فصل نفرت کی اگائی جس نے ہندوستان میں
ہم قصیدے لکھ نہیں سکتے ہیں اس کی شان میں
رفتہ رفتہ باد صر صر نے سبھی جھلسا دیے
گل کوئی پہلے کے جیسااب کہاں گلدان میں
واسطہ اردو سے کوئی ہے نہ ہے تہذیب سے
آ گئے ہیں کیسے کیسے لوگ ادبستان میں
ان کا صدقہ ہی میسر ہو مرے اشعار کو
خوبیاں ہیں جو کلام حضرت حسان میں
زندہ جاوید ازل سے ہیں فقیران جہاں
کھو گئے جبکہ امیر وقت قبرستان میں
آ گیا جس وقت اس کا حجرہ دل میں خیال
مشک و عنبر سی مہک محسوس کی لوبان میں
تھا امیر شہر کو گھیرے مصاحب کا ہجوم
مرگئی گھٹ کے صدا لاچار کی ایوان میں
آپ میری زندگی میں آ گئے تو یوں لگا
مل گئیں شبنم کی بوندیں گویا ریگستان میں
جوں نہیں کیوں رینگتی ہے باغباں کے کان پر
بلبل بے داد ہے نالہ کناں بستان میں
فصل تو ساری کی ساری قرض میں جاتی رہی
بے بسی آئی ہے ساری حصہ دہقان میں
ہم نئے شعراء سمجھتے تھے جنھیں ان کے خمارؔ
ہیں کئی اشعار شامل میر کے دیوان میں
سبحان الله بہت خوب