بدعت کے مسائل

عبدالاحد احسن جمیل آل عبدالرحمن عقائد

بدعت کی تعریف
بدعت لغت عرب میں بدع سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہوتا ہے کسی چیز کا ایسے طریقے پر ایجاد کرنا جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو۔ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
بَدِیْعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ
(البقرہ: ۱۱۷)یعنی اللہ نے آسمان وزمین کو بغیر کسی کے نمونے کے بنایا ہے۔
موجودہ دور میں ہم اس کی مثال جہاز یا بجلی وغیرہ کے ایجاد سے دے سکتے ہیں۔ (النہایہ، از ابن اثیر: ۱؍۱۰۶، لسان العرب، از ابن منظور: ۸؍۶، تاج العروس، از زبیدی:۲۰؍۳۰۷-۳۰۸ )
اسی معنی کی طرف ابن فارس نے بھی (معجم مقاییس اللغۃ: ص۱۰۱) میں اشارہ کیا ہے۔
شریعت کی اصطلاح میں بدعت کہتے ہیں: دین میں کسی ایسے کام کا ایجاد کرنا جس کی کوئی مثال موجود نہ ہو، (یا) جس کی کوئی دلیل نہ ہو ،جیسے ظہر کی نماز چار کے بجائے پانچ رکعت پڑھنا ۔اسی کی طرف نبی کریم ﷺ نے اشارہ کیا ہے، فرماتے ہیں آپ ﷺ:
من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد(متفق علیہ)جس نے دین کے نام پر کوئی نیا کام ایجاد کیا، جو اس میں سے نہیں ہے، تو وہ مردود ہے۔ ( جامع العلوم والحکم ، از ابن رجب: ۲؍۱۲۷) اور یہی کچھ حافظ ابن حجر نے (فتح الباری:۱۳؍۳۱۰) میں بھی کہا ہے۔
بدعت کی قسمیں
بدعت کی متعدد قسمیں ہیں:
پہلی قسم:
ایسی بدعت جن کا تعلق قول واعتقاد سے ہے ، جیسے جہمیہ ، معتزلہ رافضہ اور تمام گمراہ فرقوں کے قول اور ان کے عقائد۔
دوسری قسم:
عبادتوں میں بدعت ، جیسے اللہ کی عبادت غیر شرعی اور غیر جائز عبادت سے کرنا۔ اس قسم کی متعدد شکلیں ہیں:
۱۔ نفس عبادت ہی بدعت ہو، مثلا کوئی ایسی عبادت ایجاد کرلی جائے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد اور اصل ہی نہ ہو، جیسےقضاء عمری یا عید میلاد وغیرہ۔
۲۔مشروع عبادت میں زیادتی ، جیسے ظہر کی نماز چار کے بجائے پانچ پڑھنا، یا مغرب کی نماز تین کے بجائے چار پڑھنا وغیرہ۔
۳۔مشروع عبادت میں کمی ، جیسے ظہر کی نماز چار کے بجائے تین ہی رکعت پڑھنا، یا مغرب کی تین کے بجائے دو ہی رکعت پڑھنا۔
۴۔ عبادت کی ادائیگی کا طریقہ بدل دیا جائے ، جیسے نماز میں قیام کرنے کے بجائے سجدہ سے شروع کیا جائے ، یا ذکر واذکار اجتماعی شکل میں گا گا کر خوش الحانی سے ادا کیا جائے ۔
۵۔کسی عبادت کو کسی ایسے وقت میں خاص کرنا جس میں شریعت نے خاص نہیں کیا ہے، جیسے پندرہ شعبان کا روزہ اور ہزاری نماز وغیرہ۔ (الإرشاد إلی صحیح الاعتقاد، از: شیخ صالح فوزان، ص۳۲۲)
بدعت مکفرہ وغیر مکفرہ میں فرق کرنے کا ضابطہ:
بدعت کی مذکورہ تقسیم سے ہم نے یہ بات واضح طور سے جان لیا کہ ہر بدعت اس کے مرتکب کو کافر نہیں بناتی ہے ، اس لیے اب یہ جاننا ضروری ہے کہ اس میں فرق کرنے کا ضابطہ کیا ہے۔
چنانچہ اس میں فرق کرنے کا ضابطہ یہ ہے کہ جو بدعت ان امور شرعیہ کے انکار اور روگردانی کا نتیجہ ہوں جو دین میں معروف اور معلوم بالضرورہیں تو یہ بدعت مکفرہ ہے اور جو بدعت کسی تاویل یا جہالت کا نتیجہ ہو وہ مکفرہ نہیں ہے۔(الاعتصام، از شاطبی:۲؍۳۸۹)
بدعت کا حکم
مختصر طور سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں دین میں ہر بدعت حرام ہے اور گمراہی کا سبب ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ
(ابو داود، ترمذی: حسن صحیح)یعنی دین میں ہر نئے کام کے ایجاد کرنے سے بچو کیوں کہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے:
من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد
(متفق علیہ)جس نے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کی تو وہ مردود ہے۔( الإرشاد إلی صحیح الاعتقاد، از: شیخ صالح فوزان، ص: ۳۲۲)
اس اجمال کی تفصیل اس طرح ہے کہ دین میں بدعت کا ایجاد کرنا حرام ہے، لیکن یہ حرمت بدعت کی شکلوں کے اعتبار سے مختلف ہے۔
مثال کے طور پر بعض بدعتیں حرام ہیں اور ان کا ارتکاب کفر ہے اور ان کا کرنے والا کافر ہے ، جیسے اللہ کو چھوڑ کسی قبر والے سے مدد طلب کرنا اس کے لیے جانور ذبح کرنا وغیرہ۔
بعض بدعتیں بذات خود شرک نہیں بلکہ وہ شرک کا وسیلہ ہیں جیسے قبروں پر عمارتیں تعمیرکرنا، وہاں نماز وغیرہ پڑھنا۔
بعض بدعتیں اعتقادی فسق ہیں ، جیسے خوارج اور قدریہ وغیرہ کی بدعتیں۔
اور بعض بدعتیں نافرمانی کے کاموں میں سے ہیں جیسے دھوپ میں کھڑے ہوکر روزہ رکھنا، وغیرہ۔
بدعتوں کے ظہور کے اسباب، مقامات اور وقت
بدعت میں پڑنے کے مختلف اسباب ہیں اور کوئی ضروری نہیں کہ ہر انسان ایک ہی وجہ سے بدعت میں پڑے بلکہ اس کی متعدد وجہیں بھی ہو سکتی ہیں، بدعتوں کے ظہور اور اس میں پڑنے کے متعدد اسباب درج ذیل ہیں:
۱۔دینی احکام سے لا علمی اور جہالت
۲۔ خواہشات نفس کی پیروی
۳۔ مخصوص لوگوں کی رائے کے لیے تعصب برتنا
۴۔ کافروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور ان سے مشابہت اختیار کرنا۔ (حقیقۃ البدعۃ وأحکامھا، از شیخ سعید الغامدی:۱؍۱۷۲-۱۷۸)
عموما بدعتیں عراق اور ایران کی سر زمین سے پیدا ہوئی ہیں، کوفہ سے شیعیت اور ارجاء (مرجیہ) کی ابتدا ہوئی، بصرہ سے قدریت واعتزال، غلط اور غیر شرعی عبادتوں کا ظہور ہوا ،شام ناصبیت اور قدریت کا گڑھ تھا، جہمیت کا ظہور خراسان کی جانب سے ہوا۔
مکہ اور مدینہ (یعنی حرمین شریفین) سے کسی قسم کی بدعت کا ایجاد نہیں ہوا ہے، خصوصا مدینہ سے کیوں کہ عرصہ دراز تک یہی مسلمانوں کا دار الخلافہ رہا ہے ۔بلکہ علماء کی تحقیق کے مطابق تیسری صدی ہجری تک مدینہ سے کسی قسم کی بدعت کا نہ تو ظہور ہوا نہ وہاں ان کا کوئی وجود رہا ۔
ان بدعتوں میں پہلے پہل خوارج اورشیعیت وغیرہ کی بدعتیں پیدا ہوئیں اور یہ خلفاء راشدین کا آخری دور تھا، تو صحابہ کرام نے ان پر زبردست گرفت کی۔ جب بات آگے بڑھی تو قدریہ اور مرجیہ کا ظہور ہوا ۔
پھر اعتزال کی بدعت اور نئے نئے فتنے رونما ہوئے ، پھر مختلف خیالات کے لوگ پیدا ہوئے اور نفس پرستی بڑھی ، پھر یونانی زبان سے فلسفیوں کی کتابوں کا ترجمہ ہوا اور صوفیت اور قبر پرستی وغیرہ کا ظہور تین صدیوں کے گزر جانے کے بعد ہوا۔(اس کی تفصیل متعدد فرق کی کتابوں میں اور بدعت پر لکھی گئی اکثرکتابوں میں موجود ہے)
قرآن وحدیث میں بدعت کو نہایت مذموم شیٔ قرار دیا گیا ہے ، جن میں سے چند بڑی مذمتیں درج ذیل ہیں:
(۱)عیسائیوں نے رہبانیت کی بدعت ایجاد کی تھی، اس کی مذمت کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَآتَیْنَاہُ الْإِنجِیْلَ وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ رَأْفَۃً وَرَحْمَۃً وَرَہْبَانِیَّۃً ابْتَدَعُوہَا مَا کَتَبْنَاہَا عَلَیْہِمْ
(الحدید:۲۷)اور ان کے بعد عیسی بن مریم کو بھیجا اور انھیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کردیا ، ہاں رہبانیت (دنیاوی حلال زیب وزینت کو چھوڑ دینا) تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کر لیا تھا، ہم نے ان پر اسے واجب نہیں کیا تھا۔
(۲)ہر بدعت گمراہی ہے ، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ
(صحیح مسلم) ہر بدعت گمراہی ہے۔
(۳)ہر بدعت جہنم میں لے جانے کا راستہ ہے، اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:
کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ
(سنن نسائی) ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں ہے۔
اب ہم نے جب یہ جان لیا کہ دین کے نام پر کوئی بھی نیا کام جو نبیﷺ اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں نہیں تھا اس کا کرنا یا اس کو دین سمجھنا بدعت ہے۔تو ہم نے یہ بھی جان لیا کہ کسی بھی وقت موسم دن اور مہینے کے ساتھ کسی عمل کو خاص کرنا بھی شریعت کا ہی کام ہے۔ اگر شریعت نے کسی مخصوص عمل (عبادت) کو کسی وقت کے ساتھ خاص نہیں کیا ہے تو ہم میں سے کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے، اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کی مثال ایسے ہی ہوگی جیسے زاد الطین بلہ یعنی پہلے ہی گندگی تھی اس گندگی پر پانی ڈال کر اس کو پھیلا دیا گیا ۔اور ایسا کرنے والا گویا اس بات کا اقراری ہے کہ اللہ نے نعوذ باللہ دین کو یا تو مکمل نہیں کیا یا اللہ کے رسول ﷺ نے دین کو پہنچانے میں خیانت سے کام لیا ۔نعوذ باللہ من ذلک
اللہ تعالی ہر قسم کی بدعات وخرافات سے ہمیں محفوظ رکھے اور اپنے نبی کی سنت کا سچاپکا متبع بنائے ۔آمین
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما مزیدا

آپ کے تبصرے

3000