خوش گپّیاں ایک دینی نصاب تعلیم کے متعلق

عبدالمعید مدنی تعلیم و تربیت

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نصاب کے متعلق مختلف حلقوں سے اس وقت موشگافیاں سامنے آرہی ہیں، سوشل میڈیا میں کسی تحریکی سرپھرے نے دعویٰ کیا کہ جامعہ اسلامیہ کا نصاب مولانا مودودی صاحب نے تیار کیا تھا۔ ابھی حال میں مفتی فضیل الرحمن عثمانی کی زندگی پر ایک کتاب آئی ہے، اس میں انھوں نے مودودی صاحب سے مدینہ منوّرہ میں ملاقات کا حال بیان کیا ہے۔ جناب رقم طراز ہیں:
ہم نے ان سے کہا کہ یونیورسٹی کے بارے میں جو مضامین ہم نے پڑھے تھے اور جو تعارف ہمارے سامنے آیا تھا، وہ معیاری تھا، لیکن یہاں وہ علمی رنگ اور وہ وسعت جو ہمارے خیال میں تھی نظر نہیں آئی۔ مولانا نے اس کے جواب میں فرمایا کہ جب یونیورسٹی قائم ہو رہی تھی تو شاہ سعود نے مجھ سے اس کا خاکہ تیار کرنے کے لیے کہا تھا، میں نے جو نقشہ تیار کیا تھا وہ ایک عالمی یونیورسٹی کا تھا، لیکن شاہ کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ملکی علماء کو نظرانداز نہیں کر سکتے اور پھر انھوں نے ایک رسالہ ’’المسلمون‘‘ جو جنیوا سے شائع ہوتا تھا وہ ہمیں دیا کہ آپ اس کو پڑھیں، اس میں یونیورسٹی کا وہ خاکہ اور پوری تفصیلات موجود ہیں۔‘‘ (…زندگی کے تابندہ نقوش:ص۴۳۳)
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نصاب تعلیم کے متعلق لوگوں کو غلط فہمیاں اور خوش فہمیاں دونوں ایک ساتھ ہیں۔ ان غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کو فرقہ پرستانہ سوچ نے قلوب و اذہان میں اس طرح سے مضبوط بٹھا لیا ہے کہ ان کا ازالہ ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ فی الوقت ان منفیات کو فضائل و کمالات میں شمار کرنے اور تعلّی کا مظاہرہ کرنے کا موقع دریافت کر لیا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جامعہ اسلامیہ کو اصلا عالمی پیمانے پر دعوت کا کام کرنے کے لیے اور دعاۃ تیار کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے نصاب میں خالص سلفی منہج کو ملحوظ رکھا گیا تھا اور خالص دینی نصاب تیار کرنا پیش نظر تھا۔ عالمی ادارے کی حیثیت سے اس کی پوزیشن روز اول سے طے تھی، اسی لیے عالم کے مشہور علماء سے اس سلسلے میں مشورہ لیا گیا۔ اصلا نصاب کی تیاری سعودی سلفی علماء کے ذمہ تھی۔
جن دیگر لوگوں نے نصاب تعلیم کا خاکہ تیار کیا ان میں مودودی صاحب بھی تھے، انھوں نے اپنی مادی و تحریکی سوچ کے مطابق ’’خچر نصاب تعلیم‘‘کا خاکہ تیار کیا تھا اور سامنے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نصاب تعلیم کو خاص طور پر پیش نظر رکھا تھا۔ سعودی عرب کے سلفی علماء نے مودودی کے ’’خچر نصاب تعلیم‘‘ کو من و عن مسترد کر دیا، کیوں کہ وہ منہجا، علما اور عملا کسی کام کا نہیں تھا۔ جامعہ اسلامیہ کے جو دعوتی اہداف طے تھے ان سے قطعا میل نہیں کھاتا تھا۔
ان خوش فہمیوں اور مغالطہ آمیزیوں کو ان حقائق اور اہداف سے مطلب نہیں ہے بس لوگ اپنی تعلّی کا اظہار کیے جا رہے ہیں۔ مودودی صاحب جیسے کنفیوژڈ اور عصر جدید کی خارجیت کے داعی کو کیا پتہ کہ منہج کیا ہوتا ہے، دینی نصاب تعلیم کیا چیز ہے اور دعوتی اہداف کے لیے کس طرح کے نصاب کی ضرورت ہے۔
بفرض محال اگر ان کا تیار کردہ نصاب مان لیا جاتا اور اس کی تنفیذ ہو جاتی تو کیا ہوتا؟ یہی ہوتا جو ان کی جماعت اور دعوت سے تحریکی پھکڑوں کا حال ہے۔ دشمن سنت، دشمن صحابہ، خارجی، سیکولر، مادیت پسند، اباحیت پسند نکلتے۔ عالم بننے کے بعد بگڑے ہوئے دانشور نکلتے اور دین کی جڑ کھودتے۔
جس نصاب کو سعودی عرب کے علماء نے جامعہ اسلامیہ کے لیے تیار کیا اور جس حقیت پسندانہ اور حق پرستانہ طریقے پر طلباء کو تعلیم و تربیت دی گئی اس کے اثرات سب کے سامنے ہیں۔ ڈیڑھ سو سال سے برصغیر میں قائم تمام دینی اداروں کے فردی و علمی انتاجات کا جامعہ اسلامیہ کی پچاس سالہ علمی انتاجات سے موازنہ کر لیں سب ملا کر جامعہ کے انتاجات کے عشرعشیر بھی نہیں ہیں۔ جامعہ کے دعوتی اثرات کو دیکھیں دنیا کے تمام دیگر دینی جامعات، مدارس اور اداروں کے دعوتی اثرات سے کہیں زیادہ اس مبارک جامعہ کے اثرات ہیں۔
یہ عجیب بدنصیبی ہے کہ برصغیر سے اہل حدیث مدارس کے فارغین کے سوا دیگر مسالک کے فارغین کو جامعہ میں داخلہ ملا ہے تو عموما -استثناءات کا انکار نہیں- مدینہ منورہ میں رہنےاور جامعہ سے مستفید ہونے اور اس کی نوکری پانے کے باوجود اس سے کد رکھتے ہیں اور اس کی تنقیص سے شرماتے نہیں اور دشمنی تک جانے والوں میں کئی نام گنائے جا سکتے ہیں۔
جامعہ اسلامیہ یا جامعات سعودیہ میں داخلہ لینے سے غیر اہل حدیث اداروں کے مشائخ عام طلباء کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں یا پھر روکتے ہیں اور اپنی اولاد کو چپکے سے داخل کراتے ہیں۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہندوستان سے اولین کھیپ میں ۲۷؍طلباء تھےاوراکثر مشائخ کے بیٹے تھے۔
ندوۃ العلماء کے ذمہ داروں، یعنی ندوہ کے قبضہ مافیا حسنی گروپ کو اتنا غرور رہتا ہے کہ جامعہ اسلامیہ کو ندوہ سے کم تر بتلانے اور درشانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان بیچاروں کو یہ پتہ نہیں ہے کہ جامعہ کے ایم اے اور پی ایچ ڈی کے رسالے انتہائی منہجی اور معیاری ہوتے ہیں۔ برصغیر کے دینی اداروں کی علمی کاوشیں علی الاطلاق ان کے مقابلے میں تیسرے اور چوتھے درجے کی بھی نہیں ہیں۔ اور خود ندوہ کی تعلیم سلفی اور دیوبندی اعلیٰ مدارس کے مقابلے میں دوسرے درجے کی ہے۔ عربی ادب تک میں ندوہ جامعہ سلفیہ اور دیوبند کے معیار پر نہیں اتر سکتا، پتہ نہیں کیا خبط لوگوں پر سوار ہے۔
برصغیر میں مسلکی تعصب اتنا شدید ہے کہ ایک مسلک والا دوسرے مسلک والے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، خاص کر تحریکی۔ یہ اپنے تحریکی مسلک میں بدبودار تعصب کا شکار رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک سب سے انوکھا اور قابل مودودی بنائے گئے ہیں اور ساری دنیا ان کے نعرۂ انقلاب سے کانپتی ہے، جب کہ بے چارے سب سے زیادہ کنفیوژ انسان ہیں یا پھر انتہازی۔
اس بدبودار ماحول کے برعکس جامعہ اسلامیہ میں بلا تعصب علمی دلائل کی بنیاد پر تعلیم دی جاتی ہے اور بلا تفریق مسلک ہر مسلمان کو پڑھنے کی اجازت ہے اور طلباء کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے اور ہر ایک کو اپنے پسند کے مسلک کے مطابق رہنے کی آزادی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود برصغیر کے سکہ بند طلباء جامعہ اسلامیہ اور دیگر سعودی جامعات میں تعلیم حاصل کرتے وقت مدافعت اور توحش کی زندگی گذارتے ہیں۔ ایسے فضلاء اکثر دوہرے پن کا شکار رہتے ہیں اور کچھ کھلے عناد اور عداوت کو زندگی بھر گلے سے لگا لیتے ہیں۔ عنایت اللہ سبحانی، سلمان ندوی اور سجاد نعمانی اس کی واضح مثال ہیں۔
برصغیر کے دینی اداروں کے نصاب تعلیم کی اصلاح و سدھار کے لیے سواسو سال سے آواز لگ رہی ہے لیکن کہیں کسی سدھار کے بجائے بگاڑ اور خلفشار ہی نظر آیا ہے، تیسرے درجے کے نصاب پر جمود۔ اور نصاب میں منتخب کتابیں نہ کہ تیار شدہ منظم نصاب اور تدریس و تربیت کے بجائے کتاب خوانی، عموما عقیدہ اشعری، تفسیر صوفی/تفسیر بالرائے، ادب و قواعد عجمی۔ فقہ میں اصول فقہ متاخر فساد زدہ صلاحیت اور ذوق کے لیے تباہ کن۔حدیث حنفی بنانے کی کوشش اور اصول حدیث کے ذریعہ انکار حدیث کا محاولہ، تاریخ کربلائی و گپ، سیرت رہبانی یا ندارد، ایسے نصاب تعلیم پر عجمی غرور، ناقابل فہم، طریق تدریس ندارد۔ شروع سے آخر تک کتاب خوانی۔ جمود تقلید کی حکمرانی، دلائل سے بے خبری بلکہ دشمنی۔
ویسے تصور کریں مودودی صاحب جامعہ اسلامیہ کو کیا نصاب دے سکتے تھے۔ خود جناب علوم اسلامیہ کا واجبی سطحی علم رکھتے تھے۔ ان کے عقیدے میں رفض، خارجیت، اشعریت، اعتزال، علمانیت سب موجود ہے۔ تفسیر بالرائے میں سب سے آگے۔ حدیث میں مشکوک، اصول حدیث ان کی پہنچ سے باہر، عربی میں نابلد، تاریخ کربلائی، فقہ حنفی۔ سوچیے ذرا یہ کون سا نصاب جامعہ اسلامیہ کو دے سکتے تھے۔ اقتباس میں تعلّی دیکھیے۔ مودودی نے اپنی زبان سے تعلّی کا مظاہرہ کیا ہے یا یہ مفتی فضیل کی فضولیات ہیں۔ واللہ اعلم
سعودی عرب کے سلفی علماء کے پیش نظر سلفی منہج کے مطابق دین کی تعلیم و تدریس تھی اور سارے عالم میں اسلامی علماء و دعاۃ کے ذریعہ دین کی اشاعت تھی نہ کہ خارجیت و رافضیت کے تحریکی افکار سے دہشت گردی اور قتل و خوں ریزی تھی۔ مودودی اپنی جماعت سے خارجی پیدا کرتے رہے یا سیکولر اباحیت پسند اور علوم اسلامیہ کے دشمن۔ وہ کیا اس قابل تھے کہ تحریکی ضلّال کے سوا دعاۃ اسلام پیدا کرنے کا نصاب دیتے۔ کچے پکے نعرہ بازوں اور ولولہ پسندوں نے انھیں ’’معلم اول‘‘بنا دیا۔ دانشوری کا لیول ان سے چپکا دیا ورنہ وہ وقت کے سارے گمراہ کن افکار کے حامل تھے۔ نصف صدی کے اندر تحریکی خارجیوں اور رافضیوں نے مل کر میرے اندازے کے مطابق پچاس لاکھ مسلمانوں کا خون بہایا ہے اور ضلالت و گمرہی کا سیلاب بہا دیا ہے، ان کے ہدم و صدم کے اثرات مسلم خطے اور مسلم سماج کے چپے چپے پر ہیں۔
خلیج اور خصوصا سعودی عرب نے ان خارجیوں کو کم از کم تین دہے تک پالا اور سارے عالم میں ان کی دکانیں کھلوا دیں اور ہر تحریکی کی شکم پروری ہوئی اور ہو رہی ہے، ایک طرف ان عربوں کا جذبہ دین و خیر سگالی کا رویہ اور دوسری طرف تحریکی لئیموں کی دناءت کہ ہر تحریکی کا بال بال ان کا مرہون منت مگر صرف ان کے لیے گالیاں، تہمتیں۔ جو گروہ دناءت کی نچلی سطح تک پہنچا ہو اور غلیظ بدبودار دنیا داری اور خارجیت کو دین اور شعار دین بنائے ہوئے ہو اس کے بارے میں کسی قسم کی خوش فہمی اور ہمدردی دین کی جڑ کھودنے کے برابر ہے۔ تحریکیت نے دین اور ملت کی جڑ کھودنے کا کام کیا ہے اور کچھ نہیں۔ ان کا جاہل عالم سب دین و ملت کے خلاف شب و روز سازش کرتے ہیں اور ان کی جڑوں پر تیشہ چلاتے ہیں۔ مودودی کے افکار ضالہ نے تحریکیوں کو دین و ملت کی جڑیں کھودنے کے لیے تیشہ فراہم کر دیا ہے۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے مخلص علماء کرام نے اپنے پیش نظر یہ رکھا تھا کہ جامعہ اسلامیہ کے لیے خالص دینی نصاب تیار کریں۔ مخلوط نصاب تعلیم -خچر نصاب تعلیم- کی تو ہر طرف بھرمار تھی اور ہے، علوم اسلامیہ کی اختصاصی تعلیم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پچاس سالوں تک جامعہ اسلامیہ اسی اختصاصی نقطے پر عمل پیرا تھی، اس کے تمام کالجوں میں علوم دینیہ کی اختصاصی تعلیم دی جاتی تھی۔ اب اختصاصی نصاب میں تبدیلیاں آنی شروع ہوئی ہیں، جامعہ اسلامیہ کے رعیل اول اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ بچے ہیں، انھوں نے بڑی دل سوزی کے ساتھ اس تبدیلی کے نقصانات کو بیان کیا اور اختصاصی نصاب میں تبدیلی لانے سے روکا لیکن تغیرات کی آندھی میں کون کس کی سنتا ہے؟
سارے تغیرات کے باوجود آج بھی جو خیر جامعہ اسلامیہ مدینہ میں ہے دنیا بھر میں کسی چھوٹے بڑے دینی ادارے میں وہ خیر موجود نہیں ہے اور نصف صدی کے اندر اس سے دین و ملت کی جو خدمت ہو سکی ہے دنیا کے کسی معاصر دینی یونیورسٹی سے ایسی خدمت نہ ہو سکی۔
یہ بات بالکل واضح رہنی چاہیے کہ دینی مدارس کے لیے دینی اختصاصی نصاب ہی سوٹ کرتا ہے۔ مخلوط خچر نصاب اس کے لیے زہر ہے۔خچر نصاب سے دینی مدارس کی پہچان، امتیاز کارکردگی، تعلیم و تربیت سب بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور بسا اوقات اس سے خیر کا کام ہی ختم ہونے لگتا ہے۔ یہ دینی مدارس کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے۔ اس سے دینی مدارس کی مقصدیت کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ دینی مدارس کی تعلیمی و تربیتی یکسوئی تباہ ہو جاتی ہے۔ ذہنی انتشار و خلفشار پیدا ہوتا ہے۔ دینی نصاب تعلیم کے لیے زیادہ سے زیادہ جو چیز سوٹ کر سکتی ہے وہ یہ کہ لادینی یا مباح افکار و نظریات کی عام جانکاری دینی طالب علم کو حاصل ہو جائے اور اس کے لیے دینی نصاب میں ایک مادے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے، جس میں مذاہب عالم، ادبی، سماجی، سیاسی، معاشی… عام افکار کو پڑھایا جا سکتا ہے تاکہ عالم عصر جدید کی جاہلیتوں سے باخبر رہے۔
جن مدارس کے پاس سہولیات ہیں وہ سیکولر تعلیم میں دلچسپی رکھنے والے طلباء کے لیے برج کورس کا ایک سالہ یا دو سالہ کورس حسب ضرورت رکھ سکتے ہیں۔ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ دل چسپی رکھتے والے طلباء سیکولر تعلیم کی طرف آگے جا سکیں گے، ہائی اسکول کا کامل نصاب دینی نصاب کا حصہ بنا دینا دین، طلباء تعلیم و تدریس سب کے ساتھ زیادتی ہے اور خیرات کے پیسوں کا ناجائز استعمال۔ ہر طالب علم نہ اتنا بوجھ اٹھا سکتا ہے نہ اسے خچر نصاب سے دلچسپی ہو سکتی ہے۔
اسی طرح اختصاصی کورس دو تین سال کا ان طلباء کے لیے بہت مفید ہوگا جو سیکولر تعلیم کی ڈگری رکھتے ہیں، مزید دینی تعلیم کے حصول کا شوق رکھتے ہیں۔ دینی نصاب تعلیم کے ساتھ کامل سیکولر نصاب تعلیم کی آمیزش ہو اور مدارس میں اسے چلا جائے کامیابی نہیں مل سکتی، یا اسی کے برعکس کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ بوجھ اتنا زیادہ ہوگا کہ دونوں میں اوسط طالب علم بس دُخ دُخ ہی رہے گا۔
ایسی صورت میں دینی مدارس کا مسئلہ زیادہ نازک ہوگا، دینی مدارس کا سرمایہ ہی لٹ جائے گا۔ پہلے تمام مدارس میں دینی نصاب اور اس کی تدریس پر اتنا ارتکاز رہتا تھا کہ مدارس کے طلباء مدرسہ کے سوا دیگر امتحان میں بیٹھ نہیں سکتے تھے۔جامعہ سلفیہ میں ۱۹۷۴ء تک الہ آباد بورڈ کے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ندوہ سے ڈاکٹر عبدالعلیم بستوی آخری سال میں اسی لیے نکالے گئے تھے کہ انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے پرائیویٹ امتحان دیا تھا۔ لک چھپ کر اگر طالب علم پرائیویٹ امتحانوں میں بیٹھتا تھا اور پتہ چل جاتا تو نکال دیا جاتا تھا یا امتحان دے کر نکل جاتا تھا۔
حالات بدلے ہیں تو خاص کر اہل حدیث مدارس میں سیکولر نصاب ہائی اسکول کا عالمیت کے ساتھ ضم کر دیا گیا ہے۔ بات کسی مفید تعلیم سے نفرت یا تعصب یا تنگ نظری کا نہیں ہے ہر مفید علم دینا و ضرورتا قابل قبول ہے۔ بات اختصاص کی ہے۔ ۲ فیصد مسلم بچے دینی نصاب تعلیم پڑھنے مدارس میں آتے ہیں۔ ۹۸؍فیصد سیکولر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ۲؍فیصد کی کفالت مسلم سماج اس لیے کرتا ہے تاکہ وہ مسلم سماج اور عام انسانوں کو دعوت دین کے لیے یکسو ہو کر نکلیں اور مسلم سماج کی خاص کر دینی تربیت تعلیم اور رہنمائی کریں۔ اپنے دروس، خطبوں، امامت، تدریس، تحریروں اور دعوت کے ذریعہ اپنے عمل اخلاق اور اسوہ کے ذریعہ۔ دیکھا یہی جاتا ہے کہ خچر نصاب تعلیم سے اس دینی ذمہ داری کی ادائیگی میں بہت بڑی رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ اس کے سبب نہ دینی استعداد بن پاتی ہے، نہ دینی شخصیت بن پاتی ہے، نہ دینی شاکلہ بن پاتا ہے۔ اس سے دینی کارکردگی شدید متاثر ہوتی ہے۔ اور مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ خچر نصاب تعلیم کو پڑھ کر عموما رجحان سیکولر تعلیم کی طرف بن جاتا ہے اور ہر کس و ناکس کی اس کی طرف دوڑ لگ جاتی ہے اور دیکھا یہ جاتا ہے کہ میدان دعوت میں خلا رہ جاتا ہے اور دن بدن یہ خلا بڑھتا جا رہا ہے۔ دینی مدارس کے تقاضے اور ضرورتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ یہ میری رائے ہے صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد۔ دوسروں کو اپنی رائے بنانے اور اپنا جائزہ پیش کرنے کا حق ہے بشرطیکہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
مودودی صاحب کا شیخ چلی نصاب اگر جامعہ اسلامیہ میں منظور کیا جاتا تو کیا ہوتا۔ دو لفظوں میں اباحیت، استشراق اور خارجیت کوبڑھاوا ملتا۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبد الرحمن صدیقی

عمدہضمون ۔۔کیا،اہل حدیث مسلک کی تقسیم پر کوئ کتاب یا مضمون کی نشاندہی کر سکتے ہیں ۔جزاک اللہ