قرآن مجید میں جن پچیس انبیاء کرام کا تذکرہ ہے ان سب کے سوانح نہ قرآن میں دستیاب ہیں اور نہ ہی احادیث میں۔ انبیاء دنیا کی سب سے عظیم ہستیاں ہیں اور قرآن قیامت تک کے لیے سب سے عظیم کتاب۔ انسان کی مختلف ضروریات میں مناسب اور موزوں رہنمائی انسان کے خالق کو ہی زیبا ہے یا جسے وہ نواز دے۔
انبیاء اور بھی ہوئے ہیں، اللہ رب العالمین نے انھی انبیاء کے منتخب حالات سے ہمیں باخبر کیا ہے جن کے قصوں میں ہمارے لیے عبرت کا سامان زیادہ ہے، ان کی زندگی کے وہی حصے بیان فرمائے ہیں جن کا جاننا ہمارے لیے ضروری ہے۔
اس عبرت اور ضرورت کی تفہیم ہمارے لیے اتنی ہی آسان ہوگی جتنی نسبت اور قربت ہماری اللہ کے کلام اور نبی کے فرمان سے زیادہ ہوگی۔ ماضی سبق کے لیے ہے، اچھے برے دونوں طرح کے سبق کے لیے۔ دونوں طرح کے بڑے بڑے انسانوں کے واقعات اللہ نے قرآن میں بیان کیے ہیں۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے قصے میں نمرود، موسیٰ علیہ السلام اور ان کے قصے میں فرعون۔ پروٹیگنسٹ کے ساتھ ہر قصے میں اینٹیگنسٹ بھی ہے۔ ایک اطاعت کا اعلی مظہر ہے دوسرا معصیت کا۔ دونوں قصوں میں عبرت ہے، ایمان کا مظاہرہ اور کفر پر مواخذہ دونوں نمونے تذکرے کا حصہ بنے ہیں۔
ان پچیس نبیوں میں کم ایسے ہیں جن کی زندگی کے کئی گوشے مذکور ہیں۔ بلکہ اکثر کے وہی حالات ریکارڈ میں رکھے گئے ہیں جن میں عزیمت کے اعلی مثالی مظاہر ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابراہیم علیہ السلام اور یوسف علیہ السلام کا تفصیلی تذکرہ ہے۔ سوانح پھر بھی کسی کے نہیں ہیں۔
اس کا شعور ہمیں بھی ہونا چاہیے، بالخصوص ان لوگوں کو جو سوانح اور تذکرے کی اہمیت و ضرورت کو سمجھتے ہوں۔ ایسا بھی نہ ہو کہ حال سے فراریت ہماری طبیعت بن جائے جیسا آج کل دیکھنے میں آرہا ہے۔ جدھر دیکھو سوانح نگاری کا ماحول ہے۔ علماء و اعیان کے حالات لکھے جارہے ہیں۔ یہ بھی ایک کام ہے مگر ساری قوم یہی کرے گی تو باقی کاموں کا کیا ہوگا۔ اور پھر ہر کام کا ایک سلیقہ ہوتا ہے، جتنے بہتر سلیقے سے وہ کام ہوگا اتنا اس کا افادہ عام ہوگا۔
اردو میں یادگار غالب اور حیات سعدی کے بعد حیات جاوید سے باقاعدہ سوانح نگاری کا جو آغاز ہوا تھا وہ اگرچہ عقیدت نامے تک محدود تھا مگر شبلی سے ہوتا ہوا سید سلیمان ندوی تک دراز ہوا تو انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ شبلی نے سیرت النبی، سیرت النعمان، الفاروق اور الغزالی جیسے کارنامے انجام دیے تو ندوی نے سیرت النبی، حیات امام مالک، سیرت عائشہ، خیام اور حیات شبلی جیسے سوانحی نمونے پیش کیے۔ عبدالسلام ندوی اور اکرام اللہ ندوی نے یہ روایت مزید آگے بڑھائی تو غلام رسول مہر اور شیخ محمد اکرام نے اس فن کو نئی دشائیں دیں۔
سوانح میں جزئیات نگاری ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے پل پل کو محفوظ کرنے کی غرض سے شروع ہوئی اگرچہ اس کے کچھ آثار ذرا پہلے سے موجود تھے۔ قرآن کی حفاظت کا جو اللہ نے وعدہ کیا ہے اس کی تعبیر و تشریح کے جو قولی، فعلی اور تقریری نمونے وجود میں آئے ان کی حفاظت بھی اس وعدے سے مربوط ہے۔ اس مبارک سلسلے میں جتنے بھی افراد اب تک کام آئے ہیں خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں جنمے ہوں ان کا ذکر بھی محفوظ ہے۔
یہ ذکر سوانحی ہو یا تذکرے کی صورت، ایک کارنامے کا بیان ہو یا کارناموں کے ایک سلسلے کا کوئی جتن اس کے پیچھے کارفرما نہیں ہوتا۔ اللہ رب العالمین جس ذکر کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے اسے دستاویزی حیثیت بھی ملتی ہے اور قبول عام کی سند بھی۔ آج یہ جاننے والے کتنے لوگ موجود ہیں کہ رئیس احمد جعفری نے حیات جاوید اور حیات شبلی کے سائز کی پونے نو سو صفحات کی ایک کتاب حیات محمد علی جناح لکھی تھی۔ جعفری نے ساڑھے پانچ سو صفحات کی سیرت محمد علی اور چار سو تیس صفحات کی رند پارسا بھی لکھی تھی۔ جعفری صاحب کی طرح محمد علی جناح، محمد علی اور ریاض خیرآبادی کا نام اپنی اپنی جگہ تذکرے میں ہے مگر یہ تینوں سوانح عمریاں تاریخ کا حصہ ہیں تذکروں میں اب کہیں نہیں۔
علماء بہت ہوئے ہیں۔ جو تذکرے میں ہیں وہ اپنے کارناموں کی وجہ سے۔ سوانح ہو یا تذکرہ ان کے حالات لکھنے کے لیے انتخاب بہت ضروری ہے، انتخاب کی بنیادیں چودہ سو سال کی تاریخ میں بکھری پڑی ہیں۔ تاریخ سبق کے لیے ہے، دبک کر سوجانے کے لیے نہیں اور نہ ہی حال کی تلخیوں اور مستقبل کے اندیشوں سے بھاگ کر ماضی کی نیرنگیوں میں کھوجانے کے لیے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سیدھی لکیر کھینچی تھی اس کے نشان ہمارے لیے دھندلے نہ پڑجائیں اس لیے اتنا رشتہ ماضی سے رکھنا ضروری ہے، اس نشان کو باقی رکھنے میں ہمارا بھی حصہ ہو تاکہ آئندہ کل والے بھٹک نہ جائیں یہ اصل تقاضا ہے۔ اسی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ہم علماء ربانی کے حالات لکھتے پڑھتے ہیں۔
مشرقی یوپی کے علماء و اعیان اہل حدیث کی حیات و خدمات کا جو تذکرہ کاروان سلف کے نام سے بزرگ عالم دین مولانا عبدالرؤف خاں ندوی صاحب نے شروع کیا تھا اس سیریز کا حصہ دوم ۲۰۱۴ میں شائع ہوا تھا۔
مشرقی یوپی میں دراصل الہ آباد، امبیڈکر نگر، امیٹھی، اعظم گڑھ، بہرائچ، بلیا، بلرامپور، بستی، چندولی، دیوریا، فیض آباد، غازی پور، گونڈہ، گورکھپور، جونپور، کوشمبی، کشی نگر، مہراج گنج، مئو، مرزاپور، پرتاپ گڑھ، سنت کبیر نگر، سنت روی داس نگر، شراوستی، سدھارتھ نگر، سونبھدر، سلطان پور اور وارانسی جیسے ضلعے شامل ہیں۔
یوں تو مولانا موصوف کی تصنیفات و تالیفات کی تعداد ایک درجن سے زائد ہے جن میں سے کئی کتابوں کے ایک سے زیادہ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں مگر کاروان سلف سے مولانا کو مقبولیت زیادہ ملی۔ حصہ اول ۲۰۱۳ میں چھپا تھا، اگلے ہی سال مجلس کے سلسلہ اشاعت میں۳۲ نمبر پر حصہ دوم کا منظر عام پر آجانا اس سیریز سے مولانا کے قلبی لگاؤ پر دال ہے۔ مولانا کی عمر تب چونسٹھ سال رہی ہوگی مگر مختلف عوارض ان کی راہ میں حائل نہ ہوئے۔ انھی ایام میں ایک آنکھ کی بصارت بھی جاتی رہی۔ سالوں ایک ہی کروٹ پر لیٹے لیٹے کاروان سلف کی ترتیب و تالیف میں لگے رہے مگر ہمت نہیں ہاری، ابھی حال ہی میں حصہ ہفتم بھی شائع ہوا ہے۔ اللہ رب العالمین قبول فرمائے۔
۴۸۰ صفحات پر مشتمل اس حصے کا انتساب مخلص داعیوں کے نام ہے۔ انتساب کا پہلا جملہ ’رہے‘ اور ’کرگئے‘ پر ختم ہوا ہے اس اعتبار سے ’جنھوں نے‘ سے شروعات غلط ہے’جو‘ ہونا چاہیے تھا۔
کاروان سلف جیسے کام کی ضرورت کا احساس مولانا کے یہاں بہت شدید ہے۔ حرفے چند میں ص۱۰ پر لکھتے ہیں:
’’ہماری جماعت کے اپنے افراد تاریخ اہل حدیث سے متعلق زیادہ معلومات نہیں رکھتے اور نہ علمائے اہل حدیث کی ہمہ جہت خدمات، ان کی قربانیوں اور ان کی مساعی جمیلہ کی تفصیلات سے انھیں واقفیت ہے، اس بارے میں کوئی دلچسپی بھی کہیں نظر نہیں آتی۔‘‘(ص۱۰)
اس کا مقصد بھی بہت واضح ہے۔ فرماتے ہیں:
’’اس کتاب سے آپ کو اپنے اسلاف کرام کی غیرت دینی حمیت اسلامی اور اپنے صحیح عقائد سے گہری وابستگی کی جانکاری ہوگی۔۔۔۔۔۔اس کتاب کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی کے لیے سامان شہرت فراہم کیا جائے یا محض تاریخ نویسی کی جائے ۔‘‘(ص۱۵)
حصہ اول کے برخلاف اس حصے (دوم) میں’مندرجات کتاب کی ترتیب میں شخصیات کی تاریخ وفات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔‘ (ص۱۷)
جناب مولانا رفیق احمد رئیس سلفی حفظہ اللہ نے اپنے مقدمے(ص۱۹تا۳۲) میں ہندوستان میں سلفی تحریک کی تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کے کئی پہلوؤں پر بڑی اہم اور مفید باتیں لکھی ہیں۔
مولانا ظہیر احمد صدیقی ندوی کی تاثراتی تحریر ’برصغیر میں علمائے اہل حدیث کی مساعی جمیلہ‘ (ص۳۳تا۳۵)تقریظ جیسی ہے۔
شیخ عتیق الرحمن ندوی کا مضمون ’ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما‘ (ص۳۶تا۳۸)مقدمہ ٹائپ ہے۔ مختصر ہے مگر جامع۔
ڈاکٹر عین الحق قاسمی نے اپنے مکتوب ’رجال اہل حدیث کا ایک وقیع مرقع‘ (ص۳۹تا۴۰) میں حصہ اول کی اشاعت پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور حصہ دوم کے لیے دعا کی ہے۔
ص۴۱ سے مشرقی یوپی کی مختلف شخصیات پر مضامین کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو ۴۶۶ پر جاکر ختم ہوتا ہے۔ ان ۴۲۶ صفحات میں کل ۶۱ مرحومین کے حالات درج ہیں۔
سب سے زیادہ مضامین خود مولانا عبدالرؤف خاں ندوی صاحب کے ہیں، ٹوٹل ۹۵ صفحات پر پھیلے ہوئے مولانا کے پورے ۲۰ مضامین میں ۱۲ علماء ہیں اور ۸ دیگر شخصیات۔
علماء میں:
۱۔مولانا عبدالعظیم بستوی اکرہرا (ص۱۲۰تا۱۲۲)
۲۔مولانا سید اقبال حسین ریواں (ص۱۳۹تا۱۴۰)
۳۔مولانا صبغت اللہ ندوی ٹیسم (ص۲۴۵تا۲۴۸)
۴۔مولانا عبدالشکور رحمانی اکرہرا (ص۲۷۲تا۲۷۴)
۵۔مولانا محمد امین اثری مبارکپوری (ص۲۷۸تا۲۷۹)
۶۔مولانا قطب اللہ ندوی رحمانی ملگہیا (ص۲۹۱تا۲۹۲)
۷۔مولانا عبدالرحمن رحمانی تھارو بھوجپور (ص۳۱۵تا۳۱۹)
۸۔مولانا عزیز احمد ندوی علی گنج بونڈیہار (ص۳۲۰تا۳۲۱)
۹۔مولانا محمد عمر سلفی (ص۳۳۷تا۳۳۹)
۱۰۔فضا ابن فیضی (ص۳۵۲تا۳۵۷)
۱۱۔علامہ عبدالحمید رحمانی (ص۴۲۶تا۴۳۲)
۱۲۔علامہ عبدالسلام رحمانی کنڈوو بونڈیہار (ص۴۴۶تا۴۵۶)
اور دیگر شخصیات میں:
۱۔حاجی عبدالقیوم پنچ بھجوا کلاں (ص۶۱تا۶۵)
۲۔چودھری محمد یاسین بسنت پور (ص۱۶۶تا۱۷۰)
۳۔حاجی اشفاق احمد وزیری ایڈوکیٹ بھدوہی (ص۳۲۹تا۳۳۱)
۴۔حاجی مشتاق احمد انصاری (ص۳۵۸تا۳۶۴)
۵۔ماسٹر مقصود احمد تنہا انقلابی دیالی پور (ص۳۶۵تا۳۶۷)
۶۔حاجی شفیع اللہ خاں کٹیا بھاری (ص۴۰۲تا۴۰۷)
۷۔حاجی عبدالرشید (ظہیر خاں) بجوا کلاں (ص۴۲۰تا۴۲۵)
۸۔بابو فصیح الدین خاں گینسڑی (ص۴۵۷تا۴۶۶)
تین لوگوں کے تین تین مضامین ہیں، مولانا محمد اسحاق بھٹی، مولانا محمد یونس مدنی اور مولانا خورشید احمد سلفی کے۔
بھٹی صاحب کے مضامین میں:
۱۔شمس العلماء مولانا حفیظ اللہ اعظمی (ص۵۰تا۵۵)
۲۔مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی (ص۵۹تا۶۰)
۳۔شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام بستوی (ص۱۰۶تا۱۱۳)
یونس مدنی صاحب کے:
۱۔علامہ عبدالمتین بنارسی (ص۶۶تا۷۴)
۲۔قاری حافظ مولانا عبدالرحمن بنارسی (ص۱۸۸تا۱۹۱)
۳۔حافظ محمد عباس بنارسی (ص۲۷۵تا۲۷۷)
اور خورشید سلفی صاحب کے مضامین میں:
۱۔مولانا حافظ نذیر احمد بستوی و قنوجی (ص۲۳۳تا۲۴۰)
۲۔مولانا سلیم الدین مدنی (ص۳۸۳تا۳۹۰)
۳۔مولانا عبدالمجید مدنی (ص۴۳۳تا۴۴۵)
شامل ہیں۔
چارلوگوں کے دو دو مضامین ہیں۔ اسی طرح دو کتابوں سے بھی دو دو مضامین ماخوذ ہیں۔
’علمائے اہل حدیث بستی و گونڈہ‘ سے دو مضامین:
۱۔مناظر اسلام مولانا عبدالرحمن ڈوکمی (ص۵۶تا۵۸)
۲۔مولانا زین اللہ گونڈوی (ص۱۱۴تا۱۱۵)
لیے گئے ہیں۔ پہلے مضمون کے آخر میں ص۵۸ پر بین القوسین ’بحوالہ علماء اہل حدیث بستی و گونڈہ‘ لکھا ہے اور دوسرے مضمون میں آخر میں ہی نمبر(۲) لگاکر نیچے حاشیے میں ’علمائے اہل حدیث بستی و گونڈہ ص:۱۳۱‘ درج ہے۔ دونوں جگہ حوالہ لکھنے کا طرز اگرچہ جدا جدا ہے مگر مضمون اخذ کرنے کا منہج ایک ہی ہے۔ جگہ جگہ الفاظ و تعبیرات میں تبدیلی ہے، کہیں کہیں حذف و اضافے سے بھی کام لیا گیا ہے۔ البتہ مواد کی ترتیب وہی ہے۔ دوسرے مضمون سے ایک نمونہ پیش خدمت ہے:
’’حدیث پر گہری نظر تھی۔ تقریر نہایت صاف شستہ اور مؤثر ہوتی تھی۔ قوت گویائی، زبان میں سلاست و روانی اور باریک بینی اور گہرائی و گیرائی آپ کی تقریروں میں نمایاں تھی یہی وجہ تھی کہ اگر اسے قلم بند کرلیا جاتا تو ایک مناسب مضمون اور مقالہ تیار ہوجاتا۔ خدا کی قدرت تقریر میں یہ قوت، تحریر سے یکسر محروم رکھا حتی کہ چند جملے بھی صحیح نہیں لکھ سکتے تھے۔‘‘ (علمائے اہل حدیث بستی و گونڈہ:ص۳۶-۳۷)
’’حدیث پر گہری نظر تھی تقریر نہایت صاف اور دل پذیر اور مؤثر ہوتی تھی قوت گویائی زبان میں سلاست و روانی، گہرائی و گیرائی آپ کی تقریروں میں نمایاں تھی کاش کہ اگر اسے قلمبند کرلیا جاتا تو ایک بہترین کتاب تیار ہوجاتی جس سے آنے والی نسل فائدہ اٹھاتی۔‘‘ (کاروان سلف حصہ دوم:ص۱۱۴)
الفاظ و تعبیرات کی تبدیلی اور حذف و اضافے کی مثالیں اس چھوٹے سے اقتباس میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ ’علمائے اہل حدیث بستی و گونڈہ‘ کے حوالے سے نقل کیے گئے دونوں مضامین کے ساتھ یہی معاملہ کیا گیا ہے۔
’علمائے اہل حدیث بستی و گونڈہ‘ مولانا بدرالزماں نیپالی کی تصنیف ہے۔ میرے پاس اس کتاب کی پی ڈی ایف کاپی ہے۔ ۹۹ علماء کرام کے تذکروں پر مشتمل ۱۶۰ صفحات کی یہ کتاب ۱۹۹۰میں ندوۃ المحدثین گوجرانوالہ سے ۱۰۰۰ کی تعداد میں شائع ہوئی تھی۔ سرورق دیدہ زیب ہے، پیلے رنگ کے بیک گراؤنڈ پر کالے رنگ کی ڈیزائن میں کتاب، مصنف اور ناشر کے کریڈٹس خوشخط میں ہیں۔ سرورق پر ہی بین القوسین ’تقسیم بلاقیمت‘ بھی لکھا ہوا ہے۔ مقدمے(ص۷تا۱۰)میں مصنف نے صراحت کی ہے کہ:
’’کتاب کی ترتیب ۱۹۷۶ میں شروع کی گئی تھی اور ۱۹۸۳ میں مکمل کرکے چھاپنے کے لیے بعض ناشرین کے حوالہ بھی کردی گئی تھی مگر اس کے چھپنے کا وقت ابھی نہیں آیا تھا اس لیے مزید تاخیر ہوئی۔‘‘(علمائے اہل حدیث بستی و گونڈہ: ص۱۰-۱۱)
اس کتاب کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ کاروان سلف جس سمت میں یکسوئی سے عبارت ہے اس کی خشت اول یہی ہے۔ جتنا مواد ہے اسی قدر الفاظ خرچ کیے گئے ہیں۔ ننھے منے جملوں میں سادہ اور سلیس زبان میں علماء کے حالات لکھے گئے ہیں۔ عنوان میں نام کے ساتھ مزید شناخت کے طور پر گاؤں یا شہر کا نام ذکر ہے۔ کہیں کہیں ذیلی عنوان میں حوالے اور روایتوں کی صراحت بھی ہے۔
محدثین کے منہج کی پیروی کرتے ہوئے مولانا نیپالی نے صاحب تذکرہ کے صرف وہی حالات نہیں درج کیے ہیں جنھیں خوبیاں کہا جاتا ہے، کوئی عالم اگر پان اور حقہ کا عادی تھا تو اس کا بھی ذکر ہے۔ جس کی ایک مثال مندرجہ بالا اقتباس میں بھی ہے۔ مولانا زین اللہ گونڈوی کے بیان میں ان کی تقریری صلاحیت کی تعریف کرتے ہوئے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ تحریر سے محروم تھے چند جملے بھی صحیح نہیں لکھ سکتے تھے۔ مولانا ندوی نے اسے نقل کرتے ہوئے قلم زد کردیا ہے حالانکہ اسے محض خامی پر نہ محمول کرنا چاہیے تھا یا اسے بے ضرورت نہ محسوس کرنا چاہیے تھا۔ کل کو مولانا زین اللہ کے نام کوئی تحریر منسوب کردی جائے تو اس جانکاری کے بغیر اس کی تردید مشکل ہوجائے گی۔ روات حدیث کے بارے میں محدثین نے اس طرح کی تمام معلومات کے نقل کرنے کا بہت اہتمام کیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ترتیب و تدوین کے وقت کسی اور کے متن کے ساتھ یہ چھیڑ چھاڑ مناسب نہیں ہے۔ یا تو دوسرے مآخذ کے حوالے سے نئے سرے سے تمام معلومات اپنے الفاظ میں لکھی جائیں یا پھر اقتباس من و عن نقل کیا جائے۔ روایت یا ماخذ ایک ہی ہو، کوئی دوسرا طریقہ یا دوسری سند اس واقعے یا معلومات کی نہ ہو تو کسی کو بھی کیا حق پہنچتا ہے کہ کسی اور کی روایت میں کوئی تبدیلی یا تحریف کرے۔ یہ رویہ کسی بھی طور مناسب نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے۔
دو ہی طریقے سے ایسی باتیں روایت کی جانی چاہییں۔ راوی اگر خود مشاہد ہے تو ویسا بیان کرے جیسا نے اس نے دیکھا ہے یا پھر کسی نے سنا ہے یا کہیں پڑھا ہے تو اس سند یا حوالے سے نقل کرے۔ نقل کرنے کی صورت میں وہ کسی بھی تبدیلی کا مجاز نہیں ہوگا۔
دوسری کتاب جس سے دو مضامین:
۱۔مولانا سید ممتاز علی کرتھی ڈیہہ (ص۹۷تا۱۰۵)
۲۔حکیم جمیل احمد اٹوا بازار (ص۱۱۶تا۱۱۹)
مولانا ندوی نے نقل کیے ہیں وہ ہے تذکرہ علماء سلف(بستی، سدھارتھ نگر، گونڈہ، بلرامپور-یوپی) مضامین کے آخر میں ’بحوالہ تذکرہ سلف خیرالعلوم ڈومریاگنج سدھارتھ نگر یوپی‘ لکھا ہوا ہے۔ یہ مولانا عبدالحفیظ ندوی کی تالیف ہے جسے جامعہ اسلامیہ خیرالعلوم ڈومریا گنج کے شعبہ دعوت و تبلیغ مرکز الدعوة الاسلامیہ نے شائع کیا ہے۔ ۱۲۴ صفحات کی اس کتاب میں ۲۸ شخصیات کے تذکرے شامل ہیں۔ جن میں سے ایک بستی، ایک گونڈہ، پانچ بلرامپور اور بیس سدھارتھ نگر کے ہیں، اس طرح یہ کل تعداد ۲۷ ہوتی ہے۔ ۲۸ویں شخصیت جھنڈانگر نیپال کی ہے۔
مولانا محفوظ الرحمن فیضی صاحب کے بھی دو مضامین شامل ہیں:
۱۔مولانا محمد احمد ناظم مئوی (ص۱۳۱تا۱۳۸)
۲۔مولانا مفتی حبیب الرحمن فیضی مئوی (ص۲۴۱تا۲۴۴)
یہ مضامین لکھوائے گئے ہیں یا کسی کتاب یا رسالے سے ماخوذ ہیں اس کا کوئی ذکر مضمون کے آخر میں نہیں ہے۔ ان مضامین پر نوٹ بھی نہیں ہے۔
دو مضامین مولانا محمد مستقیم سلفی صاحب کے بھی ہیں:
۱۔مولانا محمد یوسف رحمانی بہرائچی (ص۲۱۵تا۲۱۹)
۲۔مولانا امر اللہ عارف سراجی (ص۲۹۹تا۳۰۷)
پہلے مضمون کے ماخذ کا ذکر نہیں ہے اور دوسرا مضمون ماہ نامہ محدث بنارس ستمبر۲۰۰۲ سے ماخوذ ہے۔
مولانا ابوالعاص وحیدی صاحب کے بھی دو مضامین ہیں:
۱۔مولانا زین اللہ رحمانی طیبی (ص۲۲۰تا۲۳۲)
۲۔مولانا عابد علی مدنی کواپور (ص۴۱۷تا۴۱۸)
پہلے مضمون پر مولانا ندوی صاحب کا نوٹ بھی ہے جس میں ان کی شخصیت اور اولاد کا تذکرہ ہے۔ وحیدی صاحب کا یہ مضمون بہت شاندار ہے۔ مولانا زین اللہ سے تعلق خاطر کا یہ مرقع دلی کیفیات اور وقیع معلومات سے بھرپور ہے۔ پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے وحیدی صاحب سنارہے ہیں۔ ان کا مخصوص لب و لہجہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اس مضمون میں جلوہ گر ہے۔ زبان تحریری اور عالمانہ ہے مگر سلاست و روانی ایسی جیسے کوئی گفتگو کررہا ہو۔ باتوں میں کوئی الجھاؤ نہیں ہے، صاف اور سیدھی بات کرتے ہیں اور زیر تذکرہ شخصیت کا امتیاز نمایاں ہوتا جاتا ہے۔ یہ خاکہ نہیں ہے مگر مولانا زین اللہ کے خاکے کی کئی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
کاش وحیدی صاحب ایسی تمام شخصیات پر جنھیں اتنے قریب سے دیکھا ہے تذکرے لکھ دیں تو یہ ایک بڑا کام ہوجائے گا۔ علماء اور طلبہ دونوں برابر مستفید ہوں گے۔ تذکرہ نگاری کا سلیقہ بھی پروان چڑھے گا اور اس باب میں دلچسپی رکھنے والوں کی رہنمائی بھی ہوگی۔
البتہ دوسرے مضمون میں دلی جذبات کی ایسی شدت نہیں ہے۔ اس کا طرز مولانا بدرالزماں نیپالی صاحب (علمائے اہل حدیث بستی وگونڈہ) کے طرز سے ملتا جلتا ہے۔ سوانحی حالات ایک ترتیب سے بیان کردیے گئے ہیں۔ آخری پیراگراف میں اگر وحیدی صاحب یہ نہیں کہتے کہ ان سے میرے اچھے تعلقات تھے تو اندازہ بھی نہیں ہوپاتا کہ آس پاس ہی رہنے والے مولانا عابد علی مدنی صاحب سے قریب کا فاصلہ کبھی ختم بھی ہوا ہوگا۔
دونوں مضامین کے امپیکٹ میں بڑا فرق ہے۔ دوسرا مضمون جیسا ہے ویسا کوئی دوسرا بھی لکھ سکتا ہے، وحیدی صاحب کا کوئی امتیاز اس میں نظر نہیں آتا جیسا پہلے مضمون میں ہے۔
مولانا شہاب الدین مدنی صاحب کے بھی دو مضامین ہیں:
۱۔مولانا عبدالرزاق صدیقی بیت نار (ص۲۸۴تا۲۹۰)
۲۔مولانا محی الدین ندوی تلسی پور (ص۳۳۲تا۳۳۶)
مولانا مدنی کا مختصر سوانح نگاری کا ٹیپیکل انداز ہے۔ نام و نسب کی ذیلی سرخی سے شروع کرکے وفات پر ختم کرتے ہیں۔ جس باب میں جتنا مٹیریل ہے اتنا ہی اسپیس لیتے ہیں اور لینیر فارمیٹ میں سوانحی حالات ایک ترتیب میں پیش کردیتے ہیں۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ زیر تذکرہ شخصیت کا امتیازی وصف نمایاں کردیتے ہیں جیسے اپنے دادا محترم مولانا عبدالرزاق صدیقی کی مناظرانہ صلاحیت اور مولانا محی الدین ندوی کی انتظامی لیاقت۔
اٹھارہ لوگ ایسے ہیں جن کے ایک ایک مضامین شامل کتاب ہیں۔ یہ مضامین تین قسم کے ہیں۔
پہلی قسم میں ایک مضمون ہے مولاناعتیق الرحمن ندوی صاحب کا، انھوں نے اپنے نانا کا تذکرہ لکھا ہے:
حاجی عبدا لغفور دریابادی (ص۱۲۳تا۱۳۰)
دوسری قسم میں ۸ مضامین ہیں، جن میں تذکرہ نگاروں نے اپنے اپنے والد کے حالات لکھے ہیں۔ یہ سلسلہ بہت اچھا ہے۔ سوانحی معلومات اور علمی وجماعتی خدمات کے جائزے کے ساتھ خانگی حالات بھی معتبر ذریعے سے زیر تذکرہ آجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں:
(۱)خالد حنیف صدیقی فلاحی نے ’مولانا محمد حنیف ہاتف بیت نار‘(ص۱۴۱تا۱۵۱)
(۲)ارشد علی انصاری اعظمی نے ’مولانا ابوعلی اثری اعظمی‘(ص۱۷۱تا۱۷۶)
(۳)سراج طالب نے ’محمد طالب تلسی پور‘(ص۲۸۰تا۲۸۳)
(۴)ڈاکٹر شمس الدین نے ’مولانا صلاح الدین نوری بہرائچی(ص۲۹۳تا۲۹۸)
(۵)ڈاکٹر عبدالحمید خاں نے ’حکیم عبید اللہ رحمانی رائے بریلوی‘(ص۳۰۸تا۳۱۴)
(۶)مولانا ظہیر احمد رحمانی نے ’مولانا محمد خلیل رحمانی‘(ص۳۴۰تا۳۵۱)
(۷)ڈاکٹر عبدالرشید سلفی شنکر نگر نے ’ماسٹر محمد اسماعیل انصاری‘(ص۳۹۷تا۴۰۱)
(۸)سہیل انجم نے ’ڈاکٹر حامد الانصاری انجم‘(ص۴۰۸تا۴۱۶)
جیسے مضامین اپنے والد کے حالات وکوائف پر مشتمل لکھے ہیں۔
تیسری قسم میں نو مضامین ہیں:
۱۔مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی (ص۴۱تا۴۹)
از: مولانا ابوعلی اثری
۲۔ادیب العصر علامہ عبدالمجید الحریری بنارسی(ص۷۹تا۹۶)
از: مولانا عبدالوحید رحمانی (ماہ نامہ صوت الجامعہ بنارس:۳؍اگست۱۹۷۵)
۳۔پروفیسر قمر حسین فاروقی(ص۱۵۲تا۱۶۵)
از: مولانا رفیق احمد رئیس سلفی
۴۔محمد صغیر سالار تلسی پور (ص۱۷۷تا۱۸۷)
از: ڈاکٹر محمد غالب
۵۔مولانا قاری عبدالمنان اثری شنکرنگری(ص۱۹۲تا۲۱۴)
از: مولانا عبدالرزاق عبدالغفار سلفی
۶۔مولانا عبدالمعبود فیضی کنڈو (ص۲۶۸تا۲۷۱)
از: مولانا شوکت علی قاسمی
۷۔مولانا شکراللہ فیضی ٹکریاوی (ص۳۲۲تا۳۲۸)
از: مولانا عبدالحمید فیضی
۸۔مولانا سیدتجمل حسین منگل پوری مہراج گنج(ص۳۶۸تا۳۸۲)
از:مولانا عبداللہ عباس سلفی
۹۔ڈاکٹرمحمد یونس ارشد بلرامپوری(ص۳۹۱تا۳۹۶)
از:ڈاکٹرعبدالدیان انصاری
ایک خودنوشت بھی ہے:
مولانا عبدالشکور دور صدیقی بیت نار(ص۲۴۹تا۲۶۷)
خودنوشت اور ہونی چاہیے۔ مولانا ندوی صاحب نے اس پر دو صفحےکا ایک اچھا نوٹ بھی لکھا ہے جس میں مولانا عبدالشکور کے امتیازات نیز اپنے تعلقات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ نوٹ میں ایک جگہ ’کے ایک زریں کڑی‘ہے۔ یہاں ’کے‘ نہیں ’کی‘ ہونا چاہیے تھا۔ ممکن ہے یہ پروف کی غلطی ہو۔
ایک مضمون ’الاعتصام‘(۱۵؍جنوری۱۹۷۱) سے نقل کیا گیا ہے:
مولانا سید ابوالخیربرق حسنی لکھنوی(ص۷۵تا۷۸)
اس پر کوئی نوٹ نہیں ہے۔ نہ ہی اس مضمون کے لکھنے والے کا نام ہے۔ البتہ مولانا ندوی کے حواشی میں کچھ سوانحی معلومات درج ہیں۔
کاروان سلف حصہ اول کی طرح یہ حصہ دوم بھی اسٹاک میں نہیں ہے، لائبریریوں میں مل سکتی ہے۔ مولانا کے نام سے بنے ہوئے بلاگ سائٹ پر جو پی ڈی ایف نسخہ ہے وہ بھلے ۵۷۲ صفحات کا نظر آتا ہے مگر ۴۷۸ کے بعد سارے صفحات سادہ ہیں۔ اس کی ترتیب بھی درست ہے، بہ آسانی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
آپ کے تبصرے