تقریظ
تقسیم ہند کے بعد جن علما نے منہج سلف کے فروغ اور دفاع کتاب و سنت کا علم سنبھالا، ان میں ایک بڑا نام مولانا حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کا ہے، آپ تقریبا نصف صدی تک علمی افق پر نیر تاباں کی طرح چمکتے رہے۔ مولانا کی دینی اور علمی خدمات کی جہتوں میں بڑا تنوع اور بہت وسعت ہے، نقد و نظر کا ذوق فطری تھا، معاصر مسلم مفکرین اور دانش واروں کے افکار و نظریات پر آپ کی گہری نظر تھی، بر صغیر کی مذہبی، سیاسی اور سماجی تاریخ کا وسیع مطالعہ تھا، محدثین اور منہج سلف کا دفاع آپ کا پسندیدہ موضوع تھا، ایسے تمام دریچوں اور روزنوں کی خبر رکھتے تھے جن سے انکار حدیث کی بو آنے کا اندیشہ ہوتا، تاریخ سازوں کی فریب کاریوں کو بے نقاب کرنے میں آپ کو کمال حاصل تھا، غیرت ایمانی کا جذبہ اس قدر شدید تھا کہ جب بھی کسی نے صحابی رسول اور احادیث رسول پر انگشت نمائی کی آپ نے فورا اس کا جواب دیا۔ خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت سے لے کر فکر فراہی اور فکر غامدی تک آپ کی تصنیفات اس بات کی شاہد ہیں۔ مولانا کی تفسیری خدمات کے بارے میں کیا کہنا، یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد جماعت میں اس خلا کو پر کرنے میں آپ یکہ و تنہا کامیاب رہے اور اکیلے ہی اس قدر کام کر گئے، جس کے لیے علمی اکیڈمیوں کی ضرورت پڑتی ہے، اللہ نے آپ کی تفسیر’’ احسن البیان‘‘ ( آپ کے حواشی اور مولانا محمد جونا گڈھی کا ترجمہ )کو مقبولیت کے ایسے ذرائع عطا کردیے کہ عصر حاضر کی مقبول ترین تصنیف بن گئی، یہ تفسیر مطالب قرآن کی تفہیم کے لیے سب سے آسان اور بہتر تفسیر سمجھی جاتی ہے۔
مولانا صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ نے عنفوان شباب ہی سے اپنی تمام تر صلاحیتوں، ذہانت و فطانت کو منہج سلف کے دفاع، قرآنی اور حدیثی خدمات، اعلی اور معیاری صحافت، باطل نظریات کی تردید کے لیے وقف کردیا۔ آپ کی تصنیفات اور مقالات کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نے آپ کو لکھنے کی بے پناہ صلاحیت بخشی تھی، جب بھی کسی موضوع پر لکھتے، دلائل کا انبار لگا دیتے، استدلالات منطقی اور حکیمانہ ہوتے، اسلوب اور انداز بیان انتہائی سنجیدہ، ساحرانہ اور ایک خاص قسم کی ادبی چاشنی لیے ہوتا ، مذہبی لٹریچر خصوصا ردود و ابطال میں مصنفین کا انداز عام طور پر خشک ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کتابیں ایک خاص حلقہ تک محدود ہوکر رہ جاتی ہیں، اہل حدیث علما میں مولانا اسماعیل گجرانوالوی کے بعد مولانا پہلے عالم تھے جنھوں نے اپنی تحریروں میں ادبی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا،آپ کے خلوص، ایمانی جذبہ، دینی غیرت اور مسلم معاشرہ کو صراط مستقیم پر لانے کی عملی جد وجہد نے عظمت اور رفعت کے اس مقام پر پہنچادیا کہ دنیا رشک کرے۔
۱۲؍جولائی ۲۰۲۰ء کو مولانا اس دنیا سے رخصت ہوئے، علم کی دنیا اور جماعت اہل حدیث کے لیے آپ کا سانحۂ ارتحال ایک عظیم خسارہ تھا جس کی تلافی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ بہرحال آپ اپنے حصے کا کام بطریق احسن کرگئے، عمر بھر منہج سلف کو فروزاں کرنے میں لگے رہے، آپ کی پوری زندگی دروس و عبر سے عبارت تھی، علمی اعتبار سے آپ متقدمین علما سے کسی طرح کم نہ تھے، پچاس سے زائد آپ کی تصنیفات، تراجم اور الاعتصام میں بکھرے ہوئے سینکڑوں مقالات اور اداریوں کے ذریعے آپ نے امت مسلمہ میں اتباع کتاب و سنت کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی، معاشرتی اصلاح، قرآن و حدیث کی طرف رجوع، جمود و تقلید اور منہج سلف کے درمیان فرق، بدعات و خرافات کی تردید ، توحید اور اتباع سنت کی دعوت جس انداز اور متاثر کن اسلوب میں دی وہ مثالی ہے، نوجوان علما اور طلبہ کو اس سے واقف کرانا ضروری اور وقت کا تقاضا تھا، تاکہ وہ اس عظیم شخصیت کی جلائی ہوئی مشعل سے روشنی حاصل کر سکیں۔
الحمد للہ نوجوان صحافی اور عالم مولانا ابوالمیزان حفظہ اللہ نےحافظ صاحب کی حیات اور خدمات پر علماء اجلہ اور مقتدر اہل قلم سے مقالات لکھوانے اور ان کی ترتیب و تدوین کا نہ صرف منصوبہ بنایا بلکہ چند مہینوں میں اسے عملی جامہ پہنا دیا۔ مولانا ابوالمیزان رحمانی کی شخصیت اور ان کی فعالیت سے جماعت کے سرکردہ حضرات اور اہل نظر علماء خوب واقف ہیں۔ تجارت آپ کا پیشہ ہے لیکن آپ کی دل چسپیوں کا محور اردو صحافت ہے، اس میدان میں آپ سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ۲۰۰۹ء میں فری لانسر کے کچھ شمارے نظر سے گزرے، معلوم ہوا کہ اس کے ایڈیٹر ابوالمیزان صاحب ہیں، ان کی تحریریں دل کش اور معنویت سے بھرپور ہوتی تھیں، پہلی بار بالمشافہ ملاقات جامعہ سلفیہ میں منعقدہ ابنائے جامعہ سلفیہ کے اجتماع میں ہوئی۔ موصوف توقع سے زیادہ کم سخن اور ایک اچھے سامع نکلے، ان کے بارے میں شاگردوں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ آپ بولتے کم ہیں خاموشی سے کام کرنا زیادہ پسند ہے۔ دوسری بار دلی میں ملاقات ہوئی، ایک طویل مجلس جمی، مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں، وہاٹس ایپ پر پیغامات کے سلسلے شروع ہوئے، آپ کا ایک بڑا کارنامہ ’’دی فری لانسر‘‘ کا برقی اجرا ہے۔ میری نظر میں یہ تنہا ایسا پورٹل ہے جو نوجوان طلبا میں صحافت کا ذوق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، متعدد اہل قلم ایسے ہیں کہ فری لانسر جن کی شناخت کا سبب بنا، ماشاء اللہ اس پورٹل پر شائع ہونے والے مضامین دنیا کے گوشے گوشے میں پڑھے جا تے ہیں اور دن بدن اس کے قارئین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، اس وقت جماعت اور جماعتی اداروں سے نکلنے والے رسائل و جرائد کی زبوں حالی سے سبھی واقف ہیں، اس صورت میں فری لانسر کی روز افزوں ترقی پردل سے دعائیں نکلتی ہیں، یہ عظیم کارنامہ عزیزی ابوالمیزان اور ان کے معاونین کی انتھک جدو جہد کا ثمرہ ہے۔
عزیزی ابوالمیزان نے مولانا حافظ صلاح الدین کی شخصیت اور ان کے کارناموں کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا تو اس ہیچ مداں کو بھی مشوروں میں شریک کیا اور ایک مضمون لکھنے کا مکلف کیا،یہ میری بدنصیبی تھی کہ کووڈ ۱۹ کی وجہ سے لاک ڈاؤن کی محصوری اور مسلسل علالت کی وجہ سے میں آپ سے کیے ہوئے وعدہ کو پورا نہ کر سکا۔ یہ ان کی پرخلوص محبت تھی کہ اپنی مرتب کردہ کتاب کی پی ڈی ایف آپ نے فراہم کردی، کتاب کی فہرست اور مشمولات پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہو گیا کہ یہ کتاب تذکرہ نویسی کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگی، ان شاء اللہ۔
کتاب کے مطالعے کے بعد جو تاثرات میرے ذہن میں آئے انھیں ذیل میں لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں:
۱- کتاب کے متعلق دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ حافظ صلاح الدین کی قدآور شخصیت اور کمالات کا مکمل احاطہ ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ مرتب نے ان کی تابندہ زندگی کا حسین مرقع پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جس سے حافظ صاحب کی علمی، دعوتی اور تحقیقی خدمات کے متنوع اور مختلف زاویوں کے در وا ہو گئے ہیں۔
۲- یہ کتاب جلد ہی ناظرین کے ہاتھوں میں ہوگی، وہ بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس کی علمی قدروقیمت کیا ہے تاہم جن مقتدر اہل قلم اور بزرگ علما کے مضامین اور مقالوں کو کتاب میں شامل کیا گیا ہے، ان کے اسماء گرامی ہی کتاب کی اہمیت، وقعت اور استناد کے لیے کافی ہیں۔
۳- مرتب کتاب نے حتی المقدور حیات و شخصیت کے اہم پہلوؤں پر جامعیت و ارتباط کا خاص لحاظ رکھا ہے، تاثراتی مضامین ہوں یا مقالات ہر ایک اپنی جگہ پر اہم ہیں اور مولانا رحمہ اللہ سے متعلق کسی نہ کسی پہلو کو اجاگر کرتے ہیں۔
۴- آغاز میں ان علماء کبار کے تاثراتی مضامین ہیں جن سے حافظ صاحب کے دوستانہ اور دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ مثلا مولانا عزیر شمس، ڈاکٹر وصی اللہ عباس، ڈاکٹر عبدالرحمن پریوائی، مولانا صلاح الدین مقبول احمد، مولانا عبدالمالک مجاہد، حافظ صاحب کے صاحب زادے مولانا محمد عثمان اور مولانا شیرخان جمیل عمری نے حافظ صاحب کے سوانحی حالات کے تقریبا بیشتر گوشوں کو سمیٹ لیا ہے، مولانا مجاہد کا مضمون اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس کے ذریعے سے مولانا کی تفسیر’’احسن البیان‘‘ کا پورا پس منظر واضح ہو جاتا ہے۔
۵- ہندوستان کے مشہور اہل قلم مولانا رفیق احمد سلفی حفظہ اللہ کے تین وقیع اور طویل مضامین کو کتاب میں شامل کیا گیا ہے، پہلے مضمون میں آپ نے حافظ صاحب کے تفسیری حواشی کا مکمل جائزہ لیا، دوسرے مضمون میں حافظ صاحب کی دیگر قرآنی خدمات خصوصا آپ کی غیر مطبوعہ مفصل تفسیر ’’تفسیر احسن البیان مع الافادات والاضافات‘‘ کا تعارف کرایا، مولانا رفیق احمد نے تیسرے مقالے میں حافظ صاحب کی چالیس سے زائد تصانیف کا تفصیلی تعارف کرایا ہے، جس سے مولانا سلفی کی محنت، دیدہ ریزی اور حافظ صاحب سے محبت و عقیدت مندی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
۶- حافظ صاحب کی شہرۂ آفاق کتاب ’’خلافت و ملوکیت، تاریخی و شرعی حیثیت‘‘ سے متعلق چار مقالے شامل کتاب ہیں، ڈاکٹر عبدالرحمن کے مقالے میں کتاب کے پس منظر اور پیش منظر کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مولانا ابوالمرجان فیضی نے کتاب کے مشتملات کی نشان دہی کی ہے، ڈاکٹر سعد احمد نے خلافت و ملوکیت کے بارے میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے فکری اسلوب اور حافظ صلاح الدین کے سلفی منہج کا مقارنہ نیز دونوں کا محاکمہ اور تحلیل و تجزیہ پیش کیا ہے، ڈاکٹر محمد وسیم محمدی نے مشاجرات صحابہ کے حوالے سے کتاب پر بحث کی ہے، اس طرح چاروں مقالات نے مل کر اس موضوع کو جامع بنا دیا ہے۔
۷- کتاب میں مولانا اسعد اعظمی، مولانا شعبان بیدار صفاوی، مولانا رشید سمیع سلفی، مولانا ثناء اللہ صادق تیمی، مولانا عبدالرزاق محمدی، مولانا عبدالغفار سلفی، مولانا ابوالمیزان وغیرہم کے متنوع اور فکر انگیز مضامین کی شمولیت سے حافظ صاحب کے منہجی اسلوب اور علمی خدمات کے متعدد ابواب کی تفہیم آسان ہوگئی۔
مولانا ابوالمیزان صاحب اپنے برقی رسالہ ’’دی فری لانسر‘‘ کے ذریعہ نوجوان قلم کاروں میں علمی سنجیدگی پیدا کرنے، مطالعہ تحلیل و تجزیہ اور تنقیدی ذوق پروان چڑھانے اور ان کی ادبی اور علمی تربیت کرنے کی خاموش کوشش کر رہے ہیں، خوشی کی بات ہے کہ انھوں نے نوجوان قلمکاروں کے مضامین کو بھی شامل کتاب کیا، ان نوجوانوں کی کاوشیں قابل قدر ہیں اور تحریری میدان میں ان کے روشن امکانات کی نشان دہی کرتی ہیں۔
۸- حافظ صلاح الدین یوسف کی صحافتی خدمات ان کی تابناک زندگی کا اہم حصہ ہیں، آپ نے طویل عرصہ تک الاعتصام کی ادارت کی، اس کے علاوہ آپ کے مضامین برصغیر کے معیاری رسائل کی زینت بنتے رہے، چار سو سے زائد طویل اور مختصر مضامین آپ کے قلم سے نکلے، جن میں سے متعدد مضامین بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ اس موضوع پر زیر نظر کتاب میں صرف مولانا ابوالمیزان کا ایک مضمون ہے، جس میں آپ نے حافظ صاحب کا صحافتی موقف اور آپ کے صحافتی اصولوں نیز صحافتی مقام کی قدر و قیمت متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس موضوع پر مزید مقالات کی ضرورت تھی۔
ہمارے تصور میں بھی نہیں تھا کہ مولانا ابوالمیزان صاحب اتنی مختصر سی مدت میں حافظ صاحب کی حیات و خدمات پر اس قدر شاندار اور دستاویزی کتاب منظر عام پر لائیں گے، اس کا بہت کچھ کریڈٹ فاضل مضمون نگاروں کو بھی جاتا ہے، جنھوں نے عزیزی سے بھرپور تعاون کیا اور متعینہ وقت میں اپنے پرمغز مقالے ان کو ارسال فرمائے۔
مرتب کتاب کو میں ایک بار پھر اس سعی مسعود پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ کتاب کی طباعت کا مرحلہ ذرا کٹھن تھا، لیکن دل میں لگن اور خلوص ہو تو اللہ رب العالمین راہیں نکال دیتا ہے، امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی مولانا عبدالسلام سلفی حفظہ اللہ کی قدر شناسی اور علم نوازی معروف ہے، آپ نے جمعیت مذکور کے شعبۂ نشر و اشاعت سے کتاب چھاپنے کی ذمہ داری قبول فرمائی، اللہ تعالی انھیں اجر عطا فرمائے۔ آمین
مجھے پورا یقین ہے کہ یہ کتاب علمی حلقوں میں خوب خوب پذیرائی حاصل کرے گی۔ اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ مرتب، ان کے معاونین، اس کے مضمون نگاروں اور ناشر کے علم و عمل میں زیادہ سے زیادہ برکت دے۔
والسلام
محمد ابوالقاسم فاروقی
شاہین باغ- اوکھلا، نئی دہلی
۳؍دسمبر ۲۰۲۰ء بروز جمعرات
ماشاءاللہ۔ اللہ پاک جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔۔ بےشک ایسی ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی
۔قدس اللہ روحہ وتغمد ہ برحمتہ ورضوانہ وأدخلہ جنۃ الفردوس وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وأھل طاعتہ أجمعین