نام:
عبدالقیوم بن سلیمان کوڈیا (لکڑا والا)
مقام پیدائش:
گھوگھاری محلہ، پائیدھونی ممبئی
تاریخ پیدائش:
۱۶/جولائی۱۹۴۰ء
آبائی وطن:
جام نگر (گجرات)
تعلیم:
حاجی عبدالقیوم کوڈیا نے ابتدائی تعلیم چوتھی کلاس تک گجراتی میڈیم جام نگر، صوبہ گجرات سے اور پانچویں تا بارہویں تک کی تعلیم ممبئی میں حاصل کی، کالج میں فارسی بھی پڑھائی جاتی تھی اس بنا پر آپ اردو بھی بآسانی پڑھ لیا کرتے تھے ۔
۱۹۴۱ءمیں والد محترم کے فوت ہوجانے کے بعد نانا اور نانی نے آپ کی پرورش کی ۔
۱۹۵۵ءمیں نانا اور نانی بھی فوت ہوگئے اور اس کے بعد ماموؤں نے اپنی کفالت میں لے لیا۔
۱۹۶۴ء میں آپ کا نکاح ممبئی ہی میں کردیا ۔
اولاد:
الحمد للہ آپ صاحب اولاد تھے:۵بیٹے(سلیم کوڈیا،ابوبکر کوڈیا،شعیب کوڈیا، صالح کوڈیا، سلیمان کوڈیا)اور۴بیٹیاں(آسیہ کوڈیا ، سلمہ کوڈیا، حبیبہ کوڈیا) زینب کوڈیا کو چھوڑ کر الحمد للہ سبھی باحیات ہیں ۔
۱۹۶۴ءسے۱۹۶۸ءتک بڑے ماموں علی وڈگاما کے ساتھ آپ نے کاروبار کیا ، اس کے بعد ماموں سے الگ ہوکر اپنی لکڑے کی دوکان شروع کردی۔(مجلہ السبیل۲۰۱۵ء،مدیر :شیخ محمود الحسن فیضی پرتاب گڑھی)
حنفیت سے سلفیت کی طرف:
حاجی عبدالقیوم کوڈیا پہلےحنفی تھے۔ ۱۹۶۶ء میں علامہ عبدالجلیل سامرودی سےپہلی ملاقات ہونے کے بعد ان سے دینی مسئلوں پر گفتگو کرتے رہے اور دلیلوں کے ساتھ تشفی بخش جوابات پاتے رہے بالآخر انھوں نے حنفیت کو خیر آباد کہہ کر سلفیت کو قبول کرلیا ۔دین کی مجلسوں اور علماء سے بڑا لگاؤ تھا اس لیے اکثر ان سےدین کی باتیں سیکھا کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ علامہ نے آپ کو سفر حج پر جانے سے قبل احرام باندھنے کا طریقہ اور حج و عمرہ کے تمام ارکان اور فضائل و مسائل کی مکمل تعلیم بھی دی تھی۔
اسی کے ساتھ ساتھ آپ نے جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ ،ممبئی کے امام و خطیب مولانا داؤد راز اور مولانا مختار احمد ندوی کے مواعظ و خطبات سے بھر پور علمی فائدہ اٹھایا کرتے تھے ۔
اسی طرح الحمدللہ دکتور عبدالعلی ازہری ( مقیم لندن) سے ان کے قیام الدارالسلفیہ سانکلی اسٹریٹ ممبئی کے دوران(جب وہ تحقیقی و تخریجی خدمات انجام دے رہے تھے)کوڈیا صاحب کی علمی دوستی ہوگئی جو اخیر وقت تک برقرار رہی ، ڈاکٹر صاحب سے فون پر کافی لمبی گفتگو کیا کرتے تھے۔ دینی مسائل کے علاوہ دنیاوی معاملات پر بھی ان سے رائے مشورے لیا کرتے تھے ، ڈاکٹر صاحب جب ہندوستان آتے چاچا ان سے ضرور ملاقات کیا کرتے تھے۔ چاچا کے بڑے صاحبزادے سلیم کوڈیا کی بیٹیوں کے نکاح پر آپ نے ہندوبیرون ہند کے علماء کی ایک کثیر تعداد کو مدعو کیا تھا جن میں ڈاکٹر عبدالعلی صاحب بھی موجود تھے جو کافی دنوں تک چاچا کے ساتھ ہی رہے ۔
چاچا کو ملک و بیرون ملک کے کئی معروف وجید علماء سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، چند کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
شیخ عبدالوحید رحمانی (بنارس)
شیخ عبداللہ سعود سلفی (بنارس)
شیخ عبدالحمید رحمانی(نئی دہلی)
شیخ عبدالواحد صدری (نئی دہلی)
شیخ اصغر علی امام مہدی (نئی دہلی)
شیخ رضاء اللہ عبدالکریم مدنی ( نئی دہلی)
شیخ صلاح الدین مقبول مدنی(نئی دہلی)
شیخ محمد رحمانی مدنی (نئی دہلی)
دکتور مقتدی احسن ازہری(مئو)
دکتور مظہر احسن ازہری (مئو)
شیخ ضیاء الحسن سلفی(مئو)
شیخ محفوظ الرحمن فیضی (مئو)
حافظ قاری نثار احمد فیضی(مئو)
شیخ عبدالحمید فیضی (مئو)
شیخ اسعد اعظمی (مئو)
شیخ عبدالرحمن رحمانی (مبارکپوری)
دکتور عبدالعزیزمدنی (مبارکپوری)
شیخ عبدالمعید مدنی (علی گڑھ)
شیخ یعقوب میمن جوناگڑھی (گجرات)
شیخ عبدالمتین میمن جوناگڑھی (گجرات)
شیخ حامد میمن جوناگڑھی (گجرات)
شیخ محمد شعیب میمن جوناگڑھی (گجرات)
شیخ عبدالجبار شکراوی (ہریانہ)
شیخ حکیم اجمل خاں (ہریانہ)
شیخ دیندار خاں (ہریانہ)
شیخ عبدالروف عمری (مدراس)
شیخ انیس الرحمن مدنی (مدراس)
دکتور اقبال بسکوہری (مالیگاؤں)
دکتور فضل الرحمن مدنی (مالیگاؤں)
دکتور عبید الرحمن مدنی (تلولی ، تھانہ)
دکتور عبدالحکیم مدنی (ممبرا ،تھانہ)
شیخ قاری نجم الحسن فیضی (کاندیولی ،ممبئی)
شیخ عبدالحکیم مدنی (کاندیولی ، ممبئی)
شیخ عبدالسلام سلفی (ممبئی)
شیخ سعید احمد بستوی (ممبئی)
شیخ عبدالجلیل مکی (ممبئی)
شیخ محمود الحسن فیضی (بنگالی مسجد ،ممبئی)
شیخ انصار زبیر محمدی (ممبئی)
بیرون ممالک:
دکتور وصی اللہ عباس مکی (مفتی حرم مکہ مکرمہ)
دکتور عبدالرحمن فریوائی (ریاض)
دکتور عبدالباری فتح اللہ مدنی (ریاض)
دکتور لقمان سلفی (ریاض)
شیخ عزیر شمس مدنی (مکہ مکرمہ)
شیخ احمد (مدینہ منورہ)
شیر خان جمیل احمد (لندن)
[مجلہ السبیل۲۰۱۵ء]
پہلی ملاقات:
مئی۲۰۱۴ء میں شیخ سعید احمد بستوی حفظہ اللہ کا ماہانہ درس ہمارے محلہ کی مسجد (مدرسہ محمدیہ مسجد اہل حدیث، وکرولی،ممبئی) میں تھا جہاں شیخ سے درس ختم ہونے کے بعد ملاقات ہوئی تو والد محترم (عبدالکریم سراجی حفظہ اللہ) نے میرے کئی مہینوں سے بے روز گار ہونے کے بارے میں شیخ کو خبر دی،آپ کے منہ سے پہلی مرتبہ ’مشفق و مربی محترم حاجی عبدالقیوم کوڈیا ‘کا نام سناتھا( جنھیں میں محبت سے چاچا کہا کرتا تھا) شیخ نے بتلایا کہ حاجی صاحب کو کئی دنوں سے ایک عالم دین کی تلاش ہے آپ نمبر لیں اور ان سے رابطہ کریں ، چنانچہ میں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے دوسرے ہی دن چاچا سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی آپ نے اجازت دے دی ،جب میں ان کے آفس پہنچا تو جیسے ہی انھیں خبر دی گئی کہ میں ملاقات کےلیے آیا ہوں تو فوراً بلایا اور ایک مشفق والد کی طرح کئی نصیحتیں کیں اور کہا کہ آج ہی سے بسم اللہ کردو ، میں نے کہا: آج صرف ملاقات کی غرض سے آیا ہوں ان شاء اللہ کل سے آفس جوائن کروں گا، اور اس کے بعدسے آفس آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔الحمد للہ چاچا نہایت ہی تجربہ کار، با صلاحیت تاجر ،متقی و پرہیز گار انسان تھے،اس دوران آپ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ہمیشہ اس بات کی ترغیب دلاتے تھے کہ کسی بھی جائز چیز کے حصول میں ہار مت مانو، میں نے بھی اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی جائز چیز کے حصول کےلیے ہار نہیں مانی اور میں نے جس چیز کا بھی اللہ رب العالمین سے مطالبہ کیا وہ تمام چیزیں اللہ رب العزت نے مجھےعطا کیں۔ لیکن افسوس آپ سے سیکھنے کا یہ سلسلہ صرف ۹ مہینوں تک ہی رہ سکااس لیے کہ اللہ کے فضل و کرم سے ’جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ‘ میں میرا داخلہ ہوگیا اور میں اس نیک ، خوش مزاج ، قوم و ملت کے لیے فکر مند، علماء کی تعظیم و توقیر کرنے والے عظیم انسان کو چھوڑ کر ۳؍ فروری۲۰۱۵ءکو مدینہ منورہ چلاگیا۔
مرادآباد کا سفر :
الحمد للہ مرادآباد میں چاچانے ۲۰۰۳ء میں بچیوں کے لیے’مدرسہ فاطمۃ الزھراء‘اور ’ماریہ گرلس انٹر کالج‘ قائم کیا ۔جہاں وہ اکثر و بیشتر جایا کرتے اور بچیوں، اساتذہ،اسٹاف اور ذمہ داران سے ملاقات کرکے مدرسے کے احوال دریافت کیا کرتے تھے۔ الحمدللہ مجھے بھی ان کے ساتھ۲۹؍ جولائی۲۰۱۴ءکو مرادآبادجانے کا موقع ملا ، مئو سے شیخ ضیاء الحسن سلفی حفظہ اللہ بھی دوسرے دن مدرسہ میں تشریف لےآئے اور اساتذہ اور بچیوں کو نصیحتیں کیں ۔کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہم مدرسہ کی لائبریری دیکھ رہے تھے، جس میں کتابیں منظم طریقے سے نہ ہونے کی بنا پر شیخ نے اسے منظم رکھنے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی ساتھ چاچا کو اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ہمارے مدارس میں جو کتب ستہ پڑھائی جاتی ہے اس پر حنفی حاشیہ لگا ہوا ہے۔ اور ابھی تک اس پر کوئی کام نہیں ہوا آپ اس پر علماء سے رائے مشورہ کرکے سلفی حاشیہ لگوادیں، چاچا کا یہ سننا تھا کہ وہ انتہائی غمزدہ ہوئے اور کہا کہ ہمارے علماء نے ابھی تک اس پر کوئی کام کیوں نہیں کیا ؟ اور اسی دن سے وہ کتب ستہ پر حاشیے کے کام کو لے کر ملک اور بیرون ملک کے علماء سے رائے مشورہ کرنے لگے۔ اس دوران ہماری کئی علماء سے ملاقاتیں اور فون پر بات بھی ہوئی، کئی اشتہارات دیے گئے اور نہ جانے کتنوں کو ای میل کیا گیا۔ الحمد للہ اب کتب ستہ پر حاشیےکا کام شروع ہوچکا ہے جس کی تفصیل یہ ہے:
صحیح بخاری /دکتور اقبال بسکوہری (مالیگاؤں)
صحیح مسلم/دکتور یوسف ابو طلحہ مدنی (مالیگاؤں)
سنن ابن ماجہ/ شیخ وحید رضا (جامعہ عالیہ، مئو)
سنن نسائی/ شیخ ضیاء الحسن سلفی (جامعہ عالیہ، مئو)
سنن ابی داؤد/ شیخ مستقیم سلفی (جامعہ سلفیہ، بنارس)
سنن ترمذی / شیخ حفیظ الرحمٰن (عمرآباد)
زہد و تقوی:
الحمد للہ چاچا زہد و تقوی کے پیکر تھے۔ ہم مرادآبادمدرسہ سے قریب ایک مسجد میں نماز ظہر ادا کرنے گئے تو میں اور امام مسجد باتوں میں مشغول تھے۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ چاچاجھاڑو لے کر مسجد کی صفائی کر رہے ہیں،ہم نے ان سے کہارہنے دیں، تو جواب ملا کہ یہ اللہ کا گھر ہے مجھے صاف کرنے دو۔
اسی طرح سفر و حضر میں صوم و صلاۃ کے پابند تہجدگزارکثرت سے توبہ و استغفار اور ذکر و اذکار میں مشغول رہنے والے نہایت ہی سخی اور فیاض انسان تھے۔ رمضان اور غیر رمضان دور دراز سے سفراء حضرات کی ایک کثیرتعداد چاچا کے پاس آتی اور الحمد للہ ہر کس و ناکس کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے اور مجھ سے کہتے کہ عبدالرحیم یہ میرے پاس کچھ امید لے کر آیا ہوگا اور مجھے اچھا نہیں لگتا ہے کہ میں کسی کو خالی ہاتھ لوٹا دوں۔ہر کسی سے فراخ دلی سے ملاقات کرتے خیر یت دریافت کرتے خصوصا علماء کی بے انتہا قدر کرتے اور کہا کرتے تھے یہ وہ لوگ ہیں جو دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔
کچھ یادیں:
اکثر علماء کے ساتھ بیتی ہوئی باتیں یاد کرتے اور انھیں سنایا کرتے۔ مجھ سے ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میں نےاپنی زندگی میں دو عالموں علامہ عبدالجلیل سامرودی اور دکتور عبدالعلی ازہری جیسا کسی کو نہیں پایا ۔ خصوصا علامہ کا ذکر کرتے کہ اللہ نے انھیں دین میں کمال کا ملکہ دیا تھا زہد و تقویٰ کے پیکر ، خوش مزاج انسان تھے ، علامہ کے پاس ہندو بیرون ہند سےتلامذہ آکر شرف تلمذ حاصل کرتے ۔علامہ کے تلامذہ کئی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں ،ایک عربی تلمیذ کا واقعہ اکثر بیان کرتے کہ جب اس نے علامہ کے گھر کو دیکھا جو بہت ہی خستہ حالی کا شکار تھا تو انھیں کچھ پیسے دیے اور کہا کہ آپ اپنے گھر کی از سر نو تعمیر کرالیں ، کچھ سالوں بعد وہ تلمیذ علامہ کے پاس دوبارہ آیا اور گھر کو اسی حالت میں پاکر حیران رہ گیا جب اس کی وجہ دریافت کی توعلامہ نے کہا کہ میں نے اس سے بہتر گھر تعمیر کردیا ہے اور انھوں نے اس تلمیذ کو وہ مسجد دکھائی جو اس رقم سے تعمیر کی گئی تھی۔ اللہ اکبر یہ تھے ہمارے اکابرین ۔۔۔
علامہ اپنی وفات سے چند مہینوں قبل چاچا کے پاس آئے تھےاور ان سے کہا تھاکہ عبدالقیوم تو میری یہ مشکاۃ(ضوء المصابیح شرح مشکاۃ المصابیح) چھپا دے توجب تک لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے صدقہ جاریہ ہوگا چنانچہ چاچا نے علامہ صاحب کو۳۰۰۰ روپئے دے کر اپنی گاڑی اور ڈرائیور کے ساتھ بھیونڈی بھیجا۔ جب علامہ کو پتہ چلا کہ یہاں طباعت کافی مہنگی ہے تو کہا کہ میں دہلی میں جاکر طبع کراؤں گا کیونکہ وہاں طباعت سستی ہے، چاچا نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب آپ کو سستا اور مہنگا دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے میں ان شاء اللہ اس کی جو بھی قیمت ہوگی دے دوں گا، مگر علامہ نہ مانے اور دہلی چلے گئے لیکن اللہ کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ دہلی میں علامہ کو لو لگ گئی اور وہ سخت بیمار ہوگئے اور پھر وہاں سے اپنے گھر سامرودلوٹ آئے اور اسی بیماری میں اس دار فانی سے رحلت کرگئے۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون ) جب علامہ کی تجہیز و تکفین عمل میں آئی تو ان کی جیب سے ایک خط اور۳۰۰۰ روپئے ملے جس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ رقم عبدالقیوم کوڈیا کی ہے جو اس نے مشکاۃ کی چھپائی کے لیے دی تھی۔
چاچا کو اس بات نے کافی پریشان کر رکھا تھا کہ علامہ صاحب کی مشکاۃ نہیں چھپ سکی ۔کئے سال گزر گئے حالات بدلتے رہے اور علامہ کے کئی مخطوطات ادھر ادھر ہوگئے۔ کچھ ان کے بیٹے اور کچھ پوتے لے کر چلے گئے۔ کافی تلاش کرنے کے بعد پتہ چلا کہ مشکاۃ کا مخطوطہ ان کے پوتے عبدالحنان (پاکستان)کے پاس ہے۔ چاچا پاکستان گئے اور عبدالحنان سے کافی منت و سماجت کے بعد وہاں سے وہ مخطوطہ لے کر ہندوستان آئے اور پھر دوسرے ہی دن اس مخطوطے کو لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے اور وہاں شیخ عزیر شمس مدنی حفظہ اللہ کو وہ مخطوطہ دے دیا ۔ شیخ عزیرشمس اور کئی جید علماء نے اس پر کام کیاکئی مرحلوں سے گزرنے کے بعد الحمد للہ دکتور عبد الرحمن فریوائی نے۱۲-۱۳ /مارچ۲۰۱۶ءمرکزی جمعیت اہل حدیث کی۳۳ ویں آل انڈیا کانفرنس میں اس کے پہلے ایڈیشن کا اجراء کیا اور الحمد للہ اس کے دوسرے ایڈیشن پر فی الحال کام ہورہا ہے جو تقریبا پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے ان شاء اللہ وہ بھی جلد ہی منظر عام پرآجائےگا۔
اسی طرح صوبہ گجرات سے شائع ہونے والا ماہنامہ بزم توحید/ ماہنامہ ندائے حق چاچااور حاجی اسماعیل (لکڑا والا) ہی کی محنتوں کا نتیجہ ہیں۔
مکتبہ دار السلام:
الحمد للہ چاچا نے ممبئی (محفل ہال ،مورلینڈ روڈ) میں ایک مکتبہ بنام ’مکتبہ دارالسلام‘ قائم کیا جہاں سے اب تک کئی کتابیں،پمفلٹس اور کتابچے شائع ہوچکے ہیں اور مسلسل شائع ہورہے ہیں، ان میں سے چندیہ ہیں:
(۱)ضوء المصابیح شرح مشکاۃ المصابیح
(۲)الاتقان فی صحاح جامع شعب الایمان
(۳)مختصر شعب الایمان بنام ایمان محمدی
(۴)مجموعہ صحاح مشکوۃ المصابیح
(۵)زھرۃ ریاض الابرار ما یغنی الناس عن حمل الاسفار
(۶)بلوغ المرام انگلش
(۷)وظائف محمدی ﷺ
(۸)طلاق
(۹)اللھم
(۱۰)نبی ﷺ کی نماز
(۱۱)قوانین شرع محمدی ﷺ
(۱۲)۳زبانوں میں قرآن وحدیث سے مزین اسلامی کلینڈر
(13)The London Maintenance Family of Relations
(14) Manual for Hajj & Umrah
(15) Tafsir Al-Mu-Awwidhatayn
(16) Fortress of the Muslim Invocation from the Quran & Sunnah
ملک و بیرون ملک کا سفر:
چاچا مساجد و مدارس کی تعمیر کے ساتھ ساتھ دینی و تعلیمی اور ملی و سماجی کام کرنے میں بڑی خوشی محسوس کرتے تھے ، اسی بنا پر آپ نے ملک و بیرون ملک کے سفر بھی کیے۔
بیرون ملک:
لندن،برما،یورپ،موریشس، ایسٹ افریقہ،دبئی، سعودیہ عربیہ، پاکستان۔
ملکی سفر:
دہلی ، اترپردیش، بنگال، گجرات،آندھراپردیش،کیرلا، تمل ناڈو،کرناٹک و مہاراشٹرا کے مختلف اضلاع۔
عہدے:
شہر ممبئی میں ’مسجد غرباء اہل حدیث میمن واڑہ‘ کے قیام کے بعد علامہ سامرودی کی ایما پر آپ کو امیر جماعت منتخب کیا گیا ۔ صوبہ گجرات کے صنعتی شہر سورت محلہ لوہار شیری سنگرام پورہ کے ’دار العلوم مدرسہ محمدیہ عربیہ‘ کے آپ برسوں صدر رہے جبکہ جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں مہاراشٹر کے ناظم اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں ۔ (مجلہ السبیل۲۰۱۵ءمدیر)
چاچا کی ہمیشہ خواہش رہتی تھی کہ اللہ ہم سے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت لے اور اسے ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنائے ، مسلمانوں میں پھیلی ہوئی شرکیات و بدعات کو دیکھ کر اکثر غم زدہ ہو جایا کرتے اور مسلسل اس چیز کو دور کرنے کی کوشش کیا کرتے ، ہمہ وقت دین کی خدمت میں لگے ہوتے تھے ۔
وفات:
میں نہایت ہی افسردہ وغمزدہ ہواجب واٹس اپ کے ذریعہ یہ خبر ملی کہ جمعیت و جماعت ، قوم و ملت کا درد رکھنے والے، نہایت ہی متقی و پرہیزگار میرے مخلص و مربی چاچا عبدالقیوم کوڈیا بتاریخ ۵/نومبر۲۰۱۶ء بعد نمازفجر تقریبا ۶/بجے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔(انا للہ و انا الیہ راجعون) اورشیخ عبدالسلام سلفی حفظہ اللہ (امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث، ممبئی) کی امامت میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے’بڑا قبرستان مرین لائن ،ممبئی سینٹرل‘ میں نماز جنازہ ادا کی۔
ابھی چاچا کو اس دار فانی سے گئے چند ہی دن گزرے تھے کہ آپ کی رفیق حیات ’میمونہ کوڈیا رحمہا اللہ‘ بھی۲۶ /دسمبر۲۰۱۶ءکو اس دنیائے فانی سےرحلت فرما گئیں۔
اللہ رب العزت مرحومین کی تمام خطاؤں ، لغزشوں،گناہوں،کوتاہیوں کو درگزر فرمائے، ان کے تمام حسنات کو قبول فرماکرانھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے، ان کے تمام لواحقین خصوصا اہل خانہ کو صبر جمیل کی توفیق دے۔ آمین تقبل یا رب العالمین
آپ کے تبصرے