جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈیہار اور ڈاکٹر عبدالباری صاحب

عبدالستارسراجی تاریخ و سیرت

جو یہاں آیا ہے اس کو جانا ہوگاایک دن
جب فنا ٹھہری تو پھر کیا سو برس کیا ایک دن
کل نفس ذائقۃ الموت:
دنیامیں کسی بھی مخلوق کو حیات دائمی حاصل نہیں ہے،ہر کسی کوایک نہ ایک دن موت کے گھاٹ اترنا ہے،اگر نبی محترم ﷺ کو حیات دائمی نہیں ملی توکائنات کااور کون ہوسکتا ہے جسے دائمی زندگی دنیا میں نصیب ہوجائے:
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍمِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَاْئِنْ مِّتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ
(الانبیاء:۳۴)
مرنا توسب کو ہے لیکن حقیقت میں موت اس کی ہے جس پر ایک زمانہ افسوس کرنے والاہو ،جو مرنے کے باوجود بھی زندہ رہتا ہے؎
لیس من مات فاستراح بمیت
إنماالمیت میت الأحیاء
دنیا سے انبیا ورسل گئے،ائمہ وعلما گئے،صدیقین اور شہدا،محدثین وفقہائے امت گئے،صلحاواتقیا گئے،شاہ و گدا گئے،حبیب خدا اور خلیل رحمان گئے،جانے کو سب گئے اور جائیں گے لیکن ہمیں چاہیے کہ اس انداز سے جائیں کہ جانے کے بعد بھی نہ جانے والوں کی طرح ہمارا تذکرہ ہو؎
جب آیا تھا تو دنیا میں سب ہنستے تھے تو روتا تھا
بسر کر زندگی ایسی کہ سب روئیں تو ہنستا جا
’’مستریح‘‘ بننے کی کوشش کیجیے،اسی میں دنیا وآخرت کی کامیابی کاراز مضمر ہے۔
مارچ۲۰۲۰ء سے اب تک جماعت کے بہت سے علمائے کبار،مفتیان جماعت اور تعلیم وتعلم اور نونہالان امت کے لیے فکر مند افراد دنیا سے چلے گئے، جن کاچرچا زبان وقرطاس پر جاری وساری ہے۔انھی معزز اور محترم ہستیوں میں سے ایک ہستی محترم ڈاکٹر عبدالباری صاحب رحمہ اللہ کی ہے جن کاانتقال پرملال لکھنؤ کے اسپتال میں ۹؍جولائی۲۰۲۰ء(۱۱؍بجے شب) کو ہوا۔
اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ وأکرم نزلہ ووسع مدخلہ واغلسہ بالماء والثلج والبرد ونقّہ من الخطایا کما ینقّی الثوب الأبیض من الدنس،وأبدلہ دارا خیرا من دارہ وأھلاخیرا من أھلہ وزوجا خیرا من زوجہ وأدخلہ الجنۃ وأعذہ من عذاب القبر وعذاب جہنم یارب العالمین۔

ڈاکٹر صاحب کی تدفین۱۰؍جولائی۲۰۲۰ء بروز جمعہ کنڈؤ کے قبرستان میں ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے، ملک وبیرون ملک ہرجگہ معروف ومشہور تھے، ان کے کارناموں کو لوگ بہ نظر تحسین دیکھتے تھے اور اس کی سراہنا بھی کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں۔جب تک تعلیم وتعلم کادور چلتا رہے گا ڈاکٹر صاحب کی شخصیت لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوسکتی ہے ،کیونکہ ان کے تابندہ نقوش زمینی سطح پر اتنے مضبوط اور پائدار ہیں کہ جن کو حقیقت پسندانہ نگاہ رکھنے والے فراموش نہیں کرسکتے،خواہ دینی تعلیم کامسئلہ ہویا ایتام وبیوگان کے آنسو پوچھنے کا،ٹھنڈی کاموسم ہویاعید قرباں کا موقع، لوگوں کی پیاس بجھانے کامسئلہ ہویاشکم سیری کا،ڈاکٹر صاحب اس میں پیش پیش رہتے تھے،جس کاجیتا جاگتا ثبوت ڈومریاگنج اور قرب وجوار میں چاروں طرف بکھری ہوئی عمارتیں اور ان کے مکین ہیں،جو قال اللہ وقال الرسول کی صدابلند کرتے رہتے ہیں ،جنھیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ علوم کی نگری ہے۔
جہاں تک تعمیر مساجد کامسئلہ ہے تو جس علاقے میں قدم رکھو وہاں کے منارے زبان حال سے گواہی دیں گے، خود راقم الحروف کے گاؤں میں ایک عالیشان مسجد کی تعمیر ۱۶؍سال پہلے ہوئی ہے،جو ڈاکٹر صاحب کے تعاون ہی سے وجود میں آئی ہے۔
ڈومریاگنج میں جس طرف نظر دوڑائیے ڈاکٹر صاحب کے کارنامے نظر آئیں گے اور ان کی ملت کے تعلق سے فکر مندی اور نونہالان امت کی تعلیم وتربیت کے لیے ان کی انتھک کوششوں اور بے لوث خدمات کوزبان حال سے بیاں کررہے ہیں۔ڈومریاگنج کاشعبۂ مکتب،شعبۂ تحفیظ القرآن،کلیۃ الطیبات،دارالایتام،جامعہ اسلامیہ خیر العلوم،خیر ٹیکنیکل سینٹر اور مختلف مساجد،ڈاکٹر صاحب کی تعلیمی بیداری، افراد امت کے ساتھ بہی خواہی اور جمعیت وجماعت کے ساتھ ان کی گہری فکر مندی کی واضح اور روشن دلیلیں ہیں،ان کے لگائے ہوئے پودوں سے خلق کثیر استفادہ کررہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب مختلف اداروں کے بانی اور ذمہ دار،ڈومریاگنج میں چلنے والے یتیم خانہ کے بانی،قصبہ ڈومریاگنج کے بے تاج بادشاہ ، ماہر ڈاکٹر اور نباض تھے۔ان اداروں کے وجود میں آنے سے قبل ڈومریاگنج وقرب وجوار میں ان کی ڈاکٹری کاشہرہ تھا،ان کے نام پر بڑے بڑے مریض مشقت برداشت کرتے ہوئے آتے تھے اور اللہ کے حکم سے شفا یاب ہوتے تھے،لیکن جب انھوں نے تعلیم وتعلم کی نگری بسائی تواس میں اس طرح کھوگئے کہ ڈاکٹری دوسرے درجے کاعمل بن گئی اور پھر بعد میں آپ نے کلی طورپراسے خیر بادکہہ دیا۔
جناب ڈاکٹر صاحب کاآبائی وطن موجودہ ضلع بلرام پور کامشہور ومعروف گاؤں کنڈؤ بونڈیہار ہے ،جہاں انھوں نے جنم لیا اور ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ مشہور ادارہ جامعہ سراج العلوم میں کئی جماعتوں تک پڑھائی کی، اس لیے وہ اس علاقہ سے بہت محبت کرتے تھے،یہاں کے ادارہ سے گہرا لگاؤ تھااور اس علاقہ کے لیے ہمہ وقت مستعدی بھی دکھاتے تھے اور ضرورت پڑنے پر بڑھاپے کے باوجود پہنچتے تھے اور اپنے قول وفعل کے ذریعے جامعہ سے وابستگی کااظہار کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کاجامعہ سراج العلوم اور قرب وجوار کے ساتھ جوتعلق تھا، اس سلسلے میں قدرے تفصیل کے ساتھ ہم جاننے کی کوشش کریں گے اور ان کے کارناموں کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں گے۔
نائب ناظم:
جناب ڈاکٹر عبدالباری رحمہ اللہ جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈیہار،بلرام پور،یوپی کے نائب ناظم تاحیات رہے،وہ ہمیشہ جامعہ کے لیے فکر مند رہتے تھے،اس کی تعمیر وترقی کاجذبۂ بے پایاں ان کے قلب وجگر میں کوٹ کوٹ کر بھراہواتھا،جب بھی جامعہ کی کوئی میٹنگ ہوتی تھی وہ برابر شریک ہوتے تھے اور اپنے گراں قدرمشوروں سے نوازتے تھے اور حتی المقدور ہر قسم کادست تعاون بھی دراز کرتے تھے۔شاذونادر ایساہواہوگا کہ ڈاکٹر صاحب جامعہ کی میٹنگ میں شریک نہ ہوئے ہوں،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جامعہ سے آپ کا گہرالگاؤ تھااور اس کے مشن کوآگے لے جانے کاجذبہ تھا۔ڈاکٹر صاحب جامعہ کے تعمیری کاموں کے برابر حصہ دارتھے۔
ڈاکٹر صاحب اور تعمیر نسواں:
جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈیہار کاایک تعلیمی شعبہ کلیۃ الشریعۃ للبنات ہے جو بروقت پانچ عمارتوں پر مشتمل ہے،جس میں ایک نئی عمارت ہے باقی قدیم عمارتیں ہیں۔جامعہ کے اس شعبہ میں درجہ تین سے لے کرجماعت ثامنہ (آٹھویں)تک کی تعلیم کابندوبست ہے جس میں مکتب کاتین درجہ اور متوسطہ،ثانویہ،عالمیت اور فضیلت قائم ہے،معلمین ومعلمات کی کل تعداد۲۲؍ہے اور طالبات کی مجموعی تعداد نوسو(۹۰۰)سے متجاوز ہے جس میں تقریبا ساڑھے چارسو(۴۵۰) طالبات دارالاقامہ میں مقیم رہتی ہیں۔
شعبہ نسواں کی مشرقی عمارت جو کلاس روم کے طورپر استعمال ہورہی ہے ڈاکٹر صاحب کی کدوکاوش کاثمرہ ہے اور اس کی تعمیر میں ڈاکٹر صاحب کامکمل ہاتھ ہے،جوآج بھی تعلیم وتعلم کے لیے استعمال ہورہی ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ اس عمل کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کی انسانی اور فطری لغزشوں کو درگذرفرمائے اور فتنۂ قبر سے نجات دے۔ آمین
ڈاکٹر صاحب اور شعبۂ تحفیظ القرآن:
جامعہ کاایک اہم شعبہ تحفیظ القرآن کاہے، جس میں ۱۲۵؍طلبہ ہر سال تعلیم حاصل کرتے ہیں، جن میں سے چند طلبہ کو چھوڑ کر سبھی دارالاقامہ میں رہتے ہیں۔ان کی تعلیم وتربیت کے لیے چار اساتذہ مامور ہیں جو ہمہ وقت جامعہ میں رہتے ہیں اور طلبہ کو اپنی نگرانی میں رکھتے ہیں۔
اس شعبہ کے لیے بروقت دوعمارت ہے جس میں ایک ہاسٹل کے لیے استعمال ہورہی ہے اور دوسری عمارت کلاس کے لیے ،جس میں کل چار کلاسیں لگتی ہیں۔درس گاہ والی عمارت میں کل چھ کمرے ہیں، جس میں دوکمرے ڈاکٹر عبدالباری صاحب رحمہ اللہ نے تعمیر کروائے تھے اور سارے اخراجات کی ذمہ داری لی تھی ،اللہ تعالیٰ انھیں اس کابہترین بدلہ عطافرمائے۔ آمین
ڈاکٹر صاحب اور ملت پبلک اسکول:
کنڈؤ بوڈیہار میں لب روڈایک انٹر کالج ہے جو ’ملت پبلک اسکول‘ کے نام سے جانا جاتا ہے،اس کی بنیاد اور تعمیر میں ڈاکٹر صاحب کااچھا خاصا کردار رہاہے اور انھوں نے اس کو آگے بڑھانے میں بہترین رول ادا کیاہے ۔ یہ کالج علاقہ وجوار کے نونہالوں کوعصری تعلیم سے روشناس کرارہا ہے جس کی چہار دیواری بتارہی ہے کہ ملت کے نونہالوں کے تعلق سے ذمہ داران کس قدر فکر مندہیں کہ وہ عصری علوم حاصل کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے ربط وتعلق کو مضبوط تر بنانے کی کوشش کریں۔
ڈاکٹر صاحب اور تعمیر مساجد:
جامعہ سراج العلوم کے کلیۃ الشریعۃ للبنات کی مسجداورشعبۂ مکتب کی مسجد کی تعمیر ڈاکٹر صاحب کے ذریعہ ہوئی ہے۔ اسی طرح سے مہوا میں مسجد اور مکتب کی تعمیر ڈاکٹر صاحب نے کروائی ہے اور اس کا پورا خرچ بھی پہلے دے رہے تھے جہاں مولانامحمدشمیم مدنی جامعہ سرا ج العلوم کے استاد جامعہ میں تدریس کے ساتھ امات وخطابت کافریضہ انجام دے رہے ہیں۔اسی طرح سے ہاشم پارہ میں بھی ڈاکٹر صاحب نے مسجد کی تعمیر کروائی ہے اور اس علاقہ کی مختلف مساجدآپ کے دست تعاون سے وجود میں آئی ہیں جنھیں دیکھتے وقت خود ڈاکٹر صاحب کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔
جامعہ سراج العلوم، اس کے قرب وجوار اور علاقہ میں مساجد کی تعمیر کے علاوہ ضلع بلرام پور،سدھارتھ نگر،بستی،گونڈہ اور دیگر اضلاع میں مساجد کاایک جال پھیلاہوا ہے، جوڈاکٹر صاحب کے توسط سے تعمیر ہوئی ہیں،بلکہ بعض جگہوں پر مسجد کے ساتھ ساتھ مکتب کے لیے عمارت کابھی بندوبست کیاہے،اس کے لیے میرے علم کی حد تک مہوابلرام پور،جھہراؤں سدھارتھ نگراور بلونٹ سدھارتھ نگر وغیرہ دلیل ہیں اور جہاں بھی مسجد یں تعمیر ہوئی ہیں بڑی مضبوط اور پختہ ہیں۔ خود راقم الحروف کے گاؤں میں جو مسجد ہے، اس کی چہار دیواری کے بعض حصے کو ایک ضرورت کے تحت توڑنے کی بات آئی توکاریگرپریشان ہوگیا اوراعتراف کیاکہ بہت مضبوط دیواربنائی گئی ہے اوراچھا مصالحہ استعمال کیاگیاہے۔یہ تمام اعمال جو زمین پر موجود ہیں وہ زبان حال سے ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی کوشش ،محنت ومشقت اورپختہ ومضبوط ارادوں کی دلیل ہیں۔اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو اس کا بہترین بدلہ عطافرمائے اور آخرت میں کامیابی کاذریعہ بنائے۔ آمین ،تقبل یارب العالمین۔
ڈاکٹر صاحب اور انتظامی امور:
ڈاکٹر صاحب کو کنڈؤ بونڈیہار بطور خاص اور عموما پورے علاقے سے بہت زیادہ محبت تھی اور جامعہ سے توحد درجہ محبت کرتے تھے اور قولی اورعملی طورپراس کااظہاربھی کرتے تھے ،جامعہ کے تعلق سے ہمیشہ فکر مندرہتے تھے، مولانا اقبال رحمہ اللہ کے زمانے ہی سے رائے اور مشورے دینے میں پیش پیش رہاکرتے تھے۔ اور جامعہ کی میٹنگ جب بھی ہوتی تھی اس میں شریک ہوتے تھے اور اراکین کی اچھی رہنمائی کرتے تھے۔جامعہ کے نظم وضبط کامسئلہ ہویا اساتذہ کے رکھنے اور نکالنے کی بات ہو،تعلیمی ترقی کی بات ہویاطلبہ وطالبات کے احوال کامسئلہ ہو،ہمیشہ ان مسائل میں دلچسپی لیتے تھے، جہاں کہیں ملاقات ہوتی؛جامعہ،طلبہ ، اساتذہ،تعلیم اور انتظام کے تعلق سے استفسار کرتے تھے،بہترین حالات کو سن کر دلی خوشی اور احساسات کااظہار کرتے تھے اور اگر کچھ خامی نظر آتی تواس پر برملااپنی رائے کااظہار کرتے اور اس خامی کو دور کرنے کے لیے بہترین مشورہ دیتے تھے۔جامعہ سراج العلوم میں میں نے جب سے قدم رکھا ہے، کئی مرتبہ ان سے ملاقات ہوئی ہے اور ہر ملاقات پرجامعہ اور تعلیم کے سلسلے میں ضرور پوچھا ہے اور رہنمائی اور نصیحت کی ہے کہ آپ یہاں آگئے ہیں تو جامعہ کوترقی کے اعلی منازل پر لے جانے کے لیے انتھک کوشش کیجیے اور اسے پروان چڑھانے کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلیے۔
ڈاکٹر صاحب جب بھی اپنے گاؤں کنڈؤ آتے توجامعہ ضرور آتے تھے۔ جامعہ کی علمی نشاطات اور نظم وضبط کی چیزیں معلوم کرتے تھے اور بچوں کے رکھنے اور نکالنے کے سلسلے میں بھی تبادلۂ خیال کرتے تھے۔جامعہ کو جب بھی کسی طرح کی پریشانی درپیش ہوتی تومعاون بنتے تھے اور پیش آمدہ مسائل کوحتی المقدور سلجھانے کی کوشش کرتے تھے اور ڈھارس بندھاتے کہ دیکھو زندگی میں اس طرح کی پریشانیوں کاسامنا توکرنا ہی پڑے گا ،جب ذمہ داری کاقدم آگے بڑھاؤ گے توراستے میں روڑے پڑیں گے اور دقتوں سے دوچار ہوناپڑے گا، سنجیدگی اور صبر کامظاہرہ کرناہوگا۔
ڈاکٹر صاحب جامعہ کے انتظامی امور کے سلسلے میں بھی گہری دلچسپی لیتے تھے ،انتظام وانصرام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے اپنی فکر مندی کامظاہرہ کرتے تھے اور بسااوقات مولانااحسان اللہ صاحب کو فون کرکے ان کو جامعہ کے نظم وضبط کی جانب متوجہ کرتے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب اگر چہ جامعہ خیر العلوم اور اس کے مختلف شعبوں کے سربراہ اعلیٰ تھے لیکن جامعہ سراج العلوم کو بھی اپنے دل کے نہاں خانے میں جگہ دیتے تھے، اس کی تعمیری وتعلیمی ترقی کے خواہاں رہتے تھے اور عروج وبلندی کو سن کر خوشی کااظہار بھی کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب اور مولانااحسان اللہ صاحب:
ڈاکٹر عبدالباری رحمہ اللہ اور جامعہ سراج العلوم کے موجودہ ناظم اعلیٰ مولانا احسان اللہ صاحب کے درمیان بڑے گہرے روابط تھے، ایک تو اس بنیاد پر کہ ڈاکٹر صاحب اور ناظم اعلیٰ کاگاؤں اور قدیم خاندان ایک ہی ہے ،جیساکہ سب کو معلوم ہوگا کہ کنڈؤ بونڈیہار خاندان کئی گاؤں اور بستی میں پھیلاہواہے؛ تواس نسبت سے دونوں کے مابین بڑی قربت اور یگانگت پائی جاتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ جامعہ سراج العلوم کنڈؤ بونڈیہار میں دونوں نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی ہے، دونوں ایک ہی دور میں علوم کتاب وسنت سے روشناس ہورہے تھے۔ ایک مرتبہ مولانا احسان اللہ صاحب نے بتایا کہ نسواں میں جنوبی جانب جو قدیم عمارت ہے اس میں ہم لوگوں نے اسباق پڑھے ہیں اور کبار اساتذہ کے سامنے اسی عمارت میں زانوئے تلمذتہ کیاہے۔
تیسری وجہ دونوں کے درمیان قربت کی یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک لمبے عرصے سے جامعہ سراج العلوم کے نائب ناظم تھے، حاجی عبدالنعیم خان صاحب رحمہ اللہ کے دور نظامت میں بھی وہ نائب ناظم تھے اور مولانا اقبال رحمانی رحمہ اللہ کے دور نظامت میں بھی اپنی آراء اور مشوروں کے ذریعہ جامعہ کی مددکرتے تھے۔
مولانا احسان اللہ صاحب نے بتایاکہ جب بھی میں ممبئی سے گاؤں آتاتھا توڈاکٹر صاحب کوآگاہ کرتایانہیں کرتا،کسی نہ کسی ذریعہ سے ان کو میرے آنے کاعلم ہوجاتا تووہ فون کرتے اور خود آکر جامعہ میں ملتے، خیریت دریافت کرتے اور جامعہ کے حالات سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے اور مستقبل کے لیے مفید مشوروں سے نوازتے اور گھر سے ملاقات کے لیے آتے ہوئے مختلف قسم کے میوے اور پھل فروٹ لے کر آیاکرتے تھے اور اس بات پر اصرار کرتے کہ آپ ہمارے یہاں آئیں آپ کی دعوت رہے گی،میں حاضری دیتا تو بڑے پرتپاک انداز میں ملتے اور خوب سے خوب ترضیافت کرتے اور اپنے مدارس ومعاہد کامشاہدہ کرواتے اور ساری تفصیلات بتانے کے ساتھ ساتھ مجھ سے بھی رائے اور مشورہ لینے کی کوشش کرتے ۔ بسااوقات میں خودڈاکٹر صاحب کے یہاں پہنچ جاتا اور اپنے جامعہ کی تفصیلات بتاتا اور مستقبل کے لیے مشورے طلب کرتا، اسی طرح سے ہمارے اخوان بھی جب ممبئی سے گاؤں اور جامعہ آتے تو ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ ان لوگوں سے بھی اسی انداز میں ملتے، خیریت دریافت کرتے اور جامعہ کے سلسلہ میں طویل گفتگوکرتے تھے۔
بہرحال ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ جس طرح سے جامعہ سراج العلوم اور اس کی علمی نشاطات سے محبت کرتے اور خوشی کااظہار کرتے تھے اسی طرح مولانا احسان اللہ صاحب اور ان کے برادران سے بھی محبت کرتے تھے اور ان سے مل کر خوشی کااظہار کرتے تھے۔
جامعہ سراج العلوم آسام روڈ پر:
۱۹۸۲ء یا۱۹۸۳ءکی بات ہے کہ مولانااحسان اللہ صاحب ممبئی سے گاؤں آئے توڈاکٹر عبدالباری صاحب رحمہ اللہ سے حسب روایات سابقہ ملاقات کے لیے آئے اور قدیم ادارے پرجہاں بروقت نسواں اور مکتب قائم ہے، ملاقات ہوئی اور اچھی طرح ضیافت ہوئی،ڈاکٹر صاحب نے مولانا سے کہا کہ میری رائے ہے کہ جامعہ کو آسام روڈپرلے چلو اور یہاں نسواں قائم کردو،بچوں اور بچیو ں کی عمارت میں دوری رہے گی توٹھیک رہے گا۔ڈاکٹر صاحب نے یہ بات زوردے کر کہی کہ یہ کام ضرور کرو،اس میں بہتری ہے اور بتایا کہ بھنڈریا میں ایک عورت ہے جولب روڈ اپنی زمین بیچناچاہتی ہے ،چلو اسی وقت اس سے بات کرتے ہیں۔دوگھنٹے کے اندر مشورہ اور پلان ہوااور دونوں بھنڈریا گئے، اس عورت سے ملاقات کی ،وہ فروخت کرنے پر راضی ہوگئی لیکن اس کے بیٹے تیار نہیں ہورہے تھے،وہ اسے اپنی روزی روٹی کاذریعہ بتاکر بیچنے سے منع کررہے تھے،بہر حال کسی طرح سے سمجھا بجھاکر اس عورت کو مولانا احسان اللہ صاحب اپنے گھر لائے،اس نے رات بھر قیام کیا اور صبح مولانااحسان اللہ صاحب، ڈاکٹر عبدالباری صاحب رحمہ اللہ اور اکرام الدین بابو یہ تینوں اترولہ گئے،مولانا کی ماں کے نام ساڑھے چھے بیگھہ کی رجسٹری ہوئی اور وہیں جامعہ کے نام وقف نامہ تیار کرکے رجسٹرڈ کراکر جامعہ کے حوالے کردیا گیا۔اب تعمیرات کامسئلہ سامنے آیا تومولانا احسان اللہ صاحب نے مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ (جن سے مولانا کے اچھے تعلقات ہی نہیں بلکہ ان کے ادارہ کے باڈی کے خصوصی ممبر بھی تھے اور ہر موقع پر منصورہ پہنچتے بھی تھے) سے اس کاتذکرہ کیا کہ آپ باہر آتے جاتے ہیں، آپ ہمارے ادارے کے لیے کوشش کیجیے،چنانچہ ندویؔ صاحب رحمہ اللہ باہر سفر پر منصورہ کے کام سے گئے توکچھ دنوں کے بعد فون کیا کہ مولانا آپ کے ادارہ کے لیے ایک بڑی مسجد کی تعمیر کی ذمہ داری جلالی صاحب نے لی ہے اور اس کے لیے انھوں نے پندرہ لاکھ کا بجٹ مختص کیاہے۔ چنانچہ مولانامختار احمدندوی صاحب رحمہ اللہ جب سفر سے واپس آئے تواپناانجینئر بھیجااور ا ن کے نقشے کے مطابق مسجد کاتعمیری کام شروع ہوا۔کام بڑی تیزی اور امانت داری کے ساتھ انجام پایا جس کے نتیجے میں کل ۱۳؍لاکھ میں مسجد مکمل ہوگئی اور اس کی خبر جب مولانا مختار احمد ندوی ؔرحمہ اللہ کودی گئی توبہت زیادہ خوش ہوئے کہ اب تک میں نے دوسو سے زیادہ مسجدیں تعمیر کروائی ہیں لیکن ہر جگہ روپئے کی کمی کاشکوہ ہوا ،آپ تنہا ایسے فرد ہیں جنھوں نے کام مکمل بھی کرلیااور روپیہ بھی بچ گیا،اب آپ ایساکیجیے کہ آپ کے ادارے کی مسجد کے نام پر روپیہ آیاتھا اس لیے اس کو ادارہ ہی میں خرچ کردیجیے، جس کی صورت یہ ہے کہ آپ تمام بھائی مل کر ایک عمارت کی بنیاد ڈالیے اور اسی میں بچت کو بھی صرف کردیجیے،چنانچہ دس لاکھ کی لاگت سے مسجد کے ٹھیک سامنے مشرقی جانب ایک عمارت تیار ہوگئی، اس عمارت میں آٹھ لاکھ مولانا احسان اللہ صاحب اور ان کے اخوان نے لگایا اور ساڑھے چھ بیگھہ زمین کی خریداری میں ساڑھے چار لاکھ لگا جسے مولانا احسان اللہ صاحب نے تنہا اداکیاتھا۔(جزاھم اللہ خیرا)
بہر حال جامعہ سراج العلوم کے کلیۃ الشریعۃ للبنین اور شعبۂ تحفیظ کے آسام روڈ پر آنے کامشورہ ڈ اکٹر عبدالباری صاحب رحمہ اللہ نے دیا اور زمیں کی خریداری میں پیش پیش رہے۔
ڈاکٹر صاحب اور شیخ الجامعہ ثناء اللہ سلفیؔ صاحب:
شیخ الجامعہ کے بقول ڈاکٹر صاحب سے میرے اچھے تعلقات تھے، مختلف امور کے تعلق سے میں نے ڈومریاگنج اور دیگر جگہوں پر آپ سے ملاقات کی توآپ بڑے تپاک سے ملے،خوشی کااظہار فرمایا، خیریت دریافت کی اور ضیافت کاحق ادافرمایا،جامعہ کے حالات کے بارے میں استفسار کیا،طلبہ اور اساتذہ کے بارے میں پوچھا،نظم وضبط کے تعلق سے سوال کیا اور جامعہ کیسے چل رہاہے،مالی حالت کیسی ہے،طلبہ کی تعلیم وتربیت کاکیاحال ہے؟ان سب سوالوں کا جواب پانے پر خوشی کااظہار کیاکرتےاور اطمینان کااظہار کرتے ہوئے اپنے حالات بتاتے،جامعہ خیر العلوم اور اس کے مختلف شعبوں کے احوال سے روشناس کراتے، ایک مرتبہ مجھے جامعہ کی میٹنگ میں بھی شریک کیااور مختلف امور کے تعلق سے مجھ سے بھی رائے طلب کی۔
ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے ،گھر کے احوال بھی دریافت کرتے رہتے تھے،شیخ تبارک حسین قاسمی رحمہ اللہ کے انتقال کے موقع پر آپ نے مجھے فون کرکے انتقال کی خبردی اور دیگر بعض موقعوں پر بھی بعض امور سے متعلق استفسار کی خاطر مجھے فون کیا اور بسا اوقات فون پر لمبی گفتگو ہوئی۔
جب بھی میں آپ سے ملنے گیا،بڑھاپا،ضعیفی اور بعض بیماریوں سے دوچار ہونے کے باوجودملاقات کی، ضیافت کی اور سارے حالات سے آگاہی چاہی،ڈاکٹر صاحب کی ایک خصوصیت تھی کہ وہ مسکراکرملاکرتے تھے،باتوں کے درمیان بھی لب پر مسکراہٹ ظاہر ہوجایاکرتی تھی۔
اسی طرح سے سفارت کے تعلق سے بھی آپ سے گفتگو ہواکرتی تھی،کب جانا ہے؟کیسے جانا ہے؟ کہاں جاناہے؟اس سلسلے میں دریافت بھی کرتے اور شیخ عبدالرحمن لیثیؔ مدنی صاحب کے ساتھ سفارت پر نکلنے کے لیے بندوبست بھی کرتے اور پورے سفر پر نگاہ بھی رکھتے تھے، دوران سفارت بھی بسااوقات گفتگو ہوجایاکرتی،اطمینان بخش حالات سن کر خوش ہوتے اورسفارت کی کامیابی کے لیے دعا دیتے تھے۔
بہر حال یہ ہمارے اور ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کے درمیان تعلقات،گفت وشنید اور آپس میں میل محبت اور یگانگت کی صورت تھی جو میں نے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں جگہ عطافرمائے اور غلطیوں کودرگذرکرتے ہوئے بہتر سے بہتر معاملہ فرمائے۔ آمین،یارب العالمین۔
اختتام:
چلتے چلتے ایک بات کاتذکرہ اور کردوں کہ بنین اور بنات کے شعبہ میں پانی کی دوٹنکیاں لگی ہوئی ہیں، جس سے اساتذہ، معلمات،طلبہ اور طالبات شب وروز استفادہ کررہے ہیں، وہ بھی ڈاکٹر صاحب کی نظر عنایت کاثمرہ ہے۔
مذکورہ تمام خدمات پر جامعہ کے ذمہ داران،معلمین ومعلمات،طلبہ وطالبات اور پورا عملہ ڈاکٹر صاحب کو خراج تحسین پیش کرتا ہے اور ان کے لیے دعاگو ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کودرگذرفرمائے،ان کی خدمات جلیلہ کوان کے لیے آخرت میں نجات کاذریعہ بنائے اور جنت الفردوس کامکین بنانے کے ساتھ ساتھ انبیا،صدیقین،شہدا اور صالحین کی رفاقت نصیب فرمائے۔ آمین
اللہم اغفر لہ وارحمہ وأدخلہ جنۃ الفردوس

ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین اباد

آپ کے تبصرے

3000