عرض مرتب
شخصیات کی حیات و خدمات پر جو سیمینار ہوتے ہیں ان میں پیش کردہ مقالے اگر شائع نہ کیے جائیں تو محنت ضائع ہوجاتی ہے اور مقصد ادھورا رہ جاتا ہے۔ سیمینار کے لیے جو سیناریو مطلوب ہے کووڈ۱۹ کی وجہ سے وہ اس سال ممکن بھی نہیں تھا۔ آن لائن کام ہوتے رہے اور باقی پر اوس پڑی رہی۔ اس دوران ہونے والے نقصانات کی فہرست بہت لمبی ہے البتہ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ بڑی تیزی کے ساتھ کئی معتبر علماء کرام اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھی میں سے ایک حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم بھی ہیں۔
حافظ صاحب رحمہ اللہ کا انتقال ۱۲؍جولائی۲۰۲۰ کو ہوا اور اسی دن حافظ عبدالحسیب مدنی صاحب کی تحریک پر پہلے کچھ مضامین کی خصوصی اشاعت کا ارادہ ہوا تھا جو ۲۶؍جولائی تک اس کتاب کی ترتیب کے خیال میں تبدیل ہوگیا۔ دس اگست تک تمام مضمون نگاروں سے بات ہوچکی تھی البتہ اس فہرست میں اضافہ تو ستمبر تک ہوتا رہا۔
رسالوں کی خصوصی اشاعت اور دیگر مرتبہ کتابوں میں عام طور پر موضوعات کی تکرار بہت کھلتی ہے۔ عناوین منتخب کردیے جائیں تو بھی ہر بات حضرت آدم سے شروع کرنے کی جو روایت چلی آرہی ہے وہ ہر کوئی نبھانے میں لگا رہتا ہے۔ ایسے کاموں میں تبرک کے طور پر سب کی شمولیت کا بھی ایک تصور ہے جو دو سو صفحات کے مواد کو دو چار گنا پھیلاکر ضخامت تو بڑھادیتا ہے مگر قارئین کے لیے درد سر بن جاتا ہے۔تکرار قرآن وحدیث میں بھی ہے مگر تاکید کے طور پر، موقع محل کی مناسبت پیش نظر رکھی جائے تو تاکید کے حسن میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔ البتہ مطلوب تفصیل اور بے جا طوالت کے فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے۔
یہ سب مسائل پیش نظر تھے اور یہ بات بھی کہ وقت ہو یا انسان جو گزر چکا محض اس کے تاریخی بیان میں مطلوبہ افادیت نہیں ہے۔بلکہ قرآن مجید کی طرح تجزیاتی تاریخ کے پیرایے میں ذکر ہو تو اس سے افراد سازی میں مدد ملتی ہے۔ اہل علم کی زندگی میں بالمشافہ تعلیم وتربیت پانے کا جو ایک موقع ہوتا ہے وہ ان کے اس دنیا سے گزر جانے کے بعد ان کی علمی خدمات سے استفادے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ دین کی تبلیغ و اشاعت میں اپنی زندگی کھپادینے والے جب کہیں علمی جائزے کا موضوع بنتے ہیں تو ان کی زندگی کا ہر شعبہ تحریک پیدا کرتا ہے۔ علماء اور طلباء کے لیے ان کی حیات مستعار کے نشیب وفراز بڑے سبق آموز ہوتے ہیں۔
مسلکی غیرت و حمیت کے حامل اور کتاب وسنت کی تعلیم و اشاعت پر تاحیات کمربستہ رہے حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کا پروفائل بہت شاندار ہے۔ اللہ رب العالمین کا خصوصی کرم نہ ہو تو وہ ایک بندے کو اتنی ساری شش جہتی خدمات کی توفیق نہیں دیتا۔ تفسیر احسن البیان کی مقبولیت سے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ان کی کاوشوں کی قبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
حافظ صاحب کا انتقال ہوا تو ہر چہار جانب سے مفسر، محدث، محقق، مصنف اور مترجم کے علاوہ بھی کئی القاب سے انھیں یاد کیا جانے لگا۔ عقیدت سے یاد کرنے، محبت میں تکلیف محسوس کرنے اور ارادت میں علمی باقیات سے شغف رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن القاب کے ورد سے دعووں کو اعتبار نہیں ملتا اور نہ ہی اس کا کوئی خاطر خواہ اثر سننے والے پر پڑتا ہے۔ یہ بنیادی سبب ہے اس کتاب کے خیال کا۔ ان دعووں کی دلیل جاننے یا فراہم کرنے کی تڑپ سے یہ کام شروع ہوا تھا۔
چار پانچ لوگوں نے معذرت کرلی اور اتنے ہی لوگ ہامی بھرنے کے باوجود نہیں لکھ سکے۔ جنھوں نے لکھا ان کا بہت شکریہ اور جو نہیں لکھ پائے ان کا بھی کیونکہ اس پورے پروسیس میں ان کےقلمی تعاون کا احساس ساتھ رہا۔ جزاھم اللہ خیرا
خود لکھنا جتنا آسان ہے دوسروں سے لکھوانا اتنا ہی مشکل ۔ مگر ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے،فان مع العسر یسرا۔ کثیر جہتی علمی خدمات کی وجہ سے تمام اہل علم کے دلوں میں حافظ صاحب کی محبت ایسی بسی ہوئی تھی کہ اللہ رب العزت نے بہت آسان کردیا۔ نہایت ہی مختصر مدت میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ فالحمدللہ
نگاہ اور شمار میں نہ ہونے کے باوجود کچھ بہت قریبی دوستوں کو دیر سے اطلاع دی پھر بھی انھوں نے بڑی آسانی سے لکھ کر دے دیا۔ڈاکٹر وسیم محمدی، برادرم جلال الدین محمدی اور ڈاکٹر سعد احمد کا بہت شکریہ۔
حافظ صاحب کے مذکورہ القاب میں سے ایک ایک پر کئی پہلوؤں سے لکھے گئے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ تکرار سے بچنے کے لیے پہلے تو عناوین تیار کیے گئے، ان میں مولانا رفیق احمد رئیس سلفی اور پھر حافظ عبدالحسیب مدنی صاحب نے بڑے اہم اضافے کیے تھے، فجزاھم اللہ خیرا۔ان کی علمی رہنمائی آخری مرحلے تک ملتی رہی۔ موصولہ مضامین میں بھی دقت نظری کے ساتھ ایڈیٹنگ کی گئی۔ مضامین کے تیور عموما تجزیاتی نوعیت کے ہیں تاکہ محض معلوماتی سوانح کی خشکی راہ نہ پائے۔دستیاب کتابوں اور وسائل کی مدد سے تیار کی گئی یہ کتاب ایک ابتدائی کوشش ہے حافظ صاحب کی حیات وخدمات کے جائزے کی، جس میں کئی پہلو تشنہ رہ گئے ہوں گے۔ لاک ڈاؤن، ایک سرحد کی دوری اور مختلف اسباب کی بنا پر جو ممکن ہوسکا وہ حاضر ہے۔
قابل ذکر شخصیات کی خدمات کے ایسے ہی جائزے میں ہم جیسے طالبان علوم نبوت کے لیے استفادے کے مواقع زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔ پھر بھی مضامین کی ترتیب وتدوین میں جو کمی رہ گئی ہو اہل علم و قلم سے اس کی نشاندہی کی درخواست ہے تاکہ اصلاح کی جاسکے۔
متعلقہ موضوع پر دستیاب تمام مواد یکجا کرنے میں کچھ بہت زیادہ خیر نہیں ہے۔ مرتب یا مؤلف اگر خود ہی اپنا ناقد بن جائے تو نقد و تبصرے کے معیار پر کتاب کھری ثابت ہوگی۔ معیاری مواد کی پیش کش کے علاوہ اگر ترتیب میں تعلق، تبرک یا تملق کو پیش نظر رکھا گیا تو نتیجہ محنت اور وسائل کے ضیاع کی صورت میں نکلے گا۔
یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں جن مضامین کو تاثرات و پیغامات کی جگہ پر رکھا گیا ہے وہ بھی روایتی قسم کے نہیں ہیں بلکہ مرحوم سے تعلق رکھنے والی ایسی اہم شخصیات کی آراء اور مشاہدات ہیں جن کا مقام دیگر تجزیاتی تحریروں سے بھی بڑا ہے۔ڈاکٹر وصی اللہ عباس صاحب، مولانا محمد عزیر شمس صاحب، ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبارالفریوائی صاحب، مولانا صلاح الدین مقبول صاحب اور محترم عبدالمالک مجاہد صاحب حفظہم اللہ کو اللہ رب العالمین دونوں جہان میں اجر عظیم سے نوازے کہ اپنی بے انتہا مصروفیات کے باوجود انھوں نے ہماری حوصلہ افزائی کی اور اپنی گراں قدر تحریریں بھیجیں۔ حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم کے صاحبزادے حافظ عثمان صاحب کا بے حد شکریہ کہ انھوں نے ہر ممکن تعاون کیا اور اپنے والد کے خانگی حالات نیز ان کے آخری ایام کی تفصیل ہمیں لکھ بھیجی۔
تمام مضمون نگاروں کے ساتھ میں شکریہ ادا کرتا ہوں برادرم ابن کلیم، مرشد عبدالقدیر، ڈاکٹر نصیر الحق، عبدالرحمن صدیقی،حافظ سمیرسلفی، رضوان رحمانی اور صفی الرحمن صاحب کا کہ ان کے تعاون اور مشورے سے کتاب کی تکمیل تک حوصلہ بنا رہا۔
مولانا حنیف صاحب (سری نگر) کا جتنابھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے کہ انھوں نے حافظ صاحب کی آخری کتاب ’’فکر فراہی‘‘ جو ابھی تک ہندوستان میں دستیاب نہیں ہے بلیو ڈارٹ کے ذریعے مجھے بھیج دی جو تیسرے دن مل گئی۔ مولانا کے پاس اس کتاب کا یہی ایک ہی نسخہ تھا جو انھوں نے دبئی سے منگوایا تھا۔
طباعت کی مشکلات اور وہ بھی اس لاک ڈاؤن میں، اندازہ تھا مگر اس خیال نے کتاب پر کام کرنے سے کبھی نہیں روکا۔حافظ صاحب کی تفسیر احسن البیان کو جس طرح مجمع الملک فہد مدینہ نے چھاپ کر دنیا بھر میں پھیلایا ہے اس کی برکت نے تمام متعلقین کی محبت دلوں میں ڈال دی ہے۔ صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر مولانا عبد السلام سلفی صاحب سے مقدمہ لکھنے کی گزارش کی تو نہ صرف انھوں نے قبول کیا بلکہ کتاب کی منہجی اہمیت کے پیش نظر اسے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی طرف سے اشاعت کے لیے بھی منظور کرلیا۔اس حوصلہ افزائی اور تعاون کے لیے مولانا عبدالسلام سلفی صاحب کا خصوصی شکریہ اور صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے تمام اراکین ومعاونین نیز خیرخواہان کا بھی شکریہ کہ وہ اس معتبر پلیٹ فارم سے جڑے ہوئے ہیں۔ اللہ رب العزت دعوت دین کے اس سلسلے کو ہمیشہ جاری وساری رکھے۔آمین
صوبائی جمعیت کے شعبہ نشرواشاعت کی طرف سے محسن گرامی جناب مولانا عنایت اللہ مدنی صاحب نے ’عرض ناشر‘ لکھا ہے۔ امیر محترم مولانا عبدالسلام سلفی صاحب کے مشورے سے فضلاء جماعت مولانا ظفر الحسن مدنی، مولانا عبدالمعید مدنی،مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، مولانا مختار احمد محمدی مدنی اور مولانا عبدالحکیم عبدالمعبود مدنی حفظہم اللہ کے تاثراتی نیز تجزیاتی مضامین بھی کتاب میں شامل کیے گئے ہیں، اسی دوران مولانا محمد سنابلی مدنی صاحب کا بھی ایک مختصر مضمون مولانا عنایت اللہ مدنی صاحب کی وساطت سے دستیاب ہوا اور استاد گرامی مولانا ابوالقاسم فاروقی صاحب جو اپنی علالت کی وجہ سے متعینہ مضمون نہ لکھ سکے تھے صحت یابی کے بعد انھوں نے تقریظ لکھ دی۔ جماعت کے ان تمام موقر ومحترم علماء کرام کے ہم بے حد ممنون ہیں، اللہ رب العالمین انھیں جزائے خیر عطا فرمائے۔
منصوبے کے مطابق کتاب کی طباعت میں اگرچہ کچھ تاخیر ہوئی مگر اس تاخیر کے سبب انتہائی اہم تحریروں کا اضافہ بھی ہوگیا۔ فالحمد للہ
اللہ رب العالمین حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم کے تمام نیک اعمال کو قبول فرمائے، ان کی لغزشوں کو معاف کرے اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین
اس کتاب کی تکمیل واشاعت میں تعاون کرنے والے تمام احباب اور بزرگوں کو اللہ جزائے خیر دے اور قارئین کے لیے اسے مفید بنائے۔آمین(۱۰؍۱۰؍۲۰۲۰ء)
آپ کے تبصرے