مساجد کو اسلام میں سب سے زیادہ مرکزی حیثیت حاصل ہے۔اسی یے اس کی جانب سب سے زیادہ اور سب سے پہلے توجہ دی گئی۔ روئے زمین پر بننے والی سب سے پہلی عمارت بھی مسجد حرام خانہ کعبہ کی ہے:
ان أول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا وھدی للعالمین(سورہ آل عمران:۹۶) لوگوں کے لیے سب سے پہلے بنائی جانے والی عمارت مکہ میں ہے جو مبارک اور لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے موقع پر اپنی جان ومال اور ایمان کی حفاظت کے لیے نکلتے وقت مرکز ہجرت مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے ہی قبا جا کر پہلی مسجد کی تعمیر کرکے پھی یہ پیغام دیا کہ اسلام میں مسجد کی کیا اہمیت ہے:
لمسجد أسس علی التقوی من أول یوم أحق أن تقوم فیہ(سورہ توبہ:۱۰۸)روز اول سے تقوی کی بنیاد پر قائم کی گئی مسجد میں آپ قیام کرنے کے زیادہ حقدار ہیں ۔
اور مدینہ منورہ پہنچ کر مسجد نبوی کی تعمیر کی جانب ابتدائی مرحلے میں ہی توجہ دے کر اپنی قیام گاہ سے قریب کے کھلیان اور دو یتیم بچوں کی زمین کو بطور قیمت خرید کر مسجد کی اہمیت کو ایک مرتبہ پھر آشکارا کیا۔
مسجد کی اہمیت کے پیش نظر ہی پنج وقتہ نمازوں کی مسجد میں باجماعت ادائیگی کو زیادہ اجر و ثواب کا ذریعہ بنایا گیا۔ مسجد کے لیے ایک الگ نماز ’تحیۃ المسجد‘ کو مشروع کیا گیا اور رمضان میں مسجد کی اہمیت و افادیت کو مزید واضح کرنے کے لیے اخیر کے دس دنوں میں روزے اور مزید عبادت و تلاوت کے لیے دس دن کا اعتکاف مسنون قرار دیا گیا۔
مسجد کو صرف نماز کے لیے ہی خاص نہیں کیا گیا بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ابتدائی دنوں سے ہی مسجد نبوی میں واقع چبوترہ پر اصحاب صفہ کے ساتھ درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کر کے اسے ایک تعلیمی مرکز بھی بنادیا۔ اہم ترین موقعوں پر مشورہ کے لیے بھی مسجد کا انتخاب کیا گیا اور کبھی کبھی تو جنگی معاملات، باہر سے آنے والے وفود کے استقبال اور ان کی رہنمائی اور دیگر اہم امور پر غور و خوض کے لیے بھی مسجد ہی کو منتخب کیا گیا۔ گویا اسلام میں مسجد صرف عبادت گاہ ہی نہیں بلکہ ایک کمیونٹی سنٹر اور ہر طرح کی سماجی اصلاح، تعلیمی بیداری اور ضرورتوں کی تکمیل کا اہم ادارہ اور مرکز بھی ہے۔
مساجد کی تعمیر اور اس میں حصہ داری نیک عمل ہے اسلام میں اس کی جانب کافی توجہ دلائی گئی ہے۔ حدیث میں اللہ کے لیے مسجد بنانے والے کو جنت میں گھر کی بشارت دی گئی ہے:
من بنی للہ مسجدا بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ(البخارى عن عثمان) اس وجہ سے مسلمانوں میں مسجد کی تعمیر کی جانب خصوصی توجہ اور عوامی بیداری بھی پائی جاتی ہے۔اور اگلے کئی سالوں کو مد نظر رکھ کر کافی وسیع و عریض کشادہ مسجدیں تعمیر کرنے کا مزاج مسلمانوں میں عام ہے۔
ایسی صورتحال میں ضرورت ہے کہ مسجدوں کو صرف نمازوں کے لیے نہیں بلکہ ان عمومی ضرورتوں اور مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے، جن کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجدوں کا استعمال ہوتا تھا۔ بیک وقت وہ تعلیم گاہ، مشورہ و میٹنگ کی جگہ اور دیگر رفاہی و تعلیمی کام میں بھی استعمال کی جائیں۔ الحمدللہ حرم مکی میں ’معہد الحرم المکی‘ کے نام سے مستقل تعلیمی ادارہ اور حرم مدنی میں تحفیظ القرآن کے منظم حلقے اور تصحیح قرأت کے ساتھ وہاں دروس قرآن، دروس حدیث، کتب عقائد و فقہ دیگر موضوعات پر دروس کا باقاعدہ مستقل انتظام اس سلسلہ میں نہایت مثبت اور قابل تقلید امور ہیں جن کو ہم اپنے علاقے کی مسجدوں میں بھی ضرور نافذ کر سکتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں نکاح اور شادی بیاہ میں بے جا فضول خرچی، رسم و رواج، جہیز، بارات اور سماج پر بوجھ بننے والی دیگر رسمیں اور اس سے پنپنے والی سماجی برائیوں سے بچنے کے لیے مسجدوں میں نکاح اور اس کے بعد بلا کسی غیر ضروری دھوم دھام کے رخصتی و سادہ انداز میں ولیمے کی مہم چلائی جا رہی ہے، یہ بھی مسجد کا ایک مثبت استعمال ہے جس کے ذریعے بہت سے منکرات اور غیر شرعی رسوم سے بچنے میں ان شاءاللہ ضرور مدد ملے گی۔
اس سلسلہ میں بعض لوگ کسی بڑے اور مہنگے ترین ہال یا لان میں خوب دھوم دھام سے عالیشان انداز میں رخصتی کی تقریب سے قبل مسجدوں میں نکاح کو مسنون سمجھتے ہیں اور کسی مسجد میں جاکر کسی بڑے عالم اور بزرگ سے نکاح پڑھوانے کے لیے کافی اہتمام اور اضافی کوشش کرتے ہیں۔ اور الگ سے گاڑیوں کے ایک لمبے قافلے کے ساتھ، لڑکی والے الگ اور لڑکے والے الگ، مسجد میں پہنچ کر اس اضافی کوشش اور رسم کو انجام دیتے ہیں۔ اور بعض لوگ تو اس کے لیے الگ سے کارڈ چھپواتے یا شادی کارڈ میں ہی الگ سے اس کا تذکرہ بھی کرتے ہیں۔ جو کسی طرح مسنون نہیں بلکہ ایک غیر ضروری اضافی رسم ہے جو ایک اضافی بوجھ اور نکاح کو آسان بنانے میں مانع اور سنت سمجھ کر کی جانے والی ایک نئی برائی کے طور پر عام ہو رہی ہے۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مسجدوں میں نکاح سے متعلق حدیث ضعیف ہے۔ اور غالبا اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی شادی یا آپ کی صاحبزادیوں میں سے کسی کی شادی یا دیگر صحابہ کرام کی شادیوں میں مسجد میں نکاح کے اہتمام، بلکہ اتفاقی نکاح کا بھی کوئی عمومی ثبوت اور تذکرہ تک نہیں ملتا اور مجموعی طور پر لاکھوں صحابہ کرام میں گنے چنے پانچ نام بطور ثبوت فراہم کرنا آسان نہیں جن کا نکاح مسجدوں میں ہوا ہو ۔
لہذا بے جا خرچ اور اسراف سے بچنے اور غلط رسم و رواج کو چھوڑنے کے لیے مسجدوں میں نکاح کو عام کرنا وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ لیکن ایک الگ اضافی اہتمام اور رسم کے طور پر مسجدوں میں نکاح ا ور پھر الگ سے رخصتی میں ہونے والی تمام خرافات کو انجام دینے سے اسلام میں نکاح کو آسان اور کم خرچ بنانے میں ہرگز مدد نہیں مل سکتی، بلکہ یہ اس عظیم اور وقت کی سب سے بڑی ضروری مہم کے لیے نقصان دہ اور اس میں مانع ہی ہوگا۔
آپ کے تبصرے