’اپنے منہ میاں مٹھو بننا‘ یہ ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہے اپنے ہى منہ سے اپنى تعریف کرنا اور اپنى ہى زبان سے اپنى خوبیوں اور کمالات کا بکھان کرنا۔
یہ دینى و سماجى ہر اعتبار سے ایک مذموم اور معیوب خصلت ہے، گرچہ اپنے منہ سے کى گئى تعریف مبنى برحقیقت ہى کیوں نہ ہو۔ چنانچہ کسى دانا سے پوچھا گیا کہ کون سى ایسى بات ہے جسے کہنا مستحسن نہیں گرچہ وہ حق ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ وہ بات یہ ہے کہ آدمى اپنى تعریف خود کرے۔ [الذریعۃ إلى مکارم الشریعۃ للراغب الاصبھانی:ص۱۹۷]
سلطان العلماء العز بن عبد السلام رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
مدحك نفسَك أقبح من مدحك غيرَك؛ فإنّ غلط الإنسان في حقّ نفسه أكثرُ من غلطه في حقّ غيره؛ فإنّ حُبّك الشيءَ يُعمي ويُصِمّ، ولا شيءَ أحبُّ إلى الإنسان من نفسه، ولذلك يرى عيوبَ غيره ولا يرى عيوبَ نفسه[قواعد الأحکام:۲/۲۱۰]یعنى تم اپنى تعریف خود کرو یہ زیادہ قبیح ہے بہ نسبت اس کے کہ تم کسی دوسرے کی تعریف کرو، کیونکہ انسان اپنے بارے میں بہ نسبت دوسروں کے زیادہ غلط فہمى کا شکار رہتا ہے، اس کى وجہ یہ ہے کہ کسى چیز سے محبت انسان کو اندھا اور بہرا بنادیتى ہے اور انسان کے نزدیک اپنے نفس سے زیادہ کوئى اورچیزمحبوب اور پسندیدہ نہیں ہوتى، بنا بریں وہ دوسروں کى کمیوں کو تو دیکھ لیتا ہے لیکن اپنى کمیاں اس کى اپنى نگاہوں سے اوجھل رہتى ہیں۔
اپنى تعریف آپ کرنےکا محرک عام طور پر خود پسندی، فخر ومباہات، برترى کا اظہار اور ترفع ہوتا ہے،اس لیے شریعت کى نظر میں یہ ممنوع اور ناجائز ہے۔
اللہ تعالى کا ارشاد ہے:
فلا تزكوا أنفسكم هو أعلم بمن اتقى[النجم :۳۲] تم اپنى پاکیزگى آپ بیان نہ کرو، وہ پرہیزگاروں کو بخوبى جانتا ہے۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ ایک لڑکى کا نام بَرَّۃ رکھا گیا تو نبى صلى اللہ علیہ وسلم نے منع كرديا اور فرمايا:
لا تزكوا أنفسكم، إن الله أعلم بأهل البِرّ منكم، فقالوا: بم نسميها؟ قال: سموها زينب[صحیح مسلم:۲۱۴۲]اپنا تزکیہ آپ نہ کرو، اللہ تعالى کو بخوبى معلوم ہے کہ تم میں سے نیکى والے کون ہیں۔ لوگوں نے پوچھا کہ پھرہم اس کا کیا نام رکھ دیں؟ فرمایا: زینب رکھ دو۔
مزید برآں اللہ تعالى نے اپنے ہى منہ سے اپنى پاکیزگى بیان کرنے والوں کى سرزنش فرمائى ہے، ارشاد بارى تعالى ہے:
ألم تر إلى الذين يزكون أنفسهم بل الله يزكي من يشاء ولا يظلمون فتيلا[النساء: ۴۹] کیا آپ نے انھیں نہیں دیکھا جو اپنى پاکیزگى اور ستائش خود کرتے ہیں؟ بلکہ اللہ تعالى جسے چاہے پاکیزہ کرتا ہے، کسى پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہ کیا جائے گا۔
یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئى تھى جو اپنے منہ میاں مٹھو بنتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب بندے ہیں یا اس طرح کے دیگر اور تعریفى کلمات کے ذریعہ اپنى ستائش کرتے تھے، البتہ اس لفظ کے عموم میں یہود اورغیر یہود سب داخل ہیں جو حق یا باطل کسى بھى طریقے سے اپنى ستائش کرتے ہیں۔ [ فتح القدیر:۱/۵۵۱]
اپنى پاکیزگى بیان کرنے کى اسى ممانعت کے پیش نظر سلف کى اکثریت نےاس بات کو مکروہ قراردیا ہے کہ کوئى شخص اپنے آپ کو مومن کہے، کیونکہ اپنے آپ کومومن کہنا یہ مدح کى صفت ہے اور اس میں در حقیقت نفس کى پاکیزگى ایسے اعمال کے ذریعہ بیان ہوتى ہے جو لوگوں کى نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ صرف اپنے مسلمان ہونے کى گواہى دے اس لیے کہ اسلام ظاہرى اعمال کا نام ہے۔ [فتح الباری لابن رجب:۱/۱۳۲]
خلاصہ کلام یہ کہ خود سے اپنى تعریف کرنے اور اپنى خوبیاں بیان کرنے کے متعلق شریعت کا اصل حکم ممانعت کا ہے۔
تاہم بایں ہمہ بوقت ضرورت اپنى تعریف کرنا جائز ہے، جیسے کوئى شخص اپنى بعض خوبیوں اور صلاحیتوں کا ذکر اس مقصد کے پیش نظر کرے کہ اس کے ذریعہ کسى دینى منصب یا دعوتى کاز کے لیے اس کى اہلیت ولیاقت کا علم ہو سکے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر سے کہا تھا:
اجعلني على خزائن الأرض إني حفيظ عليم[یوسف:۵۵] آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے، میں حفاظت کرنے والا اور با خبر ہوں۔
اب اگر کوئى یہ کہے کہ یوسف علیہ السلام نے اپنى تعریف کیونکر کى جب کہ انبیاء وصالحین کى شان تواضع وخاکسارى ہوتى ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کى یہ مدح وستائش تکبر اور حد سے تجاوز سے خالى تھى اور اس سے ان کا مقصد حق کاقیام، عدل وانصاف کا احیاء اور ظلم وجور کا خاتمہ تھا، لہذا انھوں نے اپنے بارے میں جو کہا وہ کہناجائز اور مستحسن تھا۔ [زاد المسیر لابن الجوزی:۲/۴۵۱]
الغرض یوسف علیہ السلام کے اس طرز عمل سے استدلال کرتے ہوئے اہل علم نے اس بات کو جائز قرار دیا ہے کہ ضرورت کے وقت انسان ایسے لوگوں سے اپنے علم وفضل کا ذکر کرسکتا ہے جو اس کے بارے میں نہ جانتے ہوں۔ [ تفسیر قرطب:۱۱/۳۸۶، قواعد الأحکام:۲/۲۱۰]
موجود دور میں اس کى ایک مثال بائیو ڈیٹا کى ہے جس میں انسان اپنا تعارف پیش کرتا ہے اور اپنى علمى لیاقت، ڈگریوں اور تجربات کا ذکر کرتا ہے۔
اسى طرح اگر کوئى شخص اپنى کسى خوبى یا اچھى خصلت کا ذکر اس نیت سے کرتا ہے تاکہ لوگ اس کى اقتدا کرتے ہوئے اس خصلت پر عمل کریں تو اس میں بھی کوئى مضائقہ نہیں، جیسا کہ نبى صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں فرمایا:
والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له [صحیح بخاری:۵۰۶۳]اللہ کى قسم میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کا تقوى اختیار کرنے والا ہوں۔
نبى صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں یہ بات اس لیے کہی تاکہ لوگ اپنے اعمال میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کى اقتدا کریں اور آپ کى سنت اور طریقے سے تجاوز نہ کریں۔
البتہ یہ حکم ان مردان باصفا اور ایمانى قوت سے سرشار ہستیوں کے لیے خاص ہے جو سمعہ وشہرت سے یکسر بے نیاز ہوتى ہیں اور جن کى حیثیت آئیڈیل اور قدوہ کى ہوتى ہے جیسا کہ علامہ ابن عبد السلام فرماتے ہیں:
وقد يمدح المرءُ نفسَه ليُقتدى به فيما مدح به نفسه… وهذا مختصٌّ بالأقوياء الذين يأمنون التسميعَ ويُقتدى بأمثالهم[قواعد الأحکام:۲/۲۱۰] یعنى کبھى انسان اپنى تعریف خود کر سکتا ہے، تاکہ جس خصلت کے ذریعہ اس نے اپنى تعریف کى ہے، اس میں اس کى اقتدا کى جائے، البتہ یہ مضبوط دل والوں کے لیے خاص ہے جو سمعہ وشہرت سے مامون رہتے ہیں اور جن کا شمار قابل اقتدا ہستیوں میں ہوتا ہے۔
اس پس منظر میں صحابہ وتابعین اور دیگر علماء سلف سے اپنے علم وفضل، یا بسا اوقات زہد وعبادت، یا اپنى تصانیف کے متعلق جو مدح وثنا ملتى ہے، اس کى توجیہ علماء نے یہى بیان کى ہے کہ اس سے ان کا مقصد اپنے علم وفضل سے لوگوں کو روشناس کرانا تھا، تاکہ لوگ ان کى اقتدا کریں اور ان کے علم سے استفادہ کریں، جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ انھوں نے اپنے بارے میں فرمایا: ’’اللہ کی قسم قرآن کى جو بھى سورت نازل ہوئى ہے، اس کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ وہ کہاں نازل ہوئى اور قرآن کى جو بھى آیت نازل ہوئى اس کے تعلق سے مجھے یہ علم ہے کہ وہ کس بابت نازل ہوئى ہے اور اگر مجھے پتہ چل جائے کہ مجھ سے زیادہ کوئى جانکار ہے اور اس تک اونٹ پہنچ سکتے ہوں تو میں اس کے پاس پہنچ جاؤں گا۔‘‘ [صحیح بخاری:۵۰۰۲]
بظاہر یہ اپنى تعریف ہى ہے لیکن اس سے مقصود مدح وستائش نہیں، چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس اثر کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وهذا كله حق وصدق، وهو من إخبار الرجل بما يعلم عن نفسه ما قد يجهله غيره، فيجوز ذلك للحاجة، كما قال تعالى إخبارا عن يوسف لما قال لصاحب مصر: {اجعلني على خزائن الأرض إني حفيظ عليم}[تفسیر ابن کثیر:۱/۵۲]
یہ سب حق اور سچ ہے اوریہ اپنے بارے میں انسان جو جانتا ہے اس سے نہ جاننے والوں کو با خبر کرنے کے قبیل سے ہے اور ضرورت کے وقت یہ جائز ہے جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کو اپنے بارے میں بتایا تھا۔
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفي الحديث جواز ذكر الإنسان نفسه بما فيه من الفضيلة بقدر الحاجة، ويحمل ما ورد من ذمّ ذلك على من وقع ذلك منه فخرًا أو إعجابًا [فتح الباری:۹/۵۱]
اس حدیث میں اس بات کا جواز ہے کہ انسان بقدر ضرورت خود سے اپنى فضیلت ذکر کر سکتا ہے اور اس بابت جو مذمت آئى ہے وہ اس شخص کے متعلق ہے جو فخر اور خود پسندى کى غرض سے ایسا کرتا ہے۔
اسى طرح جب باغیوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا تھا تو انھوں نے اپنے کچھ مناقب وفضائل کا تذکرہ کیا تھا، جس سے استدلال کرتے ہوئے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
وفيها جواز تحدُّث الرجل بمناقبه عند الاحتياج إلى ذلك لدفع مضرة أو تحصيل منفعة، وإنما يكره ذلك عند المفاخرة والمكاثرة والعجب [فتح الباري لابن حجر:۵/۴۰۸]
یعنى آدمى کے لیے اپنے مناقب وفضائل کو بیان کرنا جائز ہے جب کسى نقصان کے ازالہ اور منفعت کے حصول کے لیے اس کى ضرورت ہو، اور یہ مکروہ اس وقت ہے جب فخر ومباہات اور عجب کا مظاہر ہ ہو۔
اس مسئلے کى مزید وضاحت کرتے ہوئے امام نووى رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اپنے ذاتى محاسن کو بیان کرنے کى دو قسمیں ہیں ایک قسم مذموم ہے اور دوسرى محمود:
مذموم یہ ہے کہ اپنى ذاتى خوبیوں کا ذکر فخر ومباہات، برترى کے اظہار اور اپنے ہم پلہ لوگوں پر تفوق وامتیاز کے لیے کیا جائے۔
اور محمود وہ ہے جس میں کوئی دینى مصلحت ہو، جیسے کوئى شخص امر بالمعروف اور نہى عن المنکر کا فریضہ انجام دے رہا ہو، یا کسى کو نصیحت اور مشورہ دے رہا ہو، یا معلم ومربى اور واعظ ہو، یا دو لوگوں کے درمیان صلح کرانے والا ہو، یا اپنى ذات سے کسى قسم کے شر وفساد کو دور کرنا چاہتا ہو، تو ان صورتوں میں وہ اپنى خوبیاں اس نیت سے بیان کرے تاکہ لوگ اس کى بات کو قبول کریں اور اس کے رائے ومشورہ پر اعتماد کر سکیں،یا یہ کہے کہ یہ بات جو میں بتا رہا ہوں وہ میرے علاوہ کسى اور کے پاس نہیں ملے گى لہذا اسے اپنے پلو باندھ لو، تو یہ محمود ہے اوراس سلسلے میں بے شمار نصوص موجود ہیں۔ [الأذکار النوویۃ: ص۲۷۸-۲۷۹]
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتى ہے کہ کسى راجح مصلحت اور واقعى مضرّت کے پیش نظر بقدر ضرورت اپنے بارے میں کچھ کہنا، جس میں مدح وستائش کا پہلو پایا جاتا ہو، جائز ہے، اور اگر اس میں فخر وتکبر کاشائبہ ہو اور اپنى فوقیت وبرترى کا اظہار مقصود ہو تو یہ ممنوع ہے۔
لہذا بلا ضرورت ہر مجلس ومحفل میں اپنى تعریف کرتے پھرنا اور ہمہ وقت اپنے کارناموں کے تئیں تحسین وآفرین کى صدائیں بلند کرنا، نیز تحدیث نعمت کى آڑ میں تعلى وخودنمائى اور فخر ومباہات کا مظاہرہ کرنا قطعا درست نہیں،یہى وہ چیز ہے جسے اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے تعبیر کیا جاتا ہے، جو شرعًا وعقلاً ہر اعتبار سے معیوب اور ناپسندیدہ ہے اور اللہ کے نیک بندوں بالخصوص علماء شریعت اور طالبان علوم نبوت کى شان کے یکسر منافى ہے۔
اپنے منہ میاں مٹھو بننے کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ ایسا شخص احساس برترى کا شکار ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنا وقار اور اعتبار کھو بیٹھتا ہے۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اگر کوئى شخص اپنے علم وفضل کا اظہار محض اس لیے کرتا ہے تاکہ لوگوں کے ما بین اپنى عظمت وبرترى کا سکہ بٹھا سکے تو اللہ تعالى اس کے بدلے میں اس کے تئیں لوگوں کے دلوں میں نفرت وکراہیت ڈال دیتا ہے اور ان کى نگاہوں میں اسے کمتر اور چھوٹا بنا دیتا ہے ۔ [ مفتاح دار السعادۃ:۱/۳۹۱]
چنانچہ اس بیماری میں مبتلاہونے کی وجہ سےکتنے ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کی نگاہوں سے گرگئے۔
ابن المقفع ایک جگہ لکھتا ہے:
إن أنِسْت من نفسِك فضلاً، فتحرّج من أن تذكُره أو تُبدِيَه، واعلم أنّ ظهوره منك بذلك الوجه يقرّر لك في قلوب النّاس من العيب أكثرَ ممّا يقرّر لك من الفضل. واعلمْ أنّك إن صبرت ولم تعجل، ظهر ذلك منك بالوجه الجميل المعروف عند النّاس [الادب الصغيرص:۱۰۲] اگر تم اپنے اندرکوئی خوبی دیکھوتواس کوبیان کرنےیا ظاہر کرنے سےگریز کرو۔اوریہ بات یاد رکھو کہ اگر تم خود سےاپنے فضل وکمال کا اظہارکروگے تو اس سےلوگوں کے دلوں میں تمھاری خوبی سے زیادہ تمھاری خامی کا تصور بیٹھ جائے گا۔اور اگر تم عجلت سے بچتے ہوئے صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑوگے تو لوگوں کے درمیان تمھارے فضل وکمال کی خوشبو خود بخود پھیل جائے گی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالى ہمیں تواضع اختیار کرنے کى توفیق عطا فرمائے اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے کوسوں دور رکھے۔
آپ کے تبصرے