اسلام میں احکام شرعیہ اور عبادتوں کے اوقات کو سورج اور چاند سے جوڑ دیا گیا ہے جو اسلام کی آفاقیت کی دلیل ہے تاکہ پوری دنیا کے مسلمان ان شرعی احکام کو ان کے اوقات پر انجام دیں اور اس میں ان کے لیے کوئی پریشانی نہ ہو۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَٰلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ(سورة يونس:۵)وہی ہے جس نے سورج کو روشن بنایا اور چاند کو منور فرمایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور حساب معلوم کرسکو، یہ سب کچھ اللہ نے تدبیر سے پیدا کیا ہے، وہ اپنی آیتیں سمجھداروں کے لیے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے۔
وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا(سورة بنی اسرائيل:۱۲)ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں۔ رات کی نشانی کو تو ہم نے بے نور کردیا اور دن کی نشانی کو روشن بنایاتاکہ تم لوگ اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو اور اس لیے بھی کہ برسوں کا شمار اور حساب معلوم کرسکو اور ہر چیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان فرما دیا ہے۔
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ(سورة الانبياء:۳۳)اور وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن سورج اور چاند کو پیدا کیا،ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں۔
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ(سورة البقرة:۱۸)لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجیے کہ یہ لوگوں( کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لیے ہے۔
مذکورہ تمام آیتوں سے معلوم ہوا کہ سورج اور چاند اللہ رب العالمین کی نعمت ہیں جن کے ذریعے سالوں مہینوں اور دنوں کی تعیین کی معرفت ہوتی ہےاور وقت کا علم ہوتا ہے نیز اسلامی احکام مثلاً حج وغیرہ کا ان سے گہرا ربط ہے اور جو عبادتیں موقت ہیں ان کا وقت ان ہی کےذریعے معلوم ہوتا ہے اسی لیے اللہ نے سورج اور چاند کو گردش کرنے والے بنائے ہیں۔
بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے چاند بنایا تاکہ لوگ حج وعمرہ ،صوم و افطار اور قرض لین دین وغیرہ کے اوقات جان سکیں۔( معالم التنزيل للبغوى:۱/۷۰)
امام ابن کثیر ر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنی مخلوقات پر اپنی عظیم نشانیوں کے ذریعے احسان فرمایا ہے، ان میں سے ایک عظیم نعمت رات اور دن کو بدلنا ہے تاکہ رات میں سکون حاصل کریں اور دن میں معاش ،کاریگری، اعمال اور اسفار کے لیے پھیل جائیں اور اس لیے بھی کہ وہ دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کی گنتی معلوم کر سکیں اور قرض، عبادات اور معاملات واجارات وغیرہ کے مقررہ وقتوں کا علم حاصل کر سکیں۔(تفسير ابن كثير:۵/۴۶)
اسی طرح سنت کے ذخیرےمیں بہت ساری احادیث ہیں جن میں اسلامی عبادتوں کے وقت کا تعلق سورج اور چاند سے جوڑ دیا گیا ہے مثلا نماز کے اوقات سورج سے مربوط ہیں جیسا کہ جابر بن عبداللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے اوقات کو بیان کرتے ہیں کہ:
كَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَاجِرَةِ ، وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ ، وَالْمَغْرِبَ إِذَا وَجَبَتْ ، وَالْعِشَاءَ إِذَا كَثُرَ النَّاسُ عَجَّلَ وَإِذَا قَلُّوا أَخَّرَ ، وَالصُّبْحَ بِغَلَسٍ(صحیح بخاری:۵۶۵)آپ نماز ظہر دوپہر میں پڑھتے تھے اور جب نماز عصر پڑھتے تو سورج صاف روشن ہوتا، مغرب کی نماز پڑھتے جب سورج غروب ہوجاتا اورعشاء میں اگر لوگ جلدی جمع ہو جاتے تو جلدی پڑھ لیتے اور اگر آنے والوں کی تعداد کم ہوتی تو دیر کرتے۔ اور صبح کی نماز منہ اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے۔
اسی طرح صوم و افطار کو چاند سے جوڑا گیا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَصُومُوا ثَلَاثِينَ يَوْمًا(صحیح بخاری:۱۰۸۱)جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ اگر آسمان ابر آلود ہو تو تیس دن مکمل کرلو۔
ان روایتوں سے صوم وصلاۃ کا تعلق سورج اور چاند سے صاف ظاہر ہے کہ مومن ان احکام کی پابندی وقت پر کرے اور اس کا ادراک نظام شمسی اور قمری سے ہو یعنی جو مسلمان جہاں جس ملک میں بھی ہو وہ ان عبادتوں کی بجاآوری کے وقت نبی کے فرمان کے مطابق سورج اور چاند کے ذریعے وقت کا پتہ لگائے۔
صیام کا تعلق چاند سے یہ ہے کہ ماہ رمضان کا نیا چاند نظر آجائے تو روزہ فرض ہوجاتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں ایک ہی دن چاند نظر نہیں آتا گویا چاند کا مطلع الگ الگ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔
ابن عابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جان لیجیے کہ اختلاف مطلع کے وجود میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اس معنی میں کہ دو شہر یا ممالک جن کے درمیان کافی دوری ہو کبھی ایک شہر میں چاند نظر آتا ہے دوسرے میں نہیں آتا یہی حالت سورج کی بھی ہے۔( مرعاة المفاتيح:۶/۴۲۷)
اس لیے جہاں جس دن شرعی طورپر رویت ثابت ہوجائے وہاں اسی دن سے روزہ رکھا جائے۔ دوسرے ممالک جن کا مطلع الگ ہو ان کی رویت کا اعتبار نہ ہوگا اس کی دلیل صحیح مسلم(۱۰۸۸)سنن ابوداؤد(۲۳۲۷)اورسنن ترمذی(۶۹۳)کی روایت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
راوی حدیث کریب سے مروی ہے کہ ام الفضل بنت حارث نے کریب کو شام کے اندر معاویہ کی طرف بھیجا۔ کریب فرماتے ہیں شام آیا اور اپنی ضرورت پوری کی، رمضان کا نیا چاند طلوع ہوا ،میں نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا پھر اسی مہینہ کے آخر میں مدینہ آیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا کہ تم لوگوں نے نیا چاند کب دیکھا تھا میں نے کہا :جمعہ کی رات ،ابن عباس نے کہا تم نے دیکھا تھا ،میں نے کہا جی ہاں میں نے دیکھا اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ بھی رکھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا لیکن ہم لوگوں نے سنیچر کی رات کو دیکھا ہم روزہ رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ تیس مکمل کرلیں۔ میں نے کہا اے ابن عباس! کیا آپ شام کے اندر معاویہ کی رویت اور ان کے صیام کو کافی نہیں مانتے۔ ابن عباس نے کہا: نہیں ایسے ہی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔
یہ حدیث بین دلیل ہے مدینہ اور شام کی طرح جن ممالک کا مطلع الگ الگ ہے وہاں کسی ملک کی رویت دوسرے ملک کے لیے کافی نہیں ہوگی کیوں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما جو مدینہ میں تھے انھوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی رویت جو شام میں تھے کا اعتبار نہیں کیا اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس حدیث پر محدثین کی تبویبات ملاحظہ فرمائیں تاکہ ان کا فہم معلوم ہوجائے:
امام نووی رحمہ اللہ نے ’باب بيان أن لكل بلد رؤيتهم‘
امام ابو داود رحمہ اللہ نے ’باب اذا رئى الهلال في بلد قبل الآخرين بليلة‘
امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے ’اختلاف أهل الافاق في الرؤية‘
اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’باب ما جاء لكل أهل بلد رؤيتهم‘قائم کیا ہے۔
ان محدثین کے ابواب سے ان کا فہم ظاہر ہے کہ وہ اختلاف مطلع کو معتبر مانتے ہیں یعنی ہر ملک کے لیے الگ الگ رویت ہے۔
امام ترمذی فرماتے ہیں: اس حدیث پر اہل علم کا عمل ہے کہ ہر ایک شہر کے لیے الگ الگ رؤیت ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں :ہمارے اصحاب کے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ ایک جگہ کی رؤیت تمام لوگوں کے لیے عام نہیں ہوگی بلکہ ان لوگوں کے لیے خاص ہوگی جو قصر کی دوری پر نہ ہو۔( شرح النووي على مسلم:۷/۱۹۷)
امام زیلعی حنفی فرماتے ہیں: اکثر مشائخ اسی بات پر ہیں کہ اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں ہوگا مگر اقرب الی الصواب یہی ہے کہ اختلاف مطالع معتبر ہے۔ (تبيين الحقائق:۱/۳۲۱)
عبدالرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں:حدیث کریب دلیل ہے کہ ہر شہر والوں کے لیے الگ الگ رؤیت ہے کسی شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لیے کافی نہیں۔(تحفة الاحوذی:۳/۳۰۷)
علامہ عبید اللہ مبارکپوری فرماتے ہیں: اختلاف مطالع کا اعتبار کرنا ضروری ہے ورنہ اگر پوری دنیا میں ایک ہی جگہ کی رؤیت کو کافی مان لیا جائے تو کہیں ستائیس رمضان کہیں اٹھائیس ،کہیں اکتیس اور کہیں بتیس کو عید ہوجائےگی اس لیے بعض ملکوں میں کبھی ہمارے یہاں سے دو دن پہلے چاند نظر آجاتا ہے۔ (مرعاة المفاتيح:۶/۴۲۸)
مذکورہ نصوص اور اقوال سلف کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ رویت ہلال میں اختلاف مطلع کا اعتبار ہوگا۔ مختلف مطلع والے ممالک کا ایک دوسرے کی رؤیت پر اکتفا کرنا مناسب نہ ہوگا بلکہ اپنے ملک کی رؤیت سے صیام کی ابتدا کرنا اور اپنے ہی ملک کی رؤیت سے عید منانا مناسب ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ مطلع کا اختلاف کتنی مسافت پر ہوتا ہے تو اس سلسلے میں فقہاء نے مختلف باتیں کی ہیں لیکن علم جدید کی روشنی میں علامہ شیخ الحدیث عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ مطلع کی مسافت پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں: یہ بات ثابت ہوگئی کہ چاند جب کسی مغربی شہر یا ملک میں نظر آئے تو مناسب ہے کہ اس کا اعتبار ان مشرقی ممالک میں کیا جائے جو اس سے۵۶۰ میل کی مسافت کے اندر ہوں اور اس سے جو ممالک مغرب میں ہیں تمام ملکوں میں اسی رؤیت کا اعتبار کیا جائے خواہ وہ کتنی بھی دوری پر ہوں۔(مرعاة المفاتيح:۶/۴۲۹)
معلوم ہوا کہ پانچ سو ساٹھ میل مطلع کے لیے حد فاصل ہے،کسی ملک کی رؤیت ہلال اس سے مشرق کی طرف پانچ سو ساٹھ میل کی دوری تک کے لوگوں کے لیے کافی ہوگی اور اس سے مغرب کی جانب جتنے ممالک ہوں گے سب کے لیے کافی ہوگی اس لیے کہ مشرق میں طلوع ہلال کا لازمی معنی ہے کہ مغرب میں بھی طلوع ہوا ہے۔
اس کے برعکس بہت سارے علماء ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اختلاف مطلع کا اعتبار نہیں ہوگا یعنی پوری دنیا میں کہیں اگر رویت ہلال شرعی طور پر ثابت ہوجائے تو ضروری ہے کہ تمام مسلمان اسی رویت پر اعتماد کریں۔اسی کے قائل شیخ الاسلام ابن تیمیہ (مجموع الفتاوی:۲۵/۱۰۵)علامہ شوکانی(نيل الاوطار:۴/۲۳۱)اورعلامہ نواب صدیق حسن خان(الروضة النديۃ:۱/۲۲۵)وغیرہم ہیں۔
ان کے دلائل درج ذیل ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ، وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ، وَالْأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ : إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا أَنَّ الصَّوْمَ وَالْفِطْرَ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَعُظْمِ النَّاسِ( سنن ترمذى:۶۹۷)یعنی روزہ اس دن ہے جس دن تم روزے رکھو، افطار اس دن ہے جس دن تم افطار کرو اور قربانی اس دن ہےجس دن تم لوگ قربانی کرو۔
اس حدیث سے وحدت رویت ثابت ہوتی ہے۔ صوم اسی دن سے رکھنا ضروری ہے جس دن تمام مسلمان رکھیں خواہ وہ قریب کے ہوں یا بعیدمگر شارحین حدیث نے جو اس حدیث کا معنی بیان کیا ہے اس سے یہ معنی میل نہیں کھاتا۔ خود امام ترمذی رحمہ اللہ بعض اہل علم سے اس حدیث کا معنی نقل کرتے ہیں کہ صوم وافطار جماعت اور بہت سارے لوگوں کے ساتھ ہو۔
سندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کا معنی یہ ہے کہ حدیث میں مذکور امور میں افراد کا دخل نہیں ہے اور نہ انھیں انفرادی طریقہ اختیار کرنے کا حق ہے بلکہ معاملہ امام اور جماعت پر ہوتا ہے اور لوگوں کو امام اور جماعت کی اتباع کرنا ضروری ہے۔
اس بنیاد پر اگر کوئی چاند دیکھ لے اور امام اس کی گواہی قبول نہ کرے تو ان امور میں کچھ بھی انفرادی طریقہ اختیار کرنا اس کے لیے مناسب نہیں ہوگا اور اس پر جماعت کو لازم پکڑنا فرض ہوگا۔ (حاشيۃ السندی على سنن ابن ماجہ:۱/۵۰۹)
اسی طرح وہ ان تمام دلائل سے استدلال کرتے ہیں جن میں تمام مسلمانوں کو چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر افطار کرنے کو کہا گیا ہے اور ان میں قریب و بعید مطلع وغیرہ کی کچھ بھی تفصیل نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں بھی شرعی طور پر رؤیت ثابت ہوجائے تو تمام مسلمان اس کا اعتبار کرتے ہوئے روزہ رکھیں اور عید منائیں مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے، چند وجوہات کی بنیاد پر:
پہلی وجہ:اسلام پوری دنیا کے لیے آیا ہے اور اس کا خطاب تمام مسلمانوں سے عام ہے۔رویت کا حکم تمام خطوں کے لیے ہے۔
دوسری وجہ:یہ چیز امر واقع ہے کہ چاند ایک ہی دن پوری دنیا میں نظر نہیں آتا ہے بسااوقات دودن کا فرق بھی ہوجاتا ہے تو اگر خبر پر اعتماد کرتے ہوئے لوگ روزہ رکھ لیں اور وہاں چاند دو دن بعد طلوع ہو تو کیا اسے
إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، یا اس طرح کی حدیثوں پر عمل کرنا کہا جائے گا ؟ظاہر ہے کہ نہیں۔ اس لیے کہ وہاں ابھی طلوع ہلال ہی نہیں ہوا ہے تو امر نبوی رویت پر عمل کیسے؟
تیسری وجہ:صیام رمضان کی فرضیت دو ہجری میں ہوئی اور مسلسل۹ سال تک مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان کے روزے رکھتے رہے مگر کسی بھی روایت میں یہ ثابت نہیں کہ آپ نے کبھی مکہ یا دیگر ملک کی رؤیت کا پتہ کیا ہو یا وفد بھیجا ہو۔
چوتھی وجہ: اسلام دور نبوی میں مکمل ہوچکا ہے اس میں کچھ حذف واضافہ جائز نہیں۔ زمانۂ نزول وحی کے وقت یہ جدید وسائل نہ تھے جن سے وہ دیگر ممالک کی رویت کی خبر حاصل کرتے، اس کے باوجود ان کا عمل اللہ کو محبوب تھا تو کیا آج جدید ذرائع کی وجہ سے نعوذباللہ یہ ربانی معیار بدل جائے گا ؟ قطعا نہیں۔
پانچویں وجہ : صحیح مسلم کی حدیث کریب (جو گزر چکی ہے) جو صریح ہے اور فیصلہ کن ہے جس سے اعتبار اختلاف مطلع کا ثبوت ملتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں یہی بات حق ہے کہ جن ممالک کا مطلع الگ الگ ہے ان میں سے کسی ایک کی رؤیت دوسرے کے لیے کافی نہیں ہوگی بلکہ ہر ملک میں اپنی اپنی رؤیت سے صیام وافطار کا اہتمام کرنا مناسب ہوگا۔
آخر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں حق کو حق سمجھنےاور اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین
جزك الله
ماشاء اللہ
بارك الله فى علمك و أعاد علينا من بركتك آمين
علمی مضمون ہے استدلال کا نرالا انداز!