منہج انقلاب نبویﷺ

عمار عبدالعزیز المحمدی متفرقات

انقلاب محمدی کی حقیقت:
دنیا میں مختلف انقلابات رونما ہوئے ہیں اورہوتے رہتے ہے لیکن انقلاب محمدیﷺ اس اعتبار سے بنیادی طور پر مختلف ہے کہ دیگر سارے انقلابات کی نظریاتی وفکری اساس انسانوں کی ذہنی اختراع تھی،جیسا کہ اشتراکی انقلاب کا فلسفہ کارل مارکس کی اختراع، انقلاب فرانس کا فلسفہ والٹیر کی فکر اور دیگر انقلابات کی بنیاد مختلف انسانوں نے وضع کی ہیں، مگر نبوی انقلاب کا فلسفہ اللہ تعالیٰ کا ودیعت کردہ ہے جو بذریعہ وحی محمدﷺ کو عطا ہوا۔ جہاں کسی بھی جانب میں خطا کے امکانات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے جو انقلاب برپا کیا وہ ہمہ جہت اور دائم وغیر وقتی انقلاب تھا، جو آج تک ہو بہو چودہ سو بیالیس سالہ عرصہ کے گزرنے کے باوجود ہمارے درمیان آفتاب نہار کی طرح چمکتا دمکتا نظر آرہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ موجودہ حالات میں لوگوں کی عقلوں پر مادیت، دنیوی محبت کی ایسی پرت پڑچکی ہے کہ وہ اس انقلاب کی کرنوں کو بھی محسوس نہیں کرپارہے ہیں،یہ خلل آج کی انسانی دنیا کا ہے محمدی انقلاب کا اس سے کوئی واسطہ نہیں، وہ تو جامعیت، قوت، نورانیت وکمال کے ساتھ جیسے تھا ویسے مستقل موجود ہے۔ کم وسائل،قلیل جماعت میدان صاف نہیں، ان تمام کے باوجود بائیس سے تئیس سال کے عرصہ میں جو عظیم، ہمہ جہت، عالمگیر، گمبھیر انقلاب برپا ہوا وہ انقلاب نبوی ہے۔
موجودہ حالات میں انقلاب نبوی کی ضرورت:
ہم جس صدی میں زندگی بسر کررہے ہیں وہ ظاہری لحاظ سے عروج وترقی کی صدی کہلاتی ہے، ٹیکنالوجی اور وسائل انسان کے ہاتھوں میں عجیب وغریب طریقے سے مسخر ہوچکے ہیں، کہاجاتا ہے کہ انسان دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار پاچکا ہے، چاند پر بھی کمندیں ڈال چکا ہے لیکن باطنی لحاظ سے دیوالیہ پن اکثر علاقوں اور کئی سماجوں کا بنیادی المیہ بناہوا ہے، روحانی اعتبار سے انسانیت اتنی ہی لاغر ہوچکی ہے جتنی ظاہری ترقی کا دعوی ہے اس لیے کہ دنیا کے انقلابات یا تو سیاسی طور کے ہیں، یا محض معاش کے میدان میں محدود ہیں، یا بہت کہہ دیا جائے تو جمہوریت کے پیمانہ پر یا کچھ کچھ صرف اخلاقی پیمانہ کے ہلکے پھلکے انقلابات جن میں روح کی تشنگی مسلسل برقرار ہے، باطن جھلستا ہوا خاک کے مانند ہوتا جارہا ہے، چنانچہ ایک ایسے انقلاب کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس میں زندگی کا ہر ناحیہ صد فیصد سیراب ہوسکے، ذہنی ترقی، علمی عروج، معاشی استحکام ،سیاسی عدل کا قیام، معاشرتی اخلاق کا نفاذ اور سب سے بڑھ کر بنیادی لحاظ سے عقدی لحاظ سے انسان کی روح کو سکون پہنچانے والاانقلاب برپا ہو جو موجودہ حالات میں سسکتی انسانیت کے لیے آب حیات ثابت ہو اور یقین کامل کے ساتھ یہ بات مسلم ہے کہ انقلابی عمل کے یہ تمام مراحل اور گوشے محض محمدی انقلاب میں پائے جاتے ہیں۔(صلی اللہ علیہ وسلم)
منہج انقلاب کے سلسلہ میں گروہی نظریات:
یہ ایک عظیم حقیقت ہے کہ صحیح منہج کو طے کیے بغیر ہم لاکھ جہد مسلسل، عمل پیہم کرلیں، کسی بھی جزوی یا جامع انقلاب کو کبھی برپا نہیں کرسکتے ہیں اور ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں مختلف گروہوں کے اس موضوع پر مختلف نظریات ہیں، بالجملہ جتنے منہ اتنی باتیں، یعنی اکثر حضرات یا جماعتیں اس بابت افراط وتفریط کی شکار ہیں اور مختلف النوع مناہج وجود میں آئے ہوئے ہیں:
صحیح منہج
منہج انقلاب کو متعین کرنا نہایت آسان ہے ، اس سلسلہ میں امام مالکؒ کا بیان کردہ یہ جملہ ہمارے لیے ایک مستقل اصول کی حیثیت رکھتا ہے جس پر ہم اپنے مضمون کو قائم کرسکتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
لا یصلح آخرھذہ الأمۃ، إلا ماأصلح أولھا(اقتضاء الصراط المستقیم:۳۶۷)اس امت کے آخری طبقہ کی اصلاح اسی منہج سے ہوسکتی ہےجس سے امت کے اوّل طبقہ (سلف صالح) کی ہوئی۔
اس چھوٹے مگر جامع کلمہ سے ہم اس اصول کو مقرر کرسکتے ہیں کہ انقلاب کے لیے ایک ہی ضابطہ ہوگا اور مقرر قاعدہ ہوگا، وہ یہ کہ ہم جہاں، جس علاقہ، جس زمانہ اور دور میں جی رہے ہیں اس قاعدہ کو اختیار کرنا ہی کسی بھی انقلاب کو برپا کرنے میں بنیاد ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس کا مفہوم مخالفت یہ ہے کہ اس ضابطہ سے انحراف کی صورت میں کبھی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی ہے، اگر ہوجائے تو وہ عارضی یا برائے نام ہوگی۔ کیونکہ یہی حقیقت ہے کہ منہج نبوی ہر مرگ کا علاج اورہر خرابی کا مداوا ہے۔ اس کے علاوہ ہر منہج باطل وناکارہ ہے۔
رسول اللہﷺ کا منہج انقلاب
مذہبی انقلاب
انقلاب نبوی کا اساسی نظریہ’’توحید‘‘:
رسول اللہ ﷺ پر آغاز وحی کا سلسلہ بذریعہ خواب ہوا، جن کی تقریباً چھ ماہ مدت بتلائی جاتی ہیں، لیکن آپ کی عمر کے چالیس سال مکمل ہونے پر آپ کو حالت بیداری میں ماہ رمضان میں پہلی وحی آئی(فتح الباری)
اللہ کا فرمان:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ
(سورہ البقراء:۱۸۵) رمضان کا مہینہ ہی وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کو نازل کیا گیا ہے۔
آغاز وحی دراصل انقلاب نبوی کا آغاز تھا ، جس انقلاب سے سب سے پہلے خود ذات نبوی متاثر ہوئی چونکہ شرعاً آپ بھی توحید ورسالت پر ایمان لانے کے پابند تھے،غار حراء سے توحید الہی کی خالص دعوت لے کر آپﷺ قوم کے درمیان نمودار ہوئے، یہ ایک کامل ترین اور مضبوط توحید تھی جس کی ساری بنیاد وحی الہی پر قائم تھی۔ جس توحید نے قریش، عرب، بلکہ ساری دنیا میں عظیم الشان انقلاب قائم کردیا۔
یہ توحید وحی الہی سے مستنبط تھی، یعنی انقلابی بنیاد اور توحید کی اساس قرآن حکیم وفرقان حمید ہے، جس کی آیات سراسر انقلابی اور قوموں وملکوں کو تبدیل کردینے والی ہیں۔ حبشہ کی طرف ہجرت ثانیہ کے موقع پر جو واقعات حیرت انگیز طور پر رونما ہوئے ان میں سے ایک موقع وہ تھا جس میں قریش نے چالبازی کرکے سازش کرنے کی کوشش کی اور عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو نجاشی شاہ حبشہ کے پاس بھیج کر ورغلانے کی کوشش کی مگر جعفر بن ابی طالب نے سورہ مریم کی ابتدائی آیات کو ملاکر ایک بلیغ خطبہ دیا جس کو سن کر نجاشی اور دربار میں موجود تمام اسقف اس قدر روئے کہ ان کے صحیفے اور داڑھیاں تر ہوگئیں، دوسرے دن عمروؓ کے چال چلنے پرنجاشی نے پھر مسلمانوں کی جماعت کو دربار میں جمع کیا، اس وقت مسئلہ عیسیؑ کی شخصیت کے متعلق تھا ،پھر جواب میں جعفرؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا:’’ہم عیسیؑ کے متعلق وہی بات کہتے ہیں جو ہمارے نبی لے کر آئے تھے یعنی عیسیٰ اللہ کے بندے، رسول اس کی روح اور اس کا وہ کلمہ ہیں جو اس نے کنواری پاکدامن مریم کی جانب القاکیا تھا۔‘‘
یہ وہ موقع تھا جس میں عقیدہ تثلیث اور عیسیٰ کے متعلق غلو کے خلاف توحید کے صاف ستھرے عقیدے کا برملا اعلان تھا پھر قرآنی آیات جن میں توحید کے متعلق اچھا خاصا مضمون شامل تھا، ان کی بنیاد پر یہ انقلاب برپا ہوا کہ حبشہ کاباد شاہ نجاشی مشرف بہ اسلام ہوا۔
دعوتی ادوار اور توحید کا اثر:
ہم رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو دو حصّوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، دونوں زمانے ایک دوسرے سے مکمل طو ر پر نمایا ں اور ممتاز ہیں:
(۱)مکی زندگی(تقریباً تیرہ سال)
(۲)مدنی زندگی(تقریباً دس سال کا عرصہ)
رسول اللہ ﷺ کی مکی زندگی میں دعوت کا خلاصہ نیز وہ آیات قرآنیہ جس کا نزول اسی دور میں ہوا ، اکثر تو حید بلکہ محض توحید کے مضمون پر مشتمل تھیں، چونکہ عرب زمانہ جاہلیت میں مختلف قسم کے واہیات عقائد میں پڑے ہوئے تھے، رسول اللہﷺ نے پر زور انداز میں پورے عزم واستقلال، ہمت وقوت کے ساتھ خالص توحید کی دعوت دی ، اُس وقت عرب جن جکڑ بندیوں میں پڑے ہوئے تھے اس کا خلاصہ یوں بیان کیا جاسکتا ہیں:
مشرکین کے یہاں مختلف بتوں کی پرستش اور پوجا
اہل کتاب کے یہاں مذہبی پیشوائوں کی اجارہ داری
خاندانی عصبیت وتعصب کا سر چڑھا بھوت
اجتماعی زندگی میں تتربتر اور اجڑا سا نظام
وحدت امت واقوام میں توحید کا وہی کردار ہے جو حیثیت پانی کا مچھلی کی زندگی کے لیے ہے، رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے خالص توحید کی دعوت دے کر ایک اللہ کی بندگی کی دعوت دی اور تمام باطل بتانِ حجر وتراب کو باطل وطاغوت قرار دیا، قرابت داروں سے کھلم کھلا دعوت کا آغاز ہوا اور پھر عمومی شکل میں کوہ صفا پر چڑھ کر تمام قبائل کو توحید کی دعوت دی، یہ ایک ایسی شدید دعوت تھی کہ عرب کے سردار ان یک لخت حیران ہوگئے، مذہبی پیشواؤں میں بھی چہ مگوئیاں جاری ہوگئی، خاندانی عصبتیوں میں بھو نچال آناطے تھا، اور یہی ہوا، عرب کی سرزمین کے باشندے رنگ ونسل سے پرے ہوکر دعوتِ توحید سے مربوط ہونے لگے۔ ان باشندوں پر ایسے سخت اذیت ناک تکلیفوں کو آزمایا گیا کہ جن سے جانور کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجائیں مگر ان کی زندگیوں میں عقیدہ توحید نے ایساانقلاب برپا کیا کہ وہ کبھی دین توحید سے باز نہ آئے خاص طور پر اس سلسلہ میں عثمان بن عفانؓ، بلال بن رباحؓ، خباب بن ارتؓ، مصعب بن عمیر ؓ، عمار بن یاسرؓ، خیببؓ اور عمارؓ کی ماں سمیہؓ جیسے عظیم افراد قابل ذکر ہیں، رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ پھونکی ہوئی توحید کی یہ روح ان کے اندر ایسے جاگزیں ہوئی ان کی اپنی روحیں رخصت ہوگئیں مگر توحید سے دوری یکلخت ان نفوس قدسیہ نے گوارا نہ کیں۔
مکی زندگی مسلسل اسی تصویر کو پیش کرتی رہی حتی کہ کثیر تعداد میں لوگ دین توحید اور رسول امی سے جڑ گئے۔وحی الہیٰ کے ذریعہ نازل شدہ اس دعوت توحید کی ایک بنیادی بڑی خاصیت یہ بھی تھی کہ اس کا رشتہ رنگ، قبیلہ، نسل وزبان سے پرے تھا، گورے کالے، عرب وعجم، امیر وغریب وغیرہ سب اس توحید کے مخاطب تھے، اس دعوت نے مکی زندگی سے ہی رنگ دکھانا شروع کردیا، لوگ بتوں ،غیر اللہ اور مذہبی احبار ورہبان اور علماء کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوکر ایک خالص عقیدہ کے زیر اثر آنے لگے۔ خاندانی روایات اس کلمہ توحید کے سامنے ماند پڑگئیں اورجہالت وتعصب کا طلسم ٹوٹ کر تو حید کا رنگ ہر فرد وقوم پر چڑھنے لگا، اہل کتاب کو بھی اسی مضمون کی طرف انقلابی دعوت دی گئی۔
فرمان الہیٰ ہے:
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ
(سورہ آل عمران:۶۴)آپ کہہ دیجیے اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں، نہ اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔
یہ دعوت دراصل اس معاشرتی ، سماجی اور انسانی انقلاب کی دعوت تھی جس کے بغیر امت واحدہ بننا نا ممکن تھا، لہٰذا جب یہ دعوت عام ہوئی، رسول اللہﷺ نے توحید پر ایسی سختی اختیار کی کہ اس کے نتیجہ میں ایک امت عظیمہ دنیا کے سامنے آئی، لہٰذا ’’وجدنا علیہ آباءنا‘‘ ’’اتخذوا احبارھم ورھبا نھم أر بابا من دون اللہ والمسیح بن مریم‘‘ اور جاہلیت کی دوسری پکاروں کے مقابلے میں امت واحدہ کی شکل میں بن کر ایک جماعت صحابہ کی منظر عام پر آئی ، یہ انقلابی جماعت ایسی آندھی بن کر آگے بڑھی کہ اس کے سامنے’’ قیصر وکسریٰ ‘‘بھی’’ھباراً منثوراً‘‘ (بکھرے ذرات) ہوکر اڑ گئے، وجہ اور بنیاد صرف کلمہ وعقیدہ توحید تھا، افریقہ واندلس، چین وسندھ کے دور دراز علاقوں تک اسلامی علم لہرانے لگا اوردنیا کے اکثر علاقوں میں اسلامی انقلاب کی گونج سنائی دینے لگی، توحید کا مضبوط عقیدہ نہ ہوتا تو یہ جانثاری کا مظاہرہ اور سرکٹانے کا جذبہ کبھی پیدا نہ ہوتا، نہ انقلاب کی صورت نظرآتی۔
اساس توحید پر اسلام سے جڑنے والے لوگ:
جیسا کہ بیان ہوا رسول اللہﷺ کا پیغام دعوت اور توحید کا بیان ہر ایک کے لیے عام تھا، اس لحاظ سے اس انقلاب کی ہمہ جہتی اور عالمگیریت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، آپ نے اپنے اعلان توحید میں امیہ بن خلف کو مخاطب فرمایا وہی بلال حبشی بھی آپ کے مخاطب تھے، مردوں کو خطاب کیا تو عورتوں کو اس سے علیحدہ نہیں رکھا گیا، جوانوں اور بچوں کو بھی اس دعوت کو قبول کرنے کی نصیحت کی گئی۔ یہی آپﷺ کی دعوت اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کی ہمہ گیریت تھی۔
چنانچہ اسی کے ساتھ اوّل اوّل جن لوگوں نے اس دعوت کو قبول کیا اور جہاں انسانی مساوات میں انقلاب ابھر کر سامنے آیا، ان افراد میں ابوبکر الصدیق جیسے آزاد و سردار تھے، حذیجۃ الکبری جیسی آزاد ومالدار خاتون تھی، علی بن ابی طالب جیسے بچہ تھے، زید بن حارثہ جیسے ایک ادنیٰ غلام تھے، اس کے بعد کی جماعت میں بعض امرا اور اکثر کمزور نادار قسم کے افراد شامل تھے، طرۂ امتیاز یہ کہ جو بھی اسلام کی اس دعوت توحید کو اپناتا اپنے تمام جاہلی مشرکانہ رسومات وعادات کو چھوڑ کر ملت واحدہ کے سمندر کا حصہ بن جاتا۔ اس طرح یہ انقلاب کا ٹھا ٹھیں مارتا سمندر وسیع ہوتا چلاگیا، آپﷺ نے یہ تعلیم کھلم کھلا ارشاد فرمائی:
الناس بنو آدم وآدم خلق من تراب،لا فضل لعربی علی عجمی الا بالتقوی
(جامع الترمذی)لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی تخلیق کاکام مٹی سے ہوا ہے، لہذا کسی عربی کو عجمی پر کوئی برتری نہیں الا یہ کہ تقویٰ و پرہیزگاری کا معاملہ ہو۔
نظریہ توحید کے ذیلی مضامین
رسول اللہ ﷺ نے جس قدر توحید پر محنت کی اس کی مثال بیان کرنا مشکل ہے، قرآن کریم نے بارہا توحید کو کھول کھول کربیان کیا، توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور اسماء وصفات کی توحید کو بارہا بیان کرنے کا مقصود اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور لوگوں کے ذہنوں میں موجود’’ارباب من دون اللہ‘‘کے نشہ اور اثر کو ختم کرنا تھا، کفار کے سامنے مثالیں بیان کرکرکے قرآن کے توحید ربوبیت والوہیت کو بیان کیا، چنانچہ بیان توحید میں آیات نیز مستقل سورت کانزول ہوا اور جن آیات میں جس قدر توحید گہرے انداز میں تھی اس قدر ان آیات کا درجہ اللہ کے یہاں بڑ ا ہوا ہے، سورۃ الاخلاص چونکہ مکمل بیان توحید پر مشتمل ہے ،لہٰذا اس کا مقام تہائی قرآن کے برابر قرار پایا، ایسی ہی آیت الکرسی جس کو قرآن کریم کی عظیم ترین آیت قرار دیا گیا، امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: چونکہ آیۃ الکرسی میں اسماء وصفات ،الوہیت ووحدانیت، حیات وعلم ، بادشاہت وقدرت، ارادہ جیسے عظیم اصول جمع ہونے کی وجہ سے وہ قرآن کی عظیم آیت قرار پائی۔
توحید کے تکرار کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ قوموں میں انقلاب یا تغیر وتبدیلی اس وقت تک رونما نہیں ہوسکتی جب تک کہ ان کے عقیدہ کو توحید کی سمت نہ موڑ دیا جائے، یہ وہ اساس ہے کہ جب قریش والوں نے آپﷺ سے سخت پریشان ہوکر ابو طالب کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ اپنے بھتیجے کو روکے وہ ہمارے خداؤں پر نکتہ چینی کرتا ہے ورنہ ہم ایسی جنگ چھیڑ دیں گے کہ کسی ایک فریق کا صفایا ہو جائے گا۔ ابوطالب اس دھمکی سے بہت متاثر ہوئے، آپﷺ کو اپنے پاس بلایا آپﷺ کو اندازہ ہونے لگا کہ چچا ساتھ چھوڑ دیں گے تو آپﷺ نے فرمایا:
’’چچا جان ا للہ کی قسم! اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاندر کھ دیں تب بھی میں اس کام کو حدتک پہنچا کر رہوں گا یا تو اللہ اس کام کو غالب کردے یا میں اس راہ میں کام آجاؤں۔‘‘
یہ تاریخی کلمات تھے جو توحید سے آخری حد تک محبت کا مظاہرہ کررہے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے عزم مصم کو پیش کررہے تھے، پھر آگے چل کر شعب أبی طالب میں آپﷺ کا تین سالہ بائیکاٹ ہوا ۔اس کے باوجود کلمہ توحید کا ایسا انقلاب قلب وجگر میں جوش ماررہا تھا کہ ایک پل بھی آپﷺ اور آپ کی جماعت نے اپنے قدم پیچھے نہ ہٹا ئے۔
انقلاب نبوی کی ایک نایاب خصوصیت:
پیغمبر اسلام کے برپا کیے ہوئے انقلاب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبہ کو محیط ہیں، محض بیان توحید پر یا مافوق الطبعیات عقائد و امور تک اس کا سلسلہ محدود نہیں ہے، بلکہ انسان کی روحانی زندگی کے ساتھ ساتھ دنیوی ظاہری زندگی کے لیے بھی اصول وقواعد بیان کرتے ہیں، معاشرت، سیاست اور جمیع امور کو یہ تعلیمات شامل ہیں۔
دوسرے مذاہب وادیان کا المیہ یہ ہے وہاں محض رہبانیت کا بیان ہے یاتو بعض زمینی ادیان ایسے جو جزئی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں ۔ مگر اسلام ہر نظام زندگی کو یکساں طور پر کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ کسی بھی گوشہ میں انسان تشنہ لب نہ رہ جائے۔
نبوی تربیت اور اخلاقی وسماجی انقلاب:
رسول اللہﷺ کی پاکیزہ زندگی انسانی سماج کے لیے بیش بہامتاع ہے، ایک سماج افراد سے وجود میں آتا ہے اور افراد کی جان، عزت، آبرو اور مال کا تحفظ سماج کی بقا کے لیے ناگزیر ہے، ان چیزوں کا تحفظ ہی درحقیقت سماج ومعاشرہ کی بقا ہے، ورنہ سماج کا تہس نہس ہونا لازمی ہے۔
رسول اللہﷺ نے انسانی جان کو اتنا محترم اور قیمتی بنایا کہ ناحق کسی کی جان ضائع کرنے کو نہ صرف گناہ قرار دیا بلکہ اسے پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا اورجان کی بربادی یا تحقیر کےدروازہ کو سختی کے ساتھ بند کردیا،اپنی حدیث میں آپﷺ نے شرک کے بعد بدترین گناہ کسی کو بے وجہ قتل کرنا قرار دیا، عزت وآبرو اوردوسرے کے مال پر کسی قسم کی دست درازی کو سخت تعزیری جرم قرار دے کر ہر شخص کی عزت اور مال کے تحفظ کی ضمانت فرمائی۔
عبداللہ بن عمروبن العاص بیان فرماتے ہیں:
’’آپﷺ فحش گو تھے اور نہ ہی بہ تکلف بری باتیں کرنے والے تھے، آپ فرمایا کرتے تھے تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہو۔‘‘(صحیح بخاری ومسلم)
ایک موقعہ پر آپﷺ نے فرمایا:
اللہ کے پاس میزان میں سب سے زیادہ وزنی چیز اچھے اخلاق ہیں اور اچھے اخلاق کی بنیاد پر انسان دن بھر روزہ رکھنے والے اور رات بھر قیام کرنے والے کے اجر کو حاصل کرلیتا ہے۔
یہ تو آپ ﷺ کے ارشادات ہیں، عملی طورپر دیکھا جائے تو رسول اللہﷺ نبوت سے قبل’’الصادق الامین‘‘ کے نام سے اسی لیے معروف تھے کہ سچائی اور لوگوں کی امانتوں کا خیال رکھنا ان کی حفاظت کرنا آپ کی فطرت وعادت کا حصہ تھا، قرآن نے اس سلسلہ میں بیان کرتے ہوئے کہا: انک لعلی خلق عظیم(بے شک آپ اخلاق کے بڑے درجہ پر فائز ہیں)
ایک دفعہ قریش کی ایک خاتون چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی، بعض صحابہ کرام نے اس کی سفارش کرنے کی کوشش کرنا چاہی، آپﷺ نے ان کا کہا نہ سنا اور فرمایا:
انما أھلک الذین قبلکم أنھم کانوا اذا سرق فیھم الشریف ترکوہ وإذا سرق فیھم الصنعیف أقاموا علیہ الحد
(صحیح البخاری) یعنی تم سے پہلے کی قومیں اس لیے تباہ وبرباد ہوئیں کہ جب ان میں معمولی لوگ گناہ کرتے تھے ان کو سزادی جاتی تھی اور جب بڑے لوگ جرم کرتے تو ان کو نظر انداز کردیاجاتا۔
معافی، اچھے اخلاق، جہلاء سے اعراض کی تعلیم دیتے ہوئے قرآن کریم کہتا ہے:
خذا العفو وأمر بالعرف واعرض عن الجا ھلین(الاعراف)معافی کو اختیار کرو اور نیکی کا حکم کرتے رہو اورجاہلوں سے اعراض کرو۔
رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا: جنّت میں لوگ کثرت کے ساتھ کس سبب سے داخل ہوگے۔ آپﷺ نے فرمایا:’’خوف الہی اور اچھے اخلاق‘‘نیز قیامت کے روز رسول اللہﷺ کے سب سے زیادہ قرب اس کو حاصل ہوگا جو اخلاق میں بہتر اور نرالاہوگا۔‘‘
ام المؤ منین عائشہؓ سے دریافت کیا گیا کہ آپﷺ کے اخلاق کیسے تھے آپؓ نے فرمایا: قرآن کی طرح۔(صحیح مسلم:۷۴۶)
موجودہ حالات میں اخلاقی وسماجی انقلاب کی ضرورت
جس طرح بعثت نبوی کے وقت کے سماج تتربتر تھے ضلالت وظلمت میں پڑے ہوئے تھے، انسانی بستیاں تھیں مگر انسانی شرافت سے تہی دامن تھیں، عرب میں عموماً قبیلوں کے نام پر لڑائیاں ہوا کرتی تھیں پھر اس کا سلسلہ برسوں چلتا، برہمنوں اور چھتر یوں نے شودروں کو غلام بنارکھاتھا، رومیوں نے افریقیوں پر غلبہ پاکر ان کو معاف نہ کیا، یونانیوں نے ایرانیوں کو کمزور ونادار سمجھ کر خوب خون ریزی کی ، فرعون مصرنے خدائی کا دعویٰ کرکے افرا تفری مچا رکھی تھی، بالکل ہوبہو آج بھی وہی صورت حال کئی جگہ پرہے، آج بھی یورپ میں نسلی منافرت عام ہے، کالے گورے کا عفریت مستقل طور پر ہنوز زندہ ہے ، یہ شہادتیں، تجربات یقینی ہیں، ان حالات میں بدنظمی کا خاتمہ، اجارہ داریوں کا صفایا صرف اور صرف نبوی اخلاق سے ہی ممکن ہے۔وہ تعلیمات جو رسول اللہﷺ نے دیں اور وحی الہیٰ کے ذریعہ ہم تک پہنچی ان کی بنیاد پر ایک عظیم انقلاب برپا کرنا نہایت آسان ہے، ضرورت جہد مسلسل اور عمل پیہم کی ہے۔
معاشی واقتصادی انقلاب
رسول اللہﷺ نے صرف روحانیت ہی نہیں بلکہ مادیت کے قاعدوں کو بھی منظم طور پر اجاگر کیا، محض روحانیت اور رہبانیت کی چادر لپیٹ کر خانقاہ میں منجمد ہوجانا اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہوسکتا جیساکہ ہندوازم، بدھ ازم اور عیسائیت کے یہاں اس کا تصور موجود ہے، بلکہ ہر میدان میں مکمل طور پر انقلاب اسلام کا عین منشا ہے۔
رسول اللہﷺ نے معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرہ میں عام ہونا چاہیے، ایسا ہرگز نہ ہو کہ مال صرف مالداروں کے جیبوں میں سمٹے سانپ کی طرح ڈیرہ ڈال کر تھم جائے یا صرف مالداروں میں ہی اس کی گردش ہوتی رہے، سرمایہ دارانہ نظام کی گتھی کی اصل حقیقت یہی ہے جہاں مالدار کا مال دن بدن بڑھتا رہتا ہے اور غریب دن بدن لاغر اور کنگال ہوتا جاتا ہے، معاش کے سلسلہ میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ سرمایہ کی گردش ہے، اس لیے کہ ہر طبقہ میں مال کی گردش ہوگی تو ہر طبقہ خوشحال ہوگا، چنانچہ رسول اللہﷺ نے جو اصول وضع کیے وہ اس سلسلہ میں وحی الہیٰ کی شعاعوں سے روشن تھے جیسا کہ فرمان الہیٰ ہے:
کی لایکون دولۃ بین الأ غنیاء منکم
(سورہ الحشر:۷)تاکہ یہ مال(مال غنیمت) صرف دولت مندوں کے ہاتھ میں گردش کرتا ہوا نہ رہ جائے۔
اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام وہ بلا ہے جس نے دولت کا توازن ختم کرکے رکھ دیا جبکہ رسول اللہﷺ نے دولت کی گردش کو بیع وشراء اور جائز تبادلہ وتجارت کے ذریعہ جاری رکھا ، مغرب کے منظم مالی نظام کی بنیاد سود ٹھہرایا گیا، جبکہ نبوی نظام نے مالی لین دین میں دونوں فریق کے نفع ونقصان کو ایسے معتدل انداز میں محفوظ کیا کہ کسی کا نقصان ہر گزنہ ہو۔ وحی الہیٰ کی روشنی میں رسول اللہﷺ نے ایسے تمام کاروبار اور تجارتوں ، خرید وفروخت کو قانوناً جرم اور گناہ قرار دیا جس میں ایک فرد کا نفع اور کئی لوگوں کا نقصان وخسارہ موجود ہو جیسے سود، سٹہ ، جوا وغیرہ سود کی تمام شکلیں حرام وممنوع قرار دے دی گئیں، کیونکہ سود کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ سرمایہ دار کے نام خوشحالی اور نفع کا لیبل لگادیا جائے، دنیا کے ہر کاروبار میں نفع ونقصان کا امکان ہوتا ہے لیکن سودی قرض کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ اگر قرض دار کنگال بھی ہوجائے تو قانون اس کے گھر کا اثاثہ بیچ کر اصل کو مع سود سرمایہ دار کو ادا کر دیتا ہے۔ اس طرح مال کا رخ کثیر عوام کے بجائے مٹھی بھر سرمایہ داروں کی جانب ہوجاتا ہے۔
موجودہ دور کا بینکنگ نظام بھی انھی سودی بنیادوں پر قائم ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں برے اثرات ہمارے سامنے آرہے ہیں۔رسول اللہﷺ نے وحی الہیٰ (آیات قرآنیہ) کی روشنی میں ہر قسم کی ملکیت کا ایک معیار مقرر کردیا ہے، جس میں گردش متاع مستقل جاری وساری رہے گی، جس کے پاس بھی اس معیار سے زیادہ دولت پائی جائے گی اس سے ہر سال زکوۃ کا لازمی حصہ وصول کیا جائے گا، عہد نبوی میں اس نظام کی بنیاد پر جو انقلاب برپا ہوا اس کی ہو بہو مثال آج کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی، اگر کوئی ملک موجودہ صورتحال میں بھی صحیح معنوں میں اسی اسلامی نظام کو اپنے یہاں نافذ کردے تو دیگر معاشی جرائم کا خاتمہ آسانی سے ہوجائے گا، نظام زکوۃ دراصل اسلامی معاشیات کا عظیم الشان انقلابی موضوع ہے ، رسول اللہﷺ نے اس موضوع پر رب کی کتاب اور وحی کی روشنی میں ایسا معاشی واقتصادی انقلاب برپا کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی، پھر آپ نے صدقات وخیرات کی خوب ترغیب دی اور مختلف قسم کے فدیے اور کفارے مقرر فرمائے جن سے غریبوں کی حاجت روائی آسان ہو جائے، یہ اثبانی طریقہ کار تھا، آپﷺ نے بخل، کنجوسی اور بوقت ضرورت خرچ نہ کرنے کو معیوب قرار دیا اور بخل کو قابل مذمت عمل بتایا گیا۔
رسول اللہﷺ نے جو معاشی نظام دنیا کودیا اسی انقلابی نظام کا اثر تھا کہ مسلم ملکوں میں صدیوں تک مال کی ریل پیل رہی اور یہی وجہ تھی سرمایہ دارنہ اور استعماری ملکوں نے ان کو اپنا نشانہ بنایا تاکہ ان سے یہ دولت چھینی جاسکے۔
سیاسی انقلاب
یہ ایک عظیم ترین انقلاب تھا، جس نے مسلمانوں اوراسلام کو فائدہ پہنچایا، اس کی بنیاد دراصل اس دن پڑچکی تھی جس دن سےرسول اللہﷺ نے اعلاء کلمہ اللہ کا فریضہ سنبھا لا تھا، یہ واجبی امر تھا کہ اسلامی حکومت کا قیام ہوتا،رسول اللہ ﷺ نے ایک خالص عقیدہ اور کتاب مبین کی طرف قوموں کو متوجہ کروایا، یہ ایک ایسی اساس تھی کہ اس کی بنیاد پر قوموں اور افراد کے دل یکجا ہونا تھے، قرآن نے اس موضوع کو بڑے اچھے انداز میں بیان کیا۔
اللہ کافرمان مبارک ہے:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ
(آل عمران:۱۰۳)اللہ تعالیٰ کی رسی(قرآن) کو سب مل کر مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمھیں بچالیا اللہ تعالیٰ اس طرح تمھارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
جب دل ایک عقیدہ پر یکجا ہوچکے تھے تو لوگوں کا متحد ہونا اٹل تھا، رسول اللہﷺ نے بنیادی ضابطوں پر ایسے جدوجہد کیا کہ اگلے مراحل یقینی طور پر سامنے آنا تھے، پھر وعدہ الہیٰ بھی تھا۔
ھُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا
(سورۃ الفتح:۲۸)وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کرے اور اللہ تعالیٰ کا فی ہے گواہی دینے والا ہے۔
آیت میں بیان کردہ اسلام کا یہ غلبہ دیگر ادیان پر دلائل کے لحاظ سے تو ہر وقت مسلم ہے تا ہم دنیاوی لحاظ اور عسکری لحاظ سے بھی قرون اولیٰ اور اس کے مابعد عرصہ دراز تک جب تک مسلمان اپنے دین پر عامل رہے انھیں غلبہ حاصل رہا۔ اور آج بھی یہ مادی غلبہ ممکن ہے جبکہ منہج نبوی کواپنے انقلاب وتحریک کا طریقہ کا ر بنایا جائے۔
وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ
(آل عمران:۱۳۹) یہ دین غالب ہونے کے لیے ہی آیا ہے مغلوب ہونے کے لیے نہیں۔
سیاسی طور پر انقلاب کے لیے رسول اللہﷺ نے بہت زیادہ محنت وجدوجہد، منصوبہ بندی اور بوقت ضرورت عسکری کا روائیوں کا سامنا کیا جبکہ بنیادی اساس مقرر تھی وہ ہے ’’دعوت عقیدہ توحید‘‘اسی بنیاد پر رب نے بھی کامیابی، علو اور اقتدار کا وعدہ بھی فرمایا ہے۔
چنانچہ ربانی فرمان ہے:
وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ
(آل عمران:۱۳۹)
یہاں اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ نبوی تصور مملکت دوسری اقوام کے تصور ریاست سے مختلف ہوتا ہے، وہاں سب کچھ انسانوں کے اختیار سے طے پاتا ہے چاہے حاکم اعلی بادشاہ اصل قرار دیا جائے یا جمہوریت کی شکل میں عوام کو منبع ریاست مان لیا جائے مگر محمدی ریاست کا معاملہ جدا ہوتا ہے، ملک اللہ کا ، حاکم اعلیٰ احکم الحاکمین، ملکی آئین اور قانون کا سرچشمہ اورماخذ رب العالمین کی مرضی اور منشا، حکمران اسلامی آئین کے محافظ اس کے نفاذ کے ضامن اور کتاب وسنت سے مستفید ہونے کے لیے خلق خدا کی حکیمانہ اور مشفقانہ رہنمائی کرنا اور ناصحانہ تعاون پیش کرنا نبوی تصور مملکت کے بنیادی عناصر ہیں۔
رسول اللہﷺ نے سیاسی لحاظ سے جوانقلاب برپا کیا، اس انقلاب کے نتیجہ میں ایسی ریاست وجود میں آئی جس میں اسلام کا نفاذ، عدل وانصاف، قوموں کا خیال اولین ترجیحات ہوتی ہیں، جس سے علیحدگی اور تفرقہ غیر صحیح قرار پاتا ہے۔سقیفہ نبی ساعدہ میں مہاجرین اور انصار کی الگ الگ حکومتوں کی تجویز بھی بالاتفاق رد کردی گئی تھی۔(ابن جریر، طبری)
آج کی عالمی طور پر موجودہ صورت حال دیکھی جائے تو نہایت افسوس ناک ہے اکثر ممالک میں جمہوریت کا اندھاراج ہے اور دیگر رائج طریقہ ریاست جو منہج نبوی سے یکسر مختلف ہیں۔ایک صحیح سیاسی انقلاب کے لیےر سول اللہﷺ کے منہج کو اختیار کرنا ہی لازمی وضروری ہے تاکہ بغیر کسی نقصان کے عظیم انقلاب کی راہیں ہموار ہوں۔ جس میں بنیادی طور علم کے ساتھ توحید خالص کی دعوت ہے تاکہ ٹھیک ویسے لوگ ایک دل پر یکجا ہوجائیں جیسے عہد نبوی میں یہ کارنامہ انجام پایا۔
دیگر میدانوں میں انقلابات:
مذہبی انقلاب ،سماجی انقلاب اور سیاسی انقلاب یہ بنیادی عناوین ہیں جن کے ذیل میں دیگر انقلابات ازخود شامل ہوجاتے ہیں، مذہبی تبدیلی ان تمام امورمیں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے ، اس لیے کہ ایک انسان عقیدہ کے لیے جو کچھ قربانی پیش کرسکتا ہے وہ دیگر امور واسباب کے لیے ہرگز ناممکن ہیں۔ ان انقلاب کے اثر سے علمی فکری، تہذیبی وثقافتی، معاشرتی واخلاقی اور حقوق کے باب میں انقلابات حتیٰ کہ انسانوں سے آگے بڑھ کر حیوانات کے حقوق بھی وجود میں آئیں۔ یہ سب رسول اللہﷺ کی محنت وکاوش، جدوجہد اور مسلسل اجتہاد کا نتیجہ تھا، جس کے نتیجہ میں دنیا نے ایک عالمی اسلامی انقلاب دیکھا جس کے اثرات آج بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔
آج کی ضرورت:
ہم مکی دور جیسی زندگی میں گزر بسر کررہے ہیں، مذہبی آزادی میسر ہونے کے ساتھ کافی امن وامان بھی ہمیں حاصل ہے، آج کے اس ماحول میں مستقل محنت، علمی اساس پر کتاب وسنت اور صحابہ کے منہج کی روشنی میں ہم پہلے صحیح منہج انقلاب کو طے کریں اور وہ وہی اساس ہے جس کو ہم نے آغاز میں بیان کیا وہ یہ کہ توحید کے مشن کو سنبھالا جائے اور ہر پہلو پر توحید کی نشر واشاعت ، اس کی دعوت پر پوری توجہ مرکوز کی جائے، ساتھ ہی ان اخلاق وآداب کو اختیار کیا جائے جن سے رسول اللہﷺ لیس تھے، اور اگر یوں ہی چلتا رہا کہ ہر ایک اپنے ایجاد کردہ نظریہ انقلاب پر کام کرنے لگے تو انقلاب کا حصول نا ممکن ہے۔
لا یصلح آخر ھذہ الأمۃ إلا ما أصلح أولھا(امت کے آخری حصہ کی اصلاح اسی نظریہ پر ممکن ہے جس سے اوّل طبقہ کی اصلاح ہوئی)

آپ کے تبصرے

3000