شاعر و ادیب، محقق و نقاد ڈاکٹر شمس کمال انجم عصر حاضر کے اہم اور ممتاز عربی داں ہیں۔ایسے عربی داں جنھیں اپنی عربی دانی پر فخروغرور نہیں، بلکہ وہ اس کو فضل خداوندی سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے ذریعے زبان و ادب کے ساتھ دین و مذہب کی خدمت کامقدس فریضہ انجام دیتے ہیں۔ پیشہ وارانہ مصروفیت کے سبب ان کے اظہار مافی الضمیر کا میڈیم تو’عربی مبین‘ ہے، مگرعربی اردو ترجمہ نویسی ان کی علمی اور تحقیقی سرگرمی کا مخصوص میدان ہے۔ انھوں نے ترجمہ نگاری کا بھاری پتھر اٹھا کر اردوزبان میں عربی ادبیات کے خلا کو پر کرنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے قدیم طرز کے مدارس و مکاتب ہی نہیں ، ملک و بیرون ملک عصری جامعات میں بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس لیے انھوں نے قدیم و جدید دونوں تعلیم سے اکتساب کرتے ہوئے عربی اور اردو کے قدیم رشتے کو مزید مستحکم کیا ہے۔ عربی اور فارسی کے زیر اثر ہی اردو کی تربیت اور پرورش ہوئی ہے اور اسی کی لفظیات،تلمیحات، تراکیب اور محاورات کی انگلی پکڑ کر اردو نے اپنے سرمایے میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔اردو زبان کی فکر و فرہنگ میں عربی اور فارسی نے ہی چار چاند لگائے ہیں۔
شمس کمال انجم کو عربی زبان پر ماہرانہ دسترس حاصل ہے اور وہ اردو پر بھی ادیبانہ گرفت رکھتے ہیں،وہ اپنی اس خصوصیت کے سبب بجا طور پر مجمع البحرین کہلانے کے مستحق ہیں۔ان کی ادبی شخصیت کاایک سرا دجلہ و فرات سے ملتا ہے، تو دوسرا گنگاو جمنا سے۔ انھوں نے اردو کے محدود رقبے کی توسیع میں کافی اہم رول ادا کیا ہے۔ وہ کئی عربی ادبی کتابوں کو اردو کا پیراہن عطا کرچکے ہیں اور مزید عربی ادبیات کو اردوکے قالب میں پیش کرنے کا پروگرام زیر ترتیب رکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں ترجموں پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی، ترجمہ نگار کو دوسرے درجے کا رائٹر تصور کیا جاتا ہے، جب کہ دوسرے ممالک میں ترجموں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے، ترجمے کے کام پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی جاتی ہے ۔ مترجمین کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔لیکن بر صغیر خصوصا ہندستان میں مترجمین اور خاص طور پر اردو مترجمین کے ساتھ نا انصافی کی ہوا کچھ زیادہ تیز چل رہی ہے۔ہمارے دیار میں تخلیق کارکو’آنکھوں کا تارا‘اور ترجمہ نگار کو’بے چارا‘اور کم مایہ باور کیا جاتا ہے۔
ترجمہ اصل میں یوں ہی وقت گزاری، زر اندوزی اور ذہنی تفریح کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ اصل زبان اور اس میں موجود فکرو فن کی حدت تک ہماری رسائی کو آسان بناتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سی کتابوں کا اصل متن قارئین میں اتنا مقبول نہیں ہوا ،جتنی مقبولیت اس کے ترجمے کو ملی ۔ اسی لیے بعض ترجموں کو اصل متن سے بھی بہتر، کامیاب اور مؤثر قرار دیا گیا ہے۔ یہ ترجمے کی جادوگری ہے۔جانوروں کی کہانی پر مبنی مشہور عربی کتاب کلیلہ ودمنہ کے اصل مصنف اور اصل کتاب پنچ تنتر کو ادبی دنیا اتنا نہیں جانتی ،جتنا اس کے کامیاب اور مؤثر ترجمے کلیلہ و دمنہ اور اس کے مترجم باکمال عبد اللہ بن مقفع کو جانتی ہے۔عربی نثر کی تاریخ میں ابن مقفع کی اہمیت اس کی ترجمہ نویسی کے سبب ہے کہ اس نے غیر عربی علوم و فنون کو عربی زبان کا قالب عطا کیا۔ اس قسم کا ایک واقعہ عربی اردو مترجمہ رفعت حجازی، انگریزی کے ایک ناول اور اس کے اردو ترجمے کے حوالے سے اس طرح بیان کرتی ہیں:
’’احمد علی کے ناول TWLIGHT IN DELHI کا ترجمہ بلقیس جہاں کے قلم سے دلی کی شام کے نام سے شائع ہوا تو خود ناول نگار کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ یہ ترجمہ اصل سے زیادہ بہتر ہے کیوں کہ اس میں قلعہ معلی کی زبان استعمال کی گئی ہے۔‘‘(۱)
شمس کمال انجم نے پہلے مدارس میں عربی ادب کے کوہ و دمن کی سیاحی کی اوراس کے بعد عصری دانش گاہوں میں اس پر زبان و ادب کا رنگ چڑھایا، عربی اردو کے متبادل اظہار پر گرفت حاصل کی اور اردو کے سرمایے میں عربی کے نثری شاہ پاروں کے ترجموں کا اضافہ کرنے لگے۔عربی اردو ترجمہ نگاروں کی کمی نہیں، مگر ان کے ترجموں کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ دونوں زبان کی لفظیات سے بخوبی آگا ہ ہیں۔ دونوں زبان کے قواعد، نحوی صرفی نکات، محاورات و تلمیحات اور طریقۂ استعمال سے واقف ہیں۔ انھوں نے اپنے ترجموں میں گنجلک اور ژولیدہ زبان نہیں لکھی ہے، بلکہ ان عربی متون کے عمق میں جھانکا ہے، ان کے مالہ اور ماعلیہ کو اچھی طرح جذب کیا اور پھرباز تخلیق کے عمل سے گزرنے کے بعد اس کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ان کے ترجمو ں میں نہ خشکی ہے، نہ تعقید، بلکہ وہ اتنا رواں، ادبی ، سلیس اور شگفتہ ہے کہ اس میں بھی اصل متن کا حسن اور دل کشی در آئی ہے۔یہ بین المتونیت کا عہد ہے۔ انھوں نے ایک متن پر دوسرے متن کی بنیاد رکھی ہے۔ ترجمہ پڑھتے ہوئے کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم کسی کتاب کا ترجمہ پڑھ رہے ہیں، بلکہ اس پر طبع زاد کا گمان گزرتا ہے۔ یہی شمس کمال انجم کا امتیاز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عربی ہی نہیں، اردو کے بھی کلاسیکی ادبی سرمایے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ دونوں کی نزاکتوں سے آگاہ ہیں۔حالاں کہ عربی کے مقابلے میں اردو کا معاملہ’بقدر شوق نہیں ظرف تنگ نائے غزل‘ والا ہے، مگر شمس کمال انجم اپنی ترجمانی کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے عربی متن کے بحر ناپیدا کنار کو بھی اردوکی جوئے آب میں سمودیتے ہیں۔ مضمون کوئی بھی ہو ادبی غیر ادبی،سماجی یا مذہبی، فکشن ہو یا شاعری اس کو اردو کے پیمانے میں بسہولت ڈال دیتے ہیں۔ ترجمہ کس چڑیے کا نام ہے،کیا ایک زبان کے الفاظ کو دوسری زبان میں منتقل کرنے کا نام ترجمہ ہے؟کیا ترجمہ معنی اور تاثیر کی منتقلی کا نام ہے؟ کیا زبان ’مبدا‘کے مفہوم کو زبان ’مقصد‘کے مفہوم میں بدلنے کا نام ترجمہ ہے؟ ذرا اس پر بھی ایک نظر ڈالتے چلیں، تاکہ شمس کمال انجم کے ترجموں کی تعیین قدر میں آسانی رہے۔
حاجی احمد فخری اپنے مضمون مطبوعہ رسالہ اردو اکتوبر ۱۹۲۹ء میں ترجمے کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہمارے نزدیک ترجمے کی تعریف یہ ہے کہ کسی مصنف کے خیالات کو لیا جائے، ان کو اپنی زبان کا لباس پہنایا جائے، ان کو اپنے الفاظ و محاورات کے سانچے میں ڈھالا جائے اور اپنی قوم کے سامنے اس انداز سے پیش کیاجائے کہ ترجمے اور تالیف میں کچھ فرق معلوم نہ ہو۔‘‘(۲)
اردو کے مایۂ ناز ادیب و مؤرخ اور انگریزی اردو مترجم جمیل جالبی نے بھی ترجمے کی تعریف کی ہے ، مگر انھوں نے اس کی نوعیت کے اعتبار سے اس کو کئی خانوں میں منقسم کیا ہے۔ اپنے مضمون ’ترجمے کے مسائل ‘میں ترجمے کی تقسیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ترجمے کے تین طریقے ہوسکتے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اصل متن کا صرف لفظی ترجمہ کردیا جائے اور بس(اسے ترجمہ نہیں، مکھی پر مکھی مارنا کہتے ہیں)دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ مفہوم کو لے کر آزادی کے ساتھ اپنی زبانوں کے روایتی و مقبول انداز بیاں کو سامنے رکھتے ہوئے ترجمہ کردیا جائے۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ترجمہ اس طور پر کیاجائے کہ اس میں مصنف کے لہجے کی کھنک باقی رہے۔ اپنی زبان کا مزاج بھی باقی رہے اور ترجمہ اصل متن کے بالکل مطابق ہو۔ ترجمہ کی یہ شکل سب سے زیادہ مشکل ہے۔ ایسے ترجموں سے زبان و بیان کو ایک فائدہ تو یہ پہنچتا ہے کہ زبان کے ہاتھ بیان کا ایک نیا سانچہ سامنے آجاتا ہے۔ دوسرے، جملوں کی ایک نئی ساخت ایک نئی شکل اختیار کرکے اپنی زبان کے اظہار کے سانچوں کو وسیع تر کردیتا ہے۔‘‘(۳)
شمس کمال انجم کے ترجموں کی کیا نوعیت ہے؟ وہ مترجمین کی کس فہرست میں آتے ہیں؟ ان کا ترجمہ لفظ بہ لفظ ہوتا ہے یا معنی بہ معنی؟حرف بحرف یا سطر بسطر؟مجھے نہیں معلوم اور عربی اردو کے مجھ جیسے ادنی طالب علم کی کیا بساط کہ وہ شمس کمال انجم کے ترجموں کی وسیع کائنات کو کسی تعریف کے کوزے میں بند کردے۔اس کا فیصلہ انھیں کرنا ہے جنھیں ترجمہ اور متن کے تقابل سے دلچسپی ہے۔ لیکن میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے ’مکھی پر مکھی‘ تو نہیں ماری ہے۔میں ان کے ترجموں کے سحر میں کئی صبح وشام کھویا رہا ہوں، بس اتنا جانتا ہوں کہ انھوں نے ترجمہ کرتے ہوئے کسی خاص ازم ، مسلک، مکتب یا تعریف کی پابندی نہیں کی ہے، بلکہ انھوں نے اصل متن کے لہجے اور اپنی زبان کے مزاج کو باقی رکھتے ہوئے ترجمے کا ایسا اسلوب ایجاد کیا ہے جس کے موجد وہی ہیں اور جس کے اسرار و رموز کی ڈور تھامنا کسی اور کے بس کی بات بھی نہیں۔
شمس کمال انجم نے شاعری بھی کی، عربی میں مضامین لکھے، تنقیدی مقالے تحریر کیے، اخباروں میں کالم نگاری کی،لیکن’ کند جنس باہم جنس پرواز‘کے مصداق انھوں نے ابتدا سے ہی ترجموں پر ارتکاز کیا۔ مذہبی کتابوں کے تراجم بہت تھے، ہمارے اسلاف نے مذہبیات کے خانے میں ترجموں کا بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے،مگرعربی ادبیات کے ترجموں کا خانہ سونا پڑا تھا۔شمس کمال انجم نے ہمت کی، اپنے علم و مطالعہ کی زنبیل کو کھنگالا اور عربی شعریا ت و نثریات کو اردو کا جامہ پہنانا شروع کردیا۔سب سے پہلے انھوں نے عربی کے عظیم ادیب، صاحب اسلوب انشا پرداز اور دانش ور شوقی ضیف پر ہاتھ ڈالا۔ جن کی تحریریں بجائے خود معانی کا ایک جہان اپنے اندر سمیٹے ہوتی ہیں۔ ان کی ادبی بصیرت عالم عربی میں مشہور ہے۔ ان کی تحریرو ں کے اعماق میں اترنا اور اس کے دروں میں جھانک کر معانی کا سرا پکڑنا جگر گردے کا کام ہے۔ مگر شمس کمال انجم نے شوقی ضیف کو نہ صرف اردو میں پہلی بار بھرپور انداز میں متعارف کرایا، بلکہ ان کی تاریخی کتاب’الادب العربی المعاصر فی مصر‘کو بعنوان اردو’جدید عربی ادب‘ کا لباس بھی عطا کیا۔ یہ ترجمے کے میدان میں ان کی باضابطہ پہلی انٹری تھی اور پہلی انٹری ہی اتنی شان داراور زور دار تھی کہ انھوں نے عربی اردو ترجمہ نویسی کے میدان میں اپنی قابلیت کا لوہامنوالیا۔ امرؤ القیس اور نجیب محفوظ کے علاوہ کسی عربی ادیب کو غیر عربی داں حلقے میں کتنے لوگ جانتے ہیں۔ مگر اردو داں حلقے کو یہ شمس کمال انجم کی دین ہے کہ ان کے ترجموں کی وجہ سے بہت سے عربی شاعر و نثر نگار کی تحریروں سے دیار ہند کے باسیوں کو شناسائی کا موقع ملا۔ ہم ان کی تحریروں کے نکات کی روشنی میں اپنی علمیت پر سان چڑھاتے ہیں۔ ان سے خوشہ چینی کرتے ہیں اور ان کے افکار کے گل بوٹوں سے اپنی تحریروں کو سجاتے ہیں۔ میں یہاں ان کتابوں کے متن ، ان کی خوبی، مواد اور موضوع سے بحث نہیں کرنا چاہتا، بلکہ مجھے شمس کمال انجم کے ترجموں کے امتیازات سے سروکار ہے۔انھوں نے شوقی ضیف کی اس تاریخی کتاب کا بڑا شستہ اور سلیس ترجمہ کیا ہے۔ شعر ہو یا نثر ہر جز کا ایسا فصیح اور سلیس ترجمہ کیا ہے کہ ان پر باز آفرینی کا عنوان ثبت کیا جاسکتا ہے ۔ جدید عربی ادب کا مطالعہ کیجیے تواس کی فصاحت و جزالت اور تراکیب کی شحامت کی وجہ سے یہ محسوس ہوگا کہ ہم شمس کمال انجم کا ترجمہ نہیں، اسی عربی متن سے اپنا رشتہ استوار کر رہے ہیں۔ ابراہیم ناجی کے چند اشعار کا ترجمہ دیکھیے:
’’ہائے وہ محبت جو میرے خون میں رچ بس گئی تھی اور موت کی طرح میرا مقدر تھی۔ ہم نے چند لمحے بھی محبت میں نہیں گذارے کہ ساری عمر اس کے ماتم میں گذارنی پڑی۔ میں نے ان خطوط کو جلادیا اور اپنے دل کو بھی ان شعلوں کی نذر کردیا اور مایوس انسان نے اپنی خاک محبت پر آنسوبہایا۔‘‘(۴)
مصطفی لطفی منفلوطی عربی کا صاحب طرز ادیب و انشاپرداز گزرا ہے جس نے عام موضوعات کو بھی اپنے قلم اور احساس کی شکتی سے ادب کے سانچے میں ڈھال دیا اور خشک ترین مباحث کو بھی اپنے نوک قلم کی زرخیزی سے قابل مطالعہ بنادیا ہے ۔ اسی کتاب میں شمس کمال انجم نے ان کے ایک انشائیہ نما مضمون’الرحمۃ الرحمۃ‘ کا کتنا عمدہ اورادبی ترجمہ کیا ہے۔
’’کاش آپ اس وقت رو دیں جب آپ کی نظر کسی غمزدہ و مضمحل انسان اور رنج و الم سے معمور دل پر پڑے پھر یکلخت آپ خوش ہوکر اپنے آنسؤوں پر شک کرتے ہوئے مسکرادیں کہ ایسے وقت آنسو کے جو قطرے آپ کے چہرے پر ٹپکتے ہیں وہ نور کی جھلملاتی ہوئی ایسی تحریروں کی مانند ہوتے ہیں جو آپ کے شفاف نامۂ اعمال میں اس بات کا بین ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ آپ ایک انسان ہیں۔ آسمان بدلیوں کے ذریعے آہ و بکا کرتا ہے، بجلیوں کے ذریعے اس کا دل دھڑکتاہے اور گرج کر چیخ و پکار کرتا ہے۔ زمین ہواؤں کی سرسراہٹ سے اپنی کراہ کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ دریاؤں کی موجوں سے شور مچاتی ہے۔ زمین و آسمان کی یہ فریاد، آہ و بکا صرف اور صرف انسانوں کے ساتھ رحم اور مہربانی کے لیے ہے جس میں ہمیں شریک ہونا چاہیے۔‘‘(۵)
شمس کمال انجم کا ذہن ترجمے کے نئے نئے منطقے دریافت کرتا رہتا ہے۔ انھوں نے ترجمے کے کام کوبڑی وسعت عطا کی ہے۔ ان کے یہاں موضوعات کی کوئی قید نہیں ہے۔ وہ تو زبان و ادب کی ان تمام اقسام کو پسند کرتے ہیں جن سے زندگی میں تحرک اور جذبات میں طغیانی پیدا ہو۔ خواہ افسانہ ہو یا مذہبی لٹریچر وہ صرف اس کی غرض و غایت پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے صرف زبان و ادب ہی نہیں، اسلامی اور مذہبی ادب و تاریخ کے موضوعات پر بھی نادر اور مشہور کتابوں کا انتخاب کیا۔ علامہ شنقیطی کی کتاب کا ترجمہ ان کی اسی قسم کی کامیاب کوشش کا نتیجہ ہے، جس میں انھوں نے صرف ترجمے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس میں اپنے زرخیز شاعرانہ ذہن سے مدد لے کر اردو اشعارکی گل کاری بھی کی ہے۔کتاب کا موضوع مذہبی ضرور ہے، مگر انداز تحریر روایتی نہیں ہے۔اس کتاب میں بھی ادب کا جمال و جلال موجودہے۔ قرآن، حدیث، سیرت اور تاریخ کے اقتباسات سے معمور اس کتاب کے ترجمے میں بھی ادبیت کی شان در آئی ہے۔ یہ کتاب مدینہ منورہ کے ماضی اور حال کا منظرنامہ پیش کرتی ہے۔
شمس کمال انجم نے سنگلاخ زمینوں کو ہموار کرنا سیکھا ہے۔ وہ جنوں پیشہ مترجم و ادیب ہیں۔ وہ صرف اپنی دل چسپی اور قاری کی مانگ کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ موضوع کی سختی اور اس کی شدت سے سروکار نہیں رکھتے۔ نہ ان سخت جاں موضوعات سے دم دباکر بھاگتے ہیں۔ شوقی ضیف بجائے خود ایک مشکل پسند عربی ادیب ہیں اور پھر موضوع بھی وہ ایسا منتخب کرتے ہیں جن پر لکھنا تو کجا،سوچنا بھی دوسروں کے لیے مشکل ہوتاہے۔ سو شمس کمال انجم کی ترجمے کی آنکھ نے جدید عربی ادب نام کے مقبول ترجمے کی پیش کش سے شوقی ضیف کے ساتھ جو رشتہ قائم کیا تھا، وہ مزید مستحکم ہوتاگیا۔ انھوں نے ان کی ایک اور کتاب ’الفن ومذاہبہ فی النثر العربی‘ کا انتخاب کیا کہ اب تک یہ موضوع اردو والوں کے لیے نامانوس تھا ۔ اس ترجمے کی تحریک بھی انھیں اسی لیے ملی ہوگی کہ عربی اور اردو دونوں کی جدید نثر کے سفر کا معاملہ تقریبا ایک جیسا ہے۔دونوں زبانوں میں جدید اصناف:ناول ، افسانہ اور ڈرامہ نے ایک ساتھ ہی جنم لیا ہے۔ اردو میں تو نثر کی ابتد اور ارتقا اور اس کے فنی اسرار پر بہت سی کتابیں مل جاتی ہیں، مگر عربی ادب کا ذوق رکھنے والے طلبہ اور اساتذہ کے لیے عربی نثر کے ارتقا کی داستان سے واقفیت حاصل کرنا دشوار تھا۔ اس لیے انھوں نے اس مشکل اور ادق کتاب کو بھی اپنے ترجمے کی ٹکسال سے نکالا ہے۔ تاکہ عربی اردو میں لسانی تقابلی مطالعہ کو نئی جہت مل سکے۔ترجمہ بہت سادہ ،سلیس اور شگفتہ اردو میں ہے۔ ہر لفظ نپا تلا ہوا۔نامانوس اور غریب الفاظ سے دامن بچایا ہے۔ اورعلم و تحقیق کا چراغ بھی روشن رکھا ہے۔ ابو بکر خوارزمی عربی کا مشہور شاعر و ادیب گزرا ہے۔ وہ اپنے پیش رو علما سے اکتساب فیض کرتا اور ان کی خوشہ چینی کرتا تھا اور اس سلسلے میں سرقہ کا جواز بھی فراہم کرلیتا تھا۔ اور وہ ان سرقہ اور توارد کی شکلوں کو بڑی خوب صورتی سے اپنی نثر میں بھی جڑلیتا ہے۔ وہ سابقہ ادیبوں کی تحریروں پر نہ صرف کثرت سے ڈاکہ ڈالتا ہے، بلکہ اس طرح برملا اعتراف بھی کرتا ہے۔ دیکھیے ترجمے کی زبان میں:
’’میں کبھی کسی ادیب کے لفظ کو چرالیتا ہوں تو کبھی کسی کے جملے پر ہاتھ صاف کرلیتا ہوں ۔ کبھی کہیں سے نادر شے مستعار لیتا ہوں تو کبھی زندہ ادیبوں کے بیانات کو غصب کرلیتا ہوں اور مردوں کو ان کے کفن سے نکال لیتا ہوں۔‘‘(۶)
مشہور عربی ادیب جاحظ کی’کتاب الحیوان‘ کے ابتدائی مسجع مقفی جملوں کا ترجمہ دیکھیے، جس میں اصل عربی عبارت کی طرح ہی موسیقیت، ترنم اور صوتی نغمگی درآئی ہے:
’’اللہ آپ کو شک و شبہے سے بچائے اور حیرت و استعجاب سے محفوظ رکھے، آپ کے اور علم و معرفت اور صداقت و سچائی کے درمیان تعلق پیدا کرے۔ معاملات کی چھان بین اور تحقیق کو آپ کے نزدیک محبوب بنائے۔ آپ کی نظروں میں عدل و انصاف کو آراستہ کرے۔ آپ کے دل کوتقوے کی شیرینیت چکھائے اور حق کی قدر و معرفت کا شعور بخشے۔ آپ کے سینے میں یقین کی ٹھنڈک پیدا کرے۔ ناامیدی کی دلت کو دور بھگائے ، باطل کی ذلت اور جہالت کی قلت عطا کرے۔‘‘(۷)
انھوں نے اندلس کے ممتاز شاعر و ادیب کے ایک خط کاجو اس نے اپنے آقا اور سردار کے نام لکھا ہے، بڑا شان دار ترجمہ کیا ہے اور اس میں اعادۂ مفہوم کا عمل اتنی ادبیت سے کیا ہے کہ عربی زبان کی روح اردو میں سما گئی ہے۔ دیکھیے اس ترجمے کا ایک اقتباس:
’’صبح نے جو چادر زیب تن کی ہے اس پر میں نے ہی آپ کی عظمت کے گل بوٹے سجائے ہیں۔ کہکشاں نے اپنے گلے میں جو ہار ڈالا ہے اسے میں نے ہی آپ کے مآثر کی موتیوں سے سجایا ہے۔ موسم بہار میں جو دلکشی ہے وہ اس لیے ہے کہ اسے میں نے آپ کی خوبیوں سے آراستہ کیا ہے۔ مشک میں جو خوشبو ہے وہ اس لیے ہے کہ میں نے ہی اس میں آپ کی تعریف و توصیف کو گوندھا ہے۔‘‘(۸)
سچ مچ شمس کمال انجم نے عربی اردو تراجم کے ذریعے اردو کے مختصر رقبے کی توسیع و تفریج کی ہے۔عربی کے نادر افکار و خیالات کو اردو میں منتقل کرکے ہم غیر عربی داں حضرات کے لیے عربی ادب سے واقفیت کی راہ استوار کی ہے۔ ہم ان عربی ادیبوں کے خیالات کی روشنی میں اپنے تخیل کی بنیاد رکھتے ہیں۔ کیوں کہ عربی زبان کی وسعت کے سامنے دوسری عجمی زبانیں اپنی تنگ دامانی کا مداوا تلاش کرتی ہیں۔ شمس کمال انجم نے ترجموں کے ذریعے عربی اور اردو کے بیچ کے فاصلے کو پاٹنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ترجموں، ان کے شستہ و شگفتہ اسلوب اور بلیغ و پرشکوہ انداز ترجمہ کواردو والوں نے بھی خوب سراہا ہے۔ مشہور ناقد شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’آپ کی کتاب’جدید عربی ادب‘ جو کہ شوقی ضیف کی مشہور کتاب ’الادب العربی المعاصر فی مصر‘ کا نہایت سلیس ترجمہ ہے کچھ دن پہلے ملی تھی، میں نے اسے جگہ جگہ سے دیکھا اور لطف اندوز ہوا۔ آپ نے شوقی ضیف کے حالات اور کارناموں پر مبنی مختصر دیباچہ لکھ کر کتاب کی قدر وقیمت میں اضافہ کردیا ہے۔ کتاب میں جدید مصری ادب خاص کر مصری شاعری کے بارے میں معتبر معلومات یکجا ہیں اور یہ بات بھی بہت عمدہ ہے کہ مصر پر گذشتہ دو سو برس سے جو مغربی اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں ان کا بھی ذکر تھوڑا بہت کتاب میں موجود ہے۔‘‘
مشہور شاعر و ادیب اور ناقد مظہر امام لکھتے ہیں:
’’آپ کا ارسال کردہ گراں قدر تحفہ ’جدید عربی ادب‘موصول ہوا۔’گراں قدر‘ کی صفت میں نے رسمی طور پر استعمال نہیں کی ۔ میں واقعی آپ کے ترجمے سے بہت متاثر ہوا۔ اس خوب صورت ترجمے کے لیے صدق دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ عرض مترجم کے عنوان سے آپ کا دیباچہ عالمانہ ہے۔
میں عربی ادب سے قطعی ناآشنا تھا۔ ڈاکٹر شوقی ضیف کی کتاب ’جدید عربی ادب‘سے ایک بڑی زبان کے جدید ادب کے بہت سے خد وخال نمایاں ہوئے۔ ڈاکٹر شوقی ضیف کی تاریخ صرف معلومات کی کھتونی نہیں ہے انھوں نے ان محرکات کا بطور خاص جائزہ لیا ہے جو ادب کی تخلیق میں معاون ہوئے۔ اس تاریخ میں ادیبوں اور شاعروں کے حالات زندگی ہی نہیں ہیں بلکہ ان کی تحریروں اور تصانیف کا نہایت عمدہ تنقیدی محاکمہ بھی ہے۔ اردو میں ادب کی جو تاریخیں شائع ہوئی ہیں شاید کوئی اس نہج سے نہیں لکھی گئی۔ کاش ہمارے یہاں کوئی عالم اس انداز کی جدید اردو ادب کی تاریخ لکھ سکتا۔‘‘
ماہنامہ شاعر ممبئی کے مدیر افتخار امام صدیقی لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر شمس کمال انجم زبانوں کی روح کے غواص ہیں بالخصوص اردو اور عربی، ہر دو زبان کے رموز واوقاف کے بطون میں اترنے کا ہنر جانتے ہیں۔ عربی سے اردو میں کئی اہم کتابوں کا ترجمہ کرچکے ہیں۔ کسی دوسری زبان کی روح کو ایک اور روح اور جسم دینا مترجم کے وہ اوصاف ہیں جو صرف اورصرف اللہ ہی کی صفات ہیں۔ تاہم عظیم ترین خالق نے خود کو ذہین قلم کاروں میں خلق بھی کیا ہے اور یہ عمل صدیوں سے جاری ہے۔ ازل سے ابد تک یہی کائناتی حقیقت شمس کمال انجم کو بھی ودیعت ہوئی ہے۔‘‘(۹)
ترجمہ نگاری کوئی بچوں کا کام نہیں۔ یہ محنت، ریاضت اور ژرف نگاہی کا متقاضی عمل ہے۔ صرف دو زبانوں کے معنوی متبادل فراہم کردینے سے ہی ترجمے کا حق ادا نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک زبان کے معنی و مفہوم کو دوسری زبان میں اس کے اثر و عکس کو برقرا رکھتے ہوئے منتقل کرنے کا نام ترجمہ ہے۔ قواعد، نحو صرف، لفظیات کے پیچوں میں الجھنے سے بہتر ترجمے کا نمونہ سامنے نہیں آسکتا۔ترجمہ نگاری پل صراط پر چلنے کا عمل ہے۔ ذرا سی لغزش ہوئی اور دوسری زبان کاحسن پامال ہوجائے گا۔ شمس کمال انجم نے ترجمہ کرتے وقت مترجم منہ زبان کی تشبیہات و استعارات، صنائع اور بدائع اور محاورات و ضرب الامثال کو وہی رنگ و روپ بخشا ہے جو اصل عربی متن میں موجود ہے۔انھوں نے اپنے ترجموں کے ذریعے اردو کا زائیچہ نہیں بگاڑا، بلکہ اردو الفاظ کے ذخیرے میں بہت سے نئے متبادل فراہم کیے ہیں۔ عربی اردو قوامیس میں بہت سے الفاظ کے صحیح متبادل نہیں ملتے، وہی گھسے پٹے معانی،جو باوا آدم کے وقت سے دہرائے جارہے ہیں، لیکن شمس کمال انجم نے اپنے ادبی اجتہاد سے کام لے کر عربی الفاظ کے ایسے معانی و مفاہیم کی تشکیل کی ہے، جن کی بنیاد پر ایک دوسری ادبی ڈکشنری تیار کی جاسکتی ہے۔انھوں نے اپنے ترجموں کے ذریعے عربی اردو میں وحدت، مماثلت اور ہم آہنگی کا عنصر پیدا کیا ہے۔ بہت سے الفاظ کو نئی زندگی اور توانائی دی ہے۔انھیں جدت، معنویت اور معتبریت دی ہے۔میں مانتا ہوں کہ اردو میں لکھنے والوں کی کمی نہیں، مگر آج ایسی چیزیں لکھی جارہی ہیں جن سے اردو کا قد چھوٹا ہو رہا ہے۔ قارئین کی فکری اور لسانی آگہی میں تخفیف ہورہی ہے۔عالمی ادب تو قیامت کی چال چل گیا ہے اور ہم ہیں کہ میر و غالب اور اقبال کی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ گڑے مردوں کو ہی اکھاڑ رہے ہیں۔ ہم اپنی کم علمی کے سبب دوسری زبانوں کے نئے خیالات سے استفادے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔اگر ہم کسی زبان کو اچھی، کامیاب اور مؤثر تالیف کا تحفہ نہیں دے سکتے، تو دوسری زبانوں کے علمی سرمایوں کو منتقل کرکے اس فرض کفایہ کو ادا کرسکتے ہیں۔ اسی لیے کفیل احمد قاسمی نے لکھا ہے:
’’سچ یہ ہے کہ بے کار قسم کی طبع زاد کتابیں لکھنے کے مقابلے میں کار آمد کتابوں کے ترجمے کرنا علم کی زیادہ بری خدمت ہے۔‘‘(۱۰)
شمس کمال انجم کی تخلیقی ، تحقیقی اور تنقیدی زنبیل علمی فتوحات سے معمور ہے۔ پرورش لوح و قلم ان کا پیشہ ہے۔وہ کامیاب شاعر بھی ہیں۔ ان کا حال ہی میں شائع ہونے والاشعری مجموعہ ’بلغ العلی بکمالہ‘ علمی اور ادبی حلقوں میں بحث کا موضوع بنا۔ صرف اپنے موضوع کی وجہ سے نہیں، بلکہ اردو کی شعری کلاسیکی روایات کے تناظر میں بھی اس کو قابل مطالعہ سمجھا گیا۔وہ عربی اردو دو نوں دریاؤوں کے شناور ہیں، وہ دونوں زبانوں کے مقاربت و مواصلت کے رشتے کو از سر نو متحرک کرنا چاہتے ہیں، اس لیے انھوں نے ہندستان کے عربی داں اساطین کو بھی عربوں میں متعارف کرانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ان پر تنقیدی اور تحقیقی مضامین لکھے اور انھیں عربی ادب کے منطقے میں نمایاں کیا۔ مشہور شاعر حنیف ترین کے شعری مجموعے کا ترجمہ’بعیدا عن الوطن ‘کے عنوان سے کیا۔انھوں نے ترجمے کو تخلیق کا لمس عطا کیا ہے،ان کے ترجمے کو تخلیقی ترجموں کے باب کا سرنامہ بنایا جاسکتا ہے۔ ہم ان سے بس یہی استدعا کرسکتے ہیں کہ وہ اردو کے کلاسیکی شعری ورثے کو بھی عربی کا لباس عطا کریں تو یہ دوش ادب پر بڑا احسان ہوگا۔ کیوں کہ بقول پروفیسرکفیل احمد قاسمی’’ اردو میں گیسوئے ترجمہ اب بھی منت پذیرشانہ ہے‘‘۔امید ہے کہ ہماری یہ اپیل صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوگی۔تخلیقی چاشنی کے حامل ان کے ترجمے دوسرے نووارد مترجمین کے لیے بھی خضر راہ ثابت ہوں گے۔
حوالے:
(۱)عربی زبان کے منتخب اور نمائندہ افسانے، ص:۱۲، مکتبہ جامعہ نگر نئی دہلی،۱۹۹۶ء
(۲)ترجمے کافن، ڈاکٹر مرزا حامدبیگ، ص:۶۲کتابی دنیا، دہلی ۲۰۰۵ء
(۳)ایضا، ص:۸۸
(۴)جدید عربی ادب، ص:۲۰۵، الکتاب انٹرنیشنل، نئی دہلی ۲۰۰۵ء
(۵)ایضا، ص:۲۷۵-۲۷۶
(۶)عربی نثر کا فنی ارتقا، ص:۲۷۸، الکتاب انٹرنیشنل، نئی دہلی، ۲۰۱۲ء
(۷)ایضا، ص:۲۲۵
(۸)حدیث عرب و عجم، ص:۸۶، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی ۲۰۱۳ء
(۹)ماہنامہ شاعر بمبئی ستمبر ۲۰۰۶ء
(۱۰)پیش لفظ عربی نثر کا فنی ارتقا، ص:۹
آپ کے تبصرے