بدخواہوں کے مکروفریب سے بچنے کا شرعی طریقہ

تسلیم حفاظ عالی تعلیم و تربیت

مکر کا معنی ومفہوم:
علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
المكْر: ما يَقْصد فَاعله في بَاطِنه خلاف ما يَقْتَضِيه ظَاهره
(معجم مقاليد العلوم في الحدود والرسوم:۲۰۷) مکر یہ ہے کہ مکر کار اپنے باطن میں اپنے ظاہر کے برخلاف قصد کرے۔
علامہ جرجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هو إيصال المكْروه إلى الإنسان مِن حيث لا يشعر
(التعريفات:۲۲۷)کسی انسان کے ساتھ اس طور پر بدخواہانہ اور فریب کارانہ معاملہ کرنا کہ وہ سمجھ نہ سکے۔
علماے دین نے مکر کی دو قسمیں بیان کی ہیں، مکرمحمود اور مکر مذموم ۔ مکرمحمود وہ ہے جس کے ذریعے کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا جائے اور مکر مذموم وہ ہے جس کے ذریعے کسی کے ساتھ برائی کا قصد کیا جائے۔مذموم مکر کاشمار کبیرہ گناہوں میں ہوتاہے۔متعدد علما نے اس کے کبیرہ گناہ ہونے کی صراحت کی ہے۔ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عُدَّ هذا كبيرةً، صرَّح به بعضهم، وهو ظاهرٌ مِن أحاديث الغِشِّ … إذْ كون المكْر والخَدِيعَة في النَّار ليس المراد بهما إلَّا أنَّ صاحبهما فيها، وهذا وعيد شديد
(الزواجر عن اقتراف الكبائر:۱/۴۰۶)مکر کوکبیرہ (گناہ) شمار کیا گیا ہے،بعض علما نے اس کی صراحت کی ہے، احادیث غش(دھوکا دینے کی مذمت اور اس پر وعید سے متعلق حدیثیں )کے ظاہر سے یہی مفہوم متبادر ہوتا ہے،اس لیے کہ مکروفریب کے جہنم میں ہونے سے مراد یہی ہے کہ مکرکار اور فریب دہ جہنم میں جائیں گے،اوریہ سخت وعید ہے۔
ذیل میں مکرمذموم سے بچنے کے چند شرعی طریقے معرض تحریر میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔
صبروتقوی:
بدخواہ کی بدخواہی اور مکار کی مکاری سے بچنے کا سب سے پہلا طریقہ یہ ہے کہ انسان ہرحال میں صبروتقوی کا جامہ زیب تن کرکے رہے،آزمائشوں پر صبروتحمل کا دامن ہرگز نہ چھوڑے اور دفاع مکروہ کے لیے ممکنہ اسباب ووسائل اختیار کرنے کے ساتھ صرف اللہ تعالی ہی سے مدد طلب کرے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُواْ بِهَا وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ لاَ يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
(آل عمران:۱۲۰) تمھیں اگر بھلائی ملے تو یہ ناخوش ہوتے ہیں، ہاں!اگر برائی پہنچے تو خوش ہوتے ہیں،تم اگر صبر کرو اور پرہیزگاری کرو تو ان کا مکر تمھیں کچھ نقصان نہ دے گا۔اللہ تعالی نے ان کے اعمال کا احاطہ کررکھا ہے۔
حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ نے اس آیت کے تحت لکھا ہے:
’’ گویا منافقین اور دیگراعداے دین ومسلمین کی سازشوں سے بچنے کے لیے صبراور تقوی نہایت ضروری ہے۔اس صبروتقوی کے فقدان نے غیرمسلموں کی سازشوں کو کامیاب بنا رکھا ہے۔لوگ سمجھتے ہیں کہ کافروں کی یہ کامیابی مادی اسباب ووسائل کی فراوانی اور سائنس وٹیکنالوجی میں ان کی ترقی کا نتیجہ ہے۔حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی پستی وزوال کا اصل سبب یہی ہے کہ وہ اپنے دین پر استقامت(جوصبرکامتقاضی ہے) سے محروم اور تقوی سے عاری ہوگئے ہیں ،جو مسلمان کی کامیابی کی کلید اور تائید الہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔‘‘
اللہ تعالی کی عطاکردہ نعمتوں کوحاسدین کی نگاہوں سے مخفی رکھنے کی حتی الامکان کوشش کرنا:
جب حضرت یوسف علیہ السلام نےاپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام کے سامنے اپنے لیے گیارہ ستاروں کی سجدہ ریزی کا خواب بیان کیا اور خواب سن کرانھوں نےیہ اندازہ لگا لیا کہ ان کے اس بیٹے کو اللہ تعالی بلند مقام عطا کرےگا ،توانھیں یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ یہ خواب سن کر ان کے دوسرے سوتیلے بھائی بھی ان کی عظمت شان کا اندازہ کرکے کہیں انھیں نقصان نہ پہنچائیں، اس لیے انھوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے بھائیوں کے سامنے یہ خواب بیان کرنے سے منع فرمادیا:
قَالَ يَا بُنَيَّ لاَ تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُواْ لَكَ كَيْدًا إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
(يوسف:۵)یعقوب نے کہا پیارے بچے! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا،ایسا نہ ہو کہ وہ تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں، شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے۔
اس آیت کے تحت علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الإكليل‘ميں علامہ إلکیا ہراسی رحمہ اللہ کایہ قول نقل کیا ہے:
يدُلُّ على جوازِ تَركِ إظهارِ النِّعمةِ لِمَن يُخشَى منه حَسَدٌ ومَكرٌ
(الإكليل للسيوطي ص:۱۳۰) جس سے مکروحسد کا اندیشہ ہو اس کے سامنے اظہار نعمت نہ کرنے کے جواز پر یہ آیت دلالت کناں ہے۔
اللہ تعالی کی جناب میں پناہ طلب کرنا اوراس کے سامنے صدق واخلاص کے ساتھ دست دعا دراز کرنا:
ایک مومن کے لیے دعا بھی ایک مضبوط ہتھیار ہے۔عزیز مصر کی بیوی نے جب حضرت یوسف علیہ السلام کو دعوتِ گناہ دی،مکروفریب کےمتنوع جال بچھائے،اپنے حرام وناجائز مطالبے کی عدم تکمیل کی صورت میں قیدوبند کی دھمکی بھی دے ڈالی تو حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا کی:
قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
(يوسف:۳۳-۳۴)یوسف نے دعا کی اے میرے پروردگار! جس بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلارہی ہیں اس سے مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے، اگر تونے ان کا فن فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور بالکل نادانوں میں جا ملوں گا۔
اللہ تعالی پر توکل:
حضرت ہود علیہ السلام نےجب اپنی قوم کو دعوت توحید دی،انھیں اللہ کے حضور توبہ واستغفار پر ابھارا، پوری قوت کے ساتھ ان کے سامنے دلائل توحید پیش کیے، کفروشرک کی قباحت وشناعت بیان کی،تو انھوں نے کبروعناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام دلائل وبراہین کا یکسر انکار کردیااور الٹے ہود علیہ السلام سےکہا کہ ہمارے معبودوں کی توہین وگستاخی کی وجہ سے تیرا دماغ ماؤف ہوگیا ہے۔قوم ہود کے شپرہ چشموں نے یہیں پربس نہیں کیا بلکہ انھوں نے حضرت ہود علیہ السلام پرطرح طرح کے الزامات واتہامات عائد کیے،ان کے خلاف سازشیں کیں،توحضرت ہود علیہ السلام نے دعوت توحید اور مضبوطی کے ساتھ پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس اللہ پر بھروسہ کرلیا ہے جومیرا اور تمھارا رب ہے، جس کے ہاتھ میں ہرچیز کا قبضہ وتصرف ہے،یقیناً وہ مجھے تمھارے مکروفریب اور سازشوں سے سے بھی محفوظ رکھےگا اور شیطانی چالوں سے بھی بچائےگا۔اللہ تعالی نے اپنے نبی ہود علیہ السلام اور ان کی قوم کے بارے میں فرمایا:
إِن نَّقُولُ إِلاَّ اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوَءٍ قَالَ إِنِّي أُشْهِدُ اللّه وَاشْهَدُواْ أَنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ مِن دُونِهِ فَكِيدُونِي جَمِيعًا ثُمَّ لاَ تُنظِرُونِ إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّهِ رَبِّي وَرَبِّكُم مَّا مِن دَآبَّةٍ إِلاَّ هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
(هود:۵۴-۵۶)بلکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تو ہمارے کسی معبود کے برے جھپٹے میں آگیا ہے۔اس نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں تو اللہ کے سوا ان سب سے بیزار ہوں،جنھیں تم شریک بنا رہے ہو۔اچھا تم سب مل کر میرے خلاف چالیں چل لو اور مجھے بالکل مہلت بھی نہ دو۔میرا بھروسہ صرف اللہ تعالی پر ہی ہے،جو میرا اور تم سب کا پروردگار ہے،جتنے بھی پاؤں دھرنے والے ہیں سب کی پیشانی وہی تھامے ہوئے ہے۔یقیناً میرا رب بالکل صحیح راہ پر ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اپنے حفظ وامان میں رکھے اور بدخواہوں کے مکروفریب سے بچائے۔آمین

آپ کے تبصرے

3000