پوچھا بہت بخار تھا کہا یہیں کونے میں لیٹ جا بیٹھ کر پڑھ نہیں سکتا مگر لیٹے لیٹے سن تو سکتا ہے۔
پڑھائی میں دلچسپی رکھنے والے اور امتحان میں اچھا نمبر لانے والے ایک طالب علم کے ساتھ مولانا کی یہ فکرمندی میرے لیے زندگی بھر کا سبق بن گئی۔ اس کے بعد پھر کبھی کلاس سے غیر حاضری کا نہیں سوچا۔ ایک مرتبہ کرکٹ کھیلتے ہوئے گھٹنا زخمی کرلیا، درد بہت تھا پٹی بندھی تھی پھر بھی کلاس اٹینڈ کرتا رہا۔
ششماہی امتحان تھا، تفسیر ابن کثیر کے پرچے میں چار سوالات تھے، ہر سوال میں ایک قید مشترک تھی: فسر الآیۃ کما فسر المصنف فی کتابہ
ششماہی تعطیل کے بعد دوبارہ پڑھائی شروع ہوئی، رزلٹ آگیا، مولانا کلاس روم میں آئے۔ رزلٹ پر باتیں ہونے لگیں۔ مجھے چالیس میں سے سینتیس نمبر ملے تھے۔ میری طرف بھی رخ کیا کہا: یہ مت سمجھنا کہ تو نے میرے سوالوں کے جواب دیے ہیں اس لیے ٣٧ نمبر ملے۔ تو نے اپنی تفسیر کرنے میں زمین آسمان کے جو قلابے ملائے ہیں میں نے اس محنت پر یہ نمبر دیے ہیں۔
استاد محترم کی مخصوص انداز میں ہنستے ہوئے کہی ہوئی یہ بات آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے اور ایک انوکھے جذبے سے سرشار کردیتی ہے۔ اس وقت نہیں پتہ تھا فکر و فن کی یہ حوصلہ افزائی کبھی اس لائق بھی بنادے گی کہ وہی قلم اس واقعے کو اپنی اٹھان کا عنوان لکھے گا۔
ایسے استاد اور مربی جنھیں میسر ہوں ان کے بہتر مستقبل کی امیدیں کی جاسکتی ہیں۔ ورنہ استاد کا ایک غلط قدم، ایک تکلیف دہ بات، ایک ناروا کارروائی اچھے خاصے ذہن و دماغ والے طالب علم کا فیوچر تباہ کردیتی ہے۔
اللہ رب العالمین ہمارے استاد محترم مولانا محمد عدیل سلفی صاحب اور دیگر تمام اساتذہ کو جزائے خیر عطا فرمائے، ان کی حفاظت کرے، انھیں صحت و تندرستی دے اور ان کے صدقات جاریہ کا سلسلہ قائم و دائم رکھے۔ آمین

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
عبد الحکیم عبد الصبور

اللہ تعالی مولانا عدیل صاحب کو جزائے خیر دے

عبد السلام

شیخ عدیل صاحب ایک باکمال مدرس کے ساتھ ایک با کمال مربی بھی رہے ہیں، صدق گوئ اور معاملات و امانت کی ادائیگی ان کی خاص پہچان رہی ہے، آج بھی جامعہ میں حاضر ہو یا ٹیلی فونی گفتگو ہو تو لگتا ہے وہی محبت وہی جذبہ بابو بابو کہہ کے بلانا ۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے اور ہر طرح کی پریشانیوں کو دور کرے۔ یاد رہے کہ شیخ عدیل صاحب کے متعلق یہ مضمون تھا تو انھیں کے تعلق سے میں نے بھی یہ باتیں لکھ دیں ورنا ، میرے مربی و مرشد شیخ الجامعہ الطاف حسین فیضی… Read more »