عائشہ کی خودکشی، جہیز، وراثت اور مسلم پرسنل لا بورڈ

ذکی نور عظیم ندوی سماجیات

عائشہ کی خود کشی نے ایک بار پھر جہیز اور خواتین پر ظلم و زیادتی کو موضوع بحث بنادیا ہے۔ ہر طرف سے جہیز کے لین دین کی مذمت، اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل، اس کی سنگینی، ٹوٹتے رشتے، بکھرتے گھر، بکتی زمین و جائیداد، بڑھتی عمر کے باوجود رشتہ نہ ہو پانے کا درد، بوڑھے اور پریشان حال ماں باپ کی تڑپ، چھپ چھپ کر آنسو بہاتی اور بلکتی آنکھیں، کبھی بچیوں کا تو کبھی خود ماں باپ کا چھتوں سے چھلانگ لگا کر، ٹرین کی پٹریوں پر آکر، اپنے آپ کو ندیوں اور دریاؤں کی لہروں کے حوالہ کرکے اور طرح طرح کے دوسرے طریقوں سے اپنی زندگی سے ہی نجات پاکر اس مسئلہ سے بچنے کی تگ و دو اور اس کے دیگر خطرناک و تکلیف دہ نتائج سب کو ،خاص طور پر مسلم سماج کو کچھ سوچنے اور کر گزرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
نہایت ہی خوشی کا مقام ہے کہ اس سلسلہ میں ہر طرف سے آواز بلند ہوئی خاص طور پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فعال و متحرک جنرل سکریٹری جناب مولانا ولی رحمانی صاحب نے بھی اس کی سنگینی اور خود مسلم سماج میں اس کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار فرماتے ہوئے کہا کہ’’اس طرح کے واقعات کسی بھی سماج کے لیے افسوس ناک ہیں اور سماج کو اس کے وجوہات پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے، اس واقعہ سے تمام لوگوں کو خاص طور پر مسلمانوں کو سبق لینا چاہیے اور معاشرہ سے جہیز کی لعنت ختم کرنا چاہیے۔‘‘
مولانا ولی رحمانی صاحب جیسی فعال اور ذمہ دار شخصیت کا اس طرح کا بیان قابل قدر اور قابل ستائش ہے۔ لیکن یہاں یہ پہلو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ لڑکیوں کا بھی اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں کی جائیداد میں حق ہے جو وراثت کی شکل میں انھیں ضرور ملنا چاہیے اور اگر ان کا صحیح حق صحیح تناسب سے انھیں ملنے لگے تو بہت حد تک خود بخود جہیز کی مانگ اور اس کی لعنت کچھ کم ہوگی اور پھر نہ وہ اپنے حق سے محروم ہوں گی اور نہ دوسرے لوگ مزید لالچ کے جواز کے چور راستے ڈھونڈنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔
اس سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جیسی تنظیموں اور اس کے عہداروں، ممبران کو فعال متحرک، مؤثر اور منظم کوششیں کرنی چاہیے۔ اور اس کی ابتدا اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ اب مسلم پرسنل لاء بورڈ، اس کی کمیٹیوں اس کے پروگراموں میں اسٹیج کو زینت بخشنے والوں، مدعووین خصوصی اور مختلف جگہوں پر اس کے تعاون سے پروگرام کرنے والے اداروں اور افراد میں صرف انھی حضرات کے لیے گنجائش رہے جو نظام وراثت پر خود بھی عمل کریں اور جہیز کے لین دین سے پوری طرح اجتناب کریں۔ اور جو ایسا نہ کرسکیں ان کے لیے بورڈ یا اس سے متعلق کسی پروگرام میں کوئی جگہ نہیں۔
یاد رہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور اس سے نسبت صرف کوئی اسٹیٹس سمبل یا اعزازی نسبت نہیں بلکہ یہ ایک مقدس مقصد کے لیے شروع کی گئی ملکی سطح پر معتبر ترین ایک عظیم تحریک سے نسبت ہے جس کے پیچھے بہت سے عظیم مقاصد اور اس کے لیے اعلی اخلاق و کردار اور اعمال کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں بورڈ کی طرف سے ایک عہد نامہ کی تیاری اور اس پر تمام متعلقین سے تعاہد اور دیگر معاون افراد اور تنظیموں کو بھی ساتھ لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا یہ اقدام نہایت دور رس اور اچھے نتائج کا ان شاءاللہ حامل ہوگا۔ اور ملک کے مسلمانوں تک اس کا اچھا پیغام جائے گا جس پر دیر سویر ان شاءاللہ دوسری تنظیمیں بھی کاربند ہوں گی اور کچھ حد تک اس طرح کے معاملے سے نمٹنے میں ان شاء اللہ ضرور مدد ملے گی۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Abdul Rehman Abdul Ahad

وراثت شریعت کا حکم ہے اور جہیز مشرکانہ عمل کی پیروی۔یہ کہنا تو عجیب ہے کہ وراثت ملے گی تو جہیز کی لعنت کم ہوگی ؟؟ کیا وراثت جہیز کا بدل ہو جاے گا یہ عجیب منتقل ہے ۔۔ ارے بھائی یہ جہیز بدعت کو ختم کرو۔۔
وراثت کے لیے پہلے والد کو مرنا پڈھے گا ۔تقسیم تو اس کے بعد اے گی ۔اللہ یہ والد نے زندگی می۔ اپنی لڑکی کو کچھ بخوشی ہبہ کر دیا ہو ۔
کیا ۔
متعجب ہوں کہ ایڈیٹر نے نوٹ نہیں لگایا