یعقوب بن السِّکِّیْت اور ان کی کتاب ’اصلاح المنطق‘

عبدالرحمن شہاب الدین شادی تعارف و تبصرہ

ابن السکیت کی پیدائش ۲۴۴ھ میں ہوئی۔ ان کا شمار ان علماء عرب میں ہوتا ہے جو عربی زبان وادب اور شعر میں یکتائے زمانہ سمجھے جاتے تھے۔ اسی طرح وہ ان چنیدہ راویوں میں سے ہیں جو عربی زبان کو ریگستان اور دیہات میں رہنے والے عرب قبائل سے سنتے تھے، پھر اس کی روایت کرتے تھے۔ ان کی روایت معتبر سمجھی جاتی تھی۔
ابن سکیت نے کسب معاش کی خاطر علم نحو کی تعلیم کی طرف توجہ دی۔ ابن عمرو الشیبانی، فراء اور ابن الأعرابی سے عربی سیکھی اور اصمعی اور ابو عبیدہ سے روایت کی۔ یہاں تک کہ زبان وادب کے امام بن گئے۔ ابن اعرابی کے بعد ان جیسا کوئی عالم نہ تھا۔ وہ قرآن کریم اور کوفی نحو کے عالم تھے، لغت وشعر میں بہت مہارت رکھتے تھے۔ وہ عباسی خلیفہ متوکل کے بہت قریبی تھے، ان کے بچے کو زبان وادب کی تعلیم دیتے تھے۔
انھوں نے کئی کتابیں لکھیں اور ہر ایک اپنی مثال آپ ہے۔ کتاب الأضداد، کتاب اصلاح المنطق، کتاب القلب والابدال، کتاب ’الألفاظ‘ ان کی قیمتی وعلمی تخلیقات پر بین دلیل ہیں۔
خطیب بغدادی لکھتے ہیں:’’ابو سہل نے کہا: میں نے مُبَرِّد سے سنا ہے وہ کہتے تھے میں نے اہل بغداد کے لیے یعقوب ابن سکیت کی کتاب ’اصلاح المنطق‘ سے اچھی کوئی کتاب نہیں دیکھی۔‘‘
ابن السکیت نے اس کتاب کے ذریعہ ایک ایسی بیماری کا علاج کیا ہے جو اس وقت معاشرے میں تیزی سے سرایت کر رہی تھی۔ وہ ہے عربی زبان کے استعمال میں غلطی کرنا، اس کے الفاظ کو رد وبدل کرکے پیش کرنا، عربی زبان میں اس کو ’داء اللحن والخطأ فی الکلام‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اسی لیے ابن السکیت نے اس کتاب میں ان ابواب کو شامل کیا ہے جن کے ذریعہ عربی زبان کی اکثر چیزوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
اس کتاب کی اہمیت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کی تحقیق عبد السلام محمدہارون اور احمد محمد شاکر جیسے پایے کے محقق نے مل کر کی ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر علامہ عبد العزیز میمنی نے اسے حرفا حرفا یاد کیا تھا اور اسے ان کتابوں کے ضمن میں بیان کیا ہے جن کو انھوں نے ’ کتب اعجبتنی‘جیسے شاہکار مقالہ میں بیان کیا ہے۔
بہت سے ادباء اورنقّادوں کے لیے کتاب ’اصلاح المنطق‘ کا موضوع سمجھنا مشکل ہوتا تھا۔ اس لیے وہ اس کو منطق وفلسفہ کی کتاب سمجھتے تھے۔
اس تعلق سے ایک دو لطیفہ اس کے مقدمہ میں بیان کیا گیا ہے:
۱۔عربی زبان وادب پر تاریخ لکھنے والے ایک مؤرخ نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ: ابن السکیت نے علم منطق وفلسفہ پر ایک کتاب لکھی۔
۲۔ایک فلسفہ کے استاد کو کتاب کا عنوان بہت بھایا، اس نے جلد ہی یہ کتاب خرید لی۔ بیچ راستہ میں کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھا جب اس کی نظر عناوین پڑی تو مسکرایا، پھر کتاب اس کے گمان کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس پر ہنسی غالب آگئی۔
یہ کتاب قدیم زمانہ ہی سے معروف ہے۔ لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور بہت سے لغویوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی، چنانچہ کسی نے اس کی شرح کی تو کسی نے اس کی تلخیص کی اسی طرح کسی نے اس پر تعلیق چڑھائی۔
بعد میں جس نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا، اس کے لیے یہ کتاب سب سے اہم مرجع کی حیثیت رہی؛ چنانچہ ابن قتیبہ اپنی کتاب ’ادب الکاتب‘، عبد الرحمن بن عیسیٰ الھمذانی اپنی کتاب ’الألفاظ الکتابیہ‘، ابومنصور ثعالبی اپنی کتاب ’فقہ اللغہ‘ اور ابن سیدہ اپنی کتاب ’ مخصص‘ میں اسی کتاب کے نقش قدم پر چلے۔
محقق عبد السلام محمدہارون نے مقدمہ میں بیان کیا کہ ابن قتیبہ الدینوری نے اپنی کتاب ’أدب الکاتب‘ میں اکثر ابواب کو ابن السکیت کی دو کتاب اصلاح المنطق اور الألفاظ الکتابیہ سے لیا ہے لیکن عجیب وغریب بات یہ ہے کہ ان دو کتابوں کا کچھ ذکر تک نہیں کیا اور نہ ہی ان کی کوئی تعریف کی ہے۔
یہ کتاب عربی لغت وقاموس لکھنے والوں کے لیے بھی کافی اہمیت کی حامل رہی‌۔ اسی لیے اس کے بعد جن لوگوں نے بھی معجم پر کتابیں لکھیں اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ جمهرة اللغۃاز ابن دريد، تاج اللغۃ صحاح العربيۃ از جوهری، تهذيب اللغۃ از ازهری، المصباح المنير از فيومی، القاموس المحيط از فيروز آبادی، لسان العرب از ابن منظور اور تاج اللغۃ از زبيدی کے لیے یہ کتاب اہم مصدر رہی۔
اس کتاب کو اس کی اہمیت کے پیش نظر عربی زبان سے دلچسپی رکھنے والے ضرور پڑھیں۔ اس سے جہاں عربی زبان وادب میں تمکن حاصل ہوگا وہیں اہم فن ’ کتب فی لحن العامہ‘ سے متعلق واقفیت ہوگی۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
سعد

مبارکباد!