(وفات:۷؍فروری۲۰۲۱ء)
جامعہ سلفیہ بنارس کی مرکزی لائبریری پہلے وہاں ہوا کرتی تھی جہاں اب ندوۃ الطلبۃ کا کتب خانہ قائم ہے۔
ہمارا بچپن جامعہ میں ہی گزرا ہے، کھیل کے دوران کبھی ہمارا گزر لائبریری کی راہداری سے ہوتا تو پردۂ سماعت سے پڑھنے کی آواز ٹکراتی کبھی جھروکے سے پڑھنےوالوں کی ایک جھلک بھی دیکھ لیتا، عرصہ دراز تک صبح و شام یہی معمول رہا استاد محترم علی حسین سلفی رحمہ اللہ نیز فضیلۃ الاستاذ عبدالوہاب حجازی حفظہ اللہ کسی کتاب پر نظر گڑائے ہوئے ہیں۔
ہمیں تو کھیل سے سروکار تھا پڑھنے پڑھانے سے کیا علاقہ!
ادراک و شعور تب ہوا جب استاد محترم فضیلۃ الشیخ عبد الوہاب حجازی حفظہ اللہ سے ہمیں سنن ترمذی پڑھنے کا حسین موقع ملا۔
دوران مطالعہ اکثر شروحات ترمذی کی ضرورت ہوتی۔ اسی زمانے میں مطبوعات جامعہ میں ایک عمدہ اضافہ ہوا اس کا ایک نسخہ والد محترم کے حصے میں بھی آیا جو ہمارے حق میں بڑا نفع بخش ثابت ہوا۔
یہ اضافہ تھا جائزۃ الأحوذي کا جس سے مضامین حدیث کی گرہیں کھلنے لگیں اور درس ترمذی کی افادیت بھی دوچند ہو گئی۔
تب علم ہوا کہ لائبریری میں شیخین محترمین اس قدر تندہی ، دلجمعی اور عرق ریزی کے ساتھ جائزۃ الأحوذی کے مراجعہ و تصحیح کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔
ثناء اللہ مدنی رحمہ اللہ سے براہ راست تو شرف تلمذ حاصل نہیں البتہ سنن ترمذی کے حوالے سے کم از کم بالواسطہ استفادہ کا اوسر ملا۔فدوی نےجائزۃ الأحوذی کے علاوہ گاہے بگاہے فتاوی ثنائیہ سے بھی خوشہ چینی کی ہے ۔اس طرح کے مستفیدین شمار نہیں کیے جا سکتے جو یقیناً ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہوں گے۔
صاحب تصانیف کثیرہ ہونے کے ساتھ تا حیات فریضۂ تدریس سے بھی وابستہ رہے۔
علمی دنیا میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ درس و تدریس کے پہلو بہ پہلو کوئی قابل ذکر کارنامہ بھی انجام پاجائے۔ع
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
سرحدی فاصلوں کے باوصف بر صغیر کے علمی حلقوں میں آپ کو خصوصی شناخت حاصل تھی۔ہر چند کہ مرحوم کی علمی سرگرمیوں کا دائرہ بڑا وسیع تھا اس ہیچمداں کی کیا وقعت کہ آپ کی علمی خدمات کا جائزہ لے تاہم جائزۃ الأحوذی کو قبول عام کی جو سند حاصل ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔
اس کام کی شدید ضرورت و اہمیت کو ہر طالب حدیث دوران مطالعہ بالیقین محسوس کرے گا تاہم ایک اقتباس کے ذریعہ اس کی طرف اشارہ کر دینا سود مند ہوگا۔
ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ جائزۃ الأحوذي کے عرض ناشر میں رقمطراز ہیں:
وكان الأمل يراود العلماء في تلخيص هذا الشرح العظيم(تحفة الأحوذي للمباركفوري) حتى يسهل التناول، ويتيسر الإنتفاع، وتقل المؤنة. ونحمد الله تعالى على أنه وفق أحد المتخرجين في الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة، وأحد المدرسين في الجامعة السلفية بفيصل آباد، ألا وهو الشيخ ثناء الله المدني بالإسهام في هذا المجال، وبالقيام بهذه المسؤولية العظيمة.
وشكري وتقديري……..للشيخين : عبد الوهاب الحجازي، وعلي حسين السلفي (رحمه الله) من مدرسي الجامعة ، على ما بذلا من العناية بمراجعة الكتاب وتصحيح ملازمه ، فجزى الله تعالى الجميع خير الجزاء .(ص:۴)
علمائے ربانیین کا سفر آخرت جاری ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوا جا رہا ہے اے اللہ! تو ان کی لغزشوں کو درگزر فرما اور ان کی خدمات کو قبول فرمالے۔ آمین
ماشاء اللہ
استاد محترم
اللہ جزاۓ خیر دے آمین