کسی بنجر زمین میں پودالگانایاکسی سنگلاخ وادی میں چشمہ نکالنا بڑامشکل کام ہے،مگر کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جوبتوفیق الہٰی اپنے پختہ عزم اور بلند ہمت کے ذریعہ اس دشوار کام کوآسان بنادیتے ہیں،انھی لوگوں میں ڈاکٹر عبدالباری رحمہ اللہ کانام بھی شامل ہے ، جو ڈومریاگنج،سدھارتھ نگر یوپی میں بیسویں صدی کے نصف آخرکے آغازمیں آئے۔اس وقت ڈومریاگنج میں دینی وعصری تعلیم برائے نام تھی،تعلیمی اعتبار سے اس کی حیثیت بنجر زمین یاسنگلاخ وادی کی تھی،مگرڈاکٹر صاحب نے وہاں تعلیم کے پودے لگائے اور علم وفن کے چشمے نکالے،پھر تدریجی طور پر سلفی،دیوبندی اور بریلوی سطح پر ڈومریاگنج میں دینی وعصری تعلیم کی بہارآگئی۔
ڈومریاگنج میں ڈاکٹرصاحب کاورود:
ڈاکٹرعبدالباری خان نے تکمیل الطب لکھنؤ میں طب وحکمت کی تعلیم حاصل کی،پھر وہ ۱۹۶۰ءمیں ڈومریاگنج آئے، وہاں روڈویز کے قریب زمین خریدی،اپنا مطب قائم کیا،بڑی جد وجہد کے بعد ایک کامیاب ڈاکٹر کے طورپر شہرت حاصل کی،اس وقت کا ڈومریاگنج جغرافیائی اعتبار سے بڑا محدود تھا، جوموجودہ ڈومریاگنج کاچوتھائی حصہ تھاجواس وقت تھانہ ڈومریاگنج کے شمال میں واقع ہے۔دینی وتعلیمی اعتبار سے قدیم ڈومریاگنج کی صورت حال یہ تھی کہ شمال میں دیوبندی مکتب فکر کی ایک جامع مسجد مع تعلیمی ادارہ تھی،جو اب بھی ہے اور چوراہا کے جنوب میں بریلوی حضرات کی ایک عید گاہ اور چھوٹی سی مسجد تھی ،جو اس وقت توسیع کے مرحلہ میں ہے۔
ڈاکٹر عبدالباری رحمہ اللہ کنڈؤ بونڈیہار کے اہل حدیث خاندان کے چشم وچراغ تھے،جب وہ ۱۹۶۰ء میں ڈومریاگنج آئے تو انھوں نے محسوس کیاکہ ڈومریاگنج کے علاقہ میں بہت سے چھوٹے بڑے قدیم اہل حدیث مکاتب ومدارس اور مساجد ہیں،لیکن قصبہ ڈومریاگنج میں کوئی اہل حدیث مسجدو مدرسہ نہیں ہے۔چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے بڑی جدو جہد سے ۱۹۶۶ء میں روڈویز کے جنوب میں ایک زمین خریدی،جہاں ایک چھپر کی مسجد تعمیر کی اور ۱۹۶۸ءمیں اسی سے متصل ایک ابتدائی مدرسہ قائم کیا،یہ دونوں اس وقت جامع مسجد عفراء اور مدرسہ ابوبکر صدیق الابتدائیہ کے نام سے عالیشان عمارتوں کی شکل میں موجود ہیں۔
دینی وعصری اداروں کاقیام:
ڈومریاگنج میں مدرسہ ابوبکرالصدیق سلفی طرزفکر کاڈاکٹر صاحب کالگایا پہلا تعلیمی پودا ہے،چند ہی برسوں میں تدریجی طور پر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور احباب ورفقاء کے تعاون سے وہ پودا تناوراور پھل دار درخت ہوگیا،جو اب جامعہ اسلامیہ خیرالعلوم ایجوکیشنل اینڈ ٹیکنیکل سوسائٹی کے نام سے ہندو پاک اورعالم عرب میں مشہور ومعروف ہے۔یہ جامعہ دینی وعصری تعلیم کاقابل اعتماد مرکز ہے، جس کی شاخیں ڈومریاگنج اور بعض دوسری جگہوں میں پھیلی ہوئی ہیں ۔سال تاسیس اور معیار تعلیم کے ساتھ ان تمام اداروں(شاخوں)کے نام درج ذیل ہیں:
مدرسہ ابوبکر الصدیق کے علاوہ دینی شاخیں پانچ ہیں:
(۱)کلیۃ الشریعۃو الدراسات الاسلامیۃ۱۹۷۹ء، اعدادیہ تاعالمیت
(۲)کلیۃ الطیبات(نسواں کالج)۱۹۸۱ء، ابتدائیہ تافضیلت وتخصص
(۳)معہد الایتام(یتیم خانہ)۱۹۸۸ء، درجہ طفلان تاپنجم
(۴)مدرسہ ابی بن کعب لتحفیظ القرآن۱۹۹۲ء ،شعبۂ حفظ وتجوید
(۵)مرکزالدعوۃ الاسلامیۃ(دعوت سینٹر)۱۹۹۴ء،اس شعبہ سے دوماہی مجلہ الفرقان شائع ہوتا ہے۔
عصری شاخیں چار ہیں:
(۱)خیر ٹیکنیکل سینٹر(آئی ٹی آئی)ڈومریاگنج،۱۹۹۵ء
(۲)خیر ٹیکنیکل انٹر کالج ڈومریاگنج۱۹۹۸ء
(۳)خیر پبلک اسکول ہاشم پارہ۲۰۰۳ء،ایل کے جی تاہائی اسکول
(۴)خیر پبلک اسکول نوگڈھ ۲۰۱۶ء، ایل کے جی تاہائی اسکول
ڈاکٹر عبدالباری رحمہ اللہ نے مذکورہ دینی وعصری اداروں کے علاوہ ضلع وبیرون ضلع کے مختلف قصبات ومواضعات میں ایک ہزار سے زائد مساجد کی تعمیر کرائی ہے جو اپنے اپنے علاقوں میں خطبۂ جمعہ کے ذریعہ دعوت دین کے کامیاب مراکز ہیں۔
چراغ سے چراغ جلتے ہیں:
چراغ سے چراغ جلنا اردوزبان کامحاورہ ہے،موجودہ ڈومریاگنج کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالباری رحمہ اللہ کی تعلیمی سرگرمیوں سے بعض سلفی وغیر سلفی حضرات کے اندر شعوری یاغیر شعوری طور پر یہ تحریک پیداہوئی کہ ہمیں بھی تعلیمی بیداری کے مشن میں حصہ لینا چاہیے،چنانچہ بیسویں صدی عیسوی کے آخری دہے میں مولانا عبدالواحد مدنی نے صفا ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی قائم کی، جس کے تحت ڈومریاگنج وغیرہ میں متعدد دینی وعصری ادارے بڑی کامیابی سے چل رہے ہیں۔ مولانا عبدالحفیظ رحمانی رحمہ اللہ نے بڑھنی روڈ پرڈومریاگنج سے متصل ایک جامع مسجد کے ساتھ مدرسہ قاسمیہ قائم کیا اور مولانا حفیظ اللہ قادری وغیرہ نے ڈومریاگنج کے جنوب میں بیدولہ گڈھ میں ایک تعلیمی ادارہ بنام خواجہ غریب نواز قائم کیااور اس کے تحت ایک عظیم الشان جامع مسجد کی بھی تعمیر کرائی۔اس حقیقت کاانکار نہیں کیا جاسکتا کہ ڈومریاگنج وبیدولہ کوتعلیمی اعتبار سے پُربہاروباوقاربنانے میں مذکورہ تعلیمی اداروں کابھی بڑادخل ہے۔
ڈومریاگنج میں مساجد کی تعمیر:
قصبہ ڈومریاگنج کی دینی تاریخ بڑی حیرت انگیز ہے،۱۹۷۰ءتک ڈومریاگنج وبیدولہ میں صرف تین مساجد تھیں،لیکن جب اس کی آبادی بڑھ گئی اوریہاں علاقہ کے لوگوں کی آمد ورفت بھی زیادہ ہوگئی توتدریجی طورپر مساجد کی تعدادبھی بڑھ گئی،چنانچہ ڈومریاگنج وبیدولہ میں چھوٹی بڑی مساجد کی تعداد اس وقت بیس(۲۰)ہے، جن میں بارہ(۱۲)اہل حدیث مساجد ہیں۔چاردیوبندی اور چار بریلوی مساجد ہیں،اکثر اہل حدیث مساجد کی تعمیر ڈاکٹر عبدالباری صاحب نے کرائی ہے،بعض مساجد کی تعمیر مولانا عبدالواحد مدنی کی وجہ سے ہوئی ہے،ان میں سے چھ مساجد کی حیثیت جامع مسجد کی ہے،جن کے خطبات جمعہ کے سامعین افراد اہل حدیث کے علاوہ سنجیدہ دیوبندی وبریلوی حضرات ہوتے ہیں اور خطبات جمعہ سے بھر پور استفادہ کرتے ہیں،اس طرح تدریجی طور پر سلفیوں کی تعداد میں بحمد اللہ اضافہ ہورہا ہے ، وبفضل اللہ تتم الصالحات۔
ڈاکٹر صاحب کے خاص معاونین:
دینی وعصری تعلیم کے اعتبار سے ڈاکٹر عبدالباری رحمہ اللہ کی جن خدمات کاذکر کیاگیا ہے، اس سلسلہ میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے تمام کارناموں میں ان کے بعض رفقاومعاونین کی قربانیوں کابڑا دخل ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۹۶۶ء میں مدرسہ کی جو تعمیرہوئی،اس میں مولاناعبدالقدوس ٹکریاوی رحمہ اللہ کی قربانی کابڑادخل ہے،ان کے بھر پور تعاون سے وہ کام انجام پذیر ہوا اور دس سال تک جو انھوں نے مفت خطبۂ جمعہ دیااس سے ڈاکٹر صاحب کو بڑی تقویت ملی اور مسلک کو فروغ حاصل ہوا۔
۱۹۷۹ء میں جنوبی پٹرول پمپ ڈومریاگنج کے قریب کی زمین اور بلڈنگ الحاج شہادت حسین رحمہ اللہ پرساعماد اور ان کے لڑکوں کاعطیہ ہے،جہاں پہلے جامعہ کاشعبۂ عربی چلتاتھا اورفی الحال وہاں مدرسہ ابی ابن کعب لتحفیظ القرآن چل رہاہے۔
۱۹۷۹ء میں جب ڈاکٹر صاحب مدرسہ ابوبکر صدیق کو جامعہ خیرالعلوم کی شکل میں لانا چاہتے تھے تو اس وقت راقم الحروف نے ڈاکٹر صاحب کاقلمی تعاون کیا،اردووعربی میں تعارفی کتابچے مرتب کیے،نصاب تعلیم تیارکیا،اس موقع پرایک عظیم الشان اجلاس ڈاکٹر صاحب نے منعقد کیاتھا،اس کی بھی بعض اہم ذمہ داریاں انجام دیں۔
۱۹۸۱ء میں کلیۃ الطیبات کے قیام وتاسیس اور خیر ٹیکنیکل بنگواں کی زمین کی خریداری میں اہراڈیہہ کے الحاج خیر اللہ رحمہ اللہ اور ان کے لڑکوں الحاج حقیق اللہ،مولاناحمیداللہ فیضی اور انجینئرحفیظ اللہ کابڑا بنیادی رول ہے۔
۱۹۸۸ءکے بعدڈومریاگنج اور اس سے باہر جامعہ خیر العلوم کے تحت جودینی وعصری ادارے قائم ہوئے،بتوفیق الٰہی اس کا سبب ڈاکٹرمحفوظ الرحمن سلفی رحمہ اللہ ہیں،ان کے بعد جامعہ کی تعمیر وترقی میں ان کے دونوں لڑکوں شیخ عبید الرحمن صدرجامعہ اورشیخ محمد نائب صدرجامعہ اور مولانافخرالدین ندوی نائب ناظم کے انتظامی تعاون کا بڑادخل ہے۔
ان باتوں کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عبدالباری رحمہ اللہ کے تمام تعلیمی وتعمیری کارنامے ان کے عزم محکم وعمل پیہم کا کرشمہ ہیں،انھوں نے پختہ ارادہ کیا اور محنت کی،پھر لوگ ساتھ آتے گئے اور کام پورا ہوتا گیا،جیساکہ شاعر نے کہاہے؎
سفرہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہاشجر سایہ دار راہ میں ہیں
ڈاکٹر صاحب کی سماجی وسیاسی بصیرت:
ڈاکٹر عبدالباری رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے سماجی وسیاسی بصیرت سے بھی نوازاتھا۔اس علاقہ کے باشندے واقف ہیں کہ ڈومریاگنج میں ہندوبھائیوں کی اکثریت ہے،مسلمانوں میں بریلوی حضرات زیادہ ہیں، سلفی ودیوبندی کم ہیں، ڈاکٹر صاحب وغیرہ نے اپنے دینی وسماجی شعور سے سب کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھا،اس لیے یہاں مسلکی منافرت کی فضا نہیں پیدا ہوتی،بلکہ ملی مسائل میں تمام مسلمان اکٹھانظر آتے ہیں۔اسی طرح ہندو بھائیوں کے ساتھ بھی ڈاکٹر صاحب کے خیر خواہانہ تعلقات تھے،جس کانتیجہ یہ رہاکہ ڈومریاگنج میں کبھی کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا،بعض مواقع پر کچھ شرپسندوں نے فساد کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی توڈاکٹر صاحب،ملک توفیق احمد صاحب اور ملک کمال یوسف وغیرہ کی سماجی وسیاسی بصیرت نے ماحول کوفساد زدہ ہونے سے بچالیا اور ڈومریاگنج کی قومی بھائی چارے کو باقی رکھا۔ اب آخر میں علامہ اقبال رحمہ اللہ کاایک شعر تحریرکررہاہوں جو ڈاکٹر صاحب کی شخصیت پر کافی حد تک منطبق ہے؎
نگہ بلند، سخن دلنواز،جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی دینی وعلمی خدمات کو شرف قبول بخشے،ان کی خطائیں معاف کرے اور جامعہ خیر العلوم کے ذمہ داروں کوتوفیق عطا فرمائے کہ وہ جامعہ اور اس کے تمام شعبوں کومزید ترقی دینے کی کوشش کرتے رہیں اور ڈومریاگنج کے تکثیری سماج میں ملی اتحاد،قومی بھائی چارے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو اخلاص کے ساتھ فروغ دیتے رہیں۔آمین
آپ کے تبصرے