بینکوں کے سود سے متعلق ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں صاحب کا موقف اور ان کے اشکالات کا جواب

محمد ضیاء الحق تیمی ردود

ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں صاحب نے ابھی حال ہی میں ”مسلم معاشرے کی خرابیاں اور ان کے سدھار کے سبیل“ کے عنوان سے ایک مقالہ پیش کیا تھا، مقالہ منجملہ گرانقدر اور شاندار تھا، لیکن اس میں آپ نے بینکوں کے سود سے متعلق اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا: ”اس سلسلے میں ایک بات قابل غور ہے کہ بینکوں کا انٹرسٹ یا منافع وہ ”سود“ یعنی ربا نہیں ہے جس کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے“ اس کے بعد آپ نے اپنے اس موقف کی تائید میں چند دلائل ذکر کیے جو در اصل اشکالات ہیں، زیر نظر مضمون میں ان ہی اشکالات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
پہلا اشکال: ”پہلی بات تو یہ ہے کہ بینک ہم سے قرضہ نہیں لیتا ہے بلکہ ہم خود بینک میں اپنی ضرورت اور حفاظت کی خاطر اپنے پیسے جمع کراتے ہیں“۔
شاید ڈاکٹر صاحب کا مقصد اس سے یہ ہے کہ بینک میں جو پیسے جمع کرائے جاتے ہیں وہ بطورِ قرض نہیں بلکہ امانت ہیں، کیوں کہ بینک کو ہمارے پیسے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم خود اپنی ضرورت کی خاطر اپنے پیسے جمع کراتے ہیں، اس لیے وہ جو منافع دیتا ہے وہ سود نہیں ہے۔
اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے کسٹمر کے ساتھ بینک کے تعامل کی نوعیت کو جاننا ضروری ہے، چنانچہ بینک میں جو اکاؤنٹ کھلوائے جاتے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں:
کرنٹ اکاؤنٹ: اس اکاؤنٹ میں لین دین ہمیشہ ہوتا ہے، اس میں جمع کی گئی رقم کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے، یہ کہیں سے بھی نکالی جا سکتی ہے اور اس کی واپسی پر کوئی پابندی نہیں ہوتی ہے۔ بینک عموما اس میں جمع کی گئی رقم پر کوئی سود کی شرح نہیں دیتا ہے۔
اس اکاؤنٹ میں جو رقم جمع کی جاتی ہے اس کی نوعیت قرض کی ہے یا ودیعت کی؟ درج ذیل دلائل کی روشنی میں اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(١) کرنٹ اکاؤنٹ میں پیسے رکھنے سے ہی بینک ان کا مالک ہو جاتا ہے اور اسے ان میں تصرف کرنے کا پورا حق ہوتا ہے، اور اس تصرف سے کسٹمر راضی بھی ہوتا ہے جب کہ عقدِ ودیعت (امانت) کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے مال کو دوسرے کے حوالے بطور امانت حفاظت کے لیے رکھے، اور امانت دار اسی نیت سے لے، اور جس وقت صاحبِ امانت اپنی امانت واپس مانگے امانت دار بعینہ اس مال کو فورا دے دے، امانت دار کو اس میں کسی بھی قسم کے تصرف کا حق نہیں ہوتا ہے۔
(٢) اس میں بینک اس بات کا ضامن ہوتا ہے کہ کھاتا ہولڈر کو اس کی رقم ہر صورت میں واپس کرے، جبکہ عقد ِ ودیعت میں امانت دار ضامن نہیں ہوتا ہے الا یہ کہ اس سے مال کی حفاظت میں کوتاہی سرزد ہوئی ہے، بلکہ طرفین میں سے کوئی بھی اس شرط کو اپنے اوپر لازم کرے تو وہ شرط فاسد قرار پائے گی، کیوں کہ یہ عقد ودیعت کے منافی ہے۔
(٣) بینک اس مال کو بطور امانت قبول نہیں کرتا ہے کہ بلکہ اس میں تصرف کرنے کے لیے قبول کرتا ہے، تاکہ اس کا استثمار کرے اور اپنے کام میں لگائے اور یہ قرض کی صورت ہے، کیوں کہ قرض کی تعریف ہے”مال کسی دوسرے کو دینا تاکہ وہ فائدہ اٹھائے اور اس کا بدل لوٹائے“۔(1)
اور عقود کے باب میں اصل اعتبار معانی کا ہے نہ کہ الفاظ کا، لہذا اس کو گرچہ مجازا ودیعت کہا جاتا ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے یہ ودیعت نہیں ہے کیوں کہ اس میں اس کے شروط نہیں پائے جاتے ہیں بلکہ یہ قرض ہے۔
البتہ ایک اشکال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ قرض میں اصل مقصد قرض دار کے ساتھ احسان اور ہمدردی ہے، جب کہ بینک ہمارا محتاج نہیں ہوتا ہے بلکہ ہم اس کے محتاج ہوتے ہیں اور ہم اپنی ضرورت کی خاطر اس میں اپنے پیسے جمع کراتے ہیں، اس لیے یہ قرض کیسے ہو سکتا ہے؟ تو ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ قرض کے لیے قرض دار کے ساتھ احسان و ہمدردی کا ہونا شرط نہیں ہے۔
اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
(١) حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”۔۔۔ان کے والد زبیر رضی اللہ عنہ پر جو قرض تھا اس کی صورت یہ تھی کہ لوگ ان کے پاس مال بطور امانت رکھنے کے لیے آتے تھے تو زبیر رضی اللہ عنہ ان سے کہتے تھے کہ«لاَ وَلَكِنَّهُ سَلَفٌ، فَإِنِّي أَخْشَى عَلَيْهِ الضَّيْعَةَ» ”نہیں یہ امانت نہیں بلکہ قرض ہے کیوں کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ مال مجھ سے ضائع نہ ہو جائے“، اسی روایت میں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ آگے کہتے ہیں کہ میں نے ان کے قرض کا حساب لگایا تو 22 لاکھ ان پر قرض تھا۔(2)
وجہ استدلال یہ ہے کہ زبیر رضی اللہ عنہ کو مال کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ وہ خود کافی مالدار تھے لیکن آپ امانت رکھنے والوں کے مال کو بطور قرض قبول کرتے تھے تاکہ ضائع ہونے کی صورت میں بھی وہ ان کے ضامن ہوں، تو یہاں پر زبیر رضی اللہ عنہ گرچہ قرض دار ہیں لیکن وہ خود محتاج نہیں بلکہ لوگ خود اپنی ضرورت کی خاطر اپنے پیسے ان کے پاس جمع کراتے تھے۔
ابن حجر فرماتے ہیں: ”کہ زبیر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ”نہیں یہ قرض ہے“ کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی سے مال کو بطور امانت قبول نہیں کرتے تھے جب تک وہ اس کے ذمے میں نہیں رکھتے تھے اور اس سے ان کا غرض یہ ہوتا تھا کہ کہیں یہ مال ضائع نہ ہو جائے اور لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ انھوں نے مال کی حفاظت میں کوتاہی سے کام لیا ہے، اس لیے اسے بطور قرض قبول کرکے اس کا ضامن بنتے تھے تاکہ یہ صاحب امانت کے لیے بھی زیادہ قابل اعتماد ہو اور ضائع ہونے کی صورت میں ان کی مروت پر بھی آنچ نہ آئے“۔ (3)
(٢) سفتجہ کو اہل علم نے جائز کہا ہے جس میں ہمدردی قرض خواہ کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ کسی دوسرے ملک کا تاجر یا مسافر اپنے پیسے کسی ایسے شخص کو بطورِ قرض دیتا تھا جو اس کے اپنے ملک کے کسی شخص کو اسی کے بقدر قرض دے رکھا ہو، پھر اس سے کوئی رقعہ حاصل کرتا تاکہ واپسی میں جا کر اس شخص سے قرض کی رقم واپس لے جس کے نام رقعہ ہے، اس سے اس کا یہ فائدہ ہوتا تھا کہ اس کو راستے میں لٹ جانے کا خطرہ نہیں رہتا تھا۔(4)
پس اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرض کے لیے قرض دار کے ساتھ احسان اور ہمددری کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ کبھی کبھی قرض خواہ ہی اس سے مستفید ہوتا ہے۔ اس لیے بینک گرچہ ہمارے پیسے کا محتاج نہیں ہوتا ہے بلکہ ہم خود اپنی ضرورت کے لیے اپنے پیسے جمع کراتے ہیں لیکن اس سے قرض کی حقیقت کی نفی نہیں ہو جاتی ہے۔
(٢)سیونگ اکاؤنٹ (بچت اکاؤنٹ): اس اکاؤنٹ کے اندر لوگ اپنی بچت کی رقم بینک میں رکھتے ہیں، بدلے میں بینک ایک مقررہ شرح سود کی رقم دیتا ہے، اس میں کم سے کم رقم کو برقرار رکھنا ضروری ہے، اگر کم سے کم رقم برقرار نہ رہے تو بینک چارج لگاتا ہے۔
(٣)فکسڈ ڈپازٹ اکاؤنٹ: اس اکاؤنٹ کے اندر ایک مقررہ رقم ایک مخصوص وقت کے لیے رکھی جاتی ہے، جس پر بینک ڈپازٹ کرتا ہے، یہ بہت زیادہ شرح سود دیتا ہے، یہ شرح سود تقریبا آٹھ سے دس فیصد کے درمیان ہے۔ اس میں بیچ میں پیسے نکالنے کی سہولت نہیں ملتی بلکہ ایک مخصوص وقت کی تکمیل کے بعد ہی رقم مل سکتی ہے، وہ بھی پورے سود کے ساتھ، اگر کوئی اپنے فکسڈ ڈپازٹ کو وقت سے پہلے ختم کرنے یا اپنے پیسے بینک سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو بینک اس پر مختلف قسم کے جرمانے عائد کرتا ہے۔
ان دونوں اکاؤنٹ کے ضوابط پر اگر غور کیا جائے تو یہاں پر عقد ودیعت کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے کیوں کہ بینک کو کسٹمر کے مال میں تصرف کا پورا حق ہوتا ہے، اور کسٹمر بینک کے شروط کے تابع ہوتا ہے، اسی طرح یہ عقد مضاربت بھی نہیں ہے کیوں کہ بینک راس المال کے ساتھ نفع کا بھی ضامن ہوتا ہے جب کہ عقد مضاربت کا شرعی اصول یہ ہے کہ مالِ مضاربت سے کاروبار کے دوران جو کچھ بھی منافع حاصل ہوں وہ فریقین (رب المال اور مضارب) کے درمیان حصہ فیصدی (مثلاً آدھا، آدھا یا دو تہائی اور ایک تہائی) کے طور پر تقسیم ہوگا، اگر نقصان ہوجائے تو اوّلاً اس کی تلافی منافع سے کی جائے گی، اگر منافع سے تلافی نہ ہو تو مال مضاربت سے اس کی تلافی کی جائے گی، ایسی صورت میں رب المال کا مال جائے گا اور مضارب کی محنت۔
اس لیے یہاں بھی صورت قرض کی ہے، کیوں کہ بینک اس مال میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے، اور اس مال کا بدل لوٹانے کا پابند ہوتا ہے، جس طرح ایک قرض دار قرض لینے کے بعد اس میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے اور اس کا بدل لوٹانے کا پابند ہوتا ہے۔
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ بینک میں جو پیسے جمع کرائے جاتے ہیں ان کی نوعیت قرض کی ہے، اور اس قرض کی بنیاد پر بینک جو بھی اضافی رقم اپنے کسٹمر کو دیتا ہے وہ صریح سود ہے، کیوں کہ ائمہ اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ کوئی بھی قرض جس سے نفع حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
“نصُّ النهي عن الربا في القرآن يَشمَلُ كلَّ ما نهى عنه من ربا النَّساء والفَضل، والقَرض الذي يجرُّ منفعةً، وغير ذلك، فالنص متناولٌ لذلك كلِّه، وقد تحقَّق الاتِّفاق من أهل الفَتوى من الصحابة والتابعين، وأئمَّة أهل العلم من بعدهم على تحريم سلَفٍ وبيعٍ، أو قرضٍ جرَّ نفعًا، إذا كان مشروطًا أو في معناه، وأنَّ ذلك من الربا”۔(5) ”قرآن کریم میں سود کی ممانعت پر جو نص وارد ہے وہ ربا النسیئہ، ربا الفضل اور ہر اس قرض کو شامل ہے جس سے نفع حاصل کیا جائے، قرآنی نص ان تمام صورتوں کو شامل ہے، اور صحابہ، تابعین اور بعد کے ائمہ کرام میں سے تمام ارباب افتاء کا اتفاق ہے کہ بیع اور قرض کو ایک ساتھ جمع کرنا یا نفع حاصل کرنے کے لیے قرض دینا، چاہے وہ نفع مشروط ہو یا اس کے قبیل سے ہو تو وہ سب حرام ہیں اور سود میں سے ہیں“۔
شیخ الاسلام کے اس قول سے ایسے لوگوں کے دعووں کی بھی تردید ہوتی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ قرآنی وعید ربا الفضل کو شامل نہیں ہے۔
اسی طرح ابن المنذر فرماتے ہیں:
“أجمَعُوا على أنَّ المسلف إذا شرط على المقترض زيادةً أو هديَّةً، فأسلف على ذلك: أنَّ أخْذ الزيادة على ذلك ربا؛ سَواء كانت الزيادة في القدْر أو الصِّفة”(6)۔ ”اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے کہ اگر قرض خواہ قرض دار کو کسی طرح کی زیادتی یا ہدیہ کی شرط پر قرض دے تو اس کے حق میں وہ زیادتی سود ہے، خواہ وہ زیادتی مقدار میں ہو یا وصف میں“۔
ابو زہرہ فرماتے ہیں:
“لا يشك عالم في أي عهد من عهود الإسلام أن الزيادة في الدين نظير تأجيله ربا لا شك فيه، وينطبق عليه النص القرآني”(7)‌ ”پوری اسلامی تاریخ میں کسی بھی عالم نے اس پر شک ظاہر نہیں کیا ہے کہ قرض میں تاخیر کے مقابلے جو زیادتی ہے وہ بلا شک وشبہ سود ہے اور نص قرآنی اس پر منطبق ہوتا ہے”۔
دوسرا اشکال:
”منافع کا حصہ متعین نہیں ہوتا ہے بلکہ کم یا زیادہ ہو سکتا ہے اور کبھی نہیں بھی ملتا ہے“۔ شاید اس سے ڈاکٹر صاحب کا مقصود یہ ہے کہ یہ عقدِ مضاربت کی صورت ہے کیوں کہ منافع متعین نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان میں کمی وبیشی ہوتی ہے، جبکہ اوپر کی تفصیل سے یہ واضح ہو گیا کہ عقد مضاربت میں راس المال کی ضمانت ہی اسلامی اصول مضاربت کے سراسر منافی ہے، گرچہ منافع نہیں بھی ملتا ہو، حالانکہ بینک راس المال کا صرف ضامن نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ متعین نفع کا بھی ضامن ہوتا ہے۔
تیسرا اشکال:
”عصر حاضر میں افراط زر (Inflation) کی وجہ سے پیسوں کی قیمت مستقل کم ہوتی رہتی ہے جو ہمارے ملک میں تقریبا ۹-۱۰ فیصد سالانہ ہوتی ہے، اب جو رقم ہمیں بنک ’’انٹرسٹ‘‘ کے نام پر دیتا ہے وہ افراط زر کے آس پاس ہوتی ہے۔ گویا ہمارا پیسہ قیمت کے لحاظ سے اتنا ہی رہا جتنا ایک سال قبل تھا“۔
پہلی بات یہ ہے کہ بینک ہر اکاؤنٹ میں یکساں نفع نہیں دیتا ہے، کرنٹ اکاونٹ میں تو بینک عموما کوئی نفع نہیں دیتا ہے، اور فکسڈ ڈپازٹ اکاؤنٹ میں شرح سود سیونگ اکاؤنٹ سے تقریبا دوگنا ہوتی ہے اس لیے یہ دعوی کہ بینک جو رقم انٹرسٹ‘‘ کے نام پر دیتا ہے وہ افراط زر کے آس پاس ہوتی ہے محل نظر ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم بالفرض یہ مان بھی لیں کہ بینک جو نفع دیتا ہے وہ افراط زر کے آس پاس ہی ہوتا ہے پھر بھی کیا قرض کی ادائیگی میں یہ تفاضل جائز ہے؟ اور کیا یہ صریح سود نہیں ہے؟ حضرتِ ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، بلال رضی اللہ عنہ برنی (بڑی عمدہ قسم کی) کھجوریں لے کر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے پوچھا: ”یہ کہاں سے لائے ہو؟“ انھوں نے عرض کیا: ہمارے پاس ردی کھجوریں تھیں میں نے ان کے دو صاع کے عوض ان کا ایک صاع لیا ہے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”افسوس! افسوس! یہ تو بالکل سود ہے، بالکل سود ہے، ایسے نہ کرو، بلکہ جب تم خریدنا چاہو تو ان کھجوروں کو فروخت کرو، پھر اس (قیمت) کے عوض انھیں خریدو۔“(8)
چنانچہ نبیﷺ نے عمدہ کھجور کو گھٹیا کھجور سے تبادلے میں تفاضل پر نکیر کی اور اس کو صریح سود کہا، حالانکہ دونوں کی قیمت کے درمیان واضح فرق تھا، پھر افراط زر میں کمی کی وجہ سے روپئے کو روپئے سے تبادلے میں تفاضل کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ اور جس طرح پہلی صورت کو نبیﷺ نے صریح سود کہا ہے کیا دوسری صورت بھی صریح سود کی نہیں ہے؟ بلکہ یہ تو سود کی اعلی قسم ہے، جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اوپر کی حدیث کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا:
«فَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ أَحَقُّ أَنْ يَكُونَ رِبًا، أَمِ الْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ؟» ”کھجورکا تبادلہ کھجور سے (تفاضل کے ساتھ) زیادہ اس لائق ہے کہ وہ سود ہو یا چاندی کا تبادلہ چاندی سے (تفاضل کے ساتھ)“۔ یعنی سونے چاندی اور درہم ودینار میں سود کا ہونا زیادہ قرینِ قیاس ہے۔
چوتھا سبب:
آج کا ’’انٹرسٹ‘‘ وہ نہیں ہے جوعرب میں ’’ربا‘‘ کے نام پر رائج تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس دعوے کے بعد اس کی دو صورتوں کا تذکرہ کیا ہے:
”پہلی صورت: ایک آدمی دوسرے سے ایک مدت کے لیے پیسے قرض لے جس پر شروع میں کوئی سود نہیں ہوتا تھا، لیکن جب مقروض مقررہ مدت میں قرض نہ لوٹا سکے تو قرضہ دینے والا اس کو مزید مہلت اس شرط پر دیتا تھا کہ اصل رقم کے علاوہ قرض دار مزید کچھ رقم ادا کرے گا۔
دوسری صورت :یہ تھی کہ کوئی جنس جیسے آٹا یا کھجور قرضے پر لی جائے اور کچھ عرصے کے بعد اسی جنس میں کچھ اضافہ کرکے اسے واپس کیا جائے۔ متعینہ حالات میں یہ صورت بھی منع کی گئی ہے“۔
ڈاکٹر صاحب نے جاہلیت کے ربا کو ان ہی دو صورتوں میں محصور کرکے بینک کے سود کو اس سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے، جبکہ قرض میں مدت کے مقابلے کوئی بھی زیادتی جاہلیت کے سود میں سے ہے، ربا النسیئہ کی ایک صورت یہی ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس پر زور دیتے ہوئے کہا کہ” «إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ» (9)۔ ”بے شک سود نسیئہ میں ہے، اور نسیئہ کے معنی تاخیر کے ہیں، یعنی قرض میں تاخیر کے مقابلے جو زیادتی کی جاتی ہے وہ سود ہے، عباس رضی اللہ عنہ کا سود اسی قبیل سے تھا جسے اللہ کے رسولﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر ساقط قرار دیا چنانچہ رسولﷺ نے حجة الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا:
«وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَإِنَّهُچ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ»(10) ”اور زمانۂ جاہلیت کے ہر قسم کے سود ختم کیے جاتے ہیں۔ میں سب سے پہلے خود (اپنے چچا) عباس بن عبدالمطلب کے سود کے خاتمہ کا اعلان کرتا ہوں“۔(11) اس طرح بعض روایتوں میں ہے کہ تاجران قریش اپنی تجارت کو وسعت دینے کے لیے لوگوں سے قرض اس شرط پر لیتے تھے کہ جب وہ اپنے تجارتی اسفار سے لوٹیں گے تو وہ اس سے بہتر لوٹائیں گے۔ یعنی وہ قرض کے وقت ابتدا میں ہی طرفین مدت کے مقابلے زیادتی پر اتفاق کرتے تھے، قرآن کریم کی آیت ان تمام صورتوں کو شامل ہے، اور ان کی حرمت پر ائمہ اسلام کا اجماع ہے، ابو زہرہ فرماتے ہیں:
“لا يشك عالم في أي عهد من عهود الإسلام أن الزيادة في الدين نظير تأجيله ربا لا شك فيه، وينطبق عليه النص القرآني”۔(12) ”پوری اسلامی تاریخ میں کسی بھی عالم نے اس پر شک ظاہر نہیں کیا ہے کہ قرض میں تاخیر کے مقابلے جو زیادتی ہے وہ بلا شک وشبہ سود ہے، اور نص قرآنی اس پر منطبق ہوتا ہے”۔
ربا فی الدیون کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺ نے ربا فی البیوع کو بھی بیان کیا ہے، اس میں ربا الفضل اور ربا النسیئہ کی دوسری صورت شامل ہیں، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
“الذَّهَبُ بِالذَّهَب، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ يَدًا بِيَدٍ، فَمَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَ، فَقَدْ أَرْبَى الْآخِذُ وَالْمُعْطِي فِيه”(13) ”سونا کے عوض سونا، چاندی کے عوض چاندی، گندم کے عوض گندم، جو کے عوض جو، کھجور کے عوض کھجور، اور نمک کے عوض نمک برابر برابر، ہاتھوں ہاتھ ہو، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا لین دین کیا، اس میں لینے والا اور دینے والا برابر ہیں“۔
سود کی یہ تمام صورتیں زمانہ جاہلیت میں پائی جاتی تھیں جن کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے، اور قرآنی وعید ان تمام صورتوں کو شامل ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا:
“نصُّ النهي عن الربا في القرآن يَشمَلُ كلَّ ما نهى عنه من ربا النَّساء والفَضل، والقَرض الذي يجرُّ منفعةً، وغير ذلك، فالنص متناولٌ لذلك كلِّه”۔(14) ”قرآن کریم میں سود کی ممانعت پر جو نص وارد ہے وہ ربا النسیئہ، ربا الفضل اور ہر اس قرض کو شامل ہے جس سے نفع حاصل کیا جائے، قرآنی نص ان تمام صورتوں کو شامل ہے”۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بینک جو اضافی رقم اکاؤنٹ ہولڈر کو دیتا ہے وہ صریح سود ہے، چاہے اس کا نام انٹرسٹ رکھا جائے یا منافع، اس کے علاوہ جو بھی آراء ہیں وہ کتاب وسنت کے صریح نصوص اور اجماع امت کے مخالف ہونے کی وجہ سے باطل اور مردود ہیں۔ اللہ ہم سب کو اس خبیث اور ملعون شئی سے محفوظ رکھے اور کسبِ حلال کی توفیق دے۔
مصادر ومراجع:
(1)دیکھیں: بحوث في المصارف الإسلامية:ص201، حكم ودائع البنوك:ص61، النظام المَصرِفي الإسلامي، د. محمد سراج:ص93، مجلة المجمع:ص730
(2)صحيح البخاري:4/ 87، رقم الحدیث: 3129
(3) فتح الباري:6/277
(4)دیکھیں:معجم المصطلحات الاقتصادية في لغة الفقهاء، د. نزيه حماد:ص190، مجموع الفتاوى:19/455،456، المغني:6/436
(5) الفتاوى الكبرى؛ لشيخ الإسلام ابن تيمية:1/ 413
(6)الإجماع؛ لابن المنذر:120
(7)فقه البيع والاستيثاق والتطبيق المعاصر، د على أحمد السالوس:ص276
(8)متفق علیہ، بخاری رقم: 2312، مسلم رقم:1594
(9)صحيح بخاري:2178، صحيح مسلم:1596
(10)صحيح مسلم رقم الحدیث:1218
(11)دیکھیں تفسير الطبري = جامع البيان ط هجر:1/ 158
(12)فقه البيع والاستيثاق والتطبيق المعاصر، د على أحمد السالوس: ص276
(13)صحیح مسلم:1584
(14) الفتاوى الكبرى؛ لشيخ الإسلام ابن تيمية:1/ 413

4
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
2 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
Safat Alam Taimi

عمدہ کاوش اور بہترین تجزیہ

محمد ضياء الحق

جزاكم الله خيرا شيخنا الكريم وبارك فيكم

T.Gulab

ماشاءاللہ اللہ آپکے علم میں مزید برکت عطا فرمائے

محمد ضياء الحق

آمين يا رب العالمين، وجزاكم الله خيرا أخي الكريم