تغسیل و تکفین اور صلاۃ وتدفین میت کے واجبی حقوق ہیں ، لہذا اگر کوئی شخص فوت ہو جائے تو بلا تاخیر اسے شرعی طریقے سے غسل دے کر ، کفن پہنا کر اور نماز پڑھ کر دفن کر دینا چاہیے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ، فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا، وَإِنْ يَكُ سِوَى ذَلِكَ فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ ( صحيح البخاری:۱۳۱۵)جنازہ لے جانے میں جلدی کرو ، اس لیے کہ اگر مرنے والا نیک اور صالح شخص ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کررہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو۔
البتہ یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص دن کے آخری حصے میں فوت ہو ،یا رات کو فوت ہو، یا پھر دن میں فوت ہو مگر کسی وجہ سے دن میں تدفین ممکن نہ ہو تو مذکورہ حدیث پر عمل کرتے ہوئے اسے رات میں دفن کر دینا درست ہے یا پھر صبح ہونے کا انتظار کرنا بہتر یا ضروری ہے؟
جواب : اس سلسلے میں فقہائے کرام کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے، اختصار کے ساتھ ہم ان کے اقوال کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
۱۔رات میں مردے کو دفن کرنا درست اور جائز نہیں ہے۔
دلیل:
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تَدْفِنُوا مَوْتَاكُمْ بِاللَّيْلِ إِلَّا أَنْ تُضْطَرُّوا (سنن ابن ماجہ:۱۵۲۱)تم اپنے مردوں کو رات میں دفن نہ کرو ، الا یہ کہ تم دفن کرنے پر مجبور کر دیے جاؤ۔
وجہ استدلال:
اس حدیث میں ’’ لا تَدْفِنُوا‘‘ نہی کا صیغہ ہے جو کہ حرمت پر دلالت کرتا ہے ۔
جابر رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری جگہ یہ روایت تفصیلا آئی ہے کہ:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ يَوْمًا، فَذَكَرَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ قُبِضَ، فَكُفِّنَ فِي كَفَنٍ غَيْرِ طَائِلٍ ، وَقُبِرَ لَيْلًا، فَزَجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْبَرَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهِ، إِلَّا أَنْ يُضْطَرَّ إِنْسَانٌ إِلَى ذَلِكَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا كَفَّنَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُحَسِّنْ كَفَنَهُ (صحيح مسلم:۹۴۳)ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور اپنے اصحاب میں سے ایک آدمی کا تذکرہ فرمایا جو فوت ہوا تو اس کو معمولی کفن دیا گیا اور رات ہی کو دفن کر دیا گیا ۔ پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈانٹا کہ کسی بھی آدمی کو رات میں دفن کیا جائے یہاں تک کہ اس کی نماز جنازہ ادا کر لی جائے الا یہ کہ کوئی انسان اس پر مجبور ہو جائے ، نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میں سے کو ئی شخص اپنے بھا ئی کو کفن دے تو اسے اچھا کفن دے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے کو رات میں دفن کرنا درست نہیں ہے الا کہ کوئی مجبوری ہو۔
۲۔رات میں مردے کو دفن کرنا مکروہ ہے۔
دلیل:
اس کی دلیل بھی وہی حدیث ہے جو پہلے قول کی دلیل ہے لیکن چونکہ رات میں مردے کو دفن کرنے کے جواز پر احادیث موجود ہیں اس لیے اس قول کے قائلین نے پہلی حدیث کے نہی کو تحریم کے بجائے کراہت پر محمول کیا ہے۔
۳۔رات میں مردے کو دفن کرنا جائز اور درست ہے ۔
اور یہی راجح اور درست ہے۔
اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
(۱)ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
مَاتَ إِنْسَانٌ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَمَاتَ بِاللَّيْلِ فَدَفَنُوهُ لَيْلًا، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَخْبَرُوهُ، فَقَالَ : ” مَا مَنَعَكُمْ أَنْ تُعْلِمُونِي ؟ ” قَالُوا : كَانَ اللَّيْلُ فَكَرِهْنَا – وَكَانَتْ ظُلْمَةٌ – أَنْ نَشُقَّ عَلَيْكَ. فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ ( صحيح البخاری:۱۲۴۷)ایک ایسے شخص کی وفات ہوگئی جس کی عیادت کرنے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جایا کرتے تھے ، چونکہ ان کا انتقال رات میں ہوا تھا اس لیے رات ہی میں لوگوں نے انھیں دفن کر دیا اور جب صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مجھے بتانے میں رکاوٹ تھی؟‘‘ لوگوں نے کہا کہ رات تھی اور اندھیرا بھی تھا۔ اس لیے ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں آپ کو تکلیف ہو ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور نماز پڑھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے اگر کوئی شخص رات کو مر جائے اور رات ہی کو اس کی تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ ہو سکے تو دن کا انتظار نہ کر کے رات ہی میں دفن کر دینا جائز اور درست ہے ۔ کیونکہ اگر یہ حرام یا مکروہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ :’’ مجھے آپ لوگوں نے بتایا کیوں نہیں‘‘ بلکہ اس پر تنبیہ فرماتے۔
(۲)اسی طرح کا واقعہ اس عورت کے ساتھ پیش آیا تھا جو مسجد میں جھاڑو دیتی تھی کہ جب رات میں اس کا انتقال ہوا تو صحابہ کرام نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیے بغیر اسے رات ہی میں دفن کر دیا ، چنانچہ جب صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور نماز جنازہ ادا فرمائی۔(صحیح البخاری:۱۳۳۷،مسلم :۲۲۱۵)
(۳)ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْخَلَ رَجُلًا قَبْرَهُ لَيْلًا، وَأَسْرَجَ فِي قَبْرِهِ (سنن ابن ماجہ:۱۵۲۰)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت ایک آدمی کو اس کی قبر میں داخل کیا۔
(۴)عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:
ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ، أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا: حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ، وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ، وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ (صحيح مسلم:۸۳۱)تین اوقات ایسے ہیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور اپنے مردوں کو دفن کرنے سے روکتے تھے : ایک تو جب سورج چمکتا ہوا نکلے یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے، دوسرے جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہو یہاں تک کہ ڈھل جائے اور تیسرے جب سورج ڈوبنے لگے یہاں تک کہ ڈوب جائے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ تینوں اوقات کے علاوہ دن رات کے کسی بھی وقت میں مردے کو دفن کر سکتے ہیں۔
(۵)عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
مَا عَلِمْنَا بِدَفْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَمِعْنَا صَوْتَ الْمَسَاحِي مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ (احمد :۴۳/۱۸۲ برقم :۲۶۰۴۹،ابن أبی شيبہ:۳/۳۲، شرح معانی الآثار:۱/۵۱۴، قال الأرنؤوط : إسناده محتمل للتحسين) ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کا علم نہ ہوا ، یہاں تک کہ ہم نے بدھ کی رات کے آخری اوقات میں پھاؤڑوں کی آواز سنی۔
امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهَذا بِحَضْرَةِ أصْحابِ رَسُولِ اللهِ ﷺ لا يُنْكِرُهُ أحَدٌ مِنهُمْ. فَدَلَّ ذَلِكَ عَلى أنَّ ما كانَ مِن نَهْيِ النَّبِيِّ ﷺ عَنِ الدَّفْنِ لَيْلًا إنَّما كانَ لِعارِضٍ، لا لِأنَّ اللَّيْلَ يُكْرَهُ الدَّفْنُ فِيهِ إذا لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ لِعارِضٍ (شرح معانی الآثار:۱/۵۱۴)یہ عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں ہوا اور ان میں سے کسی نے نکیر نہیں کی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو رات میں دفن کرنے کی ممانعت آئی ہے وہ کسی رکاوٹ کی وجہ سے ہے نہ کہ اس لیے کہ رات میں دفن کرنا ہی مکروہ ہے جب کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
(۶)حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی رات کے وقت دفن کیا گیا۔ (أخرجه البخاري تعليقا ( قبل الحديث:۱۳۴۰)
نیز عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
۔۔۔ فَلَمْ يُتَوَفَّ حَتَّى أَمْسَى مِنْ لَيْلَةِ الثُّلَاثَاءِ ، وَدُفِنَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ (صحيح البخاری:۱۳۸۷)منگل کی رات کا کچھ حصہ گزرنے پر آپ کا انتقال ہوا اور صبح ہونے سے پہلے آپ کو دفن کیا گیا۔
(۷)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو عشاء کے بعد بقیع میں دفن کیا گیا۔ (أخرجه ابن أبي شيبة :۳/۲۲۷، والبيهقي:۴/۵۰)
(۸)حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رات میں دفن کیا گیا۔( أخرجه ابن سعد في الطبقات :۸/۷۸ بسند صحيح،وابن أبي شيبة :۳/۳۱،۱۱۸۲۶، وما صح من آثار الصحابة :۲/۵۸۲)
(۹)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے رات میں دفن کیا۔ (ما صح من آثار الصحابة في الفقه :۲/۵۸۲ ، الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف:۵/۴۶۱،الطبقات الكبرى: ۸/۶۲)
(۱۰)ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو رات میں دفن کیا گیا۔(أخرجه ابن أبي شيبة :۳/۲۲۷ ، الاستذكار:۳/۵۶)
رہی بات ابن ماجہ اور مسلم وغیرہ کے حدیث کی جس میں رات کے وقت مردے کو دفن کرنے سے منع کیا گیا ہے تو وہ مطلق نہیں ہے بلکہ وہ دو علتوں سے معلل ہے۔
۱۔جب اسے رات میں اچھے طریقے سے کفنانے کا انتظام نہ ہو سکے ۔وہ اس طور سے کہ رات کی وجہ سے بہترین کفن نہ مل رہا ہو ۔
جیسا کہ اسی حدیث میں مذکور ہے:
فَكُفِّنَ فِي كَفَنٍ غَيْرِ طَائِلٍ یعنی: اسے معمولی (کپڑے) میں کفنایا گیا تھا۔
۲۔اس پر افضل اور احسن طریقے سے نماز پڑھنے کی گنجائش نہ ہو ۔ چاہے وہ نماز پڑھنے والوں کی قلت کی وجہ سے یا رات کی تاریکی کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے۔
جیسا کہ اسی حدیث میں ہے:
فَزَجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْبَرَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهِ یعنی: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈانٹا کہ کسی بھی آدمی کو رات میں دفن کیا جائے الا یہ کہ اس کی نماز جنازہ ادا کر لی جائے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دن میں بغیر نماز پڑھے دفنایا جا سکتا ہے بلکہ معنی ہے کہ اچھے طریقے سے نماز پڑھ لی جائے۔
یعنی: اگر اچھے طریقے سے نماز پڑھنا ممکن ہو تو رات میں دفن کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔( فتح ذي الجلال والإكرام بشرح بلوغ المرام :۲/۶۲۲ ملخصا)
خلاصہ کلام یہ کہ اگر رات میں میت کو غسل دینے یا کفنانے یا اس پر نماز جنازہ پڑھنے اور دفنانے میں کسی کمی کا خدشہ نہ ہو تو رات میں میت کو دفن کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جیسا کہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مناسب قول یہ ہے کہ اگر رات میں میت کو دفن کرنے کی وجہ سے اس کے حقوق میں سے کسی حق کے فوت ہونے اور صلاۃ جنازہ میں کسی کمی کا خدشہ نہ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں ۔ اور اگر کسی حق کے فوت ہونے یا نماز میں کمی کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں ممنوع ہے۔ ( عون المعبود وحاشية ابن القيم :۸/۳۰۹، والإحكام شرح أصول الأحكام لابن قاسم :۲/۹۳)
bahut umda hassan bhai
Mashallah Bhut umda