ویلنٹائنس ڈے کی حقیقت اور اس کا حکم

عبدالاحد احسن جمیل آل عبدالرحمن عقائد

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين. أما بعد:
عربی زبان میں اس کو عید الحب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس لیے سب سے پہلے یہ واضح ہوجائے کہ عید کسے کہتے ہیں۔
عید کی تعریف
عید کا لغوی معنی:
عربی لغت میں عید ہر اس دن کو کہتے ہیں جس میں لوگوں کا اجتماع ہو اور اس کی اصل عاد یعود سے ہے یعنی بار بار لوگوں کا اس دن جمع ہونا۔
اور عید اس دن کو کہتے ہیں جس دن خوشی یا غمی لوٹ کر آئے، اور یہ اصل میں عود تھا، واو کے ساکن اور اس کے پہلے کسرہ (زیر) ہونے کی وجہ سے یاء ہوگیا۔ (۱)
کہا جاتا ہے کہ اس کو عید اس کے ہر سال لوٹنے اور بار بار واقع ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔
اس کو عید اس لیے بھی کہتے ہیں کہ اس دن میں مسلمانوں کی خوشیاں لوٹ آتی ہے۔
امام خطابی فرماتے ہیں کہ یہ دونوں معانی قریب اور یکساں ہیں۔ (۲)
عید کا اصطلاحی معنی:
عید اپنے اصطلاحی معنی کے اعتبار سے لغوی معنی کے بالکل موافق ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عید میں مختلف چیزیں جمع ہوتی ہیں: جیسے وہ دن جو لوٹ کر آئے جیسے عید الفطر، عید الاضحی اور جمعہ کا دن، وہ دن جس میں لوگ جمع ہوتے ہوں، یا وہ عبادت یا عادت جو نسلوں سے چلی آرہی ہو، کسی خاص جگہ کے ساتھ بھی عید خاص ہوسکتی ہے اور عام بھی ہو سکتی ہے۔ ان ساری چیزوں کو عید کے نام سے جانا جاتا ہے ۔(۳)
حب کی تعریف
حب کی لغوی تعریف:
حب کی اصل عربی لغت میں حاء باء اور باء تین لفظی ہے، جو دو معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ان میں سے ایک ہے کسی چیز کو لازم پکڑنا اور جم جانا، یہ أحبہ سے مشتق ہے جس کا معنی ہوتا ہے کسی چیز کو لازم پکڑنا، اور حب یہ بغض (عداوت) کے برعکس ہے۔ (۴)(۵)(۶)
حب کی اصطلاحی تعریف:
حب اپنے اصطلاحی معنی کے اعتبار سے لغوی معنی کے بالکل موافق ہے۔
عید الحب یعنی ویلنٹائنس ڈے کی تعریف:
کسی نے اس کی کوئی مستقل تعریف ذکر نہیں کی ہے لیکن ہم عید اور حب کی تعریف پر غور کرنے کے بعد یہ کہہ سکتے ہیں:
ھو: الیوم الذی یتبادل فیہ الناس الحب المزعوم،
یعنی وہ دن جسے لوگ یوم محبت کے طور پر مناتے ہوں۔
ویلنٹائنس ڈے کی حقیقت:
جب ہم نے عید و حب اور محبت کی عید تینوں کے مفہوم کو سمجھ لیا تو اب ایک نظر اس ویلنٹائنس ڈے کی حقیقت پر بھی ڈالتے چلیں تاکہ کسی کے دل میں ذرا سا شک بھی اس کے خرافات اور حرام ہونے کے سلسلہ میں نہ رہ جائے۔
اس کی اصل قدیم رومن تہذیب کی طرف لوٹتی ہے جو ۱۵ فروری کو (لوبرکیلیا) نامی ایک عید مناتے تھے جس میں وہ لوگ اپنے معبود (لرکس) کو تحفہ تحائف پیش کرتے تھے تا کہ وہ ان کے جانوروں کو بھیڑیوں کا شکار بننے سے محفوظ رکھے، اور یہ عید ان کے حساب سے اس زمانہ میں موسم بہار میں پڑتی تھی، اور پھر تیسری صدی میلادی میں یہ عید ۱۵ فروری سے بدل کر ۱۴ فروری کو ہوگئی اور اس وقت کے رومن امبراطوری حاکم (کلایدس ثانی) نے فوجیوں کے لیے شادی کو حرام قرار دیا تھا، اس لیے کہ شادی اور فیملی ان کو جنگی کارروائیوں سے مشغول کر دے گی۔
تو ویلنٹائن نامی ایک شخص نے اس حکم کی بغاوت کی اور وہ چوری چپکے شادی کرواتا تھا جو پکڑا گیا، پکڑے جانے پر اس کو سزائے موت ملی، تو جب اس کو ایک جیل میں رکھا گیا تو اس جیل کے جیلر کی لڑکی سے اس کو محبت ہوگئی اور بالآخر اس کو ۱۴ فروری سنہ ۲۷۰ عیسوی کو پھانسی دے دی گئی۔ اس دن سے اس کا لقب ’’مقدس‘‘ پڑ گیا جو اس کے پہلے قسیس کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس لیے کہ ان لوگوں کا گمان تھا کہ اس نے نصرانیت پر اپنی روح فدا کردی اور محبت کرنے والوں کے حق میں کھڑا ہوا۔ تو نوجوان اس دن گلاب کے پھول محبت کے کارڈ وغیرہ تقسیم کرتے تھے جو یہ دن منائے جانے کی مختلف شکلیں ہیں۔ بلکہ امریکہ اور یورپ وغیرہ میں اس دن کا خاص اہتمام کرتے ہوئے اس دن میں زنا کو عام کیا جاتا ہے اور مدارس وعام اجتماع کی جگہوں پر حمل کو روکنے والی اشیاء فراہم کی جاتی ہے۔ گویا یہ دن زنا کے طور پر ان لوگوں کے یہاں منایا جاتا ہے، اب ایک مسلمان اس گندی عادت اور رسم میں کیسے داخل ہوسکتا ہے یا اس کو خود کے لیے کیسے جائز قرار دے سکتا ہے۔
اس دن کو منانے کا حکم:
جب ہم نے اس دن کی حقیقت کو جان لیا تو اب ہمارے اوپر یہ بھی واضح ہوگیا کہ سوائے حرام ہونے کے اس کا کوئی اور حکم نہیں ہوسکتا۔
اس کی حرمت کا ثبوت:
اس کی حرمت قرآن وسنت اجماع اور عقل سے ثابت ہے۔
۱۔ قرآن سے دلیل: اللہ تعالی فرماتا ہے:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
(۷)
وجہ استدلال: اللہ تعالی نے کسی بھی قسم کی اپنائیت کفار سے رکھنے سے منع کیا ہے چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو، اور اس طرح ان کی تہواروں میں مشارکت عین اپنائیت ہے جو قرآن کے نص سے منع ہے۔
۲۔ سنت سے دلیل:
عن أنس رضي الله عنه، قال: قدم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- المدينة ولهم يومان يلعبون فيهما، فقال: “ما هذان اليومان؟ ” قالوا: كنا نلعب فيهما في الجاهلية، فقال رسول الله –: “إن الله قد أبدلكم بهما خيرا منهما: يوم الأضحى، ويوم الفطر”(۸)

أنس سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلى الله عليه وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ مدینہ والوں کے دو دن ہیں جن میں وہ کھیل کود کرتے ہیں، تو نبی نے پوچھا یہ دو دن کیا ہیں، تو لوگوں نے کہا کہ یہ دو دن ہیں جن میں ہم جاہلیت میں کھیلا کرتے تھے، تو نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے تمھارے ان دو دنوں کو ان سے اچھے دو دنوں سے تبدیل کردیا ہے جو کہ عید الأضحی اور عید الفطر ہے۔
وجہ استدلال: نبی صلى الله عليه وسلم نے اپنے صحابہ کے لیے یہ وضاحت کردی کہ اللہ نے تمھیں ان دو دنوں کے بدلہ ان سے اچھے دو دن دیے ہیں جو تمھارے لیے عید کا دن ہے، تو چونکہ نبی صلى الله عليہ وسلم نے دو دنوں کو مسلماںوں کے لیے محدود کردیا ہے ان کے علاوہ کسی بھی دن میں کسی بھی طرح کا تہوار منانا حرام ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: اس حدیث سے کفار کی تہواروں میں مشارکت کا منع ہونا اس میں خوشی منانا اور ان سے مشابہت اختیار کرنے کی ممنوعیت ثابت ہوئی۔ اور اس میں امام نسفی رحمہ اللہ نے شدید موقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ: جس کسی نے ان تہواروں میں کسی کافر کو ایک انڈا بھی تحفہ میں دیا اس دن کی تعظیم میں وہ کافر ہوگیا۔ (۹)
۳۔ اجماع سے دلیل: اس بات پر علماء کا اجماع ہوچکا ہے کہ مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے صرف دو تہوار ملے ہیں اور انھی کا منانا جائز ہے ان کے علاوہ کسی بھی قسم کا تہوار مسلمانوں کے لیے منانا حرام ہے۔
۴۔ عقل سے دلیل: سارے لوگ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ تہوار کسی بھی قوم کا شعار ہوتا ہے جو ان کی تہذیب اور دین کا ترجمان ہوتا ہے تو جب یہ دن نصرانیوں کا ہے تو ایک مسلمان اس کو کیسے اپنا سکتا ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عید بھی من جملہ اعتبار سے انھی شریعت طریقہ اور اصولوں میں سے ہے جس کو اللہ تعالی نے اپنے فرمان: لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھاجا (۱۰) میں بیان کیا ہے جیسے قبلہ اور روزہ وغیرہ ہے۔
ان کی عیدوں میں شریک ہونے اور ان کے دوسرے دینی شعائر میں شریک ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ عید سب سے اہم چیز ہے جس سے دینی رسم ورواج کا پتہ چلتا ہے، تو ان کے تہواروں میں شرکت یہ سب سے اہم کفریہ اعمال میں اور سب سے واضح علامت کفر میں شریک ہونا ہے، اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اس طرح کی چیزوں میں شرکت انسان کو من جملہ طور سے کافر بنا دیتی ہے۔ (۱۱)
اس کی حرمت کے اسباب:
جو بنیادی باتیں قرآن وسنت کی روشنی میں اوپر مذکور ہوئی ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اس کی حرمت کی تین وجوہات ہیں:
۱۔ شریعت اسلامیہ کا انکار اور اس میں بدعت کا ایجاد جبکہ اللہ کا فرمان ہے:
الیوم اکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دینا کہ آج کے دن ہم نے تمھارے لیے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمھارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کرلیا۔
نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (۱۲)
جس نے میرے دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔
۲۔ کفار سے مشابہت جبکہ شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہے، اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:
من تشبہ بقوم فہو منہ (۱۳)
جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ انھی میں سے ہے۔
۳۔ کفر میں داخل ہوجانے کا ذریعہ ہے جبکہ اسلام نے ایسے سارے ذرائع مسدود کر دیے ہیں جو انسان کو کفر کے قریب بھی کردے۔ اس کی سب بڑی مثال عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کی زندگی میں ملتی ہے کہ ان کو جب خبر ملی کہ لوگ اس پیڑ کے نیچے نماز پڑھ رہے ہیں جس کے نیچے نبی صلى الله عليه وسلم نے اپنے صحابہ سے بیعت لی تھی (بیعت رضوان) تو انھوں نے اس پیڑ کو ہی کٹوادیا۔(۱۴)
یہ ساری وجوہات ہیں جو ہم کو کفار کے تہواروں میں شریک ہونے سے روکتی ہیں چاہے شریک ہونے کی کوئی بھی وجہ ہو اور چاہے اس میں ان سے مشابہت کرنا مقصود نہ ہو، اس لیے کہ شریعت کا مسلمہ قاعدہ ہے جس چیز کی بنیاد باطل پر ہو وہ باطل ہے۔
مسلمان اس باطل چیز میں کیوں شریک ہوتے ہیں جبکہ اسلام نے ہمیں دو دن تہوار خود دیے ہیں، اور ہم یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات سراسر حقیقی محبت اور سچی الفت پر مبنی ہے جس کے ذریعہ ہماری زندگی مکمل ہوتی ہے۔ اسی حقیقی محبت کی طرف امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہی محبت ہے جو اصل دنیا کی بنیاد ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
فبالمحبة وللمحبة وجدت الأرض والسموات، وعليها فطرت المخلوقات، ولها تحركت الأفلاك الدائرات، وبها وصلت الحركات إلى غاياتها، واتصلت بداياتها بنهاياتها، وبها ظفرت النفوس بمطالبها، وحصلت على نيل مآربها، وتخلصت من معاطبها، واتخذت إلى ربها سبيلاً، وكان لها دون غيره مأمولاً وسؤلا، وبها نالت الحياةَ الطيبة وذاقت طعم الإيمان لما رضيت بالله ربا وبالإسلام دينًا وبمحمد صلى الله عليه وسلم رسولاً (۱۵)

گزشتہ نصوص سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام کا مقصد ہے مسلمان کو اس بات پر ابھارنا کہ وہ اپنی ایک الگ پہچان بنائے اور وہ ایک قائد کی حیثیت سے زندگی گزارے۔
اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اسلام کا مقصد ہے ان تمام راستوں کو مسدود کردینا جو ایک مسلمان کو کفر کی دہلیز تک پہنچانے والے ہیں، یا اس کے اندر کسی طرح کا کوئی اثر ہی آئے، یا وہ کفار کی طرف تھوڑا بھی مائل ہو یا ان کے کسی طرح کے کفریہ عمل سے یا عقائد اور عادات سے رضا مندی کا اور اپنے اسلامی عقائد و نظریات سے تنازل اختیار کرے تاکہ وہ ان کو راضی کرے اور وہ اس کی تعریف کریں یا وہ اس کو فائدے پہنچائیں، اور یہ ساری چیزیں ان کے تہواروں یا ان محفلوں میں جو ان کے عقائد اور شریعت پر مبنی ہیں موجود ہیں، تو گویا جو ان میں شرکت کرے وہ ان کے کفریہ عقائد عادات و اطوار اور ان کی شریعت کو شریعت اسلامیہ سے افضل اور بہتر قرار دیتا ہے گرچہ اس کے ذہن میں یہ چیزیں نہ آئیں، اور یہ عین کفر ہے، اس لیے کہ اسلام کا مسلمہ قاعدہ ہے:
ما یفضی إلی محرم فہو حرام، فالعمل المباح إذا تضمن فسادا حرم
(جو چیز حرام کی طرف لے جائے وہ حرام ہے، تو وہ عمل جو درأصل مباح ہیں اگر اس میں فساد کا اختلاط ہوجائے تو وہ حرام ہے)
ہمارے دین کا مسلمہ قاعدہ یہ بھی ہے کہ:
من اعتقد أن هدي غير النبي صلى الله عليه وسلم أكمل من هديه، أو أن حكم غيره أحسن من حكمه، كالذين يفضلون حكم الطواغيت على حكمه، فهو كافر
یعنی جو یہ اعتقاد رکھے کہ نبی صلى الله عليه وسلم کے علاوہ کسی کا طریقہ آپ کے طریقہ سے افضل ہے یا کسی کا حکم آپ کے حکم سے افضل ہے جیسے وہ لوگ ہیں جو شیطانوں کے حکموں کو آپ کے حکم سے افضل قرار دیتے ہیں تو وہ کافر ہے۔
اسی لیے صحابہ کرام نے اس کی طرف خصوصی توجہ دی اور لوگوں کو اس سے ڈرایا، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ شرط لگا دی تھی اور صحابہ کرام کا اس پر اتفاق ہوگیا تھا کہ جو کفار دیار اسلام میں جزیہ دے کر رہتے ہیں اپنے شعار کا اور اپنے تہواروں کا اظہار نہ کریں۔ اور فرمایا:
إیاکم ورطانۃ الاعاجم وأن تدخلوا على المشركين في يوم عيدهم في كنائسهم
یعنی تم عجم کی زبان سے اور ان کے تہواروں کے دن ان کے کنائس میں داخل ہونے سے بچو ۔ (۱۶)
وعنه رضي الله عنه قال: اجتنبوا أعداء الله في عيدهم۔
اللہ کے دشمنوں سے ان کی عیدوں میں بچو۔ (۱۷)
وعن عبدالله بن عمر ومثله عن عبدالله بن عمرو رضي الله عنهما: من بنى ببلاد الأعاجم فصنع نيروزهم ومهرجانهم، وتشبه بهم حتى يموت وهو كذلك يحشر معهم يوم القيامة ۔ (۱۸)

یہی وہ عقیدہ ہے جس پر نبی نے اپنے صحابہ کی تربیت کی تھی اور ان لوگوں نے اپنے بعد والوں کو سکھلادیا، اس لیے اس وقت اسلام پر کسی کو زبان دراز کرنے کی جرأت نہ تھی کیوں کہ مسلمانوں کی ایک پہچان تھی ۔
اور ایک قاعدہ جو ان مسائل کے احکام بیان کرنے سے منسلک ہے وہ یہ ہے کہ:
’’أن مضاھاۃ المشروع من التشریع، والتشریع للہ وحدہ‘‘ یعنی شریعت کی مخالفت شریعت بنانا ہے اور یہ کام صرف اللہ کا ہے ۔ اور ان تہواروں کے اندر شریعت اسلامیہ کی مخالفت کھلے طور سے موجود ہے ان کے کفار کے عقیدہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے، چاہے وہ کرسمس کا تہوار ہو یا یوم پیدائش کا تہوار ہو یا نیا سال منانا ہو یا ویلنٹائنس ڈے ہو، کیونکہ یہ سب ان کے عقیدہ ’’ثالث ثلاثہ‘‘سے متعلق ہونے سے اور اللہ تعالی ان کے اس عقیدہ سے بری ہے۔
یہاں جو چیز تعجب خیز ہے وہ یہ کہ سنہ۱۹۶۹م میں اس دن کے منانے سے گرجا گھروں نے منع کردیا تھا کیونکہ یہ چیزیں دین اورحسن خلق کے منافی ہیں ۔ اس کے باوجود ہم مسلمانوں میں سے بہت سارے لوگوں کو پاتے ہیں کہ وہ اس تہوار کو مناتے ہیں اور اس کی تعظیم کرتے ہیں اس میں تحفہ تحائف تقسیم کرتے ہیں اور اباحیت میں مشغول رہتے ہیں اور شرم وحیا کو پامال کردیتے ہیں ۔ واللہ المستعان
اسی طرح ایک اور قاعدہ جو ان مسائل کے احکام بیان کرنے سے منسلک ہے وہ یہ کہ:
’’ما لم یکن فی عھد النبوۃ من متعلقات الدین، مع توفر الدواعی، وعدم المانع، فھو محظور‘‘۔
یعنی جو چیزیں نبی صلى الله عليہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھیں اور وہ دین میں داخل نہیں ہوئیں ان کے مستلزمات کے موجود ہوتے ہوئے اور کسی مانع کے نہ ہونے کے باوجود تو وہ چیز اس کے بعد حرام ہی ہوگی ۔
اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ ان میں سے اکثر عیسائی تہوار نبی صلى الله عليہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھے، اس کے باوجود نہ تو آپ صلى الله عليہ وسلم نے خود کیا نہ کسی کو کرنے کی اجازت دی بلکہ مزید ممنوع قرار دیتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ:
’’إن لکل قوم عید، وھذا عیدنا أھل الإسلام‘‘(۱۹)
ہر قوم کے لوگوں کے تہوار ہوتے ہیں اور یہ ہم مسلمانوں کا تہوار ہے ۔ تو اب یہ بات چودھویں رات کے چاند سے بھی زیادہ واضح ہوگئی کہ یہ اور اس طرح کے سارے تہوار اسلام کے اندر حرام ہیں۔ اسلام نے ہمیں دو تہوار دیے ہیں اور انھی دونوں کے ساتھ ہم مقید ہیں ۔
ویلنٹائنس ڈے منانے کے طریقے:
ویلنٹائنس ڈے منانے کے مختلف طریقے ہیں جیسے سرخ رنگ کا کپڑا پہننا، گلاب کا پھول لگانا اور اس کو تقسیم کرنا، ایک دوسرے کو ہدیہ پیش کرنا اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینا وغیرہ، یہ سارے ویلنٹائنس ڈے منانے کے طریقے ہیں اور ان سب کو محبت کے اعلی مظاہر میں شمار کیا جاتا ہے اور جو ایسا نہ کرے اس کو محبت کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔
میں یہاں ہر اس مسلمان سے جو ویلنٹائنس یا دوسری غیر اسلامی تہوار مناتا ہے ایک سوال کرناچاہتا ہوں کہ وہ اپنے اس عمل کے ذریعہ کس بات کا ثبوت دینا چاہتا ہے ؟
کیا وہ ان کے دین کو پھیلانا چاہتا ہے یا یہ بتلانا چاہتا ہے کہ ہمارا دین ناقص ہے، یا وہ ان کو خوش کر کے اپنے رب کی ناراضگی کا سودا کررہا ہے، یا وہ ان کے دینی شعار کو ظاہر کرنا چاہتا ہے، یا وہ ان سے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتا ہے اپنے رب ودود کو ناراض کرکے، یا وہ کیا چاہتا ہے، کیا اس کو پتہ ہے کہ یہ ساری چیزیں ملت اسلامیہ سے باہر نکال دے گی ۔ کیا کبھی ایسے کسی شخص نے کسی یورپی عورت سے اس کی تنگ اور کڑوی زندگی کی کہانی سنی، اس کی تحقیر اس کی اہانت اس کی ذلت کے بارے میں اس سے سوال کیا، جس پر نہ تو باپ رحم کرتا ہے نہ بھائی نہ بیٹا اور نہ ہی دوست اگر وہ خود کے کھانے کا انتظام خود نہ کرے تو اس کو کھلانے والا نہیں ہوگا بلکہ وہ کہیں کسی جگہ بلا پرسان حال پڑی ہوئی ہوگی اس کے حقوق کو پامال کردیا جائے گا۔
ایسے لوگوں سے ہم زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھنا چاہتے ہیں جو خود کے گھر کی دیکھ بھال نہیں کرسکتے، وہ لوگ جو خود کی اصلاح نہیں کرسکتے وہ ہمیں کیا دے سکتے ہیں، ہم کس انتظار میں ہیں۔
اے پیارے مسلمان! کیا تمھارے لیے کافی نہیں ہے کہ تمھارے رب نے فرما دیا:
ورضیت لکم الإسلام دینا(۲۰)

اور کیا تمھارے رب کا یہ فرمان کہ:
ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون(۲۱)
تمھارے لیے مشعل راہ نہیں ہے۔
اے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو! کیا تمھارے نبی صلى الله عليہ وسلم کا فرمان کہ اللہ نے ان سب سے اچھے دو دن تمھیں تہوار منانے کے دیے ہیں(۲۲) تمھارے لیے کافی نہیں ہیں، کیا تمھارے لیے یہ بھی کافی نہیں ہے کہ اسلام نے تمھیں باعزت بنایا ہے اور جہاں کہیں بھی رہو تم مبارک ہو یہ بھی تمھارے لیے ناکافی ہے جب کہ اسلامی تعلیمات ساری کی ساری حقیقی محبت اور سچی الفت پر مبنی ہیں، تو پھر یہ دین سے اعراض کیوں جبکہ ہمارے دین کا شعار ہی محبت اوراچھا اخلاق ہے اور اس کی قیمت شرع ہے اور اس کی زینت حیا ہے اور اس کا ساتھی وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے ۔
اللہ تعالی ہماری اصلاح کرے اور ہمیں سیدھے راستہ کی رہنمائی کرے اور ہمیں حق کو سمجھنے حق پر قائم رہنے اور برائی کو پرکھنے اور اس سے دور رہنے کی توفیق عطا کرے۔

مراجع
۱۔تهذيب اللغة للأزهري:۳/۸۴
۲۔غريب الحديث للخطابي: ۱/۹۶
۳۔اقتضاء الصراط المستقيم لابن تيمية:۱/۲۴۱
۴۔معجم مقاييس اللغة لابن فارس:۲/۲۵
۵۔النهاية في غريب الحديث لابن الأثير:۱/۳۲۷
۶۔تهذيب اللغة للأزهري: ۴/۸
۷۔المجادلة:۲۲
۸۔سنن أبي داود:۱۱۳۴، مسند أحمد:۱۹/۶۵، حديث:۱۲۰۰۶( والحديث صححه العلماء)
۹۔فتح الباري شرح صحيح البخاري:۲/۴۴۲
۱۰۔الحج:۶۷
۱۱۔اقتضاء الصراط المستقيم لابن تيمية:۱/۵۲۸
۱۲۔صحيح البخاري: (معلقا)، صحيح مسلم:۱۷۱۸
۱۳۔سنن أبي داود:۴۰۳۱(والحديث بمجموع طرقه حسن)
۱۴۔الطبقات الكبرى لابن سعد:۲/۷۶
۱۵۔روضة المحبين ونزهة المشتاقين:ص۳
۱۶۔مصنف عبدالرزاق:۱/۴۱۱، حديث:۱۶۰۹
۱۷۔السنن الكبرى للبيهقي:۹/۳۹۲، حديث:۱۸۸۶۲
۱۸۔المصدر السابق: حديث۱۸۸۶۳
۱۹۔صحيح البخاري:۹۵۲، صحيح مسلم:۸۹۲
۲۰۔المائدة:۳
۲۱۔آل عمران:۱۰۲
۲۲۔تقدم تخريجه

آپ کے تبصرے

3000