آپ ہمیشہ مسلمانوں پر رد کیوں کرتے ہیں، یہود ونصاری اور کفار ومشرکین پر رد کیوں نہیں کرتے؟
جب اہل بدعت پر رد کیا جاتا ہے تو بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہود ونصاری اور کفار ومشرکین پر رد کیوں نہیں کرتے، اپنوں پر رد کیوں کرتے ہیں؟
قارئین کرام! دین اسلام کی اصل صورت اہل بدعت نے بگاڑی ہے، اسلام کے نام پر اسلام کی غلط تعبیر وتشریح اہل بدعت نے کی ہے، کفار و مشرکین یا یہود ونصاری نے نہیں، اس لیے اہل بدعت پر رد کرنا دین کی بنیادی ضرورت ہے۔
نیز یہ کہ اہل بدعت کے دعاۃ اسلامی شعائر کا اظہار کرتے ہیں، مسلم عوام ان کے ظاہر کا اعتبار کرکے ان پر اعتماد کرتے ہیں، اگر یہ لوگ اسلام کی غلط تعبیر وتشریح کرکے مسلمانوں کے درمیان پھیلائیں گے تو عوام ان پر اپنے سابقہ اعتماد کے سبب ان کی بات کو قبول کریں گے، کیوں کہ عوام انھیں مسلمان سمجھنے کے ساتھ ساتھ دین کا جانکار بھی سمجھتے ہیں، جبکہ کفار ومشرکین یا یہود ونصاری اگر صحیح اور خالص اسلامی تعلیمات (جو کہ قیامت تک ممکن نہیں، بس بطور تمثیل یہ بات کہی گئی) کی نشر واشاعت مسلمانوں کے درمیان کرنا بھی چاہیں تو عوام انھیں قبول نہیں کریں گے چہ جائیکہ کہ وہ اسلام کی غلط تعبیر وتشریح کو نشر کریں۔
اس لیے آپ دیکھیں گے کہ یہود ونصاری اور کفار ومشرکین مسلمانوں کے تئیں اپنے دیرینہ مقاصد کی تکمیل اور اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کے لیے خود میدان میں نہیں اترتے بلکہ مسلمانوں میں سے ہی کسی کو کرایہ پر لے کر انھیں پروموٹ کرتے ہیں، مرزا غلام احمد قادیانی اور ان جیسے لوگ جو انگریز کے آلہ کار تھے اس کی بہترین مثال ہیں۔
اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ائمہ سلف سے لے کر دور حاضر تک کے علماء اہل بدعت کے شبہات واعتراضات پر رد کرتے رہے ہیں اور خالص اسلام کا دفاع کرتے رہے ہیں، نیز اہل بدعت کے مقابلے میں کفار ومشرکین یا یہود ونصاری پر رد کرنے والے بہت کم ہیں، کیوں کہ قرآن مجید نے کفار ومشرکین اور یہود ونصاری کے شبہات واعتراضات کا اچھی طرح جائزہ لیا ہے، نیز کفار ومشرکین یا یہود ونصاری اسلامی تعلیمات وعقائد میں ملاوٹ، یا اس میں تغیر تبدل خود نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے بعض ضمیر اور دین فروش مسلمانوں کا استعمال کرتے ہیں۔
محترم قارئین!صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں قدریہ، خوارج اور روافض وجود میں آئے، صحابہ کرام نے بہت ہی شدت کے ساتھ ان پر رد کیا، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قدریہ کے سلام کا جواب نہیں دیتے تھے، ابو حذیفہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما قدریہ کو اس امت کا مجوس کہتے تھے، بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج کا ذکر کرتے ہوئے ان کی کثرت عبادت کا ذکر کیا، لیکن منہج کی خرابی کے باعث ان پر سختی سے رد کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میں نے خوارج کو پایا تو انھیں عاد وثمود کی طرح قتل کروں گا۔
تابعین اور تبع تابعین نے معتزلہ، قدریہ، مرجئہ اور جہمیہ پر کثرت سے رد کیا، جیسے حسن بصری، امام مالک، امام احمد، امام دارمی، امام بخاری وغیرہم رحمہم اللہ۔
گو کہ ائمہ سلف اہل بدعت کے خلاف صف بستہ تھے اور اسلام کی غلط تعبیر وتشریح کرنے والوں پر متواتررد کرتے رہے، تاکہ اسلام خالص اہل بدعت کے باطل افکار ونظریات سے محفوظ رہ سکے۔
اسی طرح امام آجری، امام لالکائی، امام ابن بطہ رحمہم اللہ وغیرہم اہل بدعت کے خلاف بر سر پیکار رہے۔ پھر علامہ ابن تیمیہ، ابن القیم، ابن رجب الحنبلی، ذہبی، ابن کثیر وغیرہم رحمہم اللہ نے اہل بدعت کے خلاف کمان سنبھالی۔
قارئین کرام! علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پوری زندگی معتزلہ، صوفیہ اور اشاعرہ وغیرہ پر رد کرتے رہے، حالانکہ انھوں نے کفار سے جہاد بھی کیااور اللہ نے انھیں فتح بھی عطا کی، لیکن ان کی علمی زندگی کا اکثر حصہ اہل بدعت پررد کرنے میں گزرا۔
اسی طرح آپ صنعانی، شوکانی، صدیق حسن خان، محمد بن عبد الوہاب، شمس الحق عظیم آبادی، عبدالرحمن مبارک پوری، ناصر الدین البانی، مقبل الوداعی، ابن عثیمین اور ابن باز رحمہم اللہ وغیرہم کو لے لیں انھوں نے پوری زندگی اہل بدعت پر رد کرنے اور اسلام کی صحیح تعبیر وتشریح کرنے میں گزاردی۔
در اصل کفر و الحاد کی پہلی سیڑھی یہی بدعت ہے، جہاں سے الحاد کا سفر شروع ہوتا ہے اور جس قدر بدعت زیادہ ہوگی اسی قدر الحاد اپنا پاؤں پسارے گا، اس کے برعکس اگر بدعت کی سنگینی واضح کی جائے گی، اس سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے گا تو کفر والحاد کے دروازے بند ہوں گے۔
ایک زمانے میں اسلامی حکومت کی باگ ڈور معتزلہ اور روافض کے ہاتھ میں بھی رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے گمراہ کن نظریات کو خوب پھیلایا، لیکن ہر زمانے میں اسلامی عقائد کا دفاع کرنے والے علماء موجود تھے جو باطل کو دندان شکن جواب دیتے رہے۔
اگر علماء اہل بدعت پر رد نہیں کرتے تو آج ہمارے رب کا تصور ہمارے نزدیک کیسا ہوتا ذرا عور فرمائیں؟
ایک ایسا رب جس کے پاس (نعوذ باللہ) نہ علم ہوتا، نہ قدرت وطاقت، نہ ہی وہ بول سکتا تھا، نہ وہ سن سکتا تھا، نہ دیکھ سکتا تھا، نہ وہ خوش ہوتا، نہ وہ غصہ ہوتا، نہ وہ اوپر رہتا اور نہ ہی نیچے، یعنی جتنے بھی صفات کمال ہیں اللہ رب العالمین ان سب سے (نعوذ باللہ) عاری ہوتا۔
اہل بدعت پر رد نہ کرنے کی صورت میں یہ تو رب کا تصور ہوتا اور رہی بات دین کے تصور کی تو دین کی بنیاد کتاب وسنت پر نہیں بلکہ عقل پر ہوتی، صحابہ کرام کی حیثیت نہیں ہوتی، احادیث رسول میں صرف متواتر قابل قبول ہوتی اور باقی احادیث کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا، قیامت کی نشانیاں، آخرت کے احوال، بروز قیامت ہونے والے فیصلے وغیرہ کا ذکر بھی نہیں ہوتا، خلفائے راشدین، ابو ہریرہ، معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین بلکہ صحابہ کی اکثریت سے جان چھڑانا اور انھیں گالیاں دینا اس دین کا حصہ ہوتا۔
معزز قارئین! اسی طرح اگر ہم مولانا وحید الدین خان پر رد نہ کریں تو اسلام کی کیا صورت باقی رہ جائے گی؟
خان صاحب کے مطابق ہم ایک ایسے رب کو مانتے جسے دیکھنے کا تجربہ اس دنیا ہی میں کیا جاسکتا، جسے چھوا جا سکتا، جو رب خان صاحب کی طرح سوچتا ہے، جس رب کے وجود میں خان صاحب کی طرح بلا تشبیہ ڈھالا جا سکتا ہے، جو رب انسانوں کی طرح بولتا ہے وغیرہ۔
اور رہی بات اسلامی عقائد و افکار کی تو پچھلی تحریر (اسلام کی ایک تعبیر یا دو تعبیر) میں اس پر گفتگو کر چکا ہوں۔
خلاصہ کلام یہ کہ اہل بدعت کے باطل افکار ونظریات پر رد کرنا دین کا بنیادی مقصد ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلقین بھی کی ہے جیسا کہ خوارج سے لڑنے کا حکم دیا۔
قارئین کرام! اگر ہمارے نئے اور سفید کپڑے پر داغ لگ جائے تو اس کو چھڑانے کی کتنی جتن کرتے ہیں اور اگر ہماری عزت پر داغ لگ جائے تو اسے مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں، ہر قسم کے دلائل اور تاویلات پیش کرتے ہیں تاکہ عزت محفوظ رہ سکے۔اور داغ لگانے والوں کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا سخت ہوتا ہے یہ بھی کسی پر مخفی نہیں۔لیکن دین اسلام پر بدعات کا داغ لگانے والوں کے سامنے ہم نرم پڑ جاتے ہیں اور اگر کوئی اس داغ کو دھلنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے خوبیوں اور خامیوں کے مابین موازنہ کا درس دینے لگتے ہیں۔الامان والحفیظ
آپ کے تبصرے