وجود انسانی کے چار اہم مراحل

ذکی نور عظیم ندوی متفرقات

اللہ تعالی نے کائنات، زمین و آسمان اس میں پیدا کردہ مخلوقات اور خود انسان کو اپنی ذات، اس سے متعلق مکمل انسانی نظام حیات اور آس پاس موجود دیگر نعمتوں پر غور و خوض، فکر و نظر، اس پر تدبر اور اس کے جائزہ کا بار بار اور دیگر چیزوں سے بھی کہیں زیادہ مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن میں بے شمار جگہوں پر اللہ تعالی نے مختلف اسلامی حقائق اور دنیا و آخرت کے بہت سے پہلوؤں کو سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے اور ان پر اور اس کی صحیح فہم کے لیے قرآن پر غور و خوض کا خصوصی طور پر مطالبہ بھی کیا۔ اور فرمایا:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا
(محمد:۲۴) کہ لوگ قرآن پر غوروفکر کیوں نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر تالے لگا دیے گئے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ آسمانوں اور زمین، اس میں موجود دیگر مخلوقات، اس میں رونما ہونے والے تغیرات، رات دن کی گردش، سورج چاند، اس کی آب وتاب، چمک دمک، تیز و مدھم روشنی اس کی وجہ سے رونما ہونے والی موسمی تبدیلیاں اور رات دن کا چھوٹا بڑا ہونا وغیرہ وغیرہ کو عظيم نشانياں قرار دے کر اہل خرد اور دانشمندوں سے ان حقائق کو اپنی تحقیقی کاوشوں کا موضوع بنانے کا مطالبہ کیا اور فرمایا:
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ
(آل عمران:۱۹۰)بے شک زمین و آسمان کی تخلیق اور گردش لیل ونہار میں اہل خرد کے لیے بہت سی بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔
اسی لیے زمین اور اس سے متعلق اشیاء پر ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال افراد کے غور وفکر کے نتیجے میں بہت سے مخفی اور پوشیدہ حقائق واضح ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو ایسے خزانے دریافت ہوجاتے ہیں جو نا قابل یقین لگتے ہیں۔ خود جسم انسانی میں بےشمار ایسی نعمتیں موجود ہیں جن کی تحقیق اور ان تک رسائی اللہ کی قدرت کو کسی قدر سمجھنے، اس پر ایمان صادق اوراس سے صحیح انداز میں فائدہ اٹھانے کی سمت متعین کرتی ہیں۔اسی لیے اللہ نے فرمایا:
وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ، وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
(الذاريات:۲۰-۲۱) زمین میں اور خود تمھاری ذات میں ایمان و یقین رکھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں کیا تم نہیں دیکھتے۔
لہذا آئیے خود نفس انسانی اور اس کے وجود پر نظر ڈالیں اور خاص طور پر جائزہ لیں کہ اس سلسلہ میں قرآن و احادیث کی روشنی میں اسلامی نقطۂ نظر کیا ہے۔
انسانی وجود کے اہم مراحل:
عام طور پر انسانی وجود کے دو اہم مرحلوں، دنیوی اور اخروی مرحلوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، لیکن اگر ہم قرآن کریم احادیث اور دیگر معتبر ذرائع کامطالعہ کریں اور اس کا تحقیقی جائزہ لیں تو انسانی وجود کو چار اہم مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
جس کو اجمالی طور پر اللہ تعالی نے اس طرح بیان فرمایا:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ
(المؤمنون :۱۲-۱۶)اور ہم نے(پہلے مرحلہ میں) انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر(دوسرے مرحلہ میں) اس کو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ(رحم مادر میں)نطفہ بنا کر رکھا، پھر نطفہ کا لوتھڑا، لوتھڑے کی بوٹی، پھر بوٹی کی ہڈیاں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا۔ پھر (تیسرے مرحلہ میں)اس کو نئی صورت میں بنایا۔ تو اللہ سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے۔پھر اس کے بعد (چوتھےاور آخری مرحلہ میں) تم مرجاتے ہو پھر قیامت کے روز اُٹھا کر کھڑے کردیے جاؤ گے۔
پہلا مرحلہ:
انسانی وجود کا وہ ابتدائی مرحلہ جس میں حضرت آدم علیہ السلام اور پھر تمام انسانوں کو حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے پیدا کیا گیا اور پھر اس سے نکال کر اللہ تبارک و تعالی نے قیامت تک ان پیدا ہونے والے تمام انسانوں سے اپنی ربوبیت کا اقرار اور اس پر قائم رہنے کا عہد لیا، جسے ’عہد ألست‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی کا تذکرہ اللہ نے اس طرح کیا ہے:
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَىٰ شَهِدْنَا
(الأعراف:۱۷۲)اور جب تمھارے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے اپنے بارے میں اقرار کرا لیا کہ کیا میں تمھارا پروردگار نہیں ہوں۔ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم اس کے گواہ ہیں۔
اور اس کی مزید وضاحت حضرت عبداللہ بن عباس کی اس حدیث سے ہو جاتی ہے:
أخذ الله الميثاق من ظهر آدم بنعمان – يعني عرفه – فأخرج من صلبه كل ذرية ذرأها، فنثرهم بين يديه كالذر، ثم كلمهم قُبُلاً
(احمد) کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے ’نعمان‘ یعنی عرفہ میں عہد لیا اور ان کی پشت سے پوری نسل آدم کو نکال کر ان کے سامنے بٹن کی طرح پھیلا دیا اور ان سے آمنے سامنے گفتگو کی۔
دوسرا مرحلہ:
انسانی وجود کا دوسرا مرحلہ بچہ کے ماں کے پیٹ میں حمل کی صورت میں قرار پانے سے شروع ہوتا ہے۔ اور ماں کے پیٹ میں مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے کم سے کم چھ مہینے اور عام طور پر نو مہینے کے آس پاس رہنے اور پھر پیدائش پر مشتمل ہے۔
اس مرحلہ کا اللہ نے قرآن کی مختلف آیات میں قدرے تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔اللہ تعالی فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا
(الحج:۵) کہ لوگو اگر تم کو مرنے کے بعد زندہ ہونے میں کچھ شک ہے تو ہم نے تم کو (ابتدا میں) مٹی سے پیدا کیا تھا پھر اس سے نطفہ بنا کر اس سے خون کا لوتھڑا بنایا۔ پھر اسے مکمل اور ناقص گوشت کے ٹکڑے کی شکل دی تاکہ تم پر حقیقت واضح کردیں۔ اور ہم جس کو چاہتے ہیں مقررہ وقت تک پیٹ میں رکھتے ہیں پھر بچہ کی شکل میں اسے پیدا کرتے ہیں۔
تیسرا مرحلہ:
انسان کی پیدائش سے اس کے انتقال تک پوری زندگی جس میں اس کی پیدائش، بچپن، جوانی اور بڑھاپا آتا ہے اس کی زندگی کا تیسرا اور سب سے اہم مرحلہ ہے، جسے عام طور پر دنیوی زندگی کہا جاتا ہے۔ یہ تیسرا دنیوی مرحلہ آخری اور چوتھے مرحلہ یعنی آخرت کی کامیابی بہتری اور سکون و اطمینان کے حصول کا ذریعہ ہے۔
تیسرے مرحلہ میں ہر موقع اور ہر ضرورت کے لیے انسان کو رہنمائی فراہم کی گئی اور اس رہنمائی کے لیے آسمانی پیغام (اللہ کی نازل کردہ کتابوں) اور اس شخص کی ہدایات اور تعلیمات پر عمل کو لازم قرار دیا گیا جس کو آسمانی ہدایات کے لیے اللہ تعالی نے بطور نبی و رسول منتخب فرمایا۔ یہ تیسرا مرحلہ اس دنیا سے رخصت ہوتے اور روح قبض ہوتے ہی اختتام کو پہنچتا ہے۔
چوتھا مرحلہ:
انسان کی آخری سانس آتے اور انتقال ہوتے ہی تیسرا مرحلہ ختم ہوکر چوتھے اور آخری مرحلہ کی شروعات ہوتی ہے۔ اس کے اندر انسان کی موت، روح قبض ہونا، اس کی تجہیز وتکفین، قبر میں تدفین، قبر کے حالات، روز قیامت قبروں سے اٹھایا جانا، حساب و کتاب، جزا و سزا، جنت کی نعمتیں، وہاں ملنے والی اللہ کی رحمتیں، نافرمانوں کے لیے دوزخ اس کے عذاب اور دیگر تمام مراحل آئیں گے۔اور یہ آخری مرحلہ ابدی اور دائمی مرحلہ ہوگا جس میں نہ کسی کی موت آئے گی اور نہ ہی یہ مرحلہ تبدیل ہو کر کوئی دوسرا مرحلہ اور موقع ملے گا۔

آپ کے تبصرے

3000