تکفیری فکر: اسباب ومفاسد

عبدالاحد احسن جمیل آل عبدالرحمن تعلیم و تربیت


الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا، أما بعد:

تکفیر کی تعریف:
تکفیر لغت میں کفر سے مشتق ہے اور کفر کسی چیز کو ڈھانپنے اور چھپانے کو کہتے ہیں۔
ابن فارس کہتے ہیں:
الكاف والفاء والراء أصل ‌صحيح ‌يدل ‌على ‌معنى واحد، وهو: الستر والتغطية
(معجم مقاییس اللغۃ: ۵/۱۹۱)
امام ابن اثیر کہتے ہیں:
أصل الكفر: ‌تغطية ‌الشيء تغطية تستهلكه
(النہایۃ، ص: ۸۰۷)
کفر کی شرعی تعریف:
کفر کی تعریف میں علماء کے متعدد اقوال ہیں اور ان سب کا مدار دومعانی پر ہے:
پہلا: ایمان کی ضد، دوسرا: نبی ﷺ کے لائے ہوئے احکامات کا یا ان میں سے بعض کا انکار کرنا۔
پہلا معنی امام لیث نے بیان کیا ہے جسے زہری نے ان سے نقل کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
الكفر: ‌نقيض ‌الإيمان آمنا بالله وكفرنا بالطاغوت
(تہذیب اللغۃ: ۴/۳۱۶۰)
دوسرے معنی کی طرف امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
الكفر ‌جحد ‌ما ‌علم أن الرسول جاء به، سواء كان من المسائل التي تسمونها علمية أو عملية، فمن جحد ما جاء به الرسول ﷺ بعد معرفته بأنه جاء به فهو كافر في دق الدين وجله
(مختصر الصواعق المرسلۃ: ۴/۱۵۸۹)
اسی معنی کی طرف امام راغب اصفہانی ،امام قرافی،امام زرکشی وغیرہ نے بھی اشارہ کیا ہے۔ (المفردات: ص۷۱۵، الفروق:۴/۱۲۷۷، المنثور فی القواعد الفقہیۃ: ۳/۸۴)
لغوی اور شرعی معنی میں وجہ اتفاق یہ ہے کہ کفر لغت میں ڈھانپنے اور چھپانے کو کہتے ہیں اور شرعی طور پر کفر کا اطلاق یا تو ایمان کی ضد پر ہوتا ہے یا نبی ﷺ کے لائے ہوئے احکامات کے یا ان میں سے بعض کے انکار پر ، اور یہ دونوں ہی سے ایمان کا چھپ جانا اور زائل ہونا لازم آتا ہے۔
کفر کی قسمیں:
پہلی بات تو ہمیں یہ سمجھنی ہوگی کہ قرآن وسنت کے نصوص کو کسی خاص واقعہ یاحالت یا جگہ پر فٹ کرنا کسی عام انسان کا کام نہیں اور نہ ہی کسی خاص عالم کی خاص رائے ہی کا اس میں کوئی دخل ہے بلکہ اس کام کے لیے علماء راسخین فی العلم کی ایک جماعت کا متفقہ قرار ہونا ضروری ہے۔یا کسی ایک عالم کی اگر رائے ہے تو اس پر ویسے ہی کبار علماء کا اس فیصلہ سے متفق ہونا بھی ضروری ہے۔یا یہ کہ ولی امر کا فیصلہ ہو، وغیرہ۔
دوسری بات : کفر کے بھی ویسے ہی درجات ہیں جیسے ایمان کے درجات ہیں، گویا یہ بات تو مسلم ہے کہ ہر کفر مخرج من الملۃ نہیں ہوتا۔
کفر کی عموما علماء نے دو قسمیں کی ہیں:
کفر اکبر (اسلام سے خارج کرنے والے)، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان:
‌إِنَّ ‌ٱللَّهَ ‌لَا ‌يَغۡفِرُ أَن يُشۡرَكَ بِهِۦ وَيَغۡفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ
(النساء:۴۸)
کفر اصغر (اسلام سے خارج کرنے والے نہیں) اس کی دلیل اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان:
سباب المسلم فسوق وقتاله كفر
(بخاری)
ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولم يرد حقيقة الكفر التي ‌هي ‌الخروج ‌عن ‌الملة بل أطلق عليه الكفر مبالغة في التحذير
(فتح الباری: ۱/۱۱۳)
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے :
باب: المعاصي من أمر الجاهلية، ولا يكفر صاحبها بارتكابها إلا بالشرك

اس کا ماحصل یہ ہے کہ جب اس سے پہلے یہ باب باندھا کہ گناہوں پر کفر کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے، تو یہاں یہ وضاحت کردی کہ ہر گناہ انسان کو کافر نہیں بنا دیتا جیسا کہ خوارج کا کہنا ہے۔(فتح الباری: ۱/۸۴)
تکفیری فکر کے اسباب:
تکفیری فکر کے اسباب یعنی یہ فکر انسان کے اندر کیوں پیدا ہوتی ہے، کیوں ایک انسان اس بات پر آمادہ ہوتا ہے کہ وہ کسی کی تکفیر کرے یا اس کے اندر یہ جرأت کیسے پیدا ہوتی ہے،علماء رحمہم اللہ نے اس کے متعدد اسباب اور امور ذکر کیے ہیں ، اور یہ وضاحت کی کہ ان امور کی وجہ سے انسان کے اندر یہ فکر پیدا ہوتی ہے ، ہم ذیل میں انھی امور کی طرف دلیل کے ساتھ اشارہ کریں گے، ان شاء اللہ۔
(۱) دینی احکام وقوانین سے لا علمی اور جہالت ، یہی وجہ ہے کہ کسی معتبر راسخ فی العلم سے ہم کسی انسان کی تکفیر، تبدیع یا تفسیق نہیں سنتے ، کیوں کہ وہ اس چیز کی خطرناکی سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔
اسی لیے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بکری پر رد کے سیاق میں فرماتے ہیں:
وهذه ‌الطريقة ‌التي ‌سلكها هذا وأمثاله هي طريقة أهل البدع؛ الذين يجمعون بين الجهل والظلم، فيبتدعون بدعة مخالفة للكتاب والسنة وإجماع الصحابة ويكفّرُون من خالفهم في بدعتهم، كالخوارج المارقين الذين ابتدعوا ترك العمل بالسنة المخالفة في زعمهم للقرآن، وابتدعوا التكفير بالذنوب، وكفّروا من خالفهم حتى كفّروا عثمان بن عفان وعلي بن أبي طالب ومن والاهما من المهاجرين والأنصار وسائر المؤمنين
(الاستغاثہ: ص۲۴۹)
(۲)نفسانی خواہشات کی پیروی، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَنۡ ‌أَضَلُّ ‌مِمَّنِ ٱتَّبَعَ هَوَىٰهُ بِغَيۡرِ هُدٗى مِّنَ ٱللَّهِ
(القصص:۵۰)، یہی وجہ ہے کہ اکثر ایسے لوگ جو مسلمانوں کی تکفیر وتبدیع کرتے پھرتے ہیں کبھی کفار سے ان کو کوئی گلہ شکوہ نہیں ہوتا۔
(۳)کتاب وسنت کے نصوص کی غلط تاویل اور اس کو سلف صالحین کی فہم سے الگ کر کے سمجھنا ، اسی کی طرف اشارہ امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کیا ہے، فرماتے ہیں:
ما أخاف على هذه الأمة من مؤمن ينهاه إيمانه ولا من فاسق بين فسقه، ولكني أخاف عليها رجلا قد قرأ القرآن حتى أزلفه بلسانه ‌ثم ‌تأوله على غير تأويله
(جامع بیان العلم:۲/۱۲۰۴، نمبر: ۲۳۶۸)
خوارج کے فتنہ کے ضمن میں اسی کی طرف امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اشارہ کیا ہے، فرماتے ہیں:
إنما تأولوا آيات من القرآن على ما اعتقدوه، ‌وجعلوا ‌من ‌خالف ذلك كافرا
(درء تعارض العقل والنقل:۱/۲۷۶)
(۴)شیطان کا دھوکہ اور تلبیس، چنانچہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ خوارج کے قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے کہہ رہے تھے:
بؤسا لكم، لقد ضركم من غركم. فقيل: ‌من ‌غرهم؟ فقال: الشيطان والنفس الأمارة بالسوء والأماني
(معارج القبول: ۳/۹۴۸)
(۵) کفر اکبر اور کفر اصغر میں تفریق نہ کرنا اور ان دونوں میں حد فاصل کا علم نہ ہونا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
التكفير نوعان: أحدهما: ‌كفر ‌النعمة. والثاني: الكفر بالله. والكفر الذي هو ضد الشكر: إنما هو ‌كفر ‌النعمة لا الكفر بالله. فإذا زال الشكر خلفه كفر النعمة لا الكفر بالله
(مجموع فتاوی: ۱۱/۱۳۷۔۱۳۸)
(۶)شہر، ملک، یا دنیا کے معروف ثقہ راسخین فی العلم علماء پر اعتبار نہ کرنا۔
اس کی دلیل نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث ہے:
إن الله ‌لا ‌يقبض ‌العلم انتزاعا ينتزعه من العباد، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا، فسئلوا فأفتوا بغير علم، فضلوا وأضلوا
(متفق علیہ)
مسلمان حکمراں علماء کی کیسی توقیر کرتے تھے اس کے ذکر سے تاریخ ورجال کی کتب بھری پڑی ہیں ہم یہاں صرف ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں:
وعن سفيان الثوري رضي الله عنه قال أدخلت على أبي جعفر المنصور بمنى فقال لي ارفع إلينا حاجتك فقلت له اتق الله ‌فقد ‌ملأت ‌الأرض ظلماً وجوراً، قال فطأطأ رأسه ثم رفعه، فقال: ارفع إلينا حتاجتك، فقلت: إنما أنزلت هذه المنزلة بسيوف المهاجرين والأنصار وأبناؤهم يموتون جوعاً فاتق الله وأوصل إليهم حقوقهم فطأطأ رأسه ثم رفعه، فقال: ارفع إلينا حاجتك، فقلت: حج عمر بن الخطاب رضي الله عنه فقال لخازنه كم أنفقت قال بضعة عشر درهماً وأرى ههنا أموالاً لا تطيق الجمال حملها وخرج
( إحياء علوم الدين: ۲/۱۴۶)
(۷) اصول دین اور منہج استدلال سے عدم واقفیت ، یہ ایسی وجہ ہے جو انسان کو حق تک پہنچنے نہیں دیتی، کیوں کہ جب انسان اصول شریعت سے جاہل ہوتا ہے اور قواعد استنباط تک اس کی رسائی نہیں ہوتی یا اس کا صحیح ادراک اس کو نہیں ہوتا تو وہ کلابازیاں دکھاتا رہتا ہے اور حق تک اس کی رسائی نہیں ہوپاتی ہے۔
اسی کو امام شاطبی رحمہ اللہ نے بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وهو ‌الجهل ‌بمقاصد الشريعة، والتخرص على معانيها بالظن من غير تثبت، والأخذ فيها بالنظر الأول، ولا يكون/ ذلك من راسخ في العلم
(الاعتصام: ۳/۱۱۱)
(۸) جاہلوں کو اپنا پیشوا اور امام بنانا اور ان کی اقتدا کرنا۔
اس کی دلیل نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث ہے:
إن الله ‌لا ‌يقبض ‌العلم انتزاعا ينتزعه من العباد، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا، فسئلوا فأفتوا بغير علم، فضلوا وأضلوا
(متفق علیہ)
یہ وہ چند بنیادی اسباب ہیں جن کی وجہ سے یہ فکر انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے اور انسان ایک کلمہ گو کی تکفیر وتبدیع کرنے کے درپے ہوتا ہے۔
اس فکر کے مفاسد اور نقصانات:
اس فکر کے نہایت ہی بدترین اثرات رونما ہوتے ہیں، چاہے وہ فردی امور میں ہو یا اجتماعی یا ملکی یا پھر عالمی۔
اس فکر کے غلط اثرات ہر اس انسان پر پڑتے ہیں جس کے پاس قلب سلیم ہو، کیوں کہ جب ایک انسان کی تکفیر کی جاتی ہے تو سب سے پہلی بات آپس میں دشمنی بڑھتی ، دوریاں بڑھتی ہیں جس کا فائدہ دشمنوں کو ہوتا ہے، رشتہ داریاں ٹوٹتی ہیں، دلوں میں نفرت پھیل جاتی ہے ، اس کے علاوہ جس کی تکفیر کی جاتی ہے گویا اس کے متعلق اعلان جنگ کیا جاتا ہے وہ اس طرح کہ جس پر کفر کا حکم لگایا گیا گویا اس کے سلسلہ میں کہا گیا کہ اس کا خون حلال اس کا مال حلال اس کی بیوی اس پر حرام اس سے رشتہ داریاں ختم ، اس کو وراثت کا حق ختم ، اگر وہ اسی حال میں وفات پاگیا تو نہ اس کو غسل وغیرہ دیا جائے گا، نہ اس کی تکفین ہوگی نہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی نہ اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جس کی تکفیر کی گئی اس کے رشتہ دار معاشرہ سے متنفر ہوجائیں گے ، خوں ریزی بڑھے گی، رسہ کشی بڑھے گی فرقہ واریت بڑھے گی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شیطان موقع پا کر ورغلا دے اور بھولے بھالے مسلمانوں کی ایک جماعت کو دین سے ہی متنفر کردے ۔
یہ اور اس طرح کے بے شمار نقصانات اس فکر کی وجہ سے پیدا ہوں گے، جن سے چھٹکارہ پانا ناممکن ہوجائے گا الا ماشاء اللہ۔
آج اپنے معاشرہ پرنظر ڈالو تو یہ اندازہ ہوگا کہ جس قدر فتنہ مصائب وآلام ہیں ان میں سے اکثر کی وجہ یہی تکفیری فکر اور اس کے حاملین کا طریقہ کار ہے۔اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھنے والا شخص اس چیز سے بخوبی واقف ہے کہ اس فکر کی وجہ سے کتنے ناحق مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے مسلمان ہی کیا انسانوں کا خون بہہ رہاہے ۔
افسوس تب زیادہ ہوتا ہے کہ ایک شخص جسے اللہ نے ابھی ابھی ایمان کی دولت سے مالا مال کیا ہوتا ہے یا اس پر حق کی راہ کھلنا شروع ہوئی ہے اور اس کے اندر نصوص شریعت کو ان کے مظان سے حاصل کر کے سمجھنے کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی کہ اردو یا انگلش یا مختلف زبانوں کے ترجمے اور ذاتی سمجھ کی بنیاد پر علماء امت کی، حکام کی ، بلکہ ملت اسلامیہ کی تکفیر شروع کر دیتا ہے ، نتیجہ کیا ہوتاہے ، اسلام اور مسلمان پر خط احمر کھینچ دیا جاتا ہے اور پوری امت مسلمہ کو زد وکوب کا نشانہ بنایا جاتا ہے، یہی کچھ کام ان لوگوں نے بھی کیا جنھوں نے نوجوانوں کو بھڑکا کر فتنوں کے منہ میں ڈھکیل دیا اور خود اپنی آرام گاہوں میں بیٹھے رہے، چاہے وہ کسی شکل وصورت ، رنگ وروپ میں ہمارے سامنے آئے ہوں۔
اب ہمارا کام یہ ہے کہ ہم کتاب وسنت کی طرف لوٹیں اور اس کی سچی تعلیمات سے اپنے آپ کو مزین کریں اور کتاب وسنت کے نصوص کو راسخین علماء سے پڑھیں اور ان کے مفہوم کو جیسے وہ بیان کریں ہم ویسے ہی سمجھنے کی کوشش کریں اور جہاں نہ سمجھ آئے بار بار ان سے رجوع کریں جلد بازی سے دور رہیں، کسی بھی مسلمان کے بارے میں زبان کھولنے سے پہلے دس بار سوچ لیں اور یہ یقین رکھیں کہ اگر بات غلط ہوئی تو ہمارا وہی حکم ہوگا جو ہم کسی مسلمان کے لیے بول رہے ہیں۔
خود كو اور طلاب علم کو ایک نصیحت:
عموما دیکھنے میں آتا ہے کہ طلاب علم اپنے مشایخ یا رفقاء کار میں سے کسی کی تعریف کرتے ہیں یا توثیق کرتے ہیں تو اس کے علاوہ تمام لوگوں کی تجریح کر دیتے ہیں، یہ سلف کا منہج نہیں اس سے باز رہنا ضروری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سب کا وزر ہمارے سر آجائے۔
مثال کے طور پر ہمارا یہ کہنا کہ فلاں اپنی زبان کی بہت حفاظت کرتا ہے ہمارے شہر کا دوسرا کوئی عالم ایسا نہیں ہے، اس بات کے اندر متعدد خرابیاں ہیں:
۱۔ آپ نے تمام لوگوں کے ساتھ جب تعامل نہیں کیا ویسا جیسا اس کے ساتھ آپ کا تعامل ہے جس کی آپ توثیق کر رہے ہیں تو آپ کو دوسروں پر حکم لگانے کا حق کس نے دیا۔
۲۔ اس قول میں علماء کی تنقیص ہے ۔
۳۔ عوام کے ذہن میں علماء کی عزت گھٹانے کا باعث ہے۔
۴۔ لوگوں میں نفرت پھیلانے کا سبب ہے۔
۵۔ ہوسکتا ہے کہ جس کی آپ توثیق کر رہے ہیں اللہ کی نظر میں اس کا مقام جس کی آپ تجریح کر رہے ہیں اس سے کم ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس کی آپ توثیق کر رہے ہیں اس کا علم تجریح کیے ہوئے انسان سے کمتر ہو اور آپ کی تجریح کی وجہ سے لوگ اس کے علم سے فائدہ اٹھانا چھوڑ دیں جو فتنہ کا باعث بنے۔ وغیر ذلک
لہذا ایسے کاموں سے دور رہیں جس میں اتنی ساری خرابیاں ایک ساتھ موجود ہوں۔
اللہ تعالی ہمیں صحیح سمجھ عطا کرے، آمین۔
وصلی الله علی نبینا محمد وعلی آله وصحبه وسلم

آپ کے تبصرے

3000