نئی دریافت، الحاد کی ایک نئی شکل

عبدالمعید مدنی ردود

نئے مرزا اسداللہ غالب کی نئی دریافت ایک تحریکی واسکوڈی گاما ’اسرارعالم‘ کی ہے۔ تفصیل ان کی جناتی زبان میں سنیے:
’’اسلامی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتاہے کہ واقعہ کربلا (۶۸۰ء) کے بعدامت مسلمہ محمدیہ کی فکری علمی اور ادارہ جاتی بحالی کے لیے سب سے توانا اورمعجزنما آثار انیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان میں بلند ہوئی۔ یہ آواز تھی مرزا اسداللہ خاں غالب (۱۷۹۷-۱۸۶۹ء) کی ‘‘۔(سرسید کی بصیرت: ص۵۳)
یہ ایک چھوٹا سا اقتباس (پراسرار) صاحب کی ایک نئی خرافات کا ہے جس کا نام ہے ’’سرسید کی بصیرت‘‘۔اس ایک چھوٹے سے اقتباس میں ’’پراسرار‘‘صاحب نے اساطیریت کے ہفت افلاک طے کرلیے ہیں ۔ جناب نے اس میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ تاریخ اسلام میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے اہم شخصیت مرزا اسداللہ غالب کی ہے جس طرح انھوں نے اسلامی خلافت کی بحالی کے لیے عظیم قربانی دی اسی طرح مرزا اسداللہ غالب نے دی اورامت کو قرون مظلمہ سے نکالنے کا اورسارے علمی اجتہادی فکری ادارہ جاتی عمل کی بحالی کا شعور دیا غالب (پراسرار صاحب کے مطابق) اسلامی تاریخ میں وہ پہلی شخصیت ہیں جن کو زوال امت کے متعلق حقیقی آگاہی حاصل ہوئی۔ سرسید غالب کے معنوی فرزند ثابت ہوئے، غالب کا لاہوتی انفجار واقعہ کربلا کے بعدواقع ہونے والا سب سے بڑا انفجار تھا جس نے یکے بعدتین مسلسل انفجارات کو جنم دیا۔ یہ تین انفجارات درج ذیل ہیں:
۱۔سرسید (۱۸۱۷-۱۸۹۸) کا فکری انفجار
۲۔حالی (۱۸۳۷-۱۹۱۴)کا علمی انفجار
۳۔اقبال (۱۸۷۵-۱۹۳۸) کا حرکی انفجار۔(سرسید کی بصیرت: ص۵۴)
اسرار صاحب کی یہ نئی دریافت اورغالب کے لاہوتی انفجار سے تین انفجارات کا تماشا دیکھ لیاگیا ہے اب سوال یہ ہے کہ اسرارصاحب کی اس دریافت کا مصدر کیا ہے؟ اب تک تویہ طے شدہ بات کے طو رپر مانی جاتی تھی کہ غالب اردو کے سب سے بڑے شاعر تھے لیکن بطور انسان زمانے کے سب سے گھٹیافرد تھے۔ شرابی بے نمازی، بدعقیدہ بددین، عیاش، کام چور، ابن الوقت، غدار ملک ووطن مغل اور استعمار دونوں کے دربار کا وظیفہ خور یا وظیفہ خوار طوائف کے ہاں رسم وراہ رکھنے والے دین کا مذاق اڑانے والے۔ اسرار صاحب سے پہلے سیکڑوں لوگ غالب شناسی کے عنوان سے اپنی زندگیاں اکارت کرچکے ہیں اورامت مسلم کے لیے روخسی چھوڑا ہے۔ کیا یہ نئی دریافت بحر میت سے بائبل کے نئے اسکرول کی دریافت کی مانندہے جس نے یہودی ونصاری کے کئی مسلم حقائق کو افسانہ بنادیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ کسی پرانے اندھے کنویں سے اسرا رصاحب نے کوئی غالب نامہ دریافت کیا ہے جہاں جن انھیں اٹھاکر لے جاتے ہیں اوران کو جناتی بولی اورجناتی فکر سکھاتے ہیں ۔ جناتی اندھے کنویں میں جنوں کے ساتھ رہتے ہوئے انھوں نے غالب نامہ دریافت کیا جس میں غالب کے ولی ہونے امت مسلمہ کے سب سے باشعور اورسمجھدار فرد ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ اورانھیں اسلام کی تاریخ کا سب سے نمایا ں فرد بتلایا گیا ہے۔
اگرایسا ہے توہمیں مان لینا چاہیے کہ ’سرسید کی بصیرت‘ کی اسطوریت اورجناتی زبان کا تعلق کسی اندھے کنویں سے دریافت غالب نامے سے ہی ہے۔ اسے ہمیں اس لیے بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ ایک بگڑی قوم کا تعلق بابل کے اندھے کنویں سے قدیم میں جڑا تھا اوراس میں ہارت وماروت بھی گرفتار ہوگئے تھے۔ اندھے کنویں کی پرانی اسطوریت کے شاگرد ’پراسرار‘ صاحب بھی ہیں۔ وہ بھی اسی پرانے نسخہ سحر اور اسطوریت کو مسلمانوں کے علاج کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
اورایک وجہ نئی دریافت کی یہ بھی ہے کہ جناب عرب کے خرافہ سے اپنا رشتہ رکھتے ہیں اسے جن اٹھالیے گئے تھے اورسات سالوں تک اسے جنوں نے اپنے ساتھ رکھا اس کے بعد اسے انسانی آبادی میں لائے اس مدت میں اس کا لب ولہجہ بدل چکا تھا اوروہ بشری اورزمینی باتیں نہیں کرتا تھا اس کی باتیں غیر مفہوم ہوتی تھیں اس لیے اسے خرافہ نام مل گیا اوراس کی باتو ں کو خرافات کہا جانے لگا۔ یہی لفظ اردو میں رائج ہے ہربے معنی غیر مفہوم اورلایعنی بات کو خرافات کہا جاتاہے ۔ اسرار صاحب وقت کے خرافہ ہیں اوران کی باتیں خرافات اورخرافیوں کا ان کا ساتھ ہے ۔
اس کا بھی امکان ہے کہ اورامکان کے نام پر سب کچھ ناجائز ہوتاہے تحریکیت یہی کہتی ہے۔ ممکن ہے کسی اصحاب کہف کے ایک فرد ’پرسرار‘ بھی ہوں اورکسی صالح غالب کا غالب نامہ لے کر بھاگے ہوں اورکئی صدیوں بعدلوٹے ہوں توطالع غالب سے سابقہ پڑاہو اورانھیں طالع غالب پسند نہیں اب وہ تصوراتی ذہنی معہود قدیم صالح غالب کا شجرہ حجرہ پیش کرکے انھیں امت محمدﷺ کا باشعور امتی اور مصلح اکبر بناکر پیش کرنے کا فریضہ ادا رکررہے ہیں۔ اگرایسا ہے تواسے بھی تاریخی حقیقت مان لیناچاہیے۔ اورعلامہ حالی جیسے انفجاری عالم کے تجزیے پراگر اسرارصاحب عمل کریں توان کے لیے ساری راہیں آسان ہیں۔
اسرارصاحب نے دیکھا’مسلمانوں پر ساری راہیں کشادہ ہیں‘ توانھوں نے اسطوریت کی راہ اپنالی اور اپنی پسند کا ایک غالب چنا غالب کا شعور پڑھا اس کی خواہش کے مطابق (تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوارہوتا) اسے بادہ خواری کی راہ سے ہٹادیا اورولی بناکر انھیں اپنی خواری کی راہ پر لگادیا۔ افسوس تویہی ہے اگرجناب غالب کوولی بنے رہنے دیتے تویہی مسلمانوں کے فکری ہاضمے کے لیے بہت ثقیل ہوتا انھوں نے توغالب کو ولی بنانے کے لیے چودہ سوسال سے فیکٹری لگادی اور انھیں کل امت میں ولی پیدا کرنے کا ٹھیکہ دے دیا۔ ہمیں ڈرہے کہ اسرارصاحب’مسلمانوں پر کھلی کشادہ راہوں‘ پرچل کرکہیں ایسا نہ کر بیٹھیں کہ ڈاکٹر سبرامنیم سوامی، موہن بھاگوت، ارون شوری، ادتیہ ناتھ، پرتگیاٹھاکر اوراوما بھارتی کولاکر کسی دن مسلمانوں کے دروازے پر کھڑاکردیں اورمسلمانوں پر ڈانٹ لگائیں لو یہ تمھارے مسیحا ہیں ان کا آدر کرو، ان کے چرنوں میں گرجاؤ اوران کا سمان کرو۔ اسرارصاحب سے بعید نہیں ہے کہ وہ ’کشادہ راہوں‘ پر چل کر ایسا بھی کرگذریں اوریہ بھی بعیدنہیں کہ’اردوبک ریویو‘ والے سب سے پہلے ان کا حکم مان کر ان کے چرنوں میں دھڑام سے گرجائیں اورانھیں اپنا مسیحا مان لیں۔ اسرارعالم کی دجالی فکر پر اور’بحران امت‘ کے الحادی نظریے پر میں نے مختصر تبصرہ کیا تھا اگر رد لکھیں توسطر سطر کی تردیدکرنی ہوگی اوراتنا لکھنا پڑے گا کہ تحریریں ان کی قدکے برابرپہنچ جائیں گی۔
رد لکھنا ایک دلچسپ فریضہ بھی ہے۔ اورایک ناخوشگوار کام بھی لیکن کیا کیا جائے فکرونظر کے اتنے ککرمتے پیدا ہوگئے ہیں کہ اگران کو تلف نہ کیا جائے توزندگی زہریلی بن جائے گی۔ لوگوں کا دین ایمان خراب ہوجائے گا۔ تحریکیت اورخارجیت کی سوء فہمی کی ایسی بدہضمی ہے کہ چاروں طرف قے اوراستفراغ کی بدبوپھیلی ہے اورڈرہے کہیں اس سے بدعملی اورسوء فہمی کی مہاماری نہ پھیل جائے۔ شاذ اور اسرار کی ساری تحریریں سوء فہمی کی بدہضمی کا استفراغ اوربدبودار قے ہیں جن کی طرف دیکھنے سے بھی گھن آئے۔ انھوں نے گھاٹ گھاٹ کا پیا کھایا ہے اورتصورات کے اڑن کھٹولوں پر بیٹھ کر اوہام پالا ہے انھیں بدبودار تصورات اور اوہام کی بدہضمی ہے۔
سوال یہ ہے کہ فکری بدہضمی کی بدبودار قے اوراستفراغ کا ردکون کرے؟ اورکیا اس کی ضرورت ہے؟ عصر حاضر کے خرافہ کی خرافات کیا لائق التفات ہیں کہ ان کا رد لکھا جائے، ان کو پنگھٹ تک پہنچانے کے لیے زیادہ ضروری یہ ہے کہ احزاب تنظیمات اورمفتیان کرام ان کی کفریہ باتوں پر نوٹس لیں اوران کے ایمان عقیدے اورنظریے کے متعلق شریعت کا صحیح فیصلہ صادر فرمائیں اوران کے بدبودار فتنوں سے لوگوں کو بچائیں۔ شاذ اور اسرارتحریکیت کے حنظل اورتھوہڑہیں اوراگرجائزہ لیا جائے توتحریکیوں کی معتدبہ تعداد شاذ اور اسرار نکلے گی ۔تحریکیت جس چیز کا نام ہے اس سے اسرار وشاذ ہی پیدا ہوسکتے ہیں سریت اورشذوذ ان کے نیچر میں داخل ہیں۔ یہ دونوں اس وقت امت کے ولین (VILLIAN) ہیں۔ ان کی تحریریں پڑھنے سے ایسا لگتاہے جیسے کسی دیوانے نے چتھڑے پہن رکھا ہے کنکر پتھر چتھرے میں جمع کرتا ہے اورانھیں حروف کا روپ دے کر تحریری شکل دے دیتا ہے اورانھیں بدنصیبوں کوسرٹکرانے کے لیے چھوڑرکھتاہے۔
رہی سرسید کی بصیرت ؟ توکب وہ امت کے کسی ادنی ثقہ عالم کے لیے قابل قبول رہی ۔ استعمار، غلامی، استشراق پرستی، انکار حدیث، تاویل باطل اورمادہ پسندی کیا اس کو ادنی درجے میں درجہ قبولیت مل سکتی ہے؟ امت کا مسئلہ ایک کالج قائم ہونے سے حل توہونے سے رہا۔ اوروہ ان کی ڈکٹیٹرشپ کے سبب بند ہونے کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔ سرسید علیہ الرحمہ کی گردان لگانے والے حضرات کے پاس امت اسلامیہ ہند کی نجات اصلاح ترقی اورتعلیم کے لیے کون سا پلان تھا یہی نہ کہ ملک کے زمینداروں جاگیرداروں اورنوابوں کے بچے استعمار کی بولی بولیں، چال چلیں مغربی بن جائیں اور انگریزوں کی نوکری کریں۔ ان کے تقطیری نظام تعلیم میں غریبوں کے لیے جگہ نہیں ۔ آج توسرسید مجانین سرسید کی تحریر کے چند جملوں سے زراعت کا اکسپرٹ اورماہر ثابت کرتے ہیں ۔ سیاست حکومت تعلیم معاشیات سماجیات عائلی زندگی اوردیگر ان گنت مسائل کے لیے ان کے پاس کون سا اسلامی منصوبہ تھا۔ انھوں نے سائنٹفک سوسائٹی سے رسول گرامی پر ایک مستشرق کی کتاب چھاپ دی اس میں رسول پاک کو ’پیغمبرباطل‘ لکھا گیا تھا اس لیے مولوی سمیع اللہ نے اس کی سکریٹری شپ سے استعفیٰ دے دیا اورناراض ہوکر سوسائٹی چھوڑگئے۔ وہ تضاد کی پوٹ تھے اسلامیت کا مظاہرہ بھی اور مغرب کی مکمل غلامی بھی اورذہن سراسر مغربی نقالی میں۔
کالج میں پوری ملت کا سرمایہ لگا لیکن خودسرسید کی بے تدبیری سے ان کی زندگی کے آخری مرحلے میں بندہونے کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔ اللہ کا کرم تھا کہ اس نے محسن الملک کو کالج کا مسیحا بنا کر بھیج دیا انھوں نے سات سالو ں کے اندر اسے مضبوط اورپائیدار بنادیا اورکالج کو مستشرقین کے چنگل سے نکالا۔ ان کے بعدوقار الملک نے اس کو سنبھالا پھر ۵؍لاکھ سرمایہ ملت نے دیا اور استعمار گورنمنٹ کی شرط پوری ہوئی اوریونیورسٹی بن گئی لیکن ۱۹۲۰ء تا ۱۹۴۷ء قوم وملک سے الگ تھلگ استعماری غلامی میں پڑی رہی۔ جمود اوربے تدبیری کا مظاہرہ ہوتا رہا او راپنوں کی حماقت اورغیروں کی سازش کے نتیجے میں مطالبہ تقسیم ہند کے مسلم یونیورسٹی ہتھے چڑھ گئی اوراس حماقت میں آزادی کے بعد وہ اپنے وجود کا حق کھو بیٹھی تھی لیکن کسی سرسید بچے نے اس کی نشاۃ ثانیہ نہیں کی ایک عالم آزاد ہندوستان کے وزیرتعلیم نے اسے بحال کروایا جب کہ سارے جمود پسند بزعم خویش اسلام پسند تحریکی یونیورسٹی کے اندر اورباہر انھیں گالی دیتے تھے۔ علی گڈھ چنڈوخانوں کا پلا ایک رافضی نے توانھیں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث بتانے کے لیے ایک سڑی کتاب لکھ ڈالی اور اس کے شاہینوں اور اس کے نعرۂ پاکستان کے دیوانوں نے علی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر اس کی توہین کی تھی۔ سرسید یا ان کے ہم نواؤں کی اہمیت اس حدتک ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے لیے سیکولر تعلیم کے بارے میں سوچا لیکن ان سے پہلے ساوتھ اورمہاراشٹر کے مسلمانوں نے سوچا اورآج بھی ان کے ادارے مسلم یونیورسٹی سے بڑے ہیں۔ لیکن انھوں نے’سرسیدعلیہ الرحمہ‘ کی جھوٹی گردان نہیں لگائی نہ انھوں نے اپنے اداروں کو مسلم یونیورسٹی کی طرح یتیم خانہ بننے دیا اور۸۰فیصد انکار حدیث یہی سے پھیلا اوریہاں دین کے نام پر سارے الحاد قابل قبول ہیں اور ایسا ماحول ہے کہ نت نئے شاذ جیسے جوکر یہاں رسائی پا جاتے ہیں۔ ایک سیکولر یونیورسٹی اس پوزیشن میں نہیں رہتی کہ امت اسلامیہ کو بہت زیادہ کچھ دے سکے۔ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے پیٹ پالنے کا انتظام کرسکتی ہے اوربس آخراس یونیورسٹی نے جس کی دہائی لگائے لوگ تھکتے نہیں ہندوستان کے مسلمانوں کی کون سے بنیادی ضرورت پوری کی ہے۔ کیا مسلمانوں کے لیے کوئی تعلیمی پالیسی دی؟ یا اس کی کوئی معاشی رہنمائی کی، لیگل میدان میں مسلمانوں کے دفاع کا کوئی بنیادی رول پلے کیا۔ یہ تواپنا اقلیتی کردارنہ بچا سکی کیا اس نے مسلمانوں کے لیے صحت اور سماجی امور کے سلسلے میں کوئی لائحہ عمل دیا یا رہنمائی کی۔ زراعت میں مسلمانوں کے لیے کچھ کیا؟ آخر کیا کیا، بندہ جیب وشکم پیدا کیے جو اپنی ذات میں بندہوکر رہ گئے یا ایک دورمیں کمیونسٹ پیدا کیے اورتوجانے دیں اردو کے تحفظ کے لیے اس نے کیا کیا؟
اسرارصاحب جیسے مداری اورشیخ چلی لگتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے ہندوپروہتو ں کی مانند یگیہ کرتے ہیں روحانی طاقت بٹورکر امت کو لمحوں میں بنانے بگاڑنے کا غالب سرسید اقبال مودودی اور شاہ ولی اللہ کا وَردان بانٹتے پھرتے ہیں۔ پوری تاریخ اسلام میں شاید شاذ اوراسرار جیسے احمق پیدا نہیں ہوئے اورنہ اتنے بددماغ۔ یہ خوش فہم، شیخی باز علمی حرکی فکری ولاہوتی انفجار سے جھٹکے لگواکر مسلمانوں کو برباد کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اورواقعہ تویہ ہے کہ بطورامت امت کی پہچان اورشناخت ہی نہیں رہ گئی مسلمان شیع واحزاب بن کر رہ گئے اورامت کی عمارت کی ساری دیواریں ڈھے گئیں ۔ سرسید کیا وہ تمام علماء قائدین زعماء جن کا ذکر ڈیڑھ دو صدیوں سے چل رہا ہے سب مل کر ملت کی گرتی دیوار کو تھام نہ سکے۔ ان کے لیے یہی بس تھا کہ انھوں نے وسعت بھر اخلاص کے ساتھ خدمت دین اصلاح امت اورتعمیر ملت کا کام کیا۔ اگریہ بھی نہ ہوتا تومسلمانوں کانام ونشان مٹ جاتا اور جن لوگوں نے مختلف سیاسی تعلیمی تحریکوں کے نام سے ملت کو تباہ کیاہے ان کامحاسب اللہ ہے۔
جوتحریک دعوت یا مشن ان کے کارکن ورہنما عوام سے نہیں جڑپاتے ان کی افادیت یا کامیابی کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے۔ مسلم یونیورسٹی کبھی ملت سے جڑہی نہیں پائی اورکبھی عوام سے اپنا عملی اور افادی وجودمنواہی نہیں پائی۔ میں اس پیمانے کی افادیت اورعملی وجودکی بات کرتا ہوں جس کا چرچا ’سرسید علیہ الرحمہ‘ کی تسبیح پڑھنے والے ہرموقع بے موقع چلاتے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے انھوں نے شیعوں کی اس سلسلے میں راہ اپنالی ہے وہ ۱۴؍سوسالوں سے حضرت حسین کے لیے روتے نہیں تھکتے ہیں اوریہ سرسید کی ساری خوبیوں خامیوں اخطار اورگمراہیوں کا بکھان کرتے نہیں تھکتے۔ ’اسرار‘ جی کی طرح ایک شذوذ پسند شاذ صاحب ہیں یہ بھی ملت اسلامیہ ہند کے لیے ولین بنے ہوئے ہیں اور الحادی تحریرییں چھاپنے کا شوق پالے ہوئے ہیں۔اس وقت اس سرپھرے کی ساری سرگرمیاں دین وملت کے ڈھانے پر لگی ہوئی ہیں۔ کن دشمنا ن اسلام کا یہ ساختہ پرداختہ ہے اوریونیورسٹی میں پلانٹ کیا گیا ہے کہ وہاں بچوں میں اپنے سارے فتنے پھیلائے اور بزعم خویش علامہ بنے؟
بڑی مشکل یہ ہے کہ یہ چوزے عقل کے کچے، علمی اورفکری طورپر نابالغ، چوپایوں کی مانند علم وثقافت سے بیوہار کرتے ہیں اورہلدی کی ایک گانٹھ سے پنساری کی دکان کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ فکری طور پر یہ نابالغ خود فیصلہ کرلیتے ہیں کہ ان سے بڑا قابل کوئی نہیں اس لیے یہ کسی کی بات پر کان نہیں دھرتے۔
شاذ صاحب نے ’اسلام کا متحدہ منشور‘ پیش فرمایا ہے۔ کتاب سے لگتاہے اس شحص کونہ اسلام کا مطلب معلوم ہے نہ ملت کا نہ تاریخ کا ،تمام فرق کی ساری کجیوں کمیوں ضلالتوں کفریات شرکیات انحرافات تاویلات بدعات تحریفات کو اپنے پاگل پن سے صداقت کی سند دینے چلے ہیں۔ یہ جہالت الحاد اورکفریات کی کتاب ہے اس کے لکھنے کو اللہ تعالیٰ دنیا کی ساری رسوائیوں سے دوچار کرے آمین۔ اتحاد کا یہ منشور الحاد کا منشور ہے اور دین کو ہوس ذات کے گرد گھمانے کی گھناؤنی کوشش۔ اس شخص کو اتحاد اور الحاد کے درمیان فرق نہیں معلوم ہے اور چلا ہے اسلام کا متحدہ منشور پیش کرنے۔ مشکل یہ ہے ان جاہلوں کی حماقت پر کیا لکھا جائے اور علم کو رسوا کیا جائے۔ ان کا واحد علاج ہے مدارس کے افتاء اور علماء ان کے خلاف ایکشن لیں اور ان کی کفریات سے ملت کو بچائیں۔
علماء اثبات کا کام نہیں کہ ہر لاخیرے اور سڑک چھاپ جاہل کا رد لکھیں۔ علمی باتوں کا جواب علمی ہوتا ہے۔ لاخیروں کا علاج جن کے پاس فقط توہمات تلبیسات اور کفریات ہیں ان کے لیے مفتیان کرام اور علماء کا فتوی اور فیصلہ کارگرہوتا ہے۔ امت کو ان کے زہر سے بچانے کے لیے انھیں ایکشن میں آنا چاہیے اور ان کے خلاف اپنا فیصلہ صادر کرنا چاہیے۔ یہ دونوں جاہل اپنی جہالت کو علم و فہم بنائے ہوئے اور خصوصا تحریکیوں لونڈوں کے لیے گمراہی کا سامان بنے ہوئے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ ان گمراہوں کے لیے ان کی اوقات بتا دیں اور ملت کو ان عذابوں سے بچائیں۔

آپ کے تبصرے

3000