فرد و قوم کی پستی کے دو بنیادی اسباب

عبدالمعید مدنی سماجیات

کسی فرد اور قوم کی پستی و زوال کے بنیادی اسباب دوہیں (۱) شعور کا فقدان (۲) ضمیر کی موت۔ جب شعور کا فقدان ہوتا ہے توفکری اجتہادی اورعلمی صلاحیتیں ختم ہوجاتی ہیں یاروایتی انداز میں باقی رہتی ہیں۔اورجب ضمیر مرجاتا ہے تواخلاقی وایمانی قدریں، اخلاقی وایمانی خصائص اور امتیازات ختم ہوجاتے ہیں اور فرد انفرادی سطح پر بے وقعت، گردراہ، غیر مفید اوربے ثمربن جاتاہے۔ اورقوم اجتماعی سطح پر رسوا، زوال پذیر اور انبوہ بن جاتی ہے اس کے اندر روح حیات پائی ہی نہیں جاتی ۔ زندہ قوموں کا ٹھوکر بننا اس کا مقدربن جاتاہے۔
شعور سے انسان کو معرفت رب اور معرفت ذات وکائنات حاصل ہوتی ہے، امتیاز حق وباطل برقرار ہوتاہے، شعورسے وہ کھرے کھوٹے کو جانتا ہے اورنفع ونقصان سے آگاہ رہتا ہے ، تہذیب وتمدن کی صحت مند صورتوں کی اسے خبررہتی ہے۔ اجتہادی قوت حاصل ہوتی ہے ،ابتکار وایجادکی اس کے اندر صلاحیت پیداہوتی ہے۔ وقت کی ہنرمندیوں اورافکار ونظریات سے آگاہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی اس کا شعوراسے اپنی اوراپنے لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے تدبیریں کرسکتا ہے اورمنصوبے بناسکتا ہے اورہرشعبۂ حیات میں اس کی کارکردگی نمایاں اورہمہ گیر ہوسکتی ہے۔ یہ شعورانسانی خصائص اورامتیاز کا سب سے اہم جزء ہے۔ یہی قافلہ ہنر اورتہذیب وثقافت کاسالار ہے، یہی مطلوب انسانی ہے اوررفعت انسانی بھی، اور رفعت مکانی بھی زمانی بھی اوردنیاوی واخروی بھی۔ شعورکا،علم وہدایت کا جب مینہ برستا ہے تودریاپہاڑجنگل بحروبر خشک وتر سب پر برستاہے اورسب اس سے مستفید اور سیراب ہوتے ہیں۔ اورسب کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔
جب شعور کانور برستا ہے توافراد واقوام سب اجالے میں آجاتے ہیں اوراس کا نوریا وہ خود بجھ جاتاہے
تودل دماغ احساسات اورسرگرمیاں سب تاریکی کے زیراثرآ جاتی ہیں اوربڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں۔ ہرطرف جمود طاری ہوجاتاہے۔
جب شعور کی بات آتی ہے تواس عنوان کے نیچے ایک عام علمی فکری بیداری کی ہلچل ،سرگرمی اور لگاپوئے دمادم کی بات ہوتی ہے۔ اوروقت کے تمدن ثقافت اور تہذیب کی رفتار منزل اورتقاضوں کے مطابق ہمہ گیرنشاط فکر وفن اور فہم ودانش کی بات ہوتی ہے۔ شعور فرد، شعور ملت، ترقی کا شعور، تنظیم کا شعور، نفع وضرراوروحدت وتعاون کا شعور، وسعت قلب ونظر کا شعور اورتنگی دل ودماغ کا شعور۔۔۔سارے شعورشعورعام کے ضمن میں آجاتے ہیں۔
جہان شعورانسانی اوراسلامی امتیاز کا جہان ہے۔ شعور کی دنیا فکروفن ایجاد وانکشاف ، مسئوولیت ومنصوبے کی دنیا ہے۔ شعورکے عالم میں اجالا تازگی فرحت وانبساط جدوجہد کا وش وترقی نتائج ہدف اورمقصدیت ہوتی ہے۔ شعورکی تہیں اور منزلیں حدشمار میں نہیں ’’فوق کل ذی علم علیم‘‘اس دنیا کا اصول ہے۔ شعور سے حقائق ومعانی کے بے حد وحساب دروازے کھلتے ہیں۔ شعور کبھی سمندر بن جاتا ہے اورکبھی فضائے بسیط کبھی انکشاف کے لیے زمین کی تہوں میں اترجاتا ہے اور کبھی پانی کی لہروں کو ناپتاٹٹولتا ہے کبھی اس کے اندر اتر جاتاہے کبھی فضاؤں میں چھلانگ لگاتا ہے کبھی غاروں پہاڑوں اورجنگلوں میں بھاگتا پھرتاہے اورکل بھاگ دوڑاس لیے ہوتی ہے کہ مسخر کائنات سے جس حدتک امکان ہونعمت رب اوررزق رب تلاش کرے۔ اورامکانی حدتک انھیں حصول تمدن میں بروئے کارلائے۔
اس کے برعکس جب شعور کا فقدان ہوتاہے توانسان جمود کا شکارہوجاتاہے، فکرونظر کے دریچے بند ہوجاتے ہیں، فہم وتدبر پر قدغن لگ جاتاہے، انسان دریافت انکشاف وعلل بھول جاتاہے ۔ جہل اورپستی کی تاریکیاں پھیل جاتی ہیں،سونا اورمٹی اس کے نزدیک یکساں بن جاتے ہیں۔ پوری قوم شعور عام کے فقدان کے سبب فکری ناکارہ پن کا شکار بن جاتی ہے، نقالی اس کی عادت اورکسل مندی اس کی طبیعت بن جاتی ہے اور نقالی کو عین سعادت اورفرض سمجھ بیٹھتی ہے۔ سارے روشن امکانات ختم اور سارے ذرائع ترقی بے کار ہوجاتے ہیں۔ ہرمیدان کار میں پستی اور بے ثمری حتی کہ وسائل انسانی بھی دوکوڑی کے بن جاتے ہیں بلکہ بوجھ بن جاتے ہیں۔
انسان اوراقوام کی پستی انفرادی اوراجتماعی طورپر اس وقت مسلط ہوتی ہے جب لوگ شعور حیات کھودیتے ہیں۔ تقلید اورنقالی کسی قوم کو بطور سزا ملتی ہے ۔ لیکن مسلمانوں نے اسے نعمت اور دین بناکر اس کو دین داری اورضابطہ پسندی کا مسئلہ بنالیا۔یہاں مسئلہ فروعی اوراجتہادی نوعیت کا تھا لیکن اسے قبول کرتے ہی ساری قوم بے شعوری کا شکار ہوگئی اورعام تعطل اورجمود آگیا اور نادانی کا یہ سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ سارا عالم اسلام صلیب کے ہاتھ میں چلا گیا اورامت اسلامیہ غلامی کی زنجیروں میں کس دی گئی۔ دور تقلید وجمود میں امت کا شعورالہ، شعورکائنات، شعور حیات اور شعور ذات بگڑچکا تھا اور پورا عالم اسلام جہل کی تاریکیوں میں ڈوب چکا تھا۔ جب صلیبی استعمار نے اسے غلام بنایا توپھر کاسہ لیسی، ابن الوقتی، سطحیت، بزدلی پیدا ہوئی اورمزاج طاقت کے سامنے عجز ونیاز میں ڈھل گیا۔ فکروخیال انداز واطوار کل کے کل نقلی اورجعلی بن گئے۔ منافقت، روباہی، مادہ پرستی باطل کے سامنے انکسار طبعیت ثانیہ بن گئی۔ جسمانی آزادی کے باوجود ذہنی غلامی کی عمومی پکڑمیں اب بھی ہم سب ہیں۔
بے شعوری جب عام ہوتی ہے توچند باشعورلوگوں کا شعوربھی کام نہیں کرتا۔ بے شعوری کی روش عام میں ان کی پہچان اجنبی کی سی بن جاتی ہے۔ البتہ ان کا شعور انھیں راہ نجات سے منزل نجات پرپہنچادیتاہے۔ اورکبھی ایسے بھی باشعور پیدا ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی حدتک شعورکی بیداری پیدا کرلے جاتے ہیں۔ لیکن عام اور صحیح شعورپیدا نہیں ہوپاتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ قوم پستی اورادبارکے انتہائی درجے پر پہنچ جاتی ہے، اس کا موڈ بناہوتا ہے کہ شعور کی دعوت آئے اور معرفت کی کرن پھوٹے اورلوگ اس طرف دوڑپڑیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ باشعور لوگوں کی موثر طاقت بن جاتی ہے اورشعور کی بیداری کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتاہے اورقوم بیدار ہوجاتی ہے۔ ان توضحیات کی مثالیں تاریخ عالم میں مل جائیں گی۔ کسی بھی فرد کی پہچان نہیں بنتی نہ کسی قوم میں بیداری آتی ہے جب تک فرد میں کامل شعور اور قوم میں عام بیداری نہ آسکے۔ آج مسلمان فرد اورقوم کی دونوں سطح پر اس صورت حال سے جوجھ رے ہیں۔ پہچان کا مسئلہ بھی ہے اورتہذیب کا بھی مسئلہ ہے۔
جب کوئی قوم بے شعوری و بے سمتی کاشکار ہوجاتی ہے تواس کے لائق افراد بھی ضائع ہوجاتے ہیں اورحصار ذات میں گھر کر رہ جاتے ہیں۔ اوریہ طے ہے کہ جس قوم کے قابل افراد ضائع ہوجائیں، اس کے پاس بچتا کیا ہے؟ ریت روایت نقالی اور غفلت وبے حسی اوریہ ایسی باتیں ہیں جن کو مرض قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اوریہ طے ہے کہ مریض اور صحت مندایک جیسے نہیں ہوتے۔ نہ ان کی کارکردگی ایک سی ہوتی ہے نہ ان کے حالات ایک جیسے ہوتے ہیں۔
عام بے شعوری کی حالت میں ایسا بھی ہوتاہے کہ چند باشعور افراد خواہ ناقص شعور رکھتے ہوں یا کامل قوم کو ہائی جیک کرلیتے ہیں یا قومی شعورکو ہیچ سمجھ کر مسترد شعورکی تجارت کرنے لگتے ہیں اوردانشوری کے نام پرقوم، اس کی پہچان اورتہذیب کو از حد نقصان پہنچاتے ہیں۔ بے سمتی کی حالت میں یہی سب کچھ ہوتاہے اورایسی حالت میں مفادات کی فصلیں تیار ہوتی ہیں اور غداروں کی بھی ٹیمیں تیار ہوجاتی ہیں۔ مفادات خیانت سطحیت دلدرپن کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں اور قوم کی کمزوری کے سبب غدار قسم کے لوگ قوم سے وابستگی میں مخلص نہیں ہوتے اس لیے دوسری فردی اور قومی طاقت کے درباروں سے وابستگی میں مسرت محسوس کرتے ہیں۔
ضمیر کا مسئلہ شعور سے بھی زیادہ اہم ہے۔ بسااوقات آدمی باشعور ہوتاہے لیکن بے ضمیری کا شکار ہوتاہے اورہندوستان میں ایسافرددانشور بن جاتاہے۔ بے سرپیر دانشوری کرناجس کا بلاقیمت بھی کوئی خریدار نہیں ہوتاوہ صرف کاسہ لیسی اورتزلف کے کام آتی ہے۔ اورایسا بھی ہوتاہے کہ انسان بے ضمیر ہوتاہے اوربظاہر کامیاب ہوجاتاہے، شعور اورضمیر کے درمیان مضبوط رشتہ قائم ہوتاہے۔ دونوں کے باہم استوار رشتے کاوجود ہوتاہے توکامیابی کے سارے اسباب میسرہوتے ہیں انھیں کام میں لانے کی ضرورت ہوتی ہے اورجب دونوں نہ ہوں توناکامی طے ہوجاتی ہے۔ اورجب ضمیر زندہ ہوتاہے اورشعور مردہ ہوتاہے توآدھی کامیابی کی توقع ہوتی ہے اورجب ضمیر مردہ ہواورشعور برقرار ہو تووہ صرف فتنہ بن جایا کرتا ہے اورمحض ہیزم خیزی۔ ان تفصیلات کی روشنی میں ضمیر کا مسئلہ شعورکے مسئلے سے زیادہ حساس ہوتاہے ضمیر نہ ہوانسان کھوکھلا۔ قوم کھوکھلی سیرت وکردار کھوکھلا اورساری تمدنی علمی اورتہذیبی سرگرمیاں محض فریب۔
جب ضمیر مرجاتاہے توانسان کا دل بجھ جاتاہے، آدمی کی روشن دماغی نابود ہوجاتی ہے، طبیعت کی رعنائی اورمزاج کی لطافت جاتی رہتی ہے۔ انسان نہ انسان کا رہ جاتاہے نہ سماج کا، نہ رشتے ناطے کا۔ اسے نہ انسانیت راس آتی ہے نہ مروت نہ شرافت۔ اسے نہ دین راس آتاہے نہ دین داری ، وہ محض ایک مشت خاک ہوتاہے راکھ اورمٹی کے برابر، وہ فقط مفادات کا بندہ بن جاتا ہے ۔مفادات کی غلامی اختیار کرنے کے بعد انسان نہیں بولتا نہ اس کی انسانیت بولتی ہے نہ اس کا علم بولتا ہے اس وقت فقط اس کا نفس ناطقہ بولتا ہے، نفس امارہ کی شکل میں طمع ولالچ، دولت کی حرص ہوس زر پرستی اس کی کل کائنات ہوتی ہے اوراس کی کل ثقافت۔ اگراس کے ہاتھ میں دولت اوردنیاوی اسباب نہ ہوں تووہ خود کو صفر سمجھتا ہے اوراسباب زر ودنیا کے لیے اس کی کاوشیں نہ ہوں توہ خود کو بے علم بے تدبیر جاہل اوراحمق تصورکرنے لگتاہے۔
بے ضمیری اخلاص، ورع وتقوی، صبرواستقلال ، توکل ، حسن اخلاق ، آداب تہذیب اورشرافت کے عظیم دینی معانی کی نفی ہوتی ہے۔ بے ضمیری آنے کے بعد انسان کے لیے وہ سب کرنا آسان ہوتاہے جو ایک خود پرست دنیادار انسانیت بیزار انسان کرنا چاہتا ہے۔ بے ضمیری انسان کو بگاڑدیتی ہے قوموں کو بگاڑدیتی ہے، بے ضمیری میں انسان خوش شکل ،خوش گفتار اورباتدبیر لگ سکتاہے لیکن وہ بے کردار ہوتاہے، اس کی حرکتیں فریب، بلکہ وہ خود فریب بن کررہ جاتاہے۔ بے ضمیر چکنی مٹی بن جاتاہے اورنفس کا کمہار حسب خواہش اسے برتنوں کی شکلیں دیتا ہے۔بے ضمیر کا رشتہ انسان سے ٹوٹ جاتاہے، وہ نفاق کے سانچے میں ڈھل جاتاہے، وہ انسانیت کا درد بھی محسوس کرنے کے لائق نہیں رہتا۔ جب انسان کا یا قوم کا ضمیر مرجائے تویہ اعلان ہوتا ہے کہ وہ فرد وہ قوم بھی مرگئی۔
بے ضمیری کا نہ کوئی رنگ ہوتا ہے نہ مذہب نہ نسبت وہ دل کے مردہ آشیانوں میں بسیراکرتی ہے اور وہیں نحوست اورنفاق کے کانٹے اگاتی ہے۔ بے ضمیر کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ بے ضمیری ڈھنگ ڈھنگ، روپ اورشکل میں آتی ہے ۔بے ضمیری علم کے ساتھ بے ضمیری جہل کے ساتھ چپک سکتی ہے۔ بے ضمیری دولت کے ساتھ وابستہ ہوسکتی ہے لیکن بے ضمیری بے ضمیری ہوتی ہے اس کا مزا اور مذاق ایک ہی ہوگا اس کی بواورلذت بھی ایک ہی ہوگی اوراس کا انجام بھی ایک ہی ہوسکتاہے۔
بے ضمیری کا نہ کوئی اصول ہوتاہے، نہ کوئی طریقہ وہ بے اصول ہوتی ہے اوراس کی کوئی روش بھی نہیں ہوتی ہے۔ بے اصولی اس کا اصول ہے۔ اسی کے سہارے وہ پروان چڑھتی ہے۔ جہاں مفادات کے حصول کی توقع ہوبے ضمیرانسان وہاں چپک جاتاہے۔ اس کے لیے حصول مفاد سب سے اہم شئی ہے۔ اسے اس کی پرواہ نہیں کہ فائدہ کم ہے یا زیادہ، جس طرح بے اصول ہوتاہے اسی طرح اس کے مفادات اورسودوں کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔
جب ضمیر مرجاتاہے توانسان کی اخلاقی اورایمانی خوبیاں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور پھر فرد اورسماج دونوں بے وزن غیر موثر اورکمزور ہوجاتے ہیں۔ بے ضمیر فرد اورسماج کے اندر کوئی کشش اورونق نہیں رہ جاتی۔ لوگ ملک سماج اور تمدن کا قافلہ سالار بھی بن سکتے ہیں لیکن ان کے اندر ضمیر زندہ نہ رہ جائے توپھر سارے جلوے ساری چمک دمک ساری خوشحالی وقتی اوردکھاوے کی ہوتی ہے جوانسانیت وفطرت کے خلاف ہوتی ہے اورانسان کے لیے بوجھ ۔
بے ضمیرانسان کے پاس اگرعلم ہو تواس کا علم فقط بے ثمر اورغیر مفید دانشوری کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے۔ وہ بھیڑوں کے درمیان بھڑیا بن کررہ سکتاہے یا پھر کالی بھیڑیں تیارکرسکتاہے۔ بے ضمیر کا تعلق کاروان علم سے ہوتاہے نہ کاروان تہذیب وتمدن سے، وہ اس میں شریک ہوکر ہری گھاس ہی کی تلاش میں رہ سکتا ہے۔ اس کے لیے دوسروں کے سامنے جھکنے گرنے، دوسروں کے پاؤں پکڑنے ،اہل ثروت کے سامنے رونے گڑگڑانے، لوگوں کے درمیان فساد اور نفرت پھیلانے میں بڑی مہارت ہوتی ہے۔ وہ ایسی خوش طبعی اور عجزونیاز کا مظاہرہ کرے گا کہ عقل مند سے عقلمند انسان اس سے دھوکہ کھائے اوراس کے فریب میں آئے بغیرنہیں رہ سکتا۔ بے ضمیرچونکہ مفاد کے سامنے سجدہ ریزی میں ماہر ہوتاہے،مفادات کے حصول کے لیے اس کے اند ربڑا خشوع خضوع ہوتاہے،وہ بڑا اطاعت گذار بھی ہوتاہے، اس کی اطاعت گذاری اورخشوع خضوع اتنامؤثر ہوتا ہے کہ اللہ کے لیے اطاعت گذار اورخاضع وخاشع مخلص انسان ہرقدم پر اس سے مات کھا جائے گا۔ اور موجودہ دورمیں بے ضمیروں کی اطاعت گذاری اورخشوع خضوع نے ایسی کامیابی حاصل کی ہے کہ تعلیم دعوت رفاہی بلکہ دینی سماجی ہرکام میں انھیں برتری اورکامیابی حاصل ہے۔ اور اصحاب خیرکے لیے مہلک بنتے جارہے ہیں ایسے ماحول میں بے ضمیر اصحاب خیر کی اطاعت گذاری میں لگتاہے ان کا قصیدہ پڑھتاہے پورے اخلاص اورخشوع خضوع کے ساتھ ان کی بڑائی بیان کرتاہے اوران کے سامنے اٹھتا گرتا ہے روتا گڑگڑاتا ہے اپنی دینی سرگرمیوں کا حوالہ دیتا ہے اوردینی ضرورتوں کو اخلاص کی طشتری میں سجاکر اوردرد کے آنسوؤں سے ڈھک کر ایسی کافرادائی سے پیش کرتاہے کہ بڑے سے بڑا صالح عقل مند انسان بھی ایسے جھوٹے بے ضمیروں کے سامنے ڈھیرہوجاتاہے۔
بے ضمیری جب عام ہوتی ہے توفردسے چل کر سماج تک پہنچ جاتی ہے اگرکسی بھی گھر سوسائٹی اورسماج میں یہ روگ گھس جائے تواسے خود غرض بے ایمان موقع پرست اورمفاد پرست بننے میں دیری نہیں لگتی۔ بے ضمیری کے عظیم کارناموں میں نفاق، فساد انگیزی اورنفرت پھیلانا ہے۔
بے ضمیری میں اگر ایسا آدمی طاق بن جاتاہے اورخاص کرجس کی نسبت علم دین سے ہو اوراسے علماء کی صف میں شمار کیا جاتاہے تویہ بہت ہی روح فرسا واقعہ ہوتاہے، کسی نام نہاد عالم کا بے ضمیر ہونا کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے، سماج میں مفادات کو عقیدہ بنائے اس کے پیچھے دیوانہ وار بھاگنے والے بہت سے ایسے نام نہاد علماء بھی ہیں جوجہاں ہیں ایک فتنہ ہیں پھراپنی بے ضمیری کے ہتھیاروں سے اصحاب خیر کو چت کیے اپنا کاروبار دھوم سے چلاتے اورداد عیش لیتے ہیں،ایسے بے ضمیر نام نہاد علماء کی ہرمسلک اورمعاشرے میں بہتات ہے اورمعاشرے پر بھی بے ضمیری کے مہلک اثرات موجود ہیں ۔جو نفرت انگیزی اورفساد انگیزی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔
جب شعور اورضمیر کا فقدان ہوتاہے اس وقت فردوجماعت کی زندگی بے مقصد اور بنائے فساد بن جاتی ہے، ان کے بغیر علمی اخلاقی اورایمانی قدریں مفقود ہوجاتی ہیں اورزندگی بانجھ بن جاتی ہے۔ مسلم سماج میں ایک عموم بلوی کی حیثیت سے ان کا فقدان ہے اس لیے مسلم سماج بانجھ بن کر رہ گیا ہے ۔ ضرورت ہے شعور بیدار کرنے اورضمیر کو زندہ کرنے کی۔اور سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ شعور اورضمیر کا فقدان علماء اورقائدین ملت میں عام ہوتا جارہا ہے۔ اصاغر کی بات جانے دیں اکابر کی حالت پر جب نظر جاتی ہے توملت کی زبوں حالی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔
شعور اور ضمیر کے فقدان کے بعد کچھ نہیں رہ جاتاہے۔ اورعلماء جب ان سے خالی ہوں توانھیں بات بنانے میں مشاقی زیادہ ہوتی ہے۔ روزمرہ کے مشاہدے میں یہ بات ہے کہ بروقت بڑے بڑے جغادری اورخود ساختہ دانشور اورقائد قسم کے علماء باتیں زیادہ بناتے ہیں۔ شعور اورضمیر کو رخصت کرنے کے بعد باتیں بنانا ان کی مجبوری بھی ہوتی ہے۔ اورضرورت بھی۔ مجبوری اس لیے ہوتی ہے کہ پیشوائی کرنے کا جو بلاوجہ ان پرخبط سوار ہوتا ہے اس لیے انھیں اپنی پوزیشن بچانے اور اپنی شبیہ بنانے کے لیے باتیں بنانی پڑتی ہیں۔ اورقیادت میں بنے رہنے کے لیے باتیں بنانا ان کی اشد ضرورت ہے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Mohammad shameem

شیخ محترم۔اِس ویبسائٹ میں الفاظ بہت باریک ہیں۔پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ایڈیٹر سے کہیں کہ الفاظ کا سائز اگر ممکن ہو تو بڑا کریں