کیا غلطیاں صرف بردرس سے ہوتی ہیں، علما سے نہیں ہوتیں؟

فاروق عبداللہ نراین پوری تنقید و تحقیق

جب کسی بردر کی علمی ومنہجی غلطیوں کی نشاندہی کرکے عوام کو ان سے آگاہ کیا جاتا ہے تو بعض حضرات ان کے دفاع میں یہ کہتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں: کیا غلطیاں صرف بردرس سے ہوتی ہیں، علما سے نہیں ہوتیں؟ جب دونوں سے غلطیاں ہوتی ہیں تو اس بنا پرصرف بردرس سے تحذیر کیوں؟
افسوس کہ اس اعتراض سے بعض علما اور طلبہ علم بھی بسا اوقات متفق نظر آتے ہیں۔ حالانکہ اس باب میں بردرس اور علما کے مابین تفریق عین کتاب وسنت کا تقاضاہے اور یہی ہمارے اسلاف کرام کا واضح منہج رہا ہے۔
بلا شبہ غلطی سے کوئی پاک نہیں، چاہے وہ کتنے ہی بڑے عالم کیوں نہ ہوں اور کوئی بھی ہر چیز کا جانکار نہیں۔ اکابر صحابہ بھی بہت سارے مسائل میں لا علمی کا اظہار کرتے تھے۔ ”فوق کل ذی علم علیم “یہ ربانی اصول ہے۔ صرف رب العالمین غلطی سے پاک ہے اور اس نے صرف اپنے انبیاء کو معصوم بنایا ہے۔ باقی سب سے غلطی کا صدور ہونا عین نظام الہی کے موافق ہے۔ لیکن شریعت کی نظر میں ایک عالم اور ایک متعالم کی غلطی برابر نہیں ہے۔ علما سے غلطی کا صدور ہو تو شریعت نے انھیں معذور سمجھا ہے، بلکہ غلطی کے باوجود ان کے لیے ایک اجر کا وعدہ کیا ہے۔ جب کہ بلا علم شریعت کے متعلق لب کشائی کرنے والوں کے بارے سخت وعید سنائی ہے۔ ان کی غلطی پر اجر کی نہیں، وِزر (گناہ) کی بات کی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
القُضاةُ ثلاثة: واحِدٌ في الجنة، واثنان في النار، فأما الذي في الجنة فرجلٌ عَرفَ الحقَّ فقَضَى به، ورَجُلٌ عرف الحقَّ فجار في الحكم، فهو في النار، ورَجُلٌ قضى للنَّاس على جهلٍ، فهو في النار
[سنن ابی داود: حدیث نمبر۳۵۷۳، جامع ترمذی: حدیث نمبر۱۳۲۲، سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر۲۳۱۵]جج تین طرح کے ہوتے ہیں، ان میں سے ایک جنتی ہے اور دو جہنمی ہیں۔ جنتی وہ ہے جسے حق کی معرفت ہو اور اسی کے مطابق فیصلہ بھی کرے۔ اور جس نے حق کی معرفت کے باوجود فیصلہ میں ظلم کیا وہ جہنمی ہے۔ اور وہ شخص جس نے جہالت کی بنا پر فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے۔
اس حدیث کو علامہ ابن حزم، عبد الحق الاشبیلی، ابن عبد الہادی، ابن الملقن، محمد ناصر الدین البانی رحمہم اللہ وغیرہم نے صحیح کہا ہے۔ [الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم:۶/۴۴، الاحکام الصغری للاشبیلی:۲/۷۱۶، المحرر لابن عبد الہادی: حدیث نمبر۱۱۷۰، التوضیح لابن الملقن:۳۲/۴۹۳، صحیح الجامع للالبانی : حدیث نمبر۴۴۴۶]
ابن عبد البر رحمہ اللہ کی ’جامع بیان العلم وفضلہ‘(۲/۸۷۹) میں اس کے الفاظ اس طرح ہیں:
وَقَاضٍ قَضَى بِغَيْرِ عِلْمٍ وَاسْتَحْيَا أَنْ يَقُولَ: «لَا أَعْلَمُ» فَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ
(اور ایسا جج جو بلا علم فیصلہ کرتا ہے اور اسے یہ کہنے میں شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ ”میں نہیں جانتا“تو وہ جہنمی ہے)
اس حدیث میں جہالت کی بنا پر دیے گئے فیصلے کو دخول جہنم کا باعث قرار دیا گیا ہے چاہے وہ فیصلہ درست ہو یا غلط، کیونکہ درستگی کا ہونا محض اتفاق ہے، علم کی بنا پر نہیں۔ اگر یہ سخت سزا صرف دنیاوی معاملات میں فیصلہ کی بنا پر ہو تو اللہ تعالی اور اس کی شریعت کے متعلق جہالت کی بنا پر فیصلہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ اجتہاد کی بنا پر غلطی ہوجائے تو اس کے لیے جہنم کی وعید کیوں؟
تو اس کا جواب اسی حدیث (ایک دوسرے طریق میں) کے راوی ابو العالیہ رحمہ اللہ کے قول میں مل جاتا ہے، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو العالیہ رحمہ اللہ سے پوچھا: ”یہ جس نے اجتہاد کیا اور اس سے غلطی ہو گئی اس کا کیا گناہ تھا کہ اسے بھی جہنم کی وعید سنائی گئی؟“ تو انھوں نے جواب دیا:
ذَنْبُهُ أَلَّا يَكُونَ قَاضِيًا إِذَا لَمْ يَعْلَمْ
(اس کا گناہ یہ ہے کہ جب علم نہیں تھا تو اسے قاضی بننا ہی نہیں چاہیے تھا)۔ [جامع بیان العلم وفضلہ:۲/۸۸۰]
بردرس کا معاملہ بالکل ایسے ہی ہے،ان کی باتیں اندھیرے میں تیر چلانے کی مانند ہوتی ہیں، مختلف فیہ واجتہادی مسائل میں ان کی جو باتیں کتاب وسنت کے موافق ہوتی ہیں وہ علم وبصیرت کی بنا پر نہیں ہوتیں، بلکہ وہ محض اتفاق ہوتا ہے۔ لہذا اگر ان کی کوئی بات صحیح بھی ہو جائے پھر بھی وہ تعریف یا تائید کے قابل نہیں ہیں۔ جہاں تک غلطی کی بات ہے تو انھیں علما کی طرح قطعا معذور نہیں سمجھا جائے گا۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من تكلف ما جهل، وما لم تثبته معرفته؛ كانت موافقته للصواب -إن وافقه من حيث لا يعرفه- غير محمودة، والله أعلم، وكان بخطئه غير معذور؛ إذا ما نطق فيما لا يحيط علمه بالفرق بين الخطأ والصواب فيه
[الرسالۃ: ص۵۳]اگر کوئی شخص جس بارے میں انجان ہے یا جس چیز کا اسے پختہ علم نہیں ہے اس بارے میں زبردستی کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے تو واللہ اعلم اس کی درست بات بھی –اگر نہ جاننے کے باوجود درست ہو جائے تو- تعریف کے قابل نہیں ہے۔ اور صحیح وغلط کے مابین فرق کرنے لائق علم نہ ہو تو غلطی کی صورت میں وہ معذور نہیں ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ علما کی ایک جماعت نے اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے ان کے اس قول کو بطور استناد پیش کیا ہے۔ اس سے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ سلف صالحین اس مسئلہ میں کس قدر واضح موقف رکھتے تھے اور کس طرح بلا علم شرعی مسائل میں کوئی بات کرنے سے لوگوں کو روکتے تھے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ ’السنن الکبری‘(۱۰/۱۹۹) میں فرماتے ہیں:
اجتهاده بغير علم لا يهديه إلى الحق إلا اتفاقًا، فلم يكن مأذونًا له فيه
(اس کا بلا علم اجتہاد کرنا اسے حق کی رہنمائی نہیں کر سکتا سوائے اتفاق کے، اس لیے اسے اجتہاد کی اجازت نہیں دی جا سکتی)
یہ نمایاں فرق ہے ایک عالم کی غلطی میں اور ایک بردر کی غلطی میں۔ بردر اگر غلطی کرے تو وہ موجب عتاب وعقاب ہے، چاہے اس کی نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔جب کہ عالم کی اگر نیت صحیح ہو تو غلطی کی صورت میں بھی وہ ایک اجر کا مستحق ہے۔
علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ’جامع بیان العلم وفضلہ‘ میں ایک باب قائم کیا ہے:
بَابٌ فِي خَطَأِ الْمُجْتَهِدِينَ مِنَ الْحُكَّامِ وَالْمُفْتِينَ
یعنی مجتہد حکام اور مفتیان سے غلطی کا صدور ہو تو اس بارے میں شریعت کا موقف کیا ہے۔ اس میں انھوں نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی ہے جو صحیحین (بخاری: ۷۳۵۲، مسلم:۱۷۱۶) میں بھی ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ
(جب کوئی حاکم اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور اس کا فیصلہ درست ہو تو اس کے لیے ڈبل اجر ہے۔ اور اگر اجتہاد سے فیصلہ کرے اور اس کا فیصلہ غلط ہو تو اس کے لیے ایک اجر ہے)
یہ حدیث فیصلہ کرنے والوں کے حق میں عام ہے، چاہے یہ فیصلہ دنیاوی معاملات سے متعلق ہو یا شرعی مسائل سے متعلق۔
علامہ ابن عبد البر اور دیگر سلف صالحین رحمہم اللہ نے اس حدیث کو دنیاوی معاملات میں فیصلہ کرنے والے حکام اور شرعی مسائل میں فتوی دینے والے علما سب کے لیے عام مانا ہے۔ [جامع بیان العلم وفضلہ :۲/۸۷۸-۸۸۶،الرد علی الاخنائی لشیخ الاسلام ابن تیمیہ : ص۱۶-۱۷،فتح الباری لابن حجر: ۱۳/۳۱۸-۳۱۹]
فیصلہ میں درستگی کی صورت میں دوہرے اجر اور غلطی کی صورت میں اکہرے اجر کی یہ فضیلت صرف ان کے لیے ہے جو عالم ہوں، جاہل کے لیے نہیں جو بلا علم فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کا فیصلہ چاہے درست ہو یا غلط وہ بہر صورت گنہگار ہیں۔
مذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے سلف صالحین کی ایک جماعت نے اس بات کی صراحت کی ہے۔
قاضی عیاض صحیح مسلم کی شرح ’اکمال المعلم‘(۵/۵۷۲) میں فرماتے ہیں:
قال أهل العلم -وهو ما لا خلاف فيه ولا شك-: أن هذا إنما هو في الحاكم العالم الذى يصح منه الاجتهاد، وأما الجاهل فهو مأثوم في اجتهاده بكل حال، عاص بتقلده ما لا يحل له من ذلك؛ ولأنه متكلف في دين الله متحرض على شرعته متحكم في حكمه، فهو مخطئ كيفما تصرف، ومأثوم في كل ما تكلف، وإصابته ليس بإصابة إنما هو اتفاق وتخرص، وخطؤه غير موضوع لأنه يجهله كالعامد، والجاهل والعامد هما سواء
(اہل علم فرماتے ہیں –اور اس میں کوئی اختلاف اور کوئی شک بھی نہیں-: یہ فضیلت اس حاکم کے لیے ہے جو عالم ہو، جس کا اجتہاد کرنا صحیح ہو۔ جہاں تک جاہل کی بات ہے تو وہ ہر حالت میں اجتہاد کی بنا پر گنہگار ہے۔ جو کام اس کے لیے حلال نہیں تھا اسے انجام دینے کی بنا پر نافرمان ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالی کے دین میں تکلف کرنے والا، اس کی شریعت کو بگاڑنے والا اور اس کے فیصلے میں زبردستی من مانی کرنے والا ہے۔ اس لیے وہ ہر طرح کے تصرفات میں خطاکار ہے، ہر طرح کے تکلفات میں گنہگار ہے۔ اور اس کی درست بات بھی درست نہیں ہے، بلکہ وہ ایک اتفاق اور بس اندازہ وگمان ہی ہے۔ اس کی غلطی معافی کے قابل نہیں کیونکہ وہ جان بوجھ کر غلطی کرنے والے کی طرح جہالت کرتا ہے۔ یہاں جاہل اور جان بوجھ کر غلطی کرنے والا دونوں برابر ہے)
امام نووی ’شرح مسلم‘(۱۲/۱۴) میں فرماتے ہیں:
فأما من ليس بأهل للحكم فلا يحل له الحكم فإن حكم فلا أجر له بل هو آثم ولا ينفذ حكمه سواء وافق الحق أم لا لأن إصابته اتفاقه ليست صادرة عن أصل شرعي فهو عاص في جميع أحكامه سواء وافق الصواب أم لا وهي مردودة كلها ولا يعذر في شيء من ذلك
(جس کے پاس فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں اس کے لیے فیصلہ کرنا حلال نہیں، اگر اس کے باوجود فیصلہ کرتا ہے تو وہ گنہگار ہے، نیز اس کا فیصلہ نافذ بھی نہیں کیا جائےگا، چاہے وہ حق کے موافق ہو یا نہ ہو، اس لیے کہ اس کے فیصلے کا صحیح ہونا محض اتفاق ہے، کسی شرعی اصول وضابطے کی بنا پر نہیں، اس لیے وہ اپنے تمام احکامات میں نافرمان ہے چاہے وہ درستگی کے موافق ہو یا نہ ہو، نیز وہ تمام فیصلے مردود ہیں۔ اور اسے کسی بھی چیز میں معذور نہیں سمجھا جائے گا)
علامہ طیبی مشکاۃ کی شرح ’الکاشف‘(۸/۲۵۹۴) میں فرماتے ہیں:
وهذا فيمن كان جامعا لآلة الاجتهاد وعارفا بالأصول عالما بوجوه القياس. وأما من لم يكن محلا للاجتهاد فهو متكلف, ولا يعذر بالخطأ بل يخاف عليه الوزر, ويدل عليه قوله صلى الله عليه وسلم: «القضاة ثلاثة, واحد في الجنة, واثنان في النار
(یہ فضیلت اس کے لیے ہے جو آلہ اجتہاد سے لیس ہو، اصول کی معرفت ہو، قیاس کی صورتوں کا جانکار ہو۔ لیکن جس میں اجتہاد کی صلاحیت کا فقدان ہوتو وہ تکلف کرنے والا ہے، لہذا غلطی کی بنا پر اسے معذور نہیں سمجھا جائےگا، بلکہ ڈر ہے کہ وہ گنہگار ہو۔ اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: جج تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ان میں ایک جنتی ہے اور دو جہنمی ہیں)
یہی بات ان سے پہلے علامہ ابن المنذر، علامہ خطابی، علامہ بغوی،علامہ بیہقی اور علامہ ابن بطال المالکی رحمہم اللہ وغیرہم نے کہی ہے۔ [ معالم السنن للخطابی:۴/۱۶۰، شرح السنہ للبغوی:۱۰/۹۴، السنن الکبری للبیہقی: ۱۰/۲۰۰، شرح ابن بطال لصحیح البخاری:۱۰/۳۸۱]
تو ان قوی دلائل اور سلف صالحین کے واضح وصریح منہج کی بنا پر ہم علما کی غلطی اور بردرس کی غلطیوں کے مابین فرق کرتے ہیں۔ یقینا غلطی علما سے بھی ہو سکتی ہے، لیکن ان کی غلطیاں بردرس کی غلطیوں کی طرح بالکل نہیں ہیں۔ دونوں کی غلطیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ علما کے یہاں چونکہ علم ہوتا ہے، شرعی اصول وضوابط کی معرفت ہوتی ہے، اس لیے اصل یہ ہے کہ ان کی رائے کتاب وسنت کے موافق ہوگی، لیکن دلائل کے واضح نہ ہونے کی بنا پر کبھی ان سے غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ جب کہ بردرس کا معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ ان کے یہاں درستگی کا ہونا محض اتفاق ہے، اصل نہیں، کیونکہ ان کی بنیاد شرعی اصولوں پر نہیں عین جہالت، تقلید، یا عقلی منطق پر ہوتی ہے۔
اس لیے اگر کوئی بردر شرعی مسائل میں بلا علم کوئی فیصلہ کرتا ہے تو وہ بہر صورت وعید کے اندر داخل ہے۔
شیخ عبد اللہ التویجری فرماتے ہیں:
فإذا مارس الجاهلُ العلم، وأفتى في الدِّين، وقع في البدعة قاصدًا أو غير قاصد، وكان مبتدعًا بادِّعائهِ العلم أولًا، وبما استحدثه مما خالف الشرع بعد ذلك
[البدع الحوليۃ: ص: ۵۰]جب ایک جاہل علمی میدان میں زور آزمائی کرےگا اور دینی امور میں فتوے دینے لگے گا تو جان بوجھ کر یا بغیر قصد کے وہ بدعت میں مبتلا ہو جائےگا۔ اس کی پہلی بدعت تو یہ کہ اس نے علم کا دعوی کیا اور پھر اس کے بعد جو اس نے بدعت ایجاد کی- یہ اس کی دوسری بدعت ہے-۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے زمانے کے ایک ایسے ہی بردر’اخنائی‘کے رد میں مستقل کتاب تصنیف کی ہے اور اپنے بعد آنے والوں کے لیے واضح نمونہ چھوڑا ہے کہ ایسے بردرس کا کس طرح علاج کیا جائے۔ ان کی کتاب ’الرد علی الاخنائی‘اس باب میں ایک بے نظیر کتاب ہے۔ اس کتاب کے شروع میں فرماتے ہیں:
إن من الناس من يكون عنده نوع من الدين لكن مع جهل عظيم، فهؤلاء يتكلم أحدهم بلا علم فيخطئ، ويخبر عن الأمور بخلاف ما هي عليه خبرا غير مطابق. ومن تكلم في الدين بغير الاجتهاد المسوغ له الكلام وأخطأ فإنه كاذب آثم، كما قال النبي صلى الله عليه وسلم في الحديث الذي في السنن عن بريدة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (القضاة ثلاثة: قاضيان في النار وقاض في الجنة، رجل قضى للناس على جهل فهو في النار، ورجل علم الحق وقضى بخلافه فهو في النار، ورجل علم الحق فقضى به فهو في الجنة). فهذا الذي يجهل وإن لم يتعمد خلاف الحق فهو في النار، بخلاف المجتهد الذي قال فيه النبي صلى الله عليه وسلم: (إذا اجتهد الحاكم فأصاب فله أجران، وإذا اجتهد الحاكم فأخطأ فله أجر). فهذا جعل له أجرًا مع خطئه لأنه اجتهد فاتقى الله ما استطاع، بخلاف من قضى بما ليس له به علم، وتكلم بدون الاجتهاد المسوغ له الكلام
[الرد علی الاخنائی لشیخ الاسلام ابن تیمیہ: ص۱۶-۱۷]بعض لوگوں کے پاس ایک طرح کی دینداری ہوتی ہے لیکن ساتھ میں بہت بڑی جہالت بھی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ بلا علم بات کرتے ہیں اور غلطی کے شکار ہوتے ہیں، معاملات کے متعلق حقیقت کے بر خلاف خبر دیتے ہیں۔ جو شخص دین کے معاملے میں اس کے لیے اجتہاد جائز نہ ہونے کے باوجود کلام کرتا ہے اور اس میں غلطی کرتا ہے تو وہ جھوٹا اور گنہگار ہے، جیسا کہ سنن کے اندر موجود بریدہ کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جج تین طرح کے ہوتے ہیں، ان میں سے دو جہنمی ہیں اور ایک جنتی ہے۔ وہ شخص جس نے جہالت کی بنیاد پر فیصلہ کیا وہ جہنمی ہے۔ وہ شخص جسے حق کا علم ہوا لیکن اس کے برخلاف فیصلہ کیا تو وہ بھی جہنمی ہے۔ اور وہ شخص جسے حق کا علم ہوا اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا تو وہ جنتی ہے۔ پس یہ شخص جو جاہل ہےگرچہ جان بوجھ کر حق کی خلاف ورزی نہیں کرتا پھر بھی جہنمی ہے، بر خلاف اس مجتہد کے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب کوئی حاکم اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور اس کا فیصلہ درست ہو تو اس کے لیے ڈبل ثواب ہے۔ اور جب حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے اور اس کا فیصلہ غلط ہوتو اس کے لیے ایک اجر ہے۔ اس مجتہد کے لیے غلطی کے باوجود ایک اجر کی بات کی، کیونکہ اس نے اجتہاد کیا اور اس میں حتی الامکان اللہ کا تقوی اختیار کیا، بر خلاف اس کے جس نے بلا علم فیصلہ کیا اور اجتہاد کرنا اس کے لیے جائز نہ ہونے کے باوجود بطور اجتہاد کلام کیا۔
لہذا بردرس کی حمایت میں ان کی غلطیوں پر پردہ پوشی کرنے والے اور علما کی غلطیوں سے انھیں سند فراہم کرنے والے اپنا محاسبہ کریں اور سلف صالحین کے منہج کی پیروی کرتے ہوئے ان کی تباہ کاریوں سے عوام کو آگاہ کریں۔
اللہ تعالی ہمیں حق سمجھنے، قبول کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

5
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
3 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
Rasheed

بردرس پر آپ کی سلسلہ وار تحریر ایک بیش قیمت اصلاحی کام ہے،اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہیکہ یہ مدلل اور مطلوب پر سلف کے نقطہایے نظر بھی پیش کرتی ہے،اس زریں سلسلے کی تکمیل کے بعد اسےکتابی شکل دیجائے تاکہ بعد کے لوگوں کو اس مسئلے پر ایک گرانقدر مواد میسر آئے اور بردرس کے تعلق سے صحیح نقطۂ نظر سے وہ مستفید ہوں،ماشاء اللہ یہ تحریر بھی بہت وقیع ہے جزاکم اللہ خیرا

سرفراز یوسف

جزاكم الله خيرا.. لیکن وہ علماء جو اجتہاد کے درجے کو نہیں پہونچے پھر ان سے غلطی ہوجائے تو ایسے اہل علم کی غلطی کو دلیل بنا کر بردرس کی غلطیوں کی پردہ پوشی کرنے والوں کا کیا جواب ہوگا؟؟ کیونکہ خطا پر اجر مجتھد کے لیے ہے ۔۔۔۔ اور ۔۔۔

فاروق عبد الله نراین پوری

آمین
جزاکم اللہ خیرا شیخ محترم
بہت بہت شکریہ
ان شاء اللہ اسے کتابی شکل دینے کی کوشش کی جائےگی۔ اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے۔

مشتاق أحمد بن مختار أحمد

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی شاندار بارک اللہ فیکم… یہ سلسلہ چلتے رہنا چاہیے بلکہ بردرس کی علمی غلطیاں انکے اسماء کے ساتھ ذکر کی جائیں…

فاروق عبد الله نراین پوری

آمین
شکریہ شیخ
جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم