منہج کی موب لنچنگ

رشید سمیع سلفی ردود

ادھر چند سالوں سے منہج کے نام پر ایک ناخوشگوار بحث کا آغاز ہوا ہے، کبھی کبھار یہ بحث تندوتلخ تبصروں کے دائرے میں داخل ہوکر سوشل میڈیا کی فضا کو مکدر کر دیتی ہے۔ یہ بحث اس وقت شروع ہوتی ہے جب کسی کے انحراف اور کجروی پر تنقید کی جاتی ہے، کسی کے عقدی ومنہجی لغزش پر رد کیا جاتا ہے، کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ردوقدح نہیں ہونا چاہیے، باطل افکار ونظریات کے تعاقب سے انتشار پیدا ہوتا ہے، اپنوں کے منہج سلف سے بدظن ہونے اور برگشتہ ہونے کا خدشہ رہتا ہے، کسی کو ناراض نہ کرو، اب آزادئ فکر ورائے کا دور ہے، کسی کے منہج وعقیدہ پر انگشت نمائی دوسروں سے ان کی آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے، خوبصورت الفاظ و جملوں کے ریشمی لباس میں یہ فکرہ بہت بھلا معلوم ہوتا ہے، جدید ذہن کو اپیل کرتا ہے لیکن اسلام کے تصور دعوت اور انکار منکر کے اصول سے ٹکراتا ہے، دینی نقطۂ نظر سے یہ بات کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ عقیدہ ومنہج کے انحراف پر زبان بند رکھی جائے، غلطیوں پر نکیر نہ کی جائے، پوری معلوم اسلامی تاریخ اس کے خلاف ہے، حکمت و مصلحت کے تقاضے کبھی خاموش رہنے کے حق میں ہوتے ہیں اور خاموشی اختیار کی جاتی ہے لیکن جب سلفیت کے لباس میں ضلالت پروسی جائے گی، جب فکر و منہج کے اصولوں پر آنچ آئے گی تو صبر کا پیمانہ چھلک پڑے گا، جب نادان سلفیوں کی رواداری اور صلح کل فکری ضلالات کے لیے چور دروازہ بن جاتی ہے تو حقائق کا اظہار ضروری ہوجاتا ہے۔ اگر علماء حق منہج و عقیدے کے خلاف زہر خند تحریروں پر چپی سادہ لیں گے اور صرف نظر کرلینے کو اپنا وطیرہ بنالیں گے تو یہ ایک بہت بڑے بحران کا پیش خیمہ ہوگا، یہ ہماری ڈیڑھ ہزار سالہ دعوتی تاریخ سے اعراض ہوگا، یہ وہ خطرناک روش ہوگی جس سے دھیرے دھیرے سلفیت کی بے آمیز شفافیت غبار آلود ہوگی، یہ باطل افکار ونظریات کی مشق ستم بنتی جائے گی، ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ حق اپنے امتیازات کھو دے گا، سلفیت اور دوسرے مناہج‌ میں کوئی فرق نہیں رہ جائےگا۔ اور اب یہ دراندازی اور خلط ملط ہونا شروع ہوگیا ہے، ماضی قریب کی تاریخ دیکھ لیجیے، سادہ لوحی اور مصلحت پرستی سے داعش جیسی دہشت گرد تنظیم بھی سلفی مشہور کردی گئی تھی، کوئی بتائے کہ دنیا کو اس خلط مبحث سے نکالنے کے لیے علماء نے کتنی محنت کی ہے؟ کیسے سلفیت کو خارجیت کے التباس سے باہر نکالا ہے؟
تمھاری مصلحت اچھی کہ اپنا یہ جنوں بہتر
سنبھل کر گرنے والو ہم تو گر گر کر سنبھلے ہیں
یہ جانتے ہوئے بھی کہ خاموش مزاجی میں عافیت ہے، چشم پوشی میں جان بخشی ہے، موجوں سے لڑنے کے مقابلے ساحل پر سکون ہے، علماء حق نے مخالفت کی ہواؤں سے نبرد آزما ہونےکا فیصلہ کیا ہے، دکھتی رگوں کو چھیڑنے کی سعی کی ہے، انحراف و کجروی کی صفوں کو الٹنے کا فیصلہ کیا ہے، دنیا دیکھ رہی ہے کہ طعن‌ و تشنیع، سب وشتم، الزام‌تراشی و ناوک افگنی کا مشق ستم ان کو بننا پڑا ہے، منہج اعتدال کے شرفاء کی طرف سے روح فرسا اذیتیں دی گئی ہیں، زہر میں بجھے الفاظ، تیزاب غوطے کھائے ہوئے جملے مسلسل اچھالےجارہے ہیں، اُدھر مشق ستم جاری ہے اور ادھر آہنی حوصلہ تلوار کی دھار پر رقص کررہا ہے، صبر کا مظاہرہ ہورہا ہے اور زبان حال کہہ رہی ہے۔
سرگرمِ ناز آپ کی شانِ وَفا ہے کیا
باقی ستم کا اور ابھی حوصلہ ہے کیا
اس موقف کو اگر تسلیم کرلیں تو علامہ ابن تیمیہ اور آپ کے شاگردان رشید ابن قیم ابن کثیررحمہم اللہ، شیخ محمد بن‌عبدالوہاب، شاہ اسمعیل شہید وغیرہم کی کاوشیں بے معنی قرار پائیں گی، ان‌ کی مساعی جمیلہ عبث ٹھہریں گی، منہج بازیچۂ اطفال ہوجائے گا، منہج وقت کی نیرنگیوں کے تابع ہوجائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ منہج سلف کے دفاع میں ماضی کے ادوار میں علماء پیش پیش رہے ہیں، ہر ایک کے تعاقب میں سمند قلم کو ایڑ لگایا ہے، گمراہ کن افکار ونظریات کا پردہ چاک کیا ہے، وقت کے فتنوں کے خلاف سلفیت کو ایک فکری حصار مہیا کرنے کی کوشش کی ہے، ردود پر بڑی بڑی کتابیں وجود میں آئی ہیں، سلسلہ ہنور جاری ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علماء حق کے بارے میں فرمایا ہے:
يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله، ينفون عنه تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وتأويل الجاهلين (رواه البيهقي)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس علم کو بعد میں آنے والے ہر طبقہ کے صاحب تقویٰ لوگ حاصل کریں گے، وہ اس (علم) سے غلو کرنے والوں کی تحریف، جھوٹے لوگوں کی جعل سازی اور جہلا کی تاویل کی نفی کریں گے۔‘‘
سہولت کاری اور چشم پوشی کا نتیجہ یہی ہوگا کہ کوئی بھی اچھا لکھنے اور بولنے والا آئے گا اور سلفیت میں پیوندکاری کرتا چلا جائے گا، پھر ہمارے روشن خیال نوجوان‌ اس کی ظاہری چمک دمک کی وکالت کرتے پھریں گے، اس لیے سہولت کاروں کو علماء حق کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے، یہ کفن‌ بردوش یہ محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
خون‌ دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم‌ نے گلشن‌ کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ منہج و عقیدہ کو لے کر اپنا اور دوسروں کا احتساب ضروری ہے، بے اعتدالیوں پر نکیر واجب ہے، انحراف وتشکیک کے پھیلتے سوراخوں کو بند کرنا بھی وقت کا تقاضا ہے، یہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، یہ سلف صالحین کا وطیرہ ہے، انکار منکر پر کسی لومۃ لائم کی پرواہ نہیں کی جائے گی، کسی مخالف کی مخالفت کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا، کسی کی ایذارسانی کا خوف نہیں کھایا جائے گا، حوالے پڑھ لیں، انکار منکر کے اور تنقید وفہمائش کے سیکڑوں حوالے موجود ہیں، کہیں کہیں تو حد درجہ سختیاں بھی ہیں، غور کریں۔۔۔۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عورتوں کے مساجد میں جانے کی بابت اپنے بیٹے بلال بن‌عبداللہ پر کس قدر برافروختہ ہوئے تھے: اس قدر برا بھلا کہا کہ راوی کہتے ہیں کہ اس طرح میں نے کبھی نہیں سنا، اور کہا: میں تمھیں رسول اللہﷺ کا فرمان بتا رہا ہوں اور تم کہتے ہو: اللہ کی قسم! ہم انھیں ضرور روکیں گے۔ (مسلم: 442)
مانا کہ یہ سخت گیری پسندیدہ عمل نہیں ہے لیکن منہجی تحفظات کا مسئلہ تھا، طرز فکر کی اصلاح کا معاملہ تھا، بے اعتدالیوں کے راہ پاجانے کا خطرہ تھا، سلف سد ذریعہ کے لیے سخت گیر رویہ اختیار فرماتے تھے، سلف کی تاریخ پڑھ لیں، فی نفسہ درشتی اور سختی معیوب بھی نہیں ہے، یہ بھی تغییر منکر کا ایک اسلوب تھا، حضرت عبداللہ بن‌مسعود رضی اللہ عنہ نے مسجد میں غلط طریقے سے تسبیح خواں مصلیوں کو جو نکیر کی تھی، یاد فرمائیں، وہ کیا تھی؟ کیاالفاظ تھے؟برہمی اور ناراضگی کا درجۂ حرارت کیا تھا؟ انھوں نے فرمایا: ’’اپنی برائیوں کو شمار کرو۔ میں ضامن ہوں کہ نہ گننے سے تمھاری نیکیوں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت! تم پر افسوس ہے کہ تم کتنی جلدی ہلاک ہو رہے ہو۔ یہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کثرت سے موجود ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور ان کے برتن ابھی نہیں ٹوٹے۔ مجھے اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یا تو تم ایسے (بدعت والے) طریقے پر ہو جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے زیادہ ہدایت ہے یا تم نے گمراہی کا دروازہ کھولا ہوا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا: ’’اے ابو عبدالرحمن! اللہ کی قسم! ہم نے تو صرف بھلائی کا ارادہ کیا تھا۔‘‘ انھوں نے کہا: ’’بہت سے لوگ نیکی کا ارادہ کرتے ہیں مگر انھیں نیکی حاصل نہیں ہوتی۔”
(سنن دارمی: جلد اول:حدیث نمبر 206 سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس اثر کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے السلسلہ الصحیحہ میں میں ذکر کیا ہے)
بتائیے اس اسلوب میں کہاں خیال خاطر احباب نظر آرہا ہے؟کیا انکار منکر سے پہلے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ سوچا کہ کہیں یہ منہج سے برگشتہ نہ ہوجائیں؟ کہیں یہ راہ مستقیم سے بچھڑ نہ جائیں؟ اب نمونہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا جائے یا ان کو جو فلمی ایکٹروں کو آئیڈیل تصور کرتے ہیں اور راستے میں پڑا ہوا کوئی بھی فکرہ اٹھالیتے ہیں اور اس کی مدح سرائی کرنے لگتے ہیں، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بہت عمدہ بات لکھی ہے:
“اور اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے حتیٰ کہ جب امام احمد سے دریافت کیا گیا کہ ایک آدمی نماز روزہ اور اعتکاف بکثرت کرتا ہے دوسرا اہل بدعات کا رد کرتا ہے، آپ کے نزدیک کون سا بہتر ہے؟ تو کہنے لگے: ’’اگر کوئی شخص نماز، روزہ اور اعتکاف کرتا ہے تو وہ اس کے اپنے لیے ہے اور اگر اہل بدعات کا رد کرتا ہے تو یہ مسلمانوں کے لیے ہے اور یہی افضل ہے‘‘۔ (مجموع الفتاویٰ، ج ۲۸ ص۲۳۱-۲۳۲)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی سخت مزاجی کے لیے جانے جاتے تھے، یہ سختی حق کے لیے ہوتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی آپ نے ایک مسلمان کے لیے سخت گیر لہجے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا، دعنی یا رسول اللہ اضرب عنق ھذا المنافق، بتائیں یہ سخت گیر جملہ کس کا تھا؟ یہ شدت پسندی کس کی تھی؟ اس پر کتنی بار نبی نے سرزنش کیا تھا؟ حق وصداقت کی پشت پر کچھ اس مزاج کے لوگوں کا ہونا بھی تو ضروری ہے، کبھی نرمی نہیں سختی مفید ہوتی ہے، پورے دور خلافت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کس طرح فتنوں کو دبا کر رکھا تھا؟ یہ تاریخ کی مسلمہ حقیقت ہے، ذات انواط کے سوال پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی سخت گیر لہجہ اختیار فرمایا تھا اور کہا تھا: تم ایسے ہی کہہ رہے ہو جیسے موسی علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا: اجعل لنا آلھۃ کما لھم آلہۃ، ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دیجیے جیسے مشرکین کے لیے ہیں۔ غور کیجیے اس جواب میں شدت اور ناراضگی کا پارہ کتنی ڈگری پر ہے؟ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بالمؤمنین رؤوف رحیم کہا گیا ہے۔
یہ مزاج بسا اوقات ایک دینی ضرورت بن جاتا ہے، جب تک منہج پر شدت غیرت نہ ہو، کڑی تحذیر نہ ہو، بے لچک احتساب نہ ہو، انحراف اور فساد فکر ونظر کو نہیں روکا جاسکتا ہے، اس شدت کا مطلوب یہ بالکل نہیں ہے کہ کسی کی تکفیر کی جارہی ہے، یا کسی کو منہج بدر کیا جارہا ہے، آپ جسے اخراج کہہ رہے ہیں یہ اصلاح ہے، آپ جسے تکفیر کہہ رہے ہیں یہ تزکیہ ہے، آپ جسے شدت کہہ رہے ہیں وہ حکمت دعوت ہے، آپ جس چیز کو منہج کی ٹھیکیداری کہہ رہے ہیں وہ منہج کی پاسداری ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے بعض صحابہ سے یہ کہا تھا کہ “انک امرأ فیک الجاہلیہ” تم ایک ایسے شخص ہو جس میں جاہلیت کی بو باس ابھی باقی ہے۔ غور کیجیے، جاہلیت سے موسوم کرنا کیا معمولی بات ہے؟ کیا صحابی نے اسے شدت پر محمول کیا؟واویلا شروع کردیا، یہاں تحذیر پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، اپنے قبیلے کو آوازیں دینے لگتے ہیں، پھر دھماچوکڑی شروع ہوجاتی ہے، یہ دعوت کے اسالیب میں سے ایک اسلوب ہے، یہ سخت تحذیر دراصل اس رویے کو بتانے کے لیے تھا جو بتقاضائے بشریت صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سےسرزد ہوا تھا، پورے دور سلف میں یہ رویہ آپ کو جابجا ملے گا، آج علماء حق سلف کی ان روایات پر گامزن ہیں، پہلے تو مخالفت غیروں کی طرف سے ہوتی تھی، اب منہج سلف کے نام لیوا “غنیم” کا رول پلے کررہے ہیں، مخالفت و مزاحمت میں ان حدوں کو جارہے ہیں جہاں سے کفار قریش کی خون آشام یادگاریں بہت قریب سے نظر آتی ہیں۔ بہتان، الزام، تحقیر، تفسیق، تجہیل، تمسخر تک فاصلہ طے کیا جاچکا ہے، اعتدال کے نام پر تاریخ کی سب سے بڑی بے اعتدالی کی جارہی ہے۔
حیرت ہوتی ہے ان منہجی سورماؤں کو دیکھ کر۔۔۔کون ہیں یہ لوگ جو اس ناخوشگوار بحث کی سرپرستی کررہے ہیں؟کیا وہ میدان علم وتفقہ کے شہسوار ہیں؟ کیا وہ متقدمین و متاخرین کی کتابوں کے خوشہ چین ہیں؟ کیا وہ دینی ودعوتی میدان کے مردان کار ہیں؟ اصحاب تصنیف و تالیف ہیں؟ کیاوہ میدان‌ تدریس ودعوت کے معتبر ومستند علماء ہیں؟ آخر وہ کون ہیں جنھیں بہت زیادہ منہج کا درد ستا رہا ہے، اللہ کی قسم میں حیران ہوں، کوئی تو مجھے حوصلہ دو، کوئی تو میرے درد کی دوا کرو، یہ وہ لوگ ہیں جو قلمی میدان میں مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں، جو قلم کی عزت وناموس کےساتھ وہی برتاؤ کرتے ہیں جو آوارہ لوگ دوسروں کی عزتوں کے ساتھ کرتے ہیں، یہ اعتدال کے نام پر ایسے واردات انجام دیتے ہیں جیسے سنگھی جے شری رام کے نام پر موب لنچنگ کرتے ہیں، ناولوں اور افسانوں کی دنیا میں رہتے ہیں، جدید دور کے منحرف مفکرین کے لٹریچر کے سائے میں جیتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک معیار کتاب وسنت نہیں بلکہ صرف عقل و منطق ہے، ملحدوں اور دہریوں کی تحریر سے تحریک پاکر ان کی نبض چلتی ہے، گالیوں سے ان کا بلڈ پریشر نارمل ہوتا ہے، جو ہر منہجی بحث سے پہلے تمباکو اور پان کی گلوری منہ میں رکھ کر ادائے خاص سے نکتہ سرا ہوتے ہیں، آیات واحادیث اور سلف کے اقوال سے ان کے منہ کا مزہ بگڑ جاتا ہے، آیات کے اعراب کے لیے گوگل کرنے والے بھی ہر مسئلے میں مجتہدانہ کلام فرماتے ہیں، منہج کی پاسداری کرنے والے کچھ صحافت پیشہ عناصر بھی ہوتے ہیں، اخبار کے کالم نگار کبھی فتوی نگار بن جاتے ہیں، منہج پر اپنی عقلی موشگافی چھیڑنے والے کچھ سکریپ کی دکان سے بھی باہر نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، بھنگار کی گاڑی لوڈ کرانے کے بعد تھوڑا وقت بچتا ہے تو موبائل پر منہج کا پروچن دینے لگتے ہیں، اس منہج کی لڑائی میں سب سے زیادہ اپنے ترکش خالی کرنے والے یونیورسٹی کی مولوی بیزار ‌مخلوق ہے جنھوں نے مدرسے سے نکلنے کے بعد اپنے وجود سے کھرچ کھرچ کر مدرسے کی ایک ایک نشانی کو ختم کیا ہے، یہاں یہ ٹولہ مدرسہ کی تعلیم کی دھونس جما کر اپنی بات دوسروں کے حلق میں ٹھونسنے کی کوشش بھی کرتا ہے، منہج کی اس بحث میں کچھ ٹیوشن باز مولوی بھی ہیں جو بچوں کا وقت خراب کرکے پوسٹ کررہے ہوتے ہیں، ہر کوئی اس خیال میں مگن ہے کہ ہمارے ساتھ سوشل میڈیا کا پورا لشکر باطل پر شب خون‌ مار رہا ہے، وہ خوش ہیں کہ ہمارے خیمے میں الگ الگ ٹائپ کے دانشور موجود ہیں، یہ جب ہلہ بولتے ہیں تو زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، ایک طوفان بے تمیزی برپا کردیتے ہیں، بحث علم، دلیل، تحقیق، تفقہ اور متانت سے خالی ہوتی ہے، باتیں ایسی غیر معقول ہوتی ہیں جیسے نیند میں بول رہے ہوں، الفاظ اور جملوں کی تراش خراش دیکھ کر لگتا ہے جیسے شاعری کررہے ہوں، دوسری طرف سے ٹھوس مضامین اور دلائل پیش کیے جاتے ہیں، موضوع کے ایک ایک جزء کو الگ کرکے تجزیہ و تحلیل پیش کیا جاتا ہے، اس کے جواب میں لفاظیوں، لطیفوں کے ڈھیر لگا کر کہتے ہیں کہ ہمارا وزن تمھارے دلائل کے مقابلے میں زیادہ ہے، ہماری تعداد تمھاری تعداد سے بڑھ کر ہے، اس پر کبر ،انا، اہنکار، دعوی اتنا زیادہ کہ اناربکم الاعلی کا فرعونی ریکارڈ ٹوٹتے ٹوٹتے رہ جاتا ہے، جہاں ضرورت ٹھوس علمی بحث کی ہوتی ہے وہاں روز مرہ کی سڑی ہوئی گالیوں کو فلٹر اور مہذب کرکے پیش کررہے ہوتے ہیں، متانت اپنا سا منہ لےکر رہ جاتی ہے اور ہم محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہتے۔
کتنے شیریں ہیں ترے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کھا کے بے مزہ نہ ہوا
اس قسم کے عناصر کی دھینگا مشتی دیکھتے ہوئے جب اور آگے بڑھتے ہیں تو یہی لوگ دیوالی کی خوشی میں مبارکبادیاں بھی دیتے نظر آتے ہیں، شاید گھر کے منڈیروں پر قمقمے بھی روشن کردیتے ہوں، یہ میوزک کی حلت کے لیے مولویوں سے آمادۂ جنگ ہوتے ہیں، یہ اپنی فلم بینی کو بطور فخر بیان کرتے ہیں، یہ مسکرات کے فضائل بیان کرتے ہیں اور پان اور تمباکو سے شوق فرماتے ہیں، اس پر ترغیبی مضامین بھی لکھتے ہیں، یہ ہے اصل سکرپٹ اس نئے نویلے مذہب کی۔۔۔کہیں یہ منہج اعتدال میں ان محرمات کی گنجائش نکالنے کی سعی تو نہیں؟ کہیں اپنی خواہشات نفس کے مطابق ایک الگ منہج لانچ کرنے کی جدو جہد تو نہیں، کہیں ایک منہج کا لبرل ورژن متعارف کرانے کی تیاری تو نہیں، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
آئے دن یہ سلسلۂ نامسعود طول پکڑتا جارہا ہے، سلفی باہم گتھم گتھا ہیں، اپنے ہاتھوں منہج کی مٹی پلید کررہے ہیں اور دوسروں کے لیے جگ ہنسائی کا سامان بنے ہیں۔ اب تک کی جھڑپوں میں ہم بہت کچھ داؤں پر لگاچکے ہیں، ہمارا تنازعہ ایک تماشا بنا ہوا ہے، ہم بٹنے اور تقسیم ہونےکے کگار پر پہنچ چکے ہیں، اب بہت زیادہ سنجیدگی اور ہوشمندی سے اس مسئلے پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے اسلاف نے اس منہج کے اصولوں کو من و عن پیش کردیا ہے، بڑی باریکی سے ایک ایک مسئلے کو منقح کیا ہے، بڑی بڑی کتابیں سپرد قلم کی ہیں، ہم ان پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی کتابوں کی طرف رجوع کرلیں، ان کے دلائل اور موقف پر غور کرلیں، خالی الذہن اور تعصب سے بالاتر ہوکر منصفانہ تجزیہ کریں، ہمارے دل ودماغ میں جو شکوک تہ در تہ جم چکے ہیں، سلف کی کتابیں اسے ذروں کی طرح اڑا دیں گی، مرض لگا ہے تو دوا کی تلاش کرنی پڑے گی، جب مرض سے مرض کی دوا کریں گے تو روگ کہاں سے جائے گا؟ یہ گمراہ کن لٹریچر کی دیے ہوئے داغ ہیں جو توحید و سنت کے آب حیات سے زائل ہوں گے، سلف کے دینی وفکری لٹریچر سے دور ہوں گے، بس اپنی انا اور ہمہ دانی کے خودساختہ خول سے باہر نکل کر گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے، امید کہ ہمارے بھائی ان گذارشات پر توجہ فرمائیں گے، وگرنہ قدرت کا اصول ہے نولہ ما‌تولی۔۔۔
وہی دیرینہ بیماری وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
محمد اشرف سنابلی

چشم کشا مضمون 🌹