شیخ الحدیث مفتی حافظ ثناء اللہ مدنی رحمہ اللہ:حالات و علمی خدمات

حمیداللہ خان عزیز سوانح

آہ۔۔۔علم حدیث کے بحر بے کراں،مخدوم العلماء والصلحاء، یادگار اسلاف شیخ الحدیث مولانا مفتی ثناءاللہ مدنی وفات پاگئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون
قدرت حق نے آپ کو خوبیوں کا مرقع بنایا تھا۔جذبہ صادق کے ساتھ حدیث کی خدمت وصیانت کے آپ زندگی بھر کوشاں رہے۔حضرت شیخ الحدیث کی رحلت پورے عالم اسلام کے لیے صدمہ ہے۔ع
آسمان را حق بود گر خوں ببارد برزمین
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ دور حاضر کے محدث،جلیل القدر عالم دین اور مبلغ تھے کہ جنھوں نے افکار وتصورات کی دنیا اور قوم وملت کی زندگی میں علم وعمل اور روحانیت کا انقلاب برپا کر دیا تھا۔آپ کی رحلت سے دعوت وتبلیغ اور علم وعرفان کی وہ شمع فروزاں ہو گئی جس کی روشنی میں علوم ومعارف کا ہر گوشہ منور تھا۔وہ روشن ضمیر عالم دین تھے،جن کی نور بصیرت سے تاریک دماغوں کو انوار حق میسر آیا۔
حضرت محدث العصر کی رحلت سے اسلاف اہل الحدیث کی ایک اہم تاریخی اور روحانی یادگار مٹ گئی۔ان کے علمی،حدیثی،قرآنی اور اصلاحی کارناموں سے ایک دنیا نے استفادہ کیا۔فقہ وفتاوی،علوم ومعارف،دعوت وتبلیغ اور وعظ ونصیحت الغرض وہ ہر میدان کے شناور تھے۔
آئیے اس مرد جلیل کے حالات وکوائف زندگی اور علمی خدمات کی طرف چلتے ہیں۔
شخصیت:
پورا قد،چوڑا چہرہ،کشادہ پیشانی،نکھری ہوئی گندمی رنگت،سفید لباس اور سر پر بڑا سا رومال،کم گو،نرم خو اور علم وعمل کا خوش نما پیکر۔یہ ہیں مولانا مفتی حافظ ثناءاللہ مدنی رحمہ اللہ۔
سلسلہ نسب اور خاندان کا تعارف:
حضرت حافظ صاحب کا مختصر سلسلہ نسب یہ ہے: ثناءاللہ بن عیسی خاں بن اسماعیل خاں۔
ضلع قصور کا ایک مقام کلس کے نام سے ہے۔یہیں فروری۱۹۴۰ء میں پیدا ہوئے۔اس خاندان کا آبائی گاوں موضع سرہالی کلاں ہےجو قصور کامضافاتی علاقہ ہے۔شیخ کی ابتدائی تعلیم وتربیت سرہالی کلاں میں ہوئی۔یہ گاوں قدیم زمانے سے علمائے حدیث کی آمد کا مرکز رہا ہے۔ گزرے وقتوں میں یہاں سالانہ جلسے اور کانفرنسیں بھی منعقد ہوتی رہی ہیں۔روپڑی علمائے حدیث خصوصیت سے دعوت وارشاد کے سلسلے میں تشریف لاتے اور کئی کئی روز قیام فرماتے۔
محدث العصر مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی اور ان کے بھتیجے سلطان المناظرین حضرت مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی اور مولانا محمد اسماعیل روپڑی رحھمم اللہ تعالی کی اس علاقے میں کافی دینی وتبلیغی خدمات ہیں۔لوگ ان کے اسلوب تقریر سے بہت متاثر تھے اور بار بار انھیں بلایا کرتے تھے۔ ۱۹۵۳ء میں اس علاقے میں ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا،جس میں روپڑی علماء کے علاوہ لکھوی حضرات بھی تشریف لائے۔یہ ایک مشہور تاریخی جلسہ تھا۔ان دنوں تحریک ختم نبوت جوبن پر تھی اور تمام علما کی گفتگو کا موضوع سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عقیدہ ختم نبوت بن گیا۔حضرت شیخ الحدیث اس وقت تیرہ برس کی عمر میں تھے۔وہ اس جلسے میں شریک تھے۔اور وہ ان دنوں کی بہت سی باتیں بیان فرمایا کرتے تھے۔
تعلیم وتربیت:
شیخ مدنی رحمہ اللہ کی دینی تعلیم کا آغاز حفظ قرآن مجید سے ہوا۔ان کے گاوں سرہالی کلاں کے ایک نیک سیرت بزرگ حاجی عبدالعزیز مرحوم کی علماء سے بہت قربت تھی۔اکثر علماء ان کے پاس ہی آ کر ٹھہرتے تھے۔انھوں نے حضرت مدنی رحمہ اللہ کے والد کو ترغیب دی کہ اپنی آخرت سنوارنے کے لیے ثناءاللہ کو دینی تعلیم پڑھاو۔یہ سادہ ترین دور تھا لوگوں کو اپنی آخرت کی فکر بھی رہتی تھی۔وہ اپنے جگر گوشوں کی تربیت کے لیے انھی نیک خصال بزرگوں کی صحبت میں داخل کرتے۔شیخ رحمہ اللہ کے والد نیک اور متقی انسان تھے، آثار صالحیت ان کے چہرے مہرے سے ہویدا تھے۔انھوں نے اپنے بیٹے کی دینی تعلیم کے حصول کے لیے رضامندی ظاہر کردی۔چنانچہ حاجی عبدالعزیز مرحوم انھیں لے کر سیدھے جامعہ اہل حدیث ،دالگراں چوک لاہور آگئے اور حافظ صاحب کو محدث العصر مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔انھیں جامعہ میں داخل کر لیا گیا۔یہ ۱۹۵۴ء کی بات ہے۔اب ان کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔
حضرت محدث روپڑی رحمہ اللہ سے دینی تعلیم کا آغاز:
شیخ گرامی نے حضرت محدث روپڑی سے درس نظامی کی ابتدائی کتب اور ترجمہ قرآن وغیرہ بھی پڑھا۔اللہ نے ان پر ایسا فضل کیا کہ جامعہ اہل حدیث کے توسط سے ان کا داخلہ مدینہ یونیورسٹی میں ہوگیا۔وہاں انھوں نے عالم اسلام کے جلیل القدر شیوخ سے کسب فیض کیا۔
آپ کی اوائل دینی تعلیم وتربیت سے لے کر مدینہ یونیورسٹی داخلہ اور بعد ازاں وہاں سے فراغت تک کی دلربا کہانی مورخ اہل حدیث حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے قلم سے ملاحظہ فرمائیے:
’’حافظ ثناءاللہ کو مختلف علوم کی ابتدائی کتابیں میزان الصرف،میزان منشعب،صرف میر،زرادی،نحو میر،ھدایۃالنحو، ابواب الصرف،مرقات وغیرہ حافظ محدث روپڑی رحمہ اللہ نے پڑھائیں۔ابواب الصرف کے ابواب بھی وہ خود ہی سنتے تھے۔یہ حافظ ثناءاللہ مدنی کی خوش نصیبی ہے کہ بالکل ابتدائی درجات کی درسی کتابیں اتنے بڑے محدث سے پڑھنے کی سعادت ان کے حصے میں آئی۔
قرآن مجید کا ترجمہ بھی حضرت حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ سے پڑھنا شروع کیا۔ترجمہ قرآن حضرت حافظ صاحب نے سورة ق سے پڑھانے کا آغاز کیا اور فرمایا:میں نے اپنے استاذ مکرم حضرت امام عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ سے اسی مقام سے پڑھنا شروع کیا تھا۔ترجمہ پڑھاتے وقت حافظ صاحب روپڑی کی آنکھوں سے عام طور پر آنسو جاری رہتے۔
حافظ ثناءاللہ مدنی ابتدا سے ہی علمی ذوق رکھتے تھےاور اس کے ساتھ اللہ نے عمل کی توفیق مرحمت فرمائی اور ذہانت کی نعمت بھی بارگاہ الہی سے میسر آئی۔اس طرح وہ رفتہ رفتہ جلد ہی استاذ عالی قدر کے رنگ میں رنگ گئےاور علمی تحقیق وکاوش ان پر غالب آ گئی۔انھوں نے حضرت حافظ صاحب سے بہت استفادہ کیا اور ان سے خوب فیض یاب ہوئے۔جامعہ قدس اہل حدیث میں۱۹۶۳ء میں انھیں اور ان کے بعض ہم جماعت طلباء کو حضرت حافظ عبداللہ روپڑی اور حافظ عبدالقادر روپڑی کی مساعی جمیلہ سے مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کی اطلاع موصول ہوئی تو یہ لوگ انتہائی خوش ہوئے۔
جامعہ قدس سے ان کی روانگی کے موقع پر خاص تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا،جس میں کئی معروف علمائے کرام نے شرکت فرمائی۔حافظ عبدالقادر صاحب کراچی تک بذریعہ ریل ان حضرات کے ساتھ گئے۔حافظ ثناءاللہ صاحب نے کلیۃالشریعۃ میں داخلہ لیا اور وہاں کا نصاب مکمل کر کے سند فراغت لی۔واپس وطن آ کر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کے امتحانات دیے اور دونوں امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کی۔‘‘(چمنستان حدیث:۵۷۸-۵۷۹)
جلیل القدر اساتذہ حدیث:
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ نے پاکستان اور مدینہ منورہ میں جن جید اساتذہ کرام کے حضور زانوئے ادب تہہ کرنے کی سعادت حاصل کی،وہ ہیں:
(۱)حضرت حافظ عبداللہ روپڑی
(۲)حضرت حافظ محمد محدث گوندلوی
(۳)شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہ الفلاح
(۴)شیخ الحدیث مولانا عبدالغفار حسن
(۵)مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز
(۶)شیخ علامہ ناصر الدین البانی
(۷)شیخ الاسلام علامہ ابومحمد عبدالحق محدث الہاشمی
(۸)شیخ محمد امین الشنقیطی
(۹)شیخ شیبۃالحمد
(۱۰)شیخ عبدالمحسن العباد
(۱۱)شیخ حماد انصاری
(۱۲)شیخ محمد بن ارمان علی -رحمہم اللہ
تدریسی خدمات:
حضرت محدث العصر رحمہ اللہ نے مدینہ یونیورسٹی سے سند فراغت کے بعد اپنے آبائی گاوں سرہالی کلاں میں درس وتدریس کا آغاز کیا۔اس دوران انھیں اپنے عظیم استاذ حضرت محدث روپڑی رحمہ اللہ کا ایک مکتوب ملا،جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ وہ مدینہ یونیورسٹی سے جو علم پڑھ آئے ہیں،دیگر لوگوں کو بھی اس سےمستفید کریں اور اس کے لیے ان کی مادر علمی جامعہ اہل حدیث لاہور منتظر ہے۔شیخ مرحوم فرماتے تھے کہ میں نے اپنے استاذ کے مکتوب کو حکم سمجھ کر ان کی خدمت میں جامعہ اہل حدیث آگیا۔
حضرت نے جامعہ میں مسند تدریس بچھا کر طلبائے حدیث کو علم حدیث سے مستفید کرنا شروع کردیا۔یہ بارگاہ الہی کی طرف سے انھیں بہت بڑا اعزاز ودیعت ہوا تھا کہ جس مسند پر ان کے استاذ حدیث تشریف رکھتے تھے اور وہ ان کے سامنے بیٹھ کر حدیث کا درس لیتے تھے،آج اسی مسند پر بیٹھ کر انھیں درس حدیث ارشاد فرمانے کا موقع میسر آیا۔
شیخ گرامی کا سلسلہ تدریس جاری تھا کہ ۱۹۷۲ء میں انھیں سعودی عرب کی طرف سے جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں مبعوث کر دیا گیا۔یہاں انھیں مدیرالتعلیم اور شیخ الحدیث کے منصب سے نوازا گیا۔
پھر ایک وقت آیا کہ وہ ملک پاکستان کے بڑے ادارے جامعۃالاھور الاسلامیہ لاہور میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز کیے گئے۔اس ادارے کے بانی مبانی اسلاف کی نشانی فضیلۃالشیخ حضرت حافظ عبدالرحمان مدنی مدظلہ ہیں۔جن کی علمی خدمات تاریخ اہل حدیث کا ایک نادر باب ہے۔اللہ تعالی شیخ محترم کو صحت والی زندگی عطا فرمائے۔پیرانہ سالی کے باوجود درس حدیث کے سلسلہ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا ثناءاللہ مدنی رحمہ اللہ نے لاہور میں اپنا ایک بہترین علمی ادارہ قائم کیا،جس کا نام ’’انصار السنہ‘‘ رکھا۔جس میں وہ درس نظامی سے فراغت پانے والے یا منتہی طلباء کو رسوخ فی العلم کے لیے تحریر وتدریس کی تربیت دیتے تھے۔یہ بہت اہم علمی نوعیت کی سرگرمیاں ہیں جس کی اللہ رب العزت کی بارگاہ سے انھوں نے توفیق پائی۔
تصنیفی خدمات:
حضرت مرحوم تاحیات علمی نوعیت کے کاموں میں مصروف رہے۔فقہ وفتاوی اور شروحات حدیث آپ کا خاص موضوع تھا۔جس طرح آپ کی زندگی متنوع کمالات اور جمالات کا مجموعہ تھی،اس طرح آپ کی علمی وتحقیقی تصانیف بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے تنوع کا ایک جہان لیے ہوئے ہیں۔حدیث،فقہ،تاریخ وآثار سمیت مختلف موضوعات کو انھوں نے اپنی تصانیف کا موضوع بنایا ہے۔اور جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا،اس کا حق ادا کر دیا۔ان کے خامہ گہر بار سے جو کتب منصہ شہود پر آئیں ذیل میں ان کے نام ملاحظہ فرمائیں:
۱۔جائزةالاحوذی
یہ جامع ترمذی کی عربی زبان میں شرح ہے جو تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔
۲۔صحیح بخاری کی عربی شرح
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح البخاری کی عربی شرح لکھ رہے تھے۔گزشتہ کئی سالوں سے اس پر کام جاری تھا۔اللہ معلوم یہ رفیع الشان کام کس درجے پہنچا تھا۔امید واثق یہی ہے کہ اس کی تکمیل ہو چکی ہو گی۔
۳۔فتاوی ثنائیہ مدنیہ:
حضرت محدث العصر کو فقہ وفتاوی پر خصوصی دسترس حاصل تھی۔ان کے سینکڑوں فتاوی جات ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث،ہفت روزہ ’الاعتصام‘ اور ماہنامہ ’محدث‘ میں شایع ہو چکے ہیں۔
’تنظیم اہل حدیث‘ اور ماہنامہ محدث میں۱۹۷۰ء سے ان کے فتاوی اور فقہ پرمضامین کی اشاعت شروع ہوئی۔جب کہ’الاعتصام‘میں۱۹۹۰ء سے ان کے تسلسل کےساتھ فتاوی جات چھپنا شروع ہوئے۔اسی طرح جماعت اہل حدیث کے دیگر جراید میں بھی ان کے فتاوے اور فقہی نوعیت کے مقالات شایع ہوئے۔
فتاوی میں ان کا منہج قرآن وحدیث اور آثار سلف کے حوالوں سے ماخوذ نظر آتا ہے۔
ان کے سینکڑوں فتاوے جو مختلف رسائل وجراید میں منتشر تھے،انھیں شیخ مرحوم کے ایک تلمیذ خاص،عالم دین مولانا عبدالشکور مدنی حفظہ اللہ نے کافی محنت کے بعد چار مبسوط ،جامع اور ضخیم جلدوں میں جمع کر دیا ہے۔ابھی مزید جلدوں پر کام جاری ہے۔
مرتب فتاوی صاحب علم شخصیت ہیں۔مدینہ یونیورسٹی کے فاضل ہیں۔انھوں نے اپنے ادارے دارالارشاد، ۲۱۴-بی سبزہ زار سکیم لاہور کی طرف سے اسے شایع کیا ہے۔یعنی مرتب بھی خود اور ناشر بھی خود۔
’فتاوی ثنائیہ مدنیہ‘ کی پہلی جلد کا تعلق عقاید سے ہے اور وہ بڑے سائز کے۸۸۸ صفحات پر مشتمل ہے۔
مرتب جناب مدنی صاحب نے اس کی تدوین میں کمال مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ہر جلد میں الگ الگ ہر مسئلے کا عنوان بنا کر ابواب بندی کی ہے۔احادیث وآثار کی تخریج بھی کر دی ہے۔بہترین پروف خوانی کے ساتھ یہ فتاوی منظر عام پر آیا ہے۔یہ خالصتا علمی نوعیت کا موسوعہ ہے۔اس قسم کے کاموں کی ذہنی مشقت صرف وہی جان سکتے ہیں،جو اس میدان کے شناور ہیں۔اللہ تعالی مرتب فتاوی جناب مولانا عبدالشکور صاحب کو اپنی بارگاہ سے خصوصی اجر سے نوازے کہ انھوں نے ایک مفید علمی کام عنداللہ اجر کی امید پر کیا ہے۔
اس فتاوی کی پہلی جلد پر تفصیلی مقدمہ حضرت ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ نے اپنے گوہر بار قلم سے رقم فرمایا ہے۔مقدمہ کیا ہے،علم وادب کا سیل رواں۔
تلامذہ:
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ پچاس برس کے لگ بھگ درس حدیث ارشاد فرماتے رہے۔اس دوران ان سے سینکڑوں اہل علم نے استفادہ کیا۔ان کے تمام تلامذہ کا احاطہ تو ممکن ہی نہیں۔چند حضرات کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
فضیلۃ الشیخ مولانا قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ،فضیلۃ الشیخ مولانا قاری محمد صہیب احمد میر محمدی حفظہ اللہ ،فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد حفظہ اللہ،فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالخالق مدنی حفظہ اللہ،پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد اسرائیل فاروقی حفظہ اللہ،ڈاکٹر حافظ حسن مدنی حفظہ اللہ،ڈاکٹر حافظ انس مدنی حفظہ اللہ،ڈاکٹر حافظ محمد حمزہ مدنی حفظہ اللہ،ڈاکٹر محمد انور حفظہ اللہ (اسلامیہ یونیورسٹی،اسلام آباد)،ڈاکٹر عبدالقادر گوندل حفظہ اللہ،ڈاکٹر طاہر محمود حفظہ اللہ،ڈاکٹر حافظ مسعود عبدالرشید اظہر حفظہ اللہ، پروفیسر حافظ طاہر اسلام عسکری حفظہ اللہ ،مولانا حافظ شفیق الرحمان مدنی حفظہ اللہ،مولانا سیف اللہ خالد رحمہ اللہ۔
سفر آخرت:
حضرت حافظ صاحب اسی برس کے تھے۔چند دن قبل اپنے گھر میں گر گئے اور ہڈی ٹوٹ گئی۔جس کے علاج کے لیے لاہور کے ہسپتال میں داخل رہے۔اس دوران یکسوئی سے نماز پڑھتے رہے اور معمول کے مطابق اوراد وظائف بھی جاری رہے۔کل ان کا آپریشن تھا کہ اچانک بے ہوشی میں چلے گئے۔اور آج (۷؍فروری۲۰۲۱) دن ۱۲ بجے خالق حقیقی سے جا ملے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی حضرت شیخ الحدیث مفتی حافظ ثناءاللہ مدنی کی کامل مغفرت فرمائے۔ان کی بشری لغزشوں سے صرف نظر فرمائے۔ اور ان کے پسماندگان،تلامذہ ومنتسبین کو صبر جمیل بخشے۔اللهم اغفر له و ارحمه و عافه

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Md Ibrahim Sajjad Taimi

انا لله وانا اليه راجعون!

عبدالرحيم بنارسي

ما شاء اللہ بہت خوب!
١- شیخ الحدیث ثناء اللہ مدنی رحمہ اللہ کی دینی و علمی حیات و خدمات کا بھرپور تعارف اللہ جزائے خیر دے آمین۔
٢- جامعہ سلفیہ بنارس سے شائع شدہ جائزة الأحوذي چار جلدوں پر مشتمل ہے۔