کیا علمائے کرام کو بردرس کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے؟

فاروق عبداللہ نراین پوری تنقید و تحقیق

جب دعوت بردرس کی خطرناکیوں اور سنگینیوں کے متعلق کچھ لکھا جاتا ہے تو بہت سارے خیرخواہ یہ مشورہ دیتے ہیں: چونکہ وہ میدان میں کام کر رہے ہیں اس لیے انھیں میدان سے یک دم دور نہ کرکے ساتھ لے کر کام کرنا چاہیے۔
یہ بات سننے میں چاہے جتنی اچھی کیوں نہ لگے شرعی اصولوں سے میل نہیں کھاتی۔ اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ بلا علم دعوت الی اللہ کا شرعی حکم کیا ہے۔ نیز سلف صالحین سے منقول آثار کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے کہ انھوں نے ان کے ساتھ کیسا موقف اختیار کیا۔ ان کا موقف بالکل واضح اور صاف ہے کہ بلا علم کسی بھی صورت میں اپنے آپ کو داعی، مفتی ومعلم کی شکل میں پیش کرنا جائز نہیں۔ اگر اس میں کوئی خیر ہوتا تو وہ ہم سے پہلے اس طرف سبقت کرتے اور ہمارے لیے آئیڈیل بنتے۔ لیکن انھوں نے ہمارے لیے جو نمونہ چھوڑا ہے وہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔
اور ان کا یہ موقف نقل وعقل کے بھی عین موافق ہے۔ نقل کے موافق اس لیے کہ بے شمار نصوص کتاب وسنت ان کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔
کتاب وسنت کے دلائل اس بارے میں واضح ہیں کہ بلا علم اللہ تعالی کے متعلق کچھ لب کشائی کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ جب ان کے پاس علم ہی نہ ہوگا تو آخر کس چیز کی طرف وہ دعوت دیں گے؟
عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہر میدان میں ماہر ومتخصص کی خدمات حاصل کی جائیں۔ جس طرح کوئی بھی حکومت محض بعض کتب کے ذاتی مطالعہ سے کسی کو بھی ڈاکٹری، وکالت یا ججمینٹ کی اجازت نہیں دیتی اور نہ انھیں ساتھ لے کر کام کرنے کی دلیری دکھاتی ہے، بلکہ ان کے خلاف سخت ایکشن لیتی ہے، ٹھیک اسی طرح دین کے معاملے میں بھی کسی کو محض چند کتب کے ذاتی مطالعہ سے شریعت کے متعلق لب کشائی کی بالکل اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ساتھ لے کر کام کرنے کی غیر معقول کوشش کرنی چاہیے۔
انھیں ساتھ لے کر کام کرنے کی کوشش نہ کرنے کی ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے: عموما یہ دیکھا جاتا ہے کہ بردرس شروع شروع میں علمائے کرام سے جڑے رہتے ہیں، ہر طرح کے در آمدہ مسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ فتوے کی زبان میں بات کرنے سے بچتے اور ڈرتے ہیں۔لیکن جیسے جیسے عوام میں ان کی مقبولیت بڑھتی جاتی ہے ان کی جرأت بھی اسی طرح پروان چڑھتی رہتی ہے، یہاں تک کہ بالآخر علمائے کرام کی موجودگی میں مسند افتا پر براجمان ہونے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ بلکہ بعض تو علمائے کرام کی مخالفت میں فتوی دینا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ آج جو اکثر بردرس مفتی بنے ہوئے ہیں کبھی وہ بھی علما کے ساتھ جڑے ہوئے تھے لیکن نتیجہ کیا نکلا یہ سب کے سامنے ہے۔
بطور مثال ایک برادر کا حال سنیں:
عربی زبان سے ناواقف، نہ کسی مدرسے کا کبھی منہ دیکھا اور نہ کسی استاد سے علم حاصل کیا، بلکہ عصری تعلیم بھی ابتدائی درجات تک ہی محدود رہی۔شروع شروع میں انھوں نے مترجم کتب سے آیات اور احادیث کے ترجموں پر مشتمل میسیجیز لوگوں کو بھیجنا شروع کیا۔ روزانہ ایک آیت یا حدیث کا ترجمہ بھیجتے ۔ ترجمہ کے علاوہ اس میں کچھ نہ ہوتا ۔ کچھ دنوں بعد ان کے نمبر پر لوگوں کی طرف سے سوالات آنے شروع ہوئے۔ ان کے جوابات کےلیے وہ علمائے کرام سے رجوع کرتے اور جو جواب ملتا آگے فارورڈ کر دیتے۔ایک مدت کے بعد ان کے پاس کافی جوابات جمع ہوگئے۔ اب جب ان کے پاس سابقہ سوالات سے ملتا جلتا کوئی سوال آتا تو علما کی طرف رجوع نہ کرکے ان کے جوابات کی روشنی میں خود ہی جواب دینے کی کوشش کرنے لگے۔ کچھ غیر عربی کتابیں تو پہلے سے ہی ان کے مطالعہ میں تھیں۔ رفتہ رفتہ دائرہ دعوت وسیع ہوتا گیا۔دعوتی کاز کے لیے سوشل میڈیا کا جم کر استعمال کرنے لگے۔ پھر خطبہ جمعہ سے ہوتے ہوئے اجلاس عام تک پہنچ گئے۔ فضیلۃ الشیخ کالقب ملنے لگا، نئے نئے فتوے دینے لگے اور ایسے ایسے مسائل پر بولنا شروع کیاکہ اگر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیے جاتے تو اصحاب بدر کو جمع کر لیتے۔ بلکہ علمائے کرام کی علی الاعلان مخالفت کرنے لگے۔کچھ دنوں بعد ایک میگزین کے ایڈیٹر بن گئے۔ ایک ویب سائٹ لانچ کر ڈالی اور اب کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ایک لمبی مدت تک میرے ٹچ میں رہے ، مجھ سے مسائل کا حل پوچھتے تھے اور میں ان کے نزدیک ایک معتمد عالم دین تھا۔ جب میں گھر جاتا تو سفر کرکے میرے پاس مسائل کی جانکاری کے لیے آتے تھے۔ میں وقتا فوقتا انھیں نصیحت کرتا رہتا تھا کہ آپ کا یہ میدان نہیں ہے لیکن ادھر ادھر کی باتوں سے موضوع بدل دیتے۔ایک مرتبہ تقریظ لکھوانے کے لیے میرے پاس اپنی ایک نئی تالیف بھیجی۔ کتاب پڑھ کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ کتاب علاقے میں موجود ایک قدیم رائج عمل کے رد میں تھی، علم اور منہج سلف کی جو اس میں دھجیاں اڑائی گئی تھیں کہ الامان والحفیظ۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ کے لیے اس طرح کے مسائل پر لب کشائی جائز ہے؟تو جناب بگڑ گئے۔ میں نے پندرہ منٹ سے زائد ایک آڈیو میں انھیں کافی نصیحتیں کیں، علم حاصل کرنے پر ابھارا، لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی،بلکہ الٹا مجھے واٹس اپ فیس وغیرہ پر بلاک کر دیا۔
اس واقعہ سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ علما سد باب کے لیے کیوں انھیں دعوتی میدان سے دور رکھنے کی بات کرتے ہیں۔
اس لیے کسی بھی صورت میں حصول علم سے پہلے انھیں اپنے آپ کو داعی، مفتی ومعلم کی شکل میں پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ان کے ساتھ خیر خواہی اسی میں ہے کہ انھیں طلب علم کی رغبت دلائی جائے، پھر جب وہ علم سے آراستہ ہو جائیں شوق سے دین کی خدمت کریں۔ آج جو علما ان کی تنقیدیں کرتے ہیں کل وہی ان کا استقبال کریں گے اور انھیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے، کیونکہ علما کسی ذاتی دشمنی کی بنا پر ان کی مخالفت نہیں کرتے، صرف دین کا تحفظ انھیں ان کی نقاب کشائی پر مجبور کر رہا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ بردرس کو ساتھ لے کر کام کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اس کا واحد حل یہی ہے کہ پہلے علم حاصل کریں، پھر اسے نشر کریں۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
ولي الرحمان

جزاكم الله

Mo Mubarak Rain

شکراً شیخ محترم
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
بارك الله فى علمك و نفع بك الإسلام والمسلمين آمين