ماہ رجب کی حقیقت

محمد اشفاق سلفی عقائد

الحمد لله وكفى وسلام على عباده الذين اصطفى، وبعد!
ماہ رجب ہجری تقویم کا ساتواں مہینہ ہے اور یہ حرمت و احترام والے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔مہینوں کی تعداد اللہ نے بارہ مقرر فرمائی ہے اور ان میں چار مہینوں کو حرمت والا قرار دیا ہے اور بطور خاص ان میں ظلم یعنی شرک و بدعت اور معصیتوں سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰهِ۔۔۔۔۔۔الآیۃ
(سورہ توبہ:۳۶)
حرمت والے مہینوں کے تعین کے لیے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ملاحظہ فرمائیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں بیان فرمایا ہے:
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الزَّمَانَ قَدْ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلَاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ
(صحیح البخاری:۴۶۶۲، صحیح مسلم:۱۶۷۹)
ابو بکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( حجۃ الوداع کے خطبے میں ) فرمایا زمانہ اپنی اسی پہلی ہیئت پر آگیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق کے دن اسے مقرر کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے ، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو لگاتار یعنی ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم اور چوتھا رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے۔
حرمت کے تین مہینے پے در پے ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم، چوتھا مہینہ درمیان سال میں جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان رجب کا مہینہ ہے۔
اس مہینے کو ’رجب فرد‘ یعنی تنہا اور اکیلا مہینہ بھی کہتے ہیں، ماہ رجب کے تقریبا۱۳ نام ہیں جو اس کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔
کفار مضر قبیلہ قریش اس مہینے کا خاص احترام کرتے تھے اس لیے اس کو رجب مضر بھی کہتے ہیں، اس مہینے میں یہ لوگ اپنی تیروں اور نیزوں کے پھل کو نکال دیا کرتے تھے اور بالکلیہ قتال سے اجتناب کرتے تھے اس لیے اس کو ’منصل الأسنة‘ بھی کہتے ہیں۔
حرمت والے مہینے کے لحاظ سے مسلمانوں کو خصوصی طور پر گناہوں سے اور اللہ کے بندوں کے ساتھ ظلم کرنے سے باز رہنا چاہیے۔یوں تو ظلم ہر حال میں حرام ہے لیکن عظمت والے مہینے اور حرمت والی جگہوں میں اس کی سنگینی اور بھی بڑھ جاتی ہے، ساتھ ہی اعمال صالحہ کی اہمیت بھی دو چند ہو جاتی ہے، تاہم اعمال صالحہ کی قبولیت کے لیے اخلاص و للہیت کے ساتھ سنت نبویہ اور سنت خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے ثبوت بھی ضروری ہے۔
ماہ رجب کی حرمت و عظمت اور ظلم و معصیت سے اجتناب کی زبردست تلقین کے باوجود امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ غیر ثابت اعمال و وظائف کو انجام دے کر رب تعالیٰ کی ناراضگی مول لیتا ہے اور اسلام کو بد نام کرتا ہے۔ بعض غلط چیزوں کی ذیل میں نشاندہی کی جا رہی ہے اللہ تعالی ہم سب کو حق پر چلائے اور توحید پر ہی ہمارا خاتمہ فرمائے۔آمین
صلاۃ الرغائب:
رغبتوں اور ضرورتوں کی تکمیل کے لیے رجب کی پہلی شب جمعہ کو کچھ لوگ مغرب اور عشاء کے درمیان یا بعد نماز عشاء بارہ رکعت نماز مخصوص صفت پر ادا کرتے ہیں۔ ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے ہیں اور ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد تین مرتبہ سورۃ القدر اور بارہ مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھتے ہیں، ان رکعتوں سے ان کے گناہ خواہ سمندر کی جھاگ کے مانند ہوں یا ریت کے ذروں، درخت کے پتوں اور پہاڑوں کے مثل، تمام کے تمام معاف کر دیے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی رکھا جاتا ہے کہ ایسا کرنے والا شخص اپنے گھر اور خاندان کے سات سو ایسے لوگوں کو بخشوائے گا جن کے اوپر جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔ والعیاذ باللہ
یہ حدیث جھوٹی اور جعلی ہے، لہذا امام غزالی رحمہ اللہ کی کتاب ’احیاء العلوم‘ اور ’قوت القلوب‘ میں اس کے مذکور ہونے سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ ملاحظہ ہو امام نووی کی کتاب’المجموع(۴/۵۶)، امام زین الدین العراقی کی کتاب ’المغني عن حمل الأسفار‘ (ص:۲۴۰) اور امام عجلونی رحمہم اللہ کی کتاب ’كشف الخفاء‘ (ج:۲، ص:۴۱۷)
رجب کے کونڈے:
حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے نام سے ۲۲ رجب کو کھیر پوری، حلوے اور عمدہ پکوان پر جعفر صادق کے نام سے فاتحہ پڑھتے اور ان کے نام کی نذر و نیاز نکالتے ہیں اور اس عمل کو کشادگئ رزق اور ازالہ تکالیف کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ جعفر صادق رحمہ اللہ کی نہ تو پیدائش ۲۲ رجب ہے اور نہ ہی ان کی وفات۔ پیدائش کی تاریخ۸ رمضان المبارک سن۸۰ ھ اور دوسری روایت کے مطابق۱۷ ربیع الاول سن۸۳ھ ہے جبکہ ان کی وفات ۱۵ شوال۱۴۸ھ ہے۔دور بنوامیہ کے باون سال انھوں نے دیکھے ہیں اور بقیہ عمر خلافت بنو عباسیہ میں گزری ہے۔ لہذا۲۲ رجب کی تاریخ کو حضرت جعفر سے جوڑنا صریح دھوکا اور ان کا بھونڈا مذاق ہے۔ اس سلسلے میں منشی جمیل احمد کی نظم جس میں لکڑہارے اور اس کی بیوی کی تنگی کا جھوٹا افسانہ مذکور ہے، کو نڈے کی رسم قبیح کی بنیاد ہے۔ نہ کوئی دلیل اور نہ ہی کوئی حجت و برہان۔برصغیر میں یہ رسم بہت قدیم نہیں ہے ۔ لکھنؤ میں جب اہل سنت کا زور تھا تو شیعہ اسے چھپ چھپاکر انجام دیا کرتے تھے بعد میں رفتہ رفتہ جب یہ عام ہوئی تو اسے جعفر صادق کی طرف منسوب کر دیا گیا۔
معتبر کتب تاریخ کی روشنی میں ۲۲/ رجب کی تاریخ، کاتب وحی اور مومنوں کے ماموں حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات ہے ،جس کی خوشی منکوس القلب شیعوں نے منائی اور حلوا پوری آپس میں کھایا اور کھلایا اور اہل سنت کے ڈر سے جعفر صادق کو بلی کا بکرا بنادیا۔
اس سلسلے میں علماء کرام بالخصوص علمائے دیوبند کے فتاویٰ ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔اہل سنت کے کم سواد اور شکم پرور ملاؤں نے بھی اس رسم کو خوب ہوا دی اور شکم پروری کا ذریعہ بنایا ۔ اہل تشیع اور نام نہاد اہل سنت حلوا پوری کے کونڈے بھر بھر کر تقسیم کرتے ہیں اور بے پر کی اڑانے والے جمیل احمد شیعی کی منظوم میں مذکور داستان عجیب کو مزہ لے لے کر بیان کرتے ہیں۔اللہ تعالی دشمنان اسلام اور اعداء اہل سنت کو غارت کرے اور شرک و بدعت کا قلع قمع فرمائے۔آمین
شب معراج:
بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہم معجزات میں واقعہ اسراء ومعراج بھی ہے جو جسم و روح کے ساتھ ایک ہی رات بلکہ رات کے ایک حصے میں پیش آیا ۔ اسراء ، کعبہ سے بیت المقدس تک کے زمینی سفر کو کہتے ہیں، جب کہ معراج آسمانی سفر کا نام ہے۔تفصیلات کتب حدیث و سیر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ کب پیش آیا اور اگر بالفرض اس کی تعیین بھی ہو جائے تو کیا ہمیں بحیثیت متبع رسول ﷺ، اپنی طرف سے کسی دینی عمل کی انجام دہی کا شرعا حق حاصل ہے یا ہم سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت خلفائے راشدین کی پیروی کرنے کے مکلف ہیں۔درحقیقت اس رات کی تعیین میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں۔بعض قصہ گو حضرات نے قاسم بن محمد کے حوالے سے ستائیسویں رجب کی روایت بیان کی ہے جو صحیح نہیں ہے، جیسا کہ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ نے ’لطائف المعارف‘ (ص۲۹۰)اور علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’تبیین العجب‘( ص۱۱) پر ذکر کیا ہے۔
واقعہ معراج کے وقوع کے سال میں اختلاف ہے تو مہینہ اور تاریخ کا کیا پوچھنا ؟ شاید اس کے بھلا دینے میں اللہ تعالی کی حکمت بالغہ ہو ۔ اور اگر تعیین ثابت بھی ہوجائے تو ہمیں جب تک قولی یا فعلی سنت اس رات کی عبادت کے تعلق سے نہیں مل جاتی ہمارے لیے کوئی مخصوص نماز سنت پڑھنا یا جشن منانا یا تقاریر کا اہتمام کرنا یا مسجد کو غیروں کی دیکھا دیکھی بلکہ مجوسیوں اور برامکہ کی آتش پرستی کی نقل اتارتے ہوئے چراغاں کرنا کیوں کر جائز ہو سکتا ہے ؟اگرایسا کچھ بھی عہد نبوی ، عہد صحابہ و تابعین میں ہوا ہوتا تو بلااختلاف امت شب معراج کا تعین اور اس میں انجام دیے جانے والے اعمال (مروجہ) کی وضاحت موجود ہوتی لہذا بہرصورت ہم مسلمانوں کو جملہ بدعات و محدثات سے پرہیز کرنا چاہیے۔
دیگر اعمال:
ماہ رجب میں خصوصیت کے ساتھ روزوں کا اہتمام کرنا بھی ثابت نہیں ہے، بلکہ اس سلسلہ میں وارد احادیث ضعیف اور موضوع ہیں، ممانعت کی حدیث بھی ثابت نہیں ہے۔ لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے کہ وہ ماہ رجب کا روزہ رکھنے والوں اور کھانے سے دست کش رہنے والوں کے ہاتھوں پر مارتے تھے اور ایسا ہی اثر حضرت ابوبکر صدیق افضل الصحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے بھی ثابت ہے۔لہذا ایک مسلمان اپنی عادت کے مطابق دیگر مہینوں کی طرح ماہ رجب میں بھی روزہ رکھ سکتا ہے، البتہ خصوصیت کے ساتھ صرف ماہ رجب یا پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنے سے پرہیز لازم ہے۔اگر کسی مشروع عمل کو بھی کسی وقت یا جگہ کے ساتھ شرعی دلیل کے بغیر خاص کر دیا جائے تو وہ بدعت کہلائے گا،تخصیص کے لیے دلیل ضروری ہے، اسی طرح کچھ لوگ اس ماہ میں اعتکاف کا بھی اہتمام کرتے ہیں جبکہ بعض دوسرے افراد تقرب الی اللہ کی غرض سے جانور ذبح کرتے ہیں جس کو ’عتیرہ‘کہا جاتا ہے جو کہ غلط اور ممنوع ہے۔صحیح حدیث ہے :’’لافرع و لا عتیرہ‘‘(رواہ البخاری حدیث نمبر:۷۳۵۴، صحیح مسلم حدیث نمبر:۱۹۷۶)یعنی ’جانور کا پہلا بچہ جسے بتوں کے لیے ذبح کیا جاتا تھا اور رجب کا مخصوص ذبیحہ باطل ہیں۔‘
بہت سے لوگ ماہ رجب میں خصوصی طور پر عمرہ کی ادائیگی کرتے ہیں،یوں تو سال بھر عمرہ کیا جا سکتا ہے لیکن ماہ رجب میں عمرہ کرنا اور اس کی خصوصی فضیلت کا اعتقاد رکھنا بے بنیاد ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے جن میں سے ایک عمرہ ماہ رجب میں بھی کیا۔‘‘ اس پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ اللہ ابو عبدالرحمٰن (کنیت عبداللہ بن عمر) پر رحم فرمائے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام عمرے میں ساتھ رہے ، حالانکہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی عمرہ رجب میں ادا نہیں کیا (گویا ابن عمر سے بھول ہو رہی ہے) ۔(صحیح بخاری حدیث نمبر :۱۷۷۶)
اخیر میں ایک مروج دعا کے متعلق بھی عرض کرنا واجب دینی سمجھتا ہوں، تاکہ لوگ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے اس دعا کو شیئر نہ کریں اور ضعاف اور موضوعات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنے کے گناہ عظیم سے بھی بچ سکے۔
اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان (اخرجہ ابن عساکر فی التاریخ و ابو نعیم فی الحلیہ والبزار و احمد فی مسندھما عن انس ابن مالک رضی اللہ عنہما)اے اللہ ہمیں رجب و شعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان نصیب فرما۔
حدیث کی سند ضعیف ہے، اس میں زائدہ ابن ابی الرقاد منکر الحدیث اور زیاد بن عبد اللہ النمیری البصری ضعیف ہے۔
واضح ہو کہ ماہ رجب کی فضیلت میں ایک من گھڑت حدیث لوگوں میں عام ہے:
رجب شھر اللہ شعبان شھری و رمضان شھر امتی(رجب اللہ کا مہینہ ہے شعبان میرا اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے)
انتہائی ضعیف بلکہ من گھڑت حدیث ہے، سند میں ابوبکر النقاش متروک الحدیث راوی ہے۔
خلاصہ:
شریعت کی نظر میں اعتبار حسن عمل کا ہے کثرت عمل کا نہیں، اخلاص اور متابعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کوئی عمل صحیح اور مقبول نہیں ہے ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وان تطیعوہ تھتدوا (النور:۵۴)اگر رسول کی پیروی کروگے تو ہدایت پا جاؤگے۔
یعنی ہدایت اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر موقوف ہے ۔ ماہ رجب کے تعلق سے لوگ افراط و تفریط کے شکار ہیں ۔ لوگ جہاں بدعات و خرافات کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں وہیں بہت سے لوگ اس مہینہ حرام میں بھی ظلم و زیادتی، گناہوں کے ارتکاب اور واجبات کے ترک کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ اعتدال کی راہ یہ ہے کہ ہم واجبات و مستحبات کی بجا آوری بڑھ چڑھ کر کریں اور گناہوں سے از بس پرہیز کریں۔ ثواب کے نام پر ایسا کوئی عمل نہ کریں جو صحیح دلیل سے ثابت نہ ہو،بدعات کو رواج دینا اخوان الشیاطین کا کام ہے اور بدعت حبط عمل اور اگر شرکیہ ہو تو حبط ایمان کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالی حق و ہدایت کی راہ پر ہمیں گامزن فرمائے ۔آمین

3
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
عبد السلام بن صلاح الدین

ما شاء اللہ
تبارک اللہ
بارک اللہ فی علمہ و قلمہ

Mo Mubarak Rain

ماشاء اللہ
شکراً جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
مضمون بہت ہی مناسب اور قابل تحسین ہے، لمحوں میں چہار جانب کو سمیٹے کی بھرپور کوشش کی گی ہے

Bahdadi

بندے نے کام کیا ہے لیکن حدیث دانی اس کے بس کی بات نہیں کیونکہ اس نے متروک راوی کی وجہ سے موضوع کہا ہے حالانکہ ابن حجر امام ذھبی امام سیوطی اور دیگر محدثین کا مؤقف ہے کہ متروک راوی کی حدیث موضوع نہیں ہوتی بلکہ ضعیف ہوتی ہے اور ضعیف حدیث جمہور محدثین کے ہاں فضائل میں قبول ہے آپ کتب اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں.