دینی مدارس کے مالی مسائل ووسائل

عبدالمعید مدنی تعلیم و تربیت

دینی مدارس کے مالی وسائل صدقات وعطیات ہیں۔ ان کا کوئی مستقل ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ پرانے اوقاف خرد برد ہوگئے، نئے اوقاف کیے نہیں جاتے اور اگر شرعی طورپر املاک کا وقفہ ہوتا ہے توان کو قانونی شکل نہیں مل پاتی ہے، یا پھرنگرانی کرنے والوں اور متولیوں کی ذاتی ملکیت بن جاتے ہیں۔ اوران کا استحصال ہوتا ہے۔
دینی مدارس کوہمیشہ اس کا خطرہ لاحق رہتا ہے کہ ان کا بجٹ پورا ہوگا کہ نہیں ہوگا، اداروں کے لیے سرمایہ اکٹھا کرنا کسی شریف وضع دار اورخوددار آدمی کے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ عیار شاطراورچاپلوس لوگوں کے لیے ادارہ کھولنا چلانا اورسرمایہ فراہم کرنا مال غنیمت کے حصول سے زیادہ پر کشش ہے۔ دین سے لگاؤ اورہمدردی کم ہوتی جارہی ہے حتی کہ دین پسند اصحاب ثروت کی خود پسندی اتنی بڑھ گئی ہے کہ جب تک کسی بھی چندہ کرنے والے سے اپنی بڑائی تسلیم نہ کروالیں اس وقت تک وہ کسی تعاون کے لیے تیا رنہیں ہوتے۔ لینے والوں کا حال برا۔ دینے والوں کا حال برا۔ اوراس عجیب رویے سے تعلیم وتعلم اور تربیت وتزکیہ کا کام از حد متاثر ہوتا ہے۔ اور اس سلسلے میں کسی طرح کی پالیسی ، لائحہ عمل اورنگرانی بھی نہیں ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ توہین علم وعلماء اور خرد بردکا خطرہ ہمیشہ لگا رہتا ہے۔شفافیت بہت کم نظر آتی ہے۔ ہرقدم پر ایک الجھن رہتی ہے ۔ اکثرایسا دیکھا گیا ہے کہ ایک جھوٹا فریبی اور چرب زبان زائد از امید سرمایہ فراہم کرلاتاہے مگرایک شریف مخلص انسان جس کی باتیں صحیح ہوتی ہیں اور ضرورتیں بھی درست وہ ناقابل التفات بنا رہتا ہے۔
یہ نہایت پیچیدہ مسائل ہیں ان پر دھیان دینے کی سخت ضرورت ہے ورنہ مدارس کے مالی مسائل بگڑ کر رہ جائیں گے اورفریبی بلاضرورت اپنی جیب بھرتے رہیں گے اوراس سے جوفساد بڑھے گا وہ الگ درد سراور وبال جان ۔
مالی وسائل ومسائل میں ایک اہم اورٹیڑھا مسئلہ دینی مدارس میں فیس وصولی کاہے۔ دنیاوی تعلیم کے حصول کے لیے فیس لینے دینے کا تصورتھا اورعصری اداروں میں فیس کا مسئلہ اتنا گمبھیرہوگیا کہ ہرطرف ایجوکیشن مافیا پیدا ہوگئی ہے، تعلیم کے نام پر ادارے قائم ہورہے ہیں اوران کے ذریعہ جیب تراشی ہورہی ہے اورتعلیم ساری دنیامیں بہترین نفع بخش تجارت بن گئی ہے۔ عصری خربوزوں کا رنگ دینی خربوزوں نے پکڑناشروع کردیاہے۔ اوردین کے نام پر ایسی اونچی فیس ہندوستان جیسے غریب ملک کے غریب مسلمانوں سے وصول کی جاتی ہے کہ اگر مفلوک الحال مسلمانوں کی کس مپرسی کا احساس ہو توشرم سے سرجھک جائے لیکن مفت خوری کی عادت اور وی آئی پی ذہنیت نے ساری حیاغیرت اور مروت کو ختم کردیا ہے اورایسے لوگوں کو کٹھورڈھیٹ بنادیا ہے۔ ایسے دین وتعلیم کے اجارہ دارمسٹروں کے دلوں میں یہودی قساوت بھرگئی ہے۔ اوردین کے نام پر کمائی کرکے ایسے جیتے ہیں جیسے یہ پیرس لندن واشنگٹن اور تل ابیب کے مکین ہیں ایسے دجاجلہ کسی عزت واحترام کے مستحق نہیں ہیں۔ ہندوستان کے طول وعرض میں ایسے دین وایجوکیشن مافیا کی تعداد کچھ کم نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے ان کی دیکھا دیکھی بہت سے مولویوں نے اپنے مدارس وجامعات میں فیس وصولی کا نظام رائج کردیا ہے۔ اورایسی سختی سے فیس وصول کرتے ہیں جیسے ظالم حکمرانوں کے ظالم کارندے ٹیکس وصولتے ہیں ۔ بہت سے دانشور قسم کے لوگ پہلے بھی اس کی وکالت کرتے تھے کہ مدارس میں تعلیم مفت نہیں دی جانی چاہیے۔ ایسی باتیں وہ زیادہ کرتے ہیں جو عصری دانش گاہوں میں کام کرتے ہیں اورعموما بے عملی اورکاہلی کے اعلی نمونہ ہوتے ہیں اوراس کے سبب ان کے جسم ودماغ پر غفلت اور بے حسی کی دبیز تہیں ہوتی ہیں۔
دینی مدارس میں فیس وصولی کا تصوردرست نہیں ہے مخصوص حالات میں استثنائی شکلیں ہوسکتی ہیں۔ ان کے مسائل کی اصل حالت یہی ہے کہ وہاں فیس وصولی کی گنجائش نہیں ہوتی۔
اولا: اسلام میں تعلیمی پالیسی یہ ہے کہ تعلیم خریدنے بیچنے کی چیز نہیں ، اس ماحول سے دوررکھ کر اس کا فیضان عام ہوناچاہیے اورکم ازکم دینی تعلیم کے حصول میں مادی منفعت کا سوال نہیں ہونا چاہیے اورعصری تعلیم میں بھی زیادہ سے زیادہ نوپرافٹ نولاس کی حالت ہوسکتی ہے۔
دوم: دینی تعلیم کے لیے قوم صدقہ خیرات اور عطیات دیتی ہے اوراس کا بہترین مصرف غریب طلباء کی کفالت اوران کی تعلیم ہے۔ یہ معلوم ہے کہ عربی مدارس میں عموما غریب طلباء ایتام اورمفلس ہی آتے ہیں اگران پر فیس مسلط کردی جائے توآہستہ آہستہ ادارے ویران ہوجائیں گےاوردینی تعلیم کا رجحان کم ہوجائے گا۔
ان حقائق کو نظر انداز کرکے مختلف بہانوں سے فیس وصولی کو منفعت بخش تجارت بنالیا گیا ہے۔ جو لوگ اپنی اولاد کی دینی تعلیم کاخرچ برداشت کرسکتے ہیں ان کو آمادہ کرکے ان سے خوراکی لی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر عام قاعدہ بنادیا جائے کہ داخلہ فیس ، تعلیم فیس، امتحان فیس، گیم فیس، سکن فیس بجلی فیس امتحان فیس میگزین فیس وصول کیا جائے تویتامی مفلسین اورفقراء پر ناقابل معافی ظلم ہے اورآخری درجہ کی تنگ دلی اور سنگ دلی ہے۔
تعلیم کی حالت نہیں سدھر تی ، اساتذہ کی تنخواہ نہیں بڑھتی ہے۔ کھانے کا نظم درست نہیں ہوتا لیکن فیس بڑھتی جارہی ہے۔ آفس فرنیچررسل ورسائل ضیافت ، ٹیلیفون گاڑی مہمان خانہ ذمہ داروں کے ٹرانسپورٹ ذاتی ضروریات ، رشوت او رہدایا وتحائف پر خرچہ بڑھتا جارہا ہے اوراس کا بوجھ طلباء کے غریب والدین کے کندھوں پر لادا جارہا ہے۔ اگر بے جااخراجات کو کم کردیا جائے تومدارس کے اوپر اتنا بوجھ نہیں لدے گا کہ اسے مدرسے والے اٹھانہ سکیں۔
اہل حدیث مدارس کے دامن پہلے سے تنگ ہیں ۔ آدھے سے زیادہ علماء اہل حدیث غیر اہل حدیث اداروں سے فارغ ہوتے ہیں ۔ تعلیمی مانگ زیادہ ہے پوری نہیں ہوتی ۔ اوپر سے فیس وصولی کہ طلباء اس کا بوجھ نہ اٹھاسکیں اس کا انجام کیا ہوگا کہ اب زیادہ سے زیادہ طلباء دوسرے مسالک کے مدارس میں جائیں گے اور بگڑیں گے ۔ موجودہ صورت حال میں جماعت اہل حدیث کا علمی ثقافتی ودعوتی دائرہ سمٹے گا اورہمارے اندر دوسروں کو جگہ بنانے میں کامیابی ملے گی۔ اس کے اثرات بدظاہر ہونے لگے ہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اصحاب مدارس اس حساس پہلوپر دھیان دیں گے اورکیا فقراء مساکین اورایتام کی حالت پرر حم کھائیں گے؟ دینی ومالی امور ملی امانت ہیں۔ ملت کے احتیاجات کو دیکھ کر ہی انھیں چلایا جانا چاہیے آنکھ بند کرکے من مانی نہیں چلانا چاہیے اوراگر بجٹ میں خسارہ ہو تواسے قوم کے سامنے پیش کیا جائے۔ یا پھرایسا جتن کیا جائے کہ بڑے مدارس کا بجٹ خسارے سے دوچار نہ ہو ۔ مگر لطف تویہ ہے کہ بڑے مدارس ہی میں فیس وصولی کا فیشن نکلا ہے۔ چھوٹے مدارس اب بھی کشادہ دلی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
یہ گذارش ہم اس لیے کررہے ہیں کہ بہت سے پریشان حال طلباء اوران کے سرپرستوں نے اپنا حال زار بیان کیاہے اور ذمہ داروں تک اپنی آوازپہنچانے کی فرمائش کی ہے۔ اورخود میرا احساس ہے کہ اگر دینی مدارس میں عام فیس وصولی کا سلسلہ چل پڑا توپھر جماعت کا زبردست علمی ودینی خسارہ ہوگا اورعلماء خطباء اورمدرسین کی بڑی قلت ہوگی اوراس کا فائدہ دیگرلوگوں کو ملے گا صحیح دعوت دین کا دائرہ سمٹتا چلا جائے گا۔ اب بھی اسی دہلی میں کئی اہل حدیث مساجد ہیں ایسے علماء کو امام وخطیب کا منصب مجبوراسونپاگیا ہے جو صحیح دعوت کا حق ادا نہیں کرسکتے ، اس کے برعکس وہ منحرف دعوت کا اہتمام کریں گے اورلوگوں کے عقیدے میں بگاڑ آئے گا۔
دینی مدارس میں فیس وصول کرنے والے ذمہ داروں سے ہماری درد مندانہ التجا ہے کہ دعوت حقہ کے نفع ونقصان پرخصوصی توجہ دیں اوردور اندیشی کا ثبوت دیں۔ وقتی مالی فوائد کو مت دیکھیں اللہ تعالیٰ سبھی خدمت دین میں لگے اداروں کو سرسبزوشاداب رکھے۔ اورعلماء وذمہ داران مدارس کے نیک اعمال کو قبول فرمائے اورسب کی حالت سدھاردے ۔
کسی کام میں کلی بگاڑآنے سے پہلے بگاڑکی علامتیں ظاہرہوئی ہیں۔ کلی بگاڑکی دیگرعلامتوں میں سے اہم علامت مدارس میں فیس وصولی کا عمومی نظام ہے۔ یہ دراصل مادہ پرستی کی انتہائی قبیح شکل ہے۔ اگراس کو روا رکھا گیا تودن بدن دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جائے گی اوربروقت جوعلماء خطباء اور مفتیان کرام کی قلت کی شکایتیں کی جارہی ہیں اس کی شکایت مزید بڑھ جائے گی۔ اور اس قلت کا فائدہ دوسروں کو جائے گا۔ امید کہ مسئلے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا اورصرف مادی منفعت اورغریب نوازی کے جذبے کو بھی کام میں لایا جائے گا۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
محمد أشرف شاكر

ماشاء الله!!
تقبل الله جهودكم شيخنا الغالي!!
مع مرور الأيام صار يقدمون أهل المدارس المنفعة المادية، على المنفعة العلمية!!
وقل قليل من المدارس التى تؤدي واجباتها التربويه تجاه الطلاب!!
ولولا نخالف الأمور لكان العلم نسيا منسيئا!
والعياذ بالله!

Rasheed salafi

لمحۂ فکریہ ہے،افسوسناک مقام ہے،سطر سطر صحیح ہے،فیس بھی بھاری بھرکم عصری اداروں کے طرز پر،اب دینی تعلیمگاہیں بھی تجارت گاہیں بنتی جارہی ہیں،شیخ کا پیغام عام ہونا چاہیے اور خداوندان مدارس کےسماعتوں تک پہونچنا چاہئیے ابھی تو کچھ نہیں لیکن اس کے اثرات بد بعد میں ظاہر ہونگے۔