صلاحیت پانی ہے

ابوالمیزان منظرنما

ضروری نہیں کہ ہر سچے قصےمیں اتنے موڑ ہوں جتنے حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں تھے۔ ایک زندگی کا ایک ہی سبق آموز واقعہ عبرت کے لیے کافی ہے۔ انبیاء ہوں یا علماءان کے نبوی کردار اور علمی مقام میں جتنی پریرنا ہوگی اللہ رب العالمین اسی قدر ان کا ذکر بلند رکھے گا۔ جتنے انبیاء کے حالات اللہ نے مناسب سمجھے ہمارے لیے قرآن میں رکھے ہیں۔ اسی طرح علماء امت کے علمی کارناموں کا بھی معاملہ ہے۔ اللہ رب العزت ہی جانتا ہے کس واقعے میں کتنی عبرت ہے اور وہ عبرت بعد والوں کے لیے کتنی مفید ہے۔ اللہ نے نبیوں کے ساتھ ان کی قوموں کا تذکرہ کیا ہے،جنھوں نے فرماں داری کی ان کا بھی اور جو نافرمانی کرکے سزا کے مستحق ہوئے ان کا بھی۔ ساتھ ہی نمرود، فرعون، ہامان اور قارون جیسے طغیان وسرکشی نیز بغاوت وبدی کے محوروں کی تاریخ بھی محفوظ رکھی ہے۔
کتنے علمی کارنامے حادثوں میں تلف ہوجاتے ہیں، اللہ ہی کو معلوم ہے کہ کس کے عمل میں کتنا خلوص ہے۔ کسی کسی کے عمل کی قبولیت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اس کی عبرت آموزی مقبولیت کے آسمان کو چھولیتی ہے، یہ معاملہ کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ علم اور صلاحیت چاہے جس معیار کے ہوں عمل کی توفیق اللہ دیتا ہے۔ حافظ صلاح الدین یوسف( رحمہ اللہ) نے کم عمری میں ہی صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کا دفاع کیا تو اللہ نے انھیں تفسیر احسن البیان اور ترجمہ ریاض الصالحین جیسے شاہکار کی توفیق دی۔ ان کی علمی باقیات سے ایک خلقت مستفید ہوتی ہے۔
صلاحیت اہم ہے، مگر اسے ٹھیک دشا نہ ملے تو پانی کی طرح یہاں وہاں جہاں راستہ ملے بہتی رہتی ہے۔ تالاب، ندی، دریا اور سمندر ہونے کے لیے اسے درست سمت میں بہنا پڑتا ہے، رخ بگڑا یا راستہ بدلا تو بہاؤ لمبا ہوجاتا ہے۔ وقت رہتے جگہ پر نہ پہنچے تو دھوپ اور گرمی سے پانی سوکھ جاتا ہے۔ پانی پانی رہے، قطرہ قطرہ سمندر ہوجائے اس کے لیے دشا صحیح ہونا ضروری ہے۔
ہمارے درمیان کتنی ایسی حیرت انگیز صلاحیتیں ہیں کہ زمانہ رشک کرتا ہے، مگر اکثر وبیشتر اپنی صلاحیتوں کی آگ میں خود ہی جل جاتے ہیں۔ زبان وبیان کی قابلیتیں شاعری کی راہ میں پڑ کر زلفیں سنوارنے میں لگتی ہیں تو سماج کے ایک بہت ہی عجیب وغریب طبقے کا حصہ بن کر تفریح کے آلے میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
ملٹی ٹیلنٹید لوگوں کا بڑا مسئلہ ہوتا ہے، انھیں لگتا ہے سب کچھ کرسکتے ہیں تو ’کچھ بھی‘ کرتے رہتے ہیں ۔ جب تک ہوش آتا ہے (ہوش بھی کم ہی آتا ہے)وقت نکل چکا ہوتا ہے۔پورا وقت نہ بھی نکلا ہو تو اتنا گزر چکا ہوتا ہے کہ بنیاد میں سو طرح کے تجربے ناکام پڑے ہوتے ہیں۔ بنیاد بہت اہم ہوتی ہے، حال ہی مستقبل بنتا ہے۔ شہرتوں کی چکاچوندھ تو انسان کا حال بگاڑ کر رکھتی ہے، معاصرین کو دیکھنے سے پانی کے بلبلے ہی توجہ کھینچتے ہیں ورنہ اصل تووہ ٹھہراؤ ہے جوہوا اور ہچکولے کے بعدبھی سطح پر باقی رہتا ہے۔ کیونکہ زندگی کی ہماہمی کے بعد وہ نقوش ہی بچتے ہیں جو انسانیت کے لیے نفع بخش ہوتے ہیں۔ واما ماینفع الناس فیمکث فی الارض۔
دراصل اللہ نے جو’ذکر‘نازل کیا ہے اس کی حفاظت میں کام آنے والی تمام چیزوں کو قیامت تک نہ صرف یہ کہ ذکر بلکہ تذکرے کی برکت سے نواز دیا ہے بلکہ صدقہ جاریہ والے اعمال میں بھی لکھ دیا ہے۔ ہمیں اختیار ہے جو راستہ چاہیں چنیں، اپنے حال کا ہم جو حال کریں گے ہمارا مستقبل ہمیں ویسا ہی اتیت دے گا۔ کاشت کاری میں بوائی سے کٹائی تک کا ایک پروسیس ہوتا ہے، مٹر بونے والے کو چنا نہیں ملے گا۔
شادی کی پہلی رات گزاری تھی، بیوی کے پاس سے نکل کر سیدھا میدان جنگ(احد) میں جاکر شہیدہونے والے ایک ۲۴؍سالہ صحابی کو فرشتے غسل دیتے ہیں تو یہی ایک بات بڑی بڑی زندگیوں کی کہانی پر بھاری پڑ جاتی ہے۔ کون سا عمل اللہ کو پسند آجائے ، کون سی بات بندے کی اللہ دنیا والوں کے لیے باقی رکھ دےیہ ماضی میں جھانک کر جانا جاسکتا ہے، اس کی پلاننگ نہیں کی جاسکتی۔ نیتوں میں خلوص کی اور عمل کے لیے توفیق کی طلب بندہ اللہ سے کرسکتا ہے، جو چاہے مانگ سکتا ہےمگر اس کی زندگی کا کون سا حصہ محفوظ رہے گا، کس پہلو سے لوگ سبق حاصل کریں گے یہ اللہ ہی طے کرتا ہے۔ ایک طرف بوبکروعمر اور عثمان وعلی( رضی اللہ تعالی عنہم) جیسی برگزیدہ شخصیتیں ہیں جن کی زندگی کی تفصیل عبرت وموعظت کے لیے ہمارے سامنے ہے، دوسری طرف یہ صحابی جو ناپاکی کی حالت میں شہید ہوگئے۔ اللہ نےاس جذبے کواتنا پسند کیا کہ اپنے نبی کی زبانی قیامت تک کے لیے اس کا ذکر محفوظ کردیا، ورنہ کون جانتا۔ اللہ ہی چاہتا ہے تو ہم یاد رکھتے ہیں اور اللہ ہی کے چاہنے سے ہم بہت ساری باتیں بھول جاتے ہیں۔
اللہ کی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کی تفسیر وتشریح میں جو زندگیاں گزری ہیں وہ ایسے محفوظ ہیں کہ رشک کیا جائے۔ ۶۶۱ھ میں پیدا ہوئے تھے۔ ۱۴۴۲ھ میں جی رہے ہیں ہم۔ ۷۸۱ سال کا فاصلہ ہے۔ انھیں اس دنیا سے گزرے ہوئے بھی ۷۱۴ سال گزر چکے ہیں۔ ۷۲۸ھ میں ان کی وفات ہوئی تھی۔ ۶۷ سال کی عمر میں سوا چھ سال جیل میں گزاری، جیل میں ہی وفات ہوئی۔ وفات کے چودہ سال بعد ان کے علمی کاموں کی اشاعت شروع ہوئی۔ آج اردو والے بھی ان کے کارناموں سے واقف ہیں۔ دنیا بھر میں ان سے دوستی اور دشمنی رکھنے والے پائے جاتے ہیں۔ بیس سال کی عمر میں ہی ان کے درس سے دنیا دنگ رہ گئی تھی۔ عظمت حادثہ نہیں پروسیس ہوتی ہے۔ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) کی زندگی میں علماء کے لیے بڑے اسباق ہیں۔ بیس سال کی عمر میں ان کا کارنامہ دیکھیے اور پھر زندگی بھر کی سرگرمیوں کی ٹائم لائن چیک کیجیے۔ آج ہم انھیں کیوں یاد رکھتے ہیں، حوالے کن بنیادوں پر دیتے ہیں ایسے تمام سوالوں کے جواب خود بہ خود مل جائیں گے۔
صلاحیت پانی ہے، دشا درست ہوگی تو قطرہ قطرہ دریا بنے گا۔ غلط رخ پر بہہ گیا تو بہتے بہتے سوکھ جائے گا۔ پانی کا کام ہے بہنا، دریا بنانا یا بھانپ بناکر اڑا دینا اللہ کا کام ہے۔ صاف پانی ہی اسٹور ہوتا ہے کہ لوگوں کے کام آئے، گندے پانی(نالے) سے گزرتے ہوئے لوگ ناک پکڑلیتے ہیں۔

7
آپ کے تبصرے

3000
7 Comment threads
0 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
7 Comment authors
newest oldest most voted
محمد عاصم

سبق آموز

فیضان اسعد

عمدہ مضمون ۔ بہت خوب

ابوالمرجان فیضی

اقوال زریں یا جوامع الکلم کا مجموعہ ہے. سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ان تمام افکار میں غضب کا ربط بھی ہے

ارشادالحق روشاد

ماشاءاللہ زبردست
عبرت آموز تحریر۔۔
جزاکم اللہ خیرا

عبیداللہ خان محمدی

جزاکم اللہ خیرا.بہت بہترین مضمون.

ممتاز شاہد نیپالی

بہت عمدہ تبصرہ
قابلِ عمل مشورہ ہے
جزاکم اللہ خیرا

Mo Mubarak Rain

واقعی عبرت، نصیحت سے بھری ہوئی تحریر ہے
جزاکم خيراً و احسن الجزاء
بارك الله فى علمك و نفع بك الإسلام والمسلمين آمين