نکاح میں تاخیر کے چار بڑے اسباب

شہاب الدین کمال سماجیات

زبان اور شرمگاہ کے جائز استعمال سے انسان بہت سارے کبائر گناہوں سے اپنے دامن کو بچا لیتا ہے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے زبان و شرمگاہ کی حفاظت پر جنت کی نوید سنائی ہے اور حفاظت کے طریقہ کار سے بھی آگاہ فرمایا ہے۔
نوجوانوں کو مخاطب کرکے آپ ﷺ نے فرمایا:
یا معشرَ الشَّبابِ من استطاعَ منكم الباءَةَ فليتزوَّجْ، فإنَّهُ أغضُّ للبصرِ، وأحصنُ للفرجِ
(متفق علیہ) اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرے۔ کیوں کہ نکاح نگاہ کو جھکائے رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔
جنسی خواہش کی تسکین کا جائز اور بہترین ذریعہ محض نکاح ہی ہے۔ اس کے علاوہ سارے ذرائع ناجائز اور حرام ہیں۔
اسلام نے نکاح کو بے حد آسان بنایا ہے، لمحے بھر میں انسان عقد کرکے اپنی عفت کی حفاظت اور ایمان کی تکمیل کرسکتا ہے۔ لیکن ہم نے شادی بیاہ کو اس قدر مشکل بنا دیا ہے کہ اللہ کی پناہ!
سن بلوغت کو پہنچ کر انسان عقد کی راہ میں کئی طرح کے مسائل سے نبردآزما ہوتا ہے۔ ان گتھیوں کو سلجھانے میں نوجوان اپنی خواہشات کا گلا مروڑتا ہے یا پھر غلط طریقے سے جنسی آسودگی حاصل کرتا رہتا ہے۔
نکاح کی راہ میں رخنہ ڈالنے والی کئی ریت رسمیں ہیں۔ ان سب کا سدباب ہونا چاہیے لیکن چار چیزیں ایسی ہیں جن کا نکاح کو مشکل ترین بنانے میں بڑا ہاتھ ہے۔
(۱)غربت اور تنگ دستی:
اس کو پیر پر نہ کھڑے ہونے سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ شیطان مفلسی کا خوف دلا کر نکاح سے روکے رکھتا ہے اور بے حیائی کو سجا سنوار کر پیش کرتا ہے، نوجوان اس کے دام میں پھنس کر اپنی جوانی داغ دار کر بیٹھتا ہے۔ جبکہ اللہ عزوجل نے ناداری اور مفلسی کے باوجود نکاح کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:
وَأَنكِحُوا۟ ٱلۡأَیَـٰمَىٰ مِنكُمۡ وَٱلصَّـٰلِحِینَ مِنۡ عِبَادِكُمۡ وَإِمَاۤىِٕكُمۡۚ إِن یَكُونُوا۟ فُقَرَاۤءَ یُغۡنِهِمُ ٱللَّهُ مِن فَضۡلِهِۦۗ وَٱللَّهُ وَ ٰ⁠سِعٌ عَلِیمࣱیعنی
تم میں سے جو مرد و عورت کنوارے ہوں ان کا نکاح کردو۔ اور اپنے نیک بخت غلام، لونڈیوں کا بھی عقد کرو۔ اگر وہ غریب و مفلس بھی ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انھیں مالدار بنا دے گا، اللہ کشادگی اور علم والا ہے۔
اس لیے محض غربت اور تنگ دستی کے سبب نکاح میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے، نبیﷺ فرماتے ہیں: ’’پاکدامنی کی غرض سے جو بندہ نکاح کرتا ہے اللہ اس کی مدد فرماتا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی:۱۶۵۵)
(۲)جہیز :
عقد و نکاح کی تاخیر میں جہیز کا بھی بڑا اہم رول ہے۔ خواہ جہیز کا مطالبہ لڑکے والوں کی جانب سے ہو یا لڑکی والے جہیز دینے پر مصر ہوں اور اسے بخوشی دینے سے تعبیر کریں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جہیز سماج و معاشرے کی طعنہ و تشنیع سے اپنی بچی کو محفوظ رکھنے کی غرض سے دیتے ہیں یا شہرت طلبی کی خاطر۔ اور اس کا ذمہ دار کوئی ایک نہیں ہے بلکہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔
اس وبا کا کتاب و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اس کا تدارک از حد ضروری ہے۔
(۳)مہر :
یہ مرد پر واجب ہے اور بہت زیادہ قیمتی مہر کی کوئی فضیلت نہیں ہے البتہ بہترین مہر وہ ہے جس کی ادائیگی شوہر پر آسان و سہل ہو۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’خیر الصداق ایسرہ‘‘ یعنی بہترین مہر وہ ہے جس کی ادائیگی آسان ہو۔(صحیح الجامع الصغیر :۳۲۷۹)
کسی بھی نفع بخش چیز کو بطور مہر مقرر کیا جاسکتا ہے خواہ اس میں دینی فائدہ ہو یا دنیوی۔ لوہے کی انگوٹھی اور قرآن کی تعلیم کو بھی مہر بنانا حدیث سے ثابت ہے۔ لیکن ہم مہر کو ناک کا مسئلہ بنا کر اپنی استطاعت سے بڑھ کر انتظام کرتے ہیں۔ اور تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔
(۴)ولیمہ:
ولیمہ میں اسراف و تبذیر سے کام لیا جاتا ہے۔ولیمہ کے نام پر دولت طوعا و کرہا اس قدر ضائع کی جاتی ہے کہ اللہ کی پناہ!
ہمارے علاقوں میں ولیمہ میں دعوت نہیں دی جاتی، احسان چکایا جاتا ہے۔ جس نے آپ کو کھلایا تھا اگر آپ نے انھیں انوائٹ نہیں کیا تو دشمنیاں مول لینی پڑتی ہیں۔ ولیمہ کرتے وقت انسان اپنی جیب نہیں دوسروں کی پیشانیاں دیکھتا ہے۔
رشتہ داریاں، دوستیاں اور تعلقات کو بچانے کے لیے اپنی پہنچ سے ادھک لوگوں کو انوائٹ کرکے قرض کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ جبکہ ولیمہ بے جا تکلفات کا نام نہیں ہے، حسب توفیق کسی بھی کھانے پینے کی چیز سے ولیمہ کیا جا سکتا ہے۔ کھجور اور ستو جیسی معمولی چیز سے بھی ولیمہ کرنا ثابت ہے۔
عرض مدعا یہ ہے کہ اسلام نے نکاح کو آسان ترین بنانا ہے تو اسے اپنی لالچ، انا اور رسم و رواج کی بھینٹ چڑھا کر مشکل ترین بنائے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
اللہ ہمیں صحیح فہم عطا فرمائے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000