یادش بخیر! وہ بھی کیازمانہ تھاجب لوگ فقر وفاقہ تو نہیں کرتے تھے لیکن مال ودولت کی اس قدربہتات بھی نہیں تھی جس قدر آج ہے۔جب گاؤں میں کسی کسی کے پاس سائیکل ہوا کرتی تھی۔جب لوگوں کے مکانات کچے اور پھوس کے ہوا کرتے تھے۔میں بہت دور کی نہیں ماضی قریب کی بات کررہا ہوں۔ اس زمانے کی بات کررہا ہوں جب اوکھلا سے جامع مسجد کا کرایہ پچیس سے پچاس پیسے ہواکرتا تھا۔ جب مؤ ناتھ بھنجن میں ایک چائے کی قیمت پندرہ سے پچیس پیسے ہواکرتی تھی۔میری مراد بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کے نصف ثانی سے ہے۔ جب دیہاتوں میں لوگوں کے گھروں میں غسل خانوں اور ٹوائلٹ کی آسانیاں میسر نہیں تھیں۔قضائے حاجت کے لیے لوگ صبح شام یا حسب ضرورت گاؤں کے کھیتوں، کھلیانوں ، تالابوں اورمیدانوں کا رخ کیا کرتے تھے۔کسی کھیت، کسی تالاب یا کسی پیڑیا جھاڑی کے عقب میں کہیں جاکر قضائے حاجت کیا کرتے تھے۔اگر کسی کا پیٹ خراب ہو تو اسے بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کئی بار تو راستے ہی میں ڈلیوری کی کیفیت سے لوگ دوچار ہوتے تھے اور سرپٹ بھاگتے تھے۔ ارہریا گنے کے کھیت اس کے لیے کافی مناسب ہوا کرتے تھے مگر کئی بار ایسا ہوتاتھا کہ آدمی ابھی قضائے حاجت کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ کسی اور طرف سے کسی نے کھانسی کا اشارہ دیا اور پتہ چلا ارے یہاں کوئی صاحب تو پہلے سے ہی براجمان ہیں۔کئی بار نصف شب میں مردو عورت صغیر وکبیر کو حاجت درپیش آتی تھی اور نہ جانے کن کیفیات اور کن حالات ومصائب سے لوگ دوچار ہوتے تھے۔انس وجن سب کا خوف لاحق ہوتا تھا۔خاص طور سے اندھیری شب میں اکیلے جاتے وقت ایسا احساس ہوتا تھا جیسے کہ بس پیچھے سے کوئی آرہا ہے۔ کوئی پتہ کھڑکا، ہوا چلی تو بس خدشات بڑھ جاتے تھے لیکن بزرگ کہتے تھے کہ ایسے عالم میں کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ قضائے حاجت کے احساس کے وقت خواہ کتنی اندھیری شب ہو انسان کو کوئی خوف محسوس نہیں ہوتاوہ اکیلے کہاں سے کہاں نکل جاتا تھا ہاں مگر واپسی میں اس کی حالت غیر ہوجاتی تھی۔ایک بارکی بات ہے رات میں مجھے خود ضرورت محسوس ہوئی۔کوئی گیارہ بارہ بجے ہوں گے۔ چاندنی رات تھی۔ میں نے لوٹا لیا اوراللہ کانام لے کر نکل پڑا۔ اللہ غریق رحمت کرے بڑے بھائی حماد صاحب کو، ان کو پتہ چل گیا وہ بھی میرے پیچھے پیچھے نکل پڑے ۔ واپسی میں میں نے انھیں اپنا منتظر پایا۔ کہنے لگے مجھے کیوں نہیں بتایاجگایا۔قضائے حاجت کے لیے اس وقت عجیب وغریب حالت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ میں نے اپنے والد صاحب کوبارہا دیکھا اگر دن میں وہ قضائے حاجت کے لیے نکلتے تو اتنی دور نکل جاتے کہ کسی کام سے بھی آدمی اتنی دور کبھی نہ جائے۔
اس وقت لوگ نہ تو مالی اعتبار سے مضبوط تھے نہ ہی ایسی سماجی بیداری تھی کہ لوگ گھروں میں غسل خانوں اور ٹوائلٹ کا اہتمام کرتے۔ بلکہ دیہاتوں میں لوگوں کے پاس اس کا تصور ہی نہیں تھا۔ہمارے ایک ساتھی نے جب اپنے والد صاحب سے کہا کہ ہم لوگ چاہتے ہیں گھر میں ٹوائلٹ بنوایا جائے تو انھوں نے دیہاتی لہجے میں فرمایا’’سرؤو! یہیں کھیہو اور یہیں ہگیہو‘‘ یعنی یہیں کھاؤ گے اور یہیں پاخانہ کرو گے۔ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اور انھوں نے اتنی شدت سے اس کی مخالفت کی کہ اللہ کی پناہ! میں جب مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہوا تو پہلے سال کے بعد جب دوسرے سال ہم لوگوں کی سالانہ چھٹی ہونے والی تھی تو میں نے والد صاحب کو لکھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں میں چھٹیوں میں گھر آؤں تو آپ سب سے پہلے ٹوائلٹ بنوائیے ورنہ میں نہیں آؤں گا۔ میری دھمکی کا بڑا مثبت اثر ہوا۔گھر کے ایک کمرے کو تقسیم کیا گیا اور ٹوائلٹ بنوادیا گیا۔ اس کا سیپٹک ٹینک جب بن رہا تھا تو سارا گاؤں تماشہ دیکھ رہا تھا۔ بہر حال حماد صاحب نے مجھے خط لکھا کہ تمھارے لیے ٹوائلٹ بنوادیا گیا ہے۔ اب تم آرام سے آسکتے ہو۔ اور یہ ہمارے گاؤں لوہرسن بازار کی تاریخ کا ایک سنہرا حادثہ تھا۔ ہمارے گاؤں کی تاریخ میں سب سے پہلے ٹوائلٹ میری کوششوں سے میرے گھر میں بنایاگیا۔
آج تو مرکزی حکومت مودی صاحب کی قیادت میں سوچھ بھارت کی تحریک چھیڑے ہوئے ہے اور اتنی ساری اسکیمیں بنائی گئی ہیں کہ سرکاری خرچے پر گاؤں گاؤں میں اور گھر گھر میں ٹوائلٹ بنوائے جارہے ہیں۔یہ ایک مثبت اور قابل تعریف اقدام ہے۔ لوگوں کے پاس بھی مال ودولت کی کمی نہیں ہے۔ لوگ کما رہے ہیں کھارہے ہیں۔ کچے مکان پختہ ہورہے ہیں۔ سائیکلیں موٹر سائیکل میں بدل رہی ہیں۔ موٹر سائیکل ماروتی میں۔اور کاریں جہاز میں۔اکیسویں صدی میں پوری تہذیب کا سرنامہ ہی بدل رہا ہے۔ٹیکنالوجی نے اور ہی قیامت برپاکی ہوئی ہے۔ اکیسویں صدی بیسویں سے بہت مختلف ہوگی۔ تہذیب اور سوی لائیزیشن کی کایا پلٹ ہورہی ہے۔ اللہ محفوظ رکھے۔
در اصل کل میں نے ٹی وی کھولا تو ایک مووی آرہی تھی جس کا نام تھا ٹوائلٹ۔ میں نے تھوڑی دیر دیکھا تو بڑی دلچسپ لگی۔ اس کو دیکھ کر میرے ذہن کی اسکرین پران تمام حالات کی مووی چلنے لگی اور یہ سطریں صفحۂ قرطاس پر گویا خود بخود نمو پذیر ہوگئیں۔
اللہ بس باقی ہوس!!
بہت بہتر ڈاکٹر صاحب آپ نے گویا پوری تاریخ ہی نچوڑ دی ٹوائلٹ کی آڑ میں دیہاتی بزرگ کی بات میں جو نقطہ استدلال ہے اس کا لطف وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں جو گاؤں دیہات کی زبان سے واقف ہیں. مئو ناتھ بھنجن کے حوالے سے چائے کا ذکر بھی خوب رہا ماشاءاللہ. بہترین شکریے کے مستحق ہیں آپ