ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی
(مولانا مختار احمد ندوی (۱۹۳۰-۲۰۰۷) کی حیات و خدمات پر ایک تاثراتی تحریر)
الحمد لله رب العالمین، والصلاة و السلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلين أما بعد:
جناب صدر وحضرات اساتذۂ کرام ومعلمات، عزیز طلبا وطالبات اور سبھی معزز سامعین وسامعات
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خواتین وحضرات! جمعرات کی پرواز سےریاض سے میں دہلی آیا۔ فجرکےبعد ایک پرچے میں آج ۱۷/اپریل ۲۰۱۰ء کی اس تقریب (مولانا مختار احمد ندوی کی حیات وخدمات ) پر سیمینار کے انعقاد کااعلان دیکھا، لیکن مختصر سے سفر میں اس طرح کی تقریبات میں ہم جیسے لوگوں کی حاضری ناممکنات میں شمارہوتی ہے۔ حسن اتفاق سےمحترم مولانا شیر خان جمیل احمد صاحب حفظہ اللہ نے ٹیلیفون کر کے اس سمینار میں شرکت کی پرزور دعوت دی۔محترم مولانا اصغر علی صاحب نے بھی پرزور تائید کی۔ بغیر سابقہ پروگرام کے دل میں یہ داعیہ پید ا ہوا کہ اس تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل کروں۔ جامعہ ابی ہریرہ الاسلامیہ ، دارالدعوۃ ، لال گوپال گنج میں ہونے والے طلبا کے تقریری مقابلے میں حاضری کےپروگرام کو تبدیل کرکے قبلےکا رخ بدلنا پڑا۔ محترم مولانا عشرت جلال قاسمی کی معیت میں دہلی سے فلائٹ سے بمبئی پہنچا۔مومن پورہ کے قریب سات کھمبا روڈ پر ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ دوسرے دن طے شدہ پروگرام کے مطابق محترم منظر احمد پیغمبر پوری حفظہ اللہ کی قیادت میں ان کی کار سے مالیگاؤں کا سفر شروع ہوا۔مسلسل سفرکی تکان اور بے خوابی کی وجہ سے آواز بیٹھ گئی۔لیکن خوشی اس بات کی تھی کہ جامعہ محمدیہ کی زیارت اور ملک بھر سے آے ہوے علما ومشایخ اور احباب سے ملاقاتوں کا زریں موقع میسر آگیا۔ مولانا مختار احمد ندوی سلفی رحمہ اللہ کی حیات وخدمات پر منعقد اس سیمینار میں مقالہ نگاروں سے استفادے کے لیے اس حاضری کومیں اپنی سعادت تصور کرتا ہوں۔آپ کی خدمت میں مقالہ پیش کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔ صرف مولانا مختار احمد ندوی مرحوم کے بارے اپنےتاثرات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ ابھی ان کلمات کو اس لیے تحریر کیا تاکہ عزیز گرامی مولانا عبدالجلیل انصاری اسے پڑھ کر آپ کو سنادیں۔
حضرات! مولانا مختار احمد رحمہ اللہ پر منعقد ہونے والے اس سیمینار میں جامعہ محمدیہ،اس کے ذمہ داران ، اساتذہ کرام،طلباے عزیزاور ادارے سے جڑے سارے لوگوں کواس تقریب کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اس اجتماع کو ہر طرح سے مفید اور بابرکت بناے۔ آمین
ڈیڑھ دو سال پہلے ریاض کی ایک ملاقات میں ، ناچیز نے محترم مولانا ارشد مختار صاحب حفظہ اللہ کی خدمت میں مولانا مختار احمد صاحب ندوی کی حیات وخدمات پرایک جامع کتاب تیارکرانے کا منصوبہ پیش کیاتھا۔ جب اس سیمینار کا اعلان پڑھا تو بہت ساری باتیں ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں ۔ مسلسل کئی دن کے سفر اور نقل مکانی کی وجہ سے آج میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ اس موضوع پر کچھ زیادہ کہہ سکوں ۔ مختصراً عرض ہےکہ نبی اکرمﷺنے ایک بار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مومن کی مثال کے بارے میں پوچھا تو سب خاموش رہے۔ کم سن صحابی رسول عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے دل میں آیا کہ مومن کی مثال کھجور کے درخت کی ہے۔ لیکن بڑوں اور بزرگوں کی موجودگی اور ان کےسکوت کی وجہ سے جواب دینے سےحیا مانع رہی، خاموش رہ گئے ۔ اس جواب سدید پر دربار نبوت سے بیٹے کے حق میں تبریک ودعا کی توقع نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ خواہش پید ا کی کہ کاش بیٹے نے یہ جواب سدید دے دیا ہوتا تواس علمی افادے سے باپ کا دل باغ باغ ہوجاتا۔اولاد کی ترقی اور کامیابی پر ماں باپ کا خوش ہونا ایک فطری امر ہے۔
مولانا کی مثال کھجور کے درخت کی ہے، جس کا پھل پکنے سے پہلے اور بعد تک انسانی غذا کے لیے ایک انمول تحفہ ہے ۔ اس کا تنا ، اس کے پتے، اس کی شاخیں ،اس کے بیج سب کے سب مفید اور نفع بخش ہیں۔
مولانا نے دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنو میں تعلیم حاصل کی ۔ اسی نسبت سےندوی مشہورہوے۔ مدرسہ سعیدیہ،دارانگربنارس میں مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی کے سامنے بھی شرف تلمذحاصل کیا۔
کلکتہ میں اقامت وخطابت کے ایام ہی سے دعوت وتبلیغ کی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ دس سال کے بعدبمبئی میں پہنچ کر جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ میں امامت وخطابت کےساتھ اس مرکز سے دعوت وتبلیغ کے میدان میں مزید پیش رفت ہوئی۔
امامت ہو یا خطابت، دعوتی دورے ہوں یا اجتماعات، مولانا ہمیشہ ہشاش بشاش طبیعت کے ساتھ، پُر اعتماد انداز میں ہر جگہ براجمان ہوتے۔ اتحاد ملت، مسلک اہل حدیث ، دعوت الی الکتاب والسنہ اور شرک وبدعت کے ردّ وابطال وغیرہ وغیرہ کے موضوعات پر سماں باندھ دیتے۔
مومن پورہ بمبئی سے اٹھنے والی یہ دعوت مولانا اور ان کے مخلص ساتھیوں کی جدوجہد سے پورے بمبئی اور اس کے اطراف میں پھیل گئی۔ آج بمبئی سے دور اس موقر جامعہ کے ذریعے سے اس دعوت کے اثرات نہ صرف صوبۂ مہاراشٹر ،بلکہ پورے ملک اور باہر کی دنیا میں بھی اس ادارہ کے فارغ التحصیل علما وفضلا کے ذریعے سے محسوس کیے جارہے ہیں۔اللھم زد وبارک۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب جامعہ سلفیہ بنارس کی تاسیس کے وقت سے اسے فعال کارکنوں کی سخت ضرورت تھی، آپ نے اپنی صلاحتیں جامعہ کی ترقی کے لیےوقف کردیں۔ ۱۹۶۳ءمیں جامعہ سلفیہ کی تاسیس سے لے کر جامعہ محمد یہ کی تاسیس سے پہلے تک جامعہ سلفیہ کے پلیٹ فارم سےعربی زبان اور اسلامی تعلیم اور مسلک اہل حدیث کی تبلیغ وترویج میں ہمہ تن مصروف رہے ۔
جامعہ کے استحکام کے لیے مسلسل اندرباہر کے دوروں، دھواں دھار تقریروں اور بھرپور رابطوں کی تفصیلات دید وشنید کے عنوان سے خود مولانا کے ترجمان وغیرہ میں شائع مضامین میں مل سکتی ہے ۔
محترم مولانا عبدالوحید بن عبدالحق ناظم جامعہ سلفیہ رحمہ اللہ بڑے مزاج شناس تھے۔ جامعہ کی خدمت کے لیےمولانا کو اپنا دست راست بنایا۔ جب جمعیۃ اہل حدیث کی امارت کی ذمے داری قبول کی تواپنےسابقہ گہرے روابط کی وجہ سے جمعیۃ اہل حدیث کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیےجامعہ محمدیہ کے کاموں میں ہمہ تن مشغول اور فناء فی العمل مولانا مرحوم کوجمعیۃ کی کاز کو مزید مضبوط کرنے کے لیےآمادہ کیا اور آپ نائب امیر منتخب کیے گئے۔ بعد میں موصوف امارت کے منصب پرفائز ہوے۔ اس اسٹیج سے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ سے کام لیا۔
میری نظر میں ۱۹۰۶ءسے جمعیۃ بلڈنگ کی خریداری کی تمنا رکھنے والوں کے لیے وہ دن یوم سعید تھا، جب جریدہ ترجمان،دہلی کے شماروں کے ذریعے سے یہ مژدہ جاں فزا ملا کہ ایک صدی کاقرض ان دونوں بزرگوں کی جرأت وہمت اور اقدام سے ادا ہوگیا۔ جمعیۃ بلڈنگ کی خریداری عمل میں آئی۔بعض قانونی مجبوریوں کی وجہ سے یہ بلڈنگ جامعہ سلفیہ اور جامعہ محمدیہ کے نام سے خریدی گئی ۔بلڈنگ کے دروازے پر آویزاں بورڈپر جمعیۃ کے نام کے ساتھ دونوں موقرادراوں کے نام بھی لکھے گئے۔ نقل ملکیت کے سلسلے کی قانونی موشگافیوں سے قطع نظر یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ آج جمعیۃ مسجد کے حجروں سے نکل کر اپناایک واضح وجود رکھتی ہے۔ بہرحال جماعت کی ایک شناخت بنی اور کام کرنے والوں کو ایک نیاحوصلہ ملا۔ عام آدمی کو بلڈنگ کے قانونی کاغذات سے دلچسپی نہیں ۔ سب یہی جانتے ہیں کہ ۴۱۱۶ نمبر نامی بلڈنگ جمعیۃ اہل حدیث منزل ہے۔ اللہ اللہ خیرصلا۔وہ وقت بھی دور نہیں کہ باذن اللہ یہ کام بھی پورا ہوجائے گا ۔
میں نے ذاتی طور پر دونوں بزرگوں سے جتنے انشراح کے ساتھ دو ٹوک جمعیۃ بلڈنگ کے بارے میں رائے سنی ہے، اس کا اظہار یہاں مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ نئےذمہ داران کو حوصلہ اور توفیق دے کہ وہ جمعیۃ کو استحکام بخشنے والے وسائل سے مالامال کردیں اور بزرگوں کے صدقہ جاریہ کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو ہٹاکر اپنی ذمہ داری نبھائیں ۔ اللہم وفقھم لکل خیر۔
مولانا مختار احمد صاحب نے اپنی مسلکی حمیت وغیرت کے نتیجے میں خاندانی پیشے اور صنعت وحرفت سے جڑنے کے مواقع کے ہوتے ہوے، ادھر کا رخ نہیں کیا ، بلکہ تجارت کے ساتھ اپنی آل واولاد کو بھی لکھنے پڑھنے اور تبلیغ علم ودعوت کی راہ پر لگایا ۔ میری مراد الدارالسلفیہ اور دار المعارف کے نام سے معیاری اشاعتی اداروں کے قیام کے ذریعے سے عربی اوراردو کونہ صرف اسلامیات سے مالا مال کیا ، بلکہ مسلک سلف کی اشاعت کے لیے بھی بنیادی لٹریچر فراہم کیا۔ پھر پریس کی صنعت میں بھی اپنا سکہ بٹھایا۔
صحافت کے میدان کا کارنامہ ماہنامہ ’البلاغ‘ کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ مولانا معیاری اسلوب اور پختہ قلم کے مالک تھے۔ فصاحت وبلاغت کے ساتھ سلیس اوررواں اسلوب ، طنز ومزاح اور ظرافت کو دامن میں سمیٹے ،آدمی ان کی کوئی تحریرپڑھے تو جب تک ختم نہ ہو بند نہ کرے ۔
مولانا کی شخصیت ہمہ تن حرکت ، جہدمسلسل اور بلند حوصلوں والی رواں دواں شخصیت تھی۔ ہراسٹیج پر پراعتماد انداز لہجے میں اپنی بات کہنے، لوگوں کو قائل کرنے اور منوانے کا سلیقہ و حوصلہ اور اس پراصرارمیں بھی آپ نمایاں تھے۔ تعلیم کے میدان کی فتوحات میں جامعہ محمدیہ کی شاخوں کے قیام کاسلسلہ بھی ہے،جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔
مالیگاؤں،مئو اوربنگلورمیں کلیۃالبنات الإسلامیۃ کے قیام کے ذریعے سےمولانا کے ہاتھوں وقت کی ایک اہم اوربنیادی ضرورت کی تکمیل ہوئی ۔ بعد میں قائم ہونے والے ادارےسب اس مجتہد کے متبع ٹھہرے ۔ اسی طرز اور نہج پراورجس منہج پرمولانا نے لڑکیوں کی تعلیم کا منصوبہ بنایاتھا، اب جگہ جگہ ادارے بن گئے ہیں۔
تعلیم ودعوت کے ساتھ عام انسانی خدمت کے شعبے میں طبیہ کالج اور شفاخانے کی تاسیس بھی مولانا کے نمایاں کارنامے ہیں۔ آپ کی تحریک پر پہلے جامعہ سلفیہ بنارس میں طبیہ کالج کاقیام عمل میں آیا۔ لیکن یہاں کا تجربہ ناکام رہا۔مولانا دھن کے پکے تھے۔ جامعہ محمدیہ مالیگاؤں میں ان کو نہ صرف اس کے قیام میں کامیابی ملی ، بلکہ اس کے مفید نتائج وثمرات کا بھی اپنی زندگی میں مشاہدہ کیا۔ مالیگاؤں کے اس طبیہ کالج کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کا عمل ہوگا۔
مولانا مختار صاحب کی زندگی کا ایک اہم پہلو ان کا مسجد سے تعلق اور اقامت صلاۃ کا اہتمام ہے۔ ہندستان اور سعودی عرب میں ہم نے اس کا خوب مشاہدہ کیا۔
فجر اور عصر کے بعد پابندی سے درس قرآن اور درس حدیث کا اہتمام ،آپ کی ہمت وجرأت اور عزیمت اور دعوت سے دلچسپی کا مظہر ہے ۔
اللہ تعالیٰ دنیا میں کام کرنے کےلیے انھی لوگوں کو منتخب کرتا ہے، جو اس کی راہ میں محنت کرتے ہیں۔ وسائل کی دنیا میں اللہ تعالی نےمولانا کو پورے ملک میں مساجد کی تعمیر کے لیے ادارہ اصلاح المساجد کے قیام کی توفیق بخشی ۔ دیکھتے دیکھتے ملک کے طول وعرض کی شہری اور دیہاتی آبادیوں میں اہل حدیث مسلک کی سینکڑوں مساجد بن گئیں۔ بعد میں یہ سلسلہ اور کئی جہت سے شروع ہوا، لیکن امامت کا منصب مولانا ہی کو ملا ۔ بقیہ سب مقتدی ہی شمارکیے جائیں گے۔
جامعہ سلفیہ کی تاسیس سے پہلے مئو کے اہل حدیث مدارس علوم کتاب وسنت کی تدریس کے اہم مراکز تھے۔ جامعہ سلفیہ کے بعددھیرے دھیرے بہت سارے مدارس بنے ۔ بہاروبنگال اور دوسرے صوبوں میں اس سلسلے میں بڑی پیش رفت ہوئی ۔ جن میں انھی اداروں کے فارغ التحصیل علما وفضلا کا بڑا حصہ رہا ۔ اس لیے یہ خدمات بھی انھی سابقہ بزرگوں کی خدمات کا تسلسل ہیں ۔
آل انڈیامسلم پرسنل لا اورمسلم مجلس مشاورت وغیرہ کے ملی اسٹیج پربھی مولانا نے اپنی صلاحیت کے خوب خوب جوہردکھائے۔۱۹۷۲ءمیں بمبئی میں منعقد ہونے والےآل انڈیا مسلم پرسنل لا اجلاس کے ذمےداروں میں مولانا کا ایک اہم نام تھا۔
۱۹۷۴ءمیں الہ آباد میں منعقد ہونے والےمسلم مجلس مشاورت کے آل انڈیا اجلاس میں مولانا نے شرکت فرمائی۔مولانا ڈاکٹرعبدالحفیظ صاحب سلفی امیر جمعیت اہل حدیث بھی شریک اجلاس تھے۔اتفاق سے میں بھی حاضر تھا وہاں۔اس اجلاس میں ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی اور مولانا سعید احمد اکبر آبادی بھی تھے۔مولانا عبدالنور اثری رحمہ اللہ دونوں بزرگوں کو اپنی کار میں لے کر اپنے قصبے مئوآئمہ کی زیارت کے لیےروانہ ہوے تو مجھے بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ میں بھی کار میں بیٹھ گیا اور مئو کے پروگرام میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔ وہاں جاکر پتا چلا کہ مولانا نے ایک مختصر مدت تک چشمہ رحمت مئو آئمہ میں بھی تعلیم حاصل کی تھی۔اس تعلق سے آپ کا رابطہ مئوآئمہ کے لوگوں سے برابر قائم رہا۔مئو کی جامع مسجد اہل حدیث کی نئی تعمیر بھی آپ نے کرائی۔
طلاق ثلاثہ کے موضوع پر احمد آباد میں ہونے والے سیمینار میں بھی آپ شریک ہوے۔آپ کا مقالہ سمینار کے مقالات میں شائع ہے۔
ملک کےاندر جماعت اہل حدیث کے اجتماعات کو منظم کرنے یا اس میں شرکت کی تفصیلات ایک الگ باب ہے، جو بہت تفصیل کا طالب ہے۔
سعودی عرب، کویت اورقطرکے اہل علم ودین سے روابط، وہاں کےاداروں سے گہرے تعلقات کی بات بھی اظہر من الشمس ہے۔ سعودی عرب کی کئی بڑی اہم کانفرنسوں میں شرکت کے ہم عینی شاہدہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مولانا مختار کو اس بات کی توفیق دی کہ اس مزرعۃ آخرت میں ہمہ جہتی جدوجہد کے ذریعے سے اپنے رب کو راضی کریں۔ مسلک سلف کی ترجمانی، شرک وبدعت اور تقلید کی تردید، مساجد ومدارس کے قیام، کتاب وسنت کی اشاعت، جمعیۃ اہل حدیث کے مرکزی اور صوبائی اداروں کی تاسیس وتقویت ، چھوٹی بڑی بہت ساری کانفرنسوں کے انعقاد اور اپنی ذاتی جدوجہد سے قائم کردہ تجارتی اداروں کے ذریعےسے اللہ تعالیٰ نے مولانا کو بہت نوازا اور مومن کی سابقہ حدیث میں وارد کھجورکے درخت کی مثال مولانا پر باذن اللہ صادق آتی ہے۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا کواپنے یہاں عالی مرتبہ دے ۔ اولاد واحفاد اور متوسلین کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ مولانا کے مشن کو صحیح طورپر آگے بڑھائیں ۔ جو کام ادھورے رہ گئے تھے، ان کی تکمیل کریں اور جن تجربات سے مولانا گزرے ،ان میں جو فروگزاشت ہوئیں یا کمی رہ گئی، اس سے بچیں اور ان کے کام کو آگے بڑھائیں۔اللہم اغفرلہ وارحمہ ، والسلام
خاندانی پس منظر:
سابقہ گزارشات سمینار میں پیش کی گئی تھیں ۔ کسی بھی شخصیت کے تعارف میں اس کے خاندان اور ماحول سے واقفیت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ مولانا مختاراحمد رحمہ اللہ کا تذکرہ ان کے وطن ، خاندان اور تعلیم وتربیت پر روشنی ڈالے بغیر ناتمام رہے گا۔ اس لیےکچھ معروضات اس سلسلے کی بھی پیش خدمت ہیں۔ تاکہ اس شعلہ جوالہ کے منبع اصلی کا پتا چلے۔ قدیما کہا گیا ہے کہ الولد سر لابیہ۔ آدمی اپنے ماحول سے بھی لازمی طور پر متاثر ہوتا ہے۔
مرکز علوم وفنون اور معدن افاضل شہر مئوناتھ بھنجن :
مئو کی شہرت ایک قدیم صنعتی قصبے کی تھی،جہاں پارچہ بافی کی صنعت سے لوگ جڑے ہوےتھے۔آنکھ کھولی تو ہر جگہ روغن احمر، لال تیل اور نورانی تیل کا چرچا سنا۔ جب بھی جسم میں درد ہوا،چوٹ یا خراش آئی، مئو کا لال تیل حاضر۔ پرائمری درجات میں تھا تو اس وقت خاندان کے بعض لوگ مولویانہ پڑھنے مئو گئے ۔۱۹۶۵ء میں تعلیم کی غرض سے پہلی بار بنارس گیا تو جونپور، اعظم گڑھ، مبارکپور ، املو،بالخصوص مئو کا نام سنا۔اب فیضی ،اثری، عالیاوی نسبتوں کی بھرمار سے سمجھ میں آیا کہ یہ قصبہ یاشہر صرف کپڑے اور لال تیل کی تجارت ہی کے لیےشہرت نہیں رکھتا۔ بلکہ یہ اہل حدیث مدارس کا سب سے بڑامرکز اور منبع علم وعرفان ہے۔اگر یہاں کے قدیم وجدید علما وفضلا اور حفاظ کرام کی تاریخ مرتب کی جاے تو بہ قول شاعرع
سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے
۱۹۶۶ء میں کسی اہل حدیث ادارے میں داخلے کے لیےگھر سے ہم چار ساتھی ایک ساتھ نکلے تو استاذ گرامی مولانا ابوالخیر فاروقی رحمانی نے ساتھ میں مولانا فضل الرحمن مئوی کے نام ایک خط یہ کہہ کر دیا کہ جامعہ رحمانیہ بنارس میں داخلہ نہ ہو تو سیدھے مئو چلے جانا، مولانا موصوف جامعہ عالیہ، فیض عام اور دارالحدیث کسی نہ کسی مدرسے میں داخلہ دلا دیں گے۔ مئو تو نہ جانا پڑا، لیکن چند دنوں میں مئو کے کئی طلبہ نے جامعہ رحمانیہ میں داخلہ لیا۔ہماری قسمت نے یاوری کی، ہمیں بھی داخلہ مل گیا،تو ہم سب ساتھ میں پڑھنے لگے۔
اس وقت مئو باقاعدہ ایک مشہور صنعتی شہر بلکہ باقاعدہ ضلع ہے۔مجموعی اعتبار سے ہندستان میں جماعت اہل حدیث کا سب سے بڑا تعلیمی مرکز۔اللہم زد فزد وبارک فیہا وفی اہلھا۔
اس شہرمیں اہل حدیث ۴۰فیصد اور دیوبندی حنفی ۶۰فیصد ہیں۔ مسلکی تشدد کی فضا میں فریقین کے مابین مذہبی چپقلش، نوک جھوک اور مناظرہ بازی عام تھی۔ حنفی دیوبندی، سیاسی طورپرکانگریس کے موید تو ان کے بالمقابل عام اہل حدیث کمیونسٹ پارٹی کے موید۔ضلع اعظم گڑھ میں مئو، مبارکپور،املواور لہرا وغیرہ بستیوں کے اہل حدیث کے تعلقا ت تحریک شہیدین سے بڑے گہرے تھے۔ بعض بستیوں پر مولانا عبداللہ جھاو صدیقی الہ آبادی کا بھی بڑا اثر تھا۔مولانا فیض اللہ مئوی اور مولانا عبداللہ غازی پوری جیسی قد آور علمی ودعوتی شخصیات کے احوال اور مئو کی تاریخ سے واقف لوگوں پر یہ باتیں مخفی نہیں ہیں۔ان بزرگان دین کی مساعی جمیلہ کے ثمرات ونتائج میں مئو میں بڑے بڑے دینی وتعلیمی ادارے قائم ہوے۔ علما وفضلا ، قرا اور طالبان علوم نبوت کی کثرت ہوئی، تصنیف وتالیف کا زورہوا۔
مولانا مرحوم اسی شہر کے ایک ٹھیٹ سلفی خاندان میں ۱۹۳۰ء میں پیدا ہوے۔ ان کے والدماجد الحاج ضمیرالدین صاحب عہد شباب میں مشرف بہ اہل حدیث ہوے۔ موصوف کے ساتھ ۱۹۷۷-۱۹۷۸ ء میں مجھے حج کا موقع ملا۔اس قافلہ حج میں میرے خاندانی بھائی محمد سلیمان خان مع اہلیہ، استاذ محترم ڈاکٹر مقتدی ازہری کی اہلیہ ام سلمان اوران کےوالدین ماجدین بھی تھے۔ مکے اور مدینے میں اور ایام حج میں ان لوگوں کی خدمت کا موقع ملا۔رحمھم اللہ تعالی وغفر لھم ۔محترم ضمیر الدین صاحب سے تعارف اور مسلک اہل حدیث سے ان کے والہانہ تعلق اور اکابر علماے اہل حدیث سے بے پایاں محبت اور تعلق کی داستاں سن کر لگا کہ موصوف میرے والد صاحب کی طرح ہی صحبت یافتہ بزرگ ہیں، جن کی زندگی کامقصد مسلک اہل حدیث کا ہر جگہ جھنڈا بلند رکھنا ہے۔اس مدت میں حاجی ضمیر صاحب سے خوب مجالس رہیں۔ یہ تعارف تعلق خاطر میں بدل گیا ۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت اچھے پابندسلفی صحبت یافتہ بزرگ ہیں، جنھیں مئوکے مذہبی حالات کا صرف گہرا علم ہی نہیں، بلکہ موصوف نےاس کی فضاوں میں سانس لی، پلے بڑھے۔ لازمااس مذہبی ماحول سے متاثربھی ہوے ۔ موصوف اپنے تدین، تواضع ، عقیدے اور مسلک کی حمیت میں اپنی مثال آپ تھے۔ علماے اہل حدیث سے تعلقات رکھنے اورجماعت کے جلسوں میں ہمارے والد رحمہ اللہ کی طرح شرکت کے شیدائی تھے۔ایک بار مئو کے دیوبندیوں پر تبصرہ کرتے ہوے کہا کہ ہندووں نے اہل حدیث کو مسجد کی تعمیر کے لیےزمین دے دی ۔لیکن ان دیوبندیوں نے انکار کر دیا۔ انھوں نے حنفی مذہب کو چھوڑ کر اپنے اہل حدیث ہونے کی آب بیتی بھی سنائی۔ اپنے صاحب زادے کو دینی تعلیم کے شعبے میں ڈالا ہی اس نیت سے تھا کہ ا ن کابیٹا عالم دین بن کر سلفیت کا مناد بنے ۔ مسلک اہل حدیث کا عامل وناشرہو۔ خطابت میں امتیاز حاصل کر کے منبر ومحراب سے دعوت توحید کا غلغلہ بلند کرے۔اللہ تعالی نے ان کو لمبی عمر عطا فرمائی۔موصوف کی پہلی تمنا برآئی ۔مولانا مختار صاحب باقاعدہ عالم وفاضل ہی نہیں، اچھے خطیب بھی بن کر ابھرے۔ دوسری خواہش کی تکمیل اس طرح ہوئی کہ فراغت کے کچھ دنوں بعد علما سے رابطہ کر کےبالآخر کلکتہ کی جامع مسجد اہل حدیث کا امام وخطیب بنوادیا۔مولانا نے والد صاحب کی خواہش کا نہ صرف احترام کیابلکہ زندگی بھر منبر و محراب سے جڑے رہے۔یقینا یہ سعادت کی انتہا تھی۔ موصوف نےاپنے صاحب زادے کی ہمہ جہتی دینی وتعلیمی جد و جہد کو نہ صرف دیکھا، بلکہ پورے ہندستان میں اس کے اثرات کو بھی دیکھا اور سنا۔فالحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات۔
مئو جیسے علمی اور دینی ماحول اور دین دار گھرانے میں نشوونما پانے والے بچے کے دین اور مسلک کے بارے میں کیا احساسات ہوں گے۔اس کا ادراک مشکل نہیں ۔علماے مئو کی اکثریت کی تصنیفی جد وجہداس مذہبی فضا سے متاثر فروعی مسائل کے ارد گرد گھومتی رہی ۔اس ماحول میں مولانا نےآنکھیں کھولیں۔ ظاہر بات ہے کہ مسلک سے لگاو اور اس کے لیےحمیت اور اس کی اشاعت میں پرجوش ہونا آپ کو ورثے میں ملا تھا۔
مولانا نے بنیادی دینی تعلیم مدرسہ عالیہ وفیض عام میں اس وقت کے مشاہیر اساتذہ سے حاصل کی۔چند سال دار الحدیث رحمانیہ دہلی کے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔دارالعلوم ندوۃ العلما ءسے عالمیت کا کورس پورا کیا۔مدرسہ سعیدیہ، دارانگر بنارس میں مولانا محمد ابوالقاسم سیف بنارسی سے کئی مہینے تک صحیحین کادرس لیا۔مولانا مفتی عبدالعزیز اور مولانا محمد اعظمی انصاری نے بھی سیف صاحب سے حدیث پڑھی۔
اس سلسلے کا ایک واقعہ جس سے استاذاورشاگرد کے گہرے تعلقات کا پتا چلتا ہے۔عورت پردہ ہے۔ غض بصر ، شرعی ادب ہے۔ ایک دن درس حدیث میں مولانا سیف نے کہا کہ نامحرم پرنظر پڑے تو جیساکہ حدیث میں ہے مسلسل نظر نہ گڑائے۔ مولانا مختارصاحب کی رگ ظرافت پھڑکی، کہا : مولانا! اگر پہلی نظر ہی ٹکی رہ جائے تو کیا حکم ہے؟ اس پر سیف صاحب نے مسکرا کر سبق بندکردیا اور کمرے سے باہر چلے گئے۔اس واقعے سے مولانا کی ذہانت اورظرافت ٹپکتی ہے۔
عام طلبہ کی روش پر چلتے ہوے الہ آباد عربی وفارسی بورڈ کے امتحانات بھی پاس کیے۔ موصوف اس طرح سے اپنی استعداد کو بڑھانے میں مسلسل مشغول ومنہمک رہے۔
عام طور پر اہل حدیث طلبہ دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنو جیسی درس گاہوں سے حصول علم کے بعد وہاں کے مخصوص مشرب سے متاثر نظر آتے ہیں ، لیکن مئو کےمولانا مختار احمدندوی اورپنجاب کےمولانا محمد حنیف ندوی جیسے لوگ جن کی پرورش وپرداخت اہل حدیث ماحول ومدارس میں ہوئی تھی، وہاں کے مخصوص ماحول سے نہ متاثر ہوے۔کیونکہ مسلک اہل حدیث سے محبت ورثے میں ملی تھی۔تعلیم وتربیت پختہ اہل حدیث ماہرین تعلیم کی نگرانی میں ہوئی تھی۔ کتاب وسنت سے شغف اور محبت کے اس جذبے کومزید صیقل کرنے کے لیےمولانا سیف بنارسی کے سامنے بھی زانوے تلمذ تہ کیا۔ ان کی تعلیم وتربیت نے مولانا کی شخصیت میں مزیدجوش وخروش پیدا کر دیا ۔ اس لیےپوری زندگی مولانا دعوت اہل حدیث کے فروغ میں متحرک رہے۔
موصوف جہاں بھی رہے،متحرک عمل رہے۔ان کی تگ ودو سے جگہ جگہ لوگ دعوتی اور تعلیمی میدان میں حصہ لینے لگے ۔ اس طرح سےقافلہ بنتا گیا اور آپ کی قیادت میں مسلک کی اشاعت کا کام آگے بڑھتا رہا۔ مولانا بھر پورانتظامی صلاحیت کے ساتھ تقریر وتحریر کے میدان کے شہ سوار تھے۔ آپ کی تقریر وتحریرکا محورکتاب وسنت کی نشرواشاعت اور متنوع اداروں کے ذریعے سے اس کاز کو آگے بڑھانا ٹھہرا۔
مولانا مختار اور جامعہ سلفیہ:
بانیان جامعہ سلفیہ کے شانہ بہ شانہ ممدوح گرامی مولانا مختار احمد کی قیادت میں بننے اور ترقی پانے والےجامعہ سلفیہ میں تعلیم حاصل کرنے یا تدریسی فرائض انجام دینے والےسبھی حضرات آپ کے اور جامعہ کے دوسرے سرپرستوں کے ممنوں احسان ہیں۔جامعہ کی تعمیر وترقی کے لیےدوسرے بزرگوں کی طرح مولانا نے بھی بھاگ دوڑ کی۔ مولانا برابرجامعہ تشریف لاتے تھے۔جامعہ کے تعارف کے لیے پہلا غیر ملکی سفر مولانا عبدالصمد شرف الدین کی معیت میں کیا۔ مولانا عبدالصمد شرف الدین کے ذریعے سے مولانا مختاراحمد ندوی کے عربوں سے تعلقات استوار ہوے ۔بعد میں مولانا عبدالصمد شرف الدین کے باہر جانے کی ضرورت نہ رہی۔ ناظم اعلی مولانا عبدالوحید صاحب اور مولانا مختار احمد ندوی باہرکا سفرکرتے رہے ۔ یہ سلسلہ ۱۹۷۷ء تک جاری رہا۔۱۹۶۹ءمیں جامعہ سلفیہ سے عربی پرچہ نکلنا شروع ہوا۔ پہلا عدد الدار القیمہ بھیونڈی، مالیگاؤں میں کمپوز ہوکر شائع ہوااورمولانا مختار احمدندوی کے توسط سے باہرکی دنیا میں بھیجا گیا۔
۱۹۷۳ءمیں فراغت کے بعد ۱۹۷۴ءمیں جامعہ سلفیہ کے شعبہ ادارۃ البحوث الاسلامیہ میں ملازم ہوا تو جامعہ کے اندورنی مسائل سے واقفیت ہوئی ۔ اس زمانے میں اب مجلہ بنارس ہی میں شائع ہونے لگا تھا اور یہیں سے تقسیم کا کام شروع ہوا۔مولانا موصوف اس وقت جامعہ سلفیہ کی مجلس انتظامیہ کے نائب صدر تھے۔ باہر کے خطوط پر آپ کا نام بھی کبھی کبھی ملتا تھا۔جامعہ میں پریس کے قیام اور عربی مجلےکی اشاعت کے پیچھے مولانا کی بھاگ دوڑ نمایاں تھی۔
۱۹۷۸ءسے پہلے جامعہ محمدیہ کی تاسیس عمل میں آئی ، جس میں جامعہ سلفیہ کے ذمہ داران اور اساتذہ کا تعاون بھرپور رہا۔ شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ مبارک پوری اورناظم جامعہ سلفیہ مولانا عبدالوحید سلفی ، ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری اورشیخ انیس الرحمن وغیرہ نےجامعہ محمدیہ کے تاسیسی اجلاس میں شرکت فرمائی ۔ کانفرنس کی تیاری کا سارا کام ڈاکٹر مقتدیٰ حسن کی نگرانی میں ہوا۔
مولانا مختار احمد سے تعلقات:
میں نے بچپن ہی میں مولانا کا ذکرخیر سنا تھا۔ جامعہ سلفیہ کے افتتاحی سال ۱۹۶۶ء سے برابران کو جامعہ سلفیہ بنارس میں دیکھا۔مولانا عبدالصمد شرف الدین الکتبی کے ساتھ بھی مولاناایک سے زائد بار جامعہ تشریف لے آے۔
مولانا مختار احمدندوی مرحوم ومغفورکے بھائی ارشاداحمد اعظمی صاحب، میرے خاندانی بھتیجےمولانا محمدحسان سلفی صاحب کے ساتھی اور دوست تھے۔ان کے ذریعے سےبھی مولانا کے بارے میں معلومات ہوتی رہیں۔
ناچیز کو ان سے استفادے اور ان کے تجارب سے فائدہ اٹھانے کے مواقع سعودی عرب کی زیارتوں میں ملے۔ہم لوگوں نے اپنے علاقے الہ آباد اور پرتاپ گڑھ میں دعوتی کام کے لیےپریوا اور لال گوپال گنج میں دارالدعوہ کی تاسیس کی۔ اس کے پہلے پروجیکٹ لال گوپال میں جامع مسجد کی تعمیر کا کام بڑا مشکل تھا ۔اصلاح المساجد نے تعاون کیا۔ اسی منصوبے کی نگرانی کے لیےمولانا مختار صاحب اور مولانا عبدالوحید صاحب تشریف لے آے۔پہلی منزل کی تعمیر میں اصلاح المساجد نے نصف اخراجات کا تعاون دیا۔ بعد میں رفتہ رفتہ دوسری منزل کی تعمیر ہوئی۔پھر اس کی ڈبل تو سیع ہوئی۔ چند سال پہلے دونوں عمارتوں کی از سر نو ترمیم ہوئی۔ اس وقت یہ جامع مسجدایک قلعہ ہے۔ شروع سے جمعہ اورجماعت کے علاوہ اس میں شعبہ حفظ کا قیام ہے۔جامعہ ابی ہریرہ الاسلامیہ سے جو نفع عام وخاص ہے، اس سے قطع نظر علاقے میں اس جامع سے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کا فائدہ بڑا حوصلہ افزا ہے۔ اللہ تعالی اس مسجد کے قدیم وجدید سارے معاونین کو جزاے خیر دے۔
جامعہ کے شعبہ بنات میں استانیاں ساری کی ساری جامعہ محمدیہ مالیگاؤں اور کلیۃ ام المومنین عائشہ مئو کی فاضلات ہی ہیں۔ اس طرح سے مولانا مختار کی جدوجہد سے استفادے کی وسعت اور اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ رحمہ اللہ وشکر سعیہ۔
مولانا مختار رحمہ اللہ کی زندگی علما، طلبا اور ملی کارکنان کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ وه معاشرے میں دینی، تعلیمی اور معاشرتی خدمات کے ان کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں۔ صبر وشکر کے ساتھ اپنے منصوبوں میں رنگ بھرنے کی جد وجہد میں مصروف رہیں۔ برکت اللہ ڈالے گااور مرحوم کے حق میں دعاے مغفرت کریں ۔اللہ تعالی آپ کو ان اعمال کے صلے میں اپنی رحمت آغوش میں ڈھانپ لے اور جنۃ الفردوس میں اعلی مقام دے، آمین ۔ویرحم اللہ عبدا قال آمینا۔
خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مولانا مختار کو اس بات کی توفیق دی کہ مزرعۃ آخرت میں ہمہ جہتی جدوجہد کے ذریعے سےاپنے رب کو راضی کریں۔ مسلک سلف کی ترجمانی، شرک وبدعت اور تقلید کی تردید، مساجد ومدارس کے قیام، کتاب وسنت کی اشاعت ۔جمعیۃ اہل حدیث کے مرکزی اور صوبائی اداروں کی تاسیس وتقویت ، چھوٹی بڑی بہت ساری کانفرنسوں کے انعقاد اور اپنی ذاتی جدوجہد سے قائم تجارتی اداروں کے ذریعے سےاللہ تعالیٰ نے مولانا کو بہت نوازا۔ اس طرح سے حدیث میں وارد مومن کی مثال کھجورکے درخت کی طرح ہےجومولانا پر باذن اللہ صادق آتی ہے۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا کواپنے یہاں عالی مرتبہ دے ۔ ان کی اولاد واحفاد اور متوسلین کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ ان کے مشن کو صحیح طورپر آگے بڑھائیں۔ مولانا نےجو کام ادھورے چھوڑے ہیں، ان کی تکمیل کریں اور جن تجربات سے مولانا گزرے،ان میں فروگزاشت ہوئیں یا کمی رہ گئی، اس سے بچیں۔
شکراً جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء. بہت ہی جامع اور زندگی کے ہر پہلو کو شامل تاثرات ہیں،
اللّٰہ مرحوم کو غریق رحمت کرے آمین