دکتورمحفوظ الرحمن سلفیؒ: حیات و خدمات کا ایک مختصر خاکہ

عبداللہ صلاح الدین سلفیؔ سوانح

پہاڑوں اورغاروں میں پتھرکے ٹکڑوں اورسنگ ریزوں کی تعدادبے شمارہوتی ہے،لیکن انھی میں سے کوئی سنگ ریزہ لعل ویاقوت بن کر نکل آتاہے۔سمندرمیں بارش کے بے شمارقطرے ہرسال گرتے ہیں،لیکن انھی میں چندقطرے وہ بھی ہوتے ہیں، جوآغوش صدف میں پل کر موتی بن کر نکلتے ہیں۔دکتور محفوظ الرحمن بن زین اللہ سلفیؔ رحمہ اللہ ایک ایسے ہی گوہر نایاب تھے۔ذیل میں آپ کا مختصرسوانحی خاکہ پیش کیاجاتا ہے۔
نام ونسب:
محفوظ الرحمن بن زین اللہ بن جنگ بہادربن مراد
مولد ومسکن:
تاریخ ولادت ۲؍مارچ۱۹۴۸ءہے۔ضلع گونڈہ تحصیل اترولہ میں ایک گاؤں ’’کنڈؤ‘‘کہلاتاہے (جسے ضلعوں کی نئی تقسیم نے بلرام پور کے حدود میں داخل کردیا ہے)یہ گوہرنایاب اسی کان سے نکلااور یہ جوہرفردایک علمی ودینی خاندان سے چمکا ۔ ان کے والد محترم ایک باعمل عالم دین تھے،انھوں نے اپنی آبائی بستی’کنڈؤ بونڈیہار‘کوچھوڑ کر ڈومریاگنج قصبے میں آباد ہوناپسند کیا،جو پہلے ضلع بستی کاایک مشہور ومعروف قصبہ تھا،اب نئی تقسیم کے تحت ضلع سدھارتھ نگر کے حدود میں پڑتا ہے۔
تعلیم وتربیت:
شیخ کی نشوونما اور تعلیم وتربیت کی ابتدا والد بزرگوار مولانا زین اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سایۂ عاطفت میں ہوئی،جو دعوت وتبلیغ کے شیدائی،جید عالم دین اور مبلغ تھے۔ان کا خاندان علمی تھا اور والد بزرگوار بہت ہی غیور اور خوددارتھے،شیخ کی تربیت اسی ماحول میں ہوئی،جس کا پوراپورا عکس وپَرتوان کے مزاج پرنظر آتاتھا۔
ان کی باضابطہ تعلیم کاآغاز گاؤں(کنڈؤ) کے مکتب سے ہوئی،جہاں قرآن مجید اور دیگر ابتدائی کتابیں پڑھیں،پھر’جامعہ سراج العلوم‘کنڈؤ بونڈیہارمیں بقیہ ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
عربی کی پہلی جماعت کی تعلیم معروف ومشہور شہر’کلکتہ‘کے مدرسہ’نداء الاسلام‘میں حاصل کی ،جہاں ان کے والدماجد تجارت کے ساتھ ساتھ دعوت وتبلیغ کافریضہ انجام دیاکرتے تھے۔
اس کے بعد ہندوستان کے علمی شہرمئوناتھ بھنجن چلے آئے اور’فیض عام‘کے علمی فیوض سے فیض یاب ہوئےاور دوسری، تیسری اور چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔
پھر ۱۹۶۴ء میں مشہور حنفی ادارہ’دارالعلوم‘دیوبند میں داخلہ لیااور۱۹۶۸ءمیں سندفضیلت حاصل کی،علاوہ ازیں اسی چار سالہ مدت میں ’دارالعلوم‘کے شعبۂ فن خطابت وانشاء سے ڈپلوماکی ڈگری بھی حاصل کرلی۔
۱۹۶۹ءمیں ہندوستان کے عظیم سلفی ادارہ’جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم‘بنارس میں داخل ہوکرتخصص فی الشریعۃکاکورس مکمل کیا۔
پھر۱۹۷۲ء میں سمندری راستے سے بغداد ہوتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچ گئے اور’جامعہ اسلامیہ‘کے’کلیۃ الدعوۃ و اصول الدین‘میں داخلہ لیا اور۱۹۷۶ء میں’لیسانس‘(بی اے)کاکورس مکمل کیا ،مقالہ کاموضوع’الإرسال فی مصطلح الحدیث‘تھا ، لیسانس کے بعد’جامعہ اسلامیہ‘ہی میں’قسم السنۃ‘سے۱۹۸۰ء میں فرسٹ کلاس سے ماجستر(ایم اے)پاس کیا،مقالہ کا موضوع’تحقیق کتاب تلخیص العلل المتناھیۃ فی الأحادیث الواھیۃ‘للحافظ شمس الدین الذھبي تھا۔پھر اسی جامعہ سے دکتوراہ کرنے لگے اور ۱۹۸۳ء میں دکتوراہ(پی،ایچ،ڈی)کی ڈگری فرسٹ کلاس سے حاصل کرکے ’دکتور‘ کے لقب سے ملقب ہوئے، مقالہ کاموضوع’تحقیق مسانید الخلفاء الأربعۃ من العلل للدارقطني‘تھا ۔
مشہور اساتذۂ کرام:
شیخ رحمہ اللہ نے جامعہ سراج العلوم بونڈیہار،جامعہ فیض عام مئو،دارالعلوم دیوبند،جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے بہت سے افاضل اساتذہ ٔکرام سے استفادہ کیا،یہاں بطور مثال چند اساتذہ ٔکرام کے اسمائے گرامی درج کیے جاتے ہیں:
(۱)فضیلۃ الشیخ/صالح العراقی رحمہ اللہ
(۲)فضیلۃ الشیخ/ہادی بن احمد الطالبی
(۳)فضیلۃ الدکتور العلامۃ/ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(۴)فضیلۃ الشیخ العلامۃ/حمادبن محمدالانصاری رحمہ اللہ
(۵)فضیلۃ الشیخ/مولاناعظیم اللہ صاحب مئو ی رحمہ اللہ
(۶)فضیلۃ الدکتور/مقتدی حسن الازہری رحمہ اللہ
(۷)فضیلۃ الدکتور/اکرم ضیاء العمری رحمہ اللہ
(۸)فضیلۃ الشیخ /عبدالوحید رحمانی رحمہ اللہ
(۹)فضیلۃ الشیخ/محمدامین مصری رحمہ اللہ
(۱۰)فضیلۃ الشیخ/محمداقبال رحمانی رحمہ اللہ
(۱۱)فضیلۃ الشیخ /شمس الحق سلفی رحمہ اللہ
(۱۲)فضیلۃ الدکتور/محمودمیرہ
(۱۳)فضیلۃ الشیخ/عبدالرحمن نحوی رحمہ اللہ مئوی
(۱۴)فضیلۃالدکتور/سید الحکم
(۱۵)فضیلۃ الشیخ/محمودعبدالوہاب فایدؔ
مسندتدریس:
شیخ رحمہ اللہ جامعہ سلفیہ بنارس سے تخصص فی الشریعۃ کے حصول کے بعد جامعہ’سراج العلوم‘جھنڈانگر نیپال میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے،ایک سال کی مدت(۱۹۷۰-۱۹۷۱ء) ہی گزارپائے تھے کہ مدینہ یونیورسٹی سے منظوری آگئی اور جانے کی تیاری میں مشغول ہوگئے،لیکن اس وقت کے پیچیدہ ملکی قوانین کی وجہ سے جانہ سکےاور چاروناچار۷۲-۱۹۷۱ء میں’مدرسہ انوارالعلوم‘ پرساعماد ضلع سدھارتھ نگر میں مدرسی پر مامور ہوگئے۔
مدینہ منورہ میں شرعی علوم کے حصول کے دوران۱۹۸۰ء میں ایم اےکرنے کے بعد جامعہ کے ’کلیۃ الحدیث‘میں ریڈر کے عہدے پر تقرری ہوئی،لیکن تدریسی خدمات کے بجائے قسم المخطوطات میں مخطوطات کی تحقیق کاکام لیاگیا،جسے انجام دیتے رہےاور ساتھ ہی پی ایچ ڈی کرتے رہے۔
خمینی فتنہ کے بعد حالات دگرگوں ہوئے،سعودیہ کے حالات بھی بگڑے،جامعہ اسلامیہ میں کام کی گنجائش نہ رہی اس لیےپی ایچ ڈی کرنے کے بعد شیخ کا جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں رہنا ممکن نہ رہا،چنانچہ۱۹۸۴ء میں سعودی حکومت کی طرف سے ’مرکز الدعوۃ والارشاد‘دبئی کے لیے داعی اسلام بناکر بھیج دیے گئے،لیکن جب دبئی کے مشہور ومعروف علم دوست تاجر شیخ جمعہ الماجد نے ۱۹۸۷ء میں ’کلیۃالدراسات الاسلامیہ والعربیۃ‘کی بنیادڈالی توروزاول ہی سے آپ اس کے لکچرار مقررہوئے،جس کاسلسلہ تاحیات قائم رہا۔
مشہور تلامذہ:
شیخ کے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے،جنھوں نے ہندوستان،نیپال اور امارات میں ان سے شرف تلمذ حاصل کیا ہے اوربہت سے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔کچھ بحث وتحقیق کے میدان میں خامہ فرسائی کررہے ہیں،بعض درس وتدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں،کچھ متحدہ عرب امارات کے اہم مناصب پرفائزہیں ،کچھ دعوت وتبلیغ کے میدان میں سرگرم ہیں اور کچھ عالم اسلام کی عظیم یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں۔
شیخ جہاں ایک بہترین استاد،صاحب علم داعی اور منتظم تھے وہیں ایک صاحب عزیمت اور بلند پایہ محقق تھے، اپنی دیگر خدمات کے ساتھ بحث وتحقیق کو بھی جاری رکھا،سفر ہویاحضر،آفس ہویاکالج،کسی کے گھر مدعوہوں یابازار میں خریداری کررہے ہوں،ہر وقت تحقیق کے لیے مخطوطہ اور کاغذو قلم ساتھ رکھتے،جہاں فرصت ملتی موتیاں بکھیرنے لگتے،ان کی اس شیفتگی اور وارفتگی کا اندازہ آپ کی درج ذیل تحقیقات وابحاث سے کیاجاسکتا ہے۔
(۱)العلل الواردۃفی الأحادیث النبویۃ،للدارقطنی
اس کتاب کی گیارہ جلدوں کی تحقیق وتخریج شیخ نے کی ہے جو زیورطبع سے آراستہ ہے، آگے کی ۴؍جلدیں محمدبن صالح بن محمد الدباسی کی تعلیق سے شائع ہوئی ہیں۔
(۲)مسند البزارالمنشور باسم البحر الزخار
اس کتاب کی نو جلدیں شیخ کی تحقیق سے منظر عام پرآچکی ہیں اور جلد نمبردس تا سترہ عادل بن سعد اور جلد نمبراٹھارہ صبری عبدالخالق الشافعی کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے۔
(۳)تلخیص العلل المتناھیۃ فی الأحادیث الواہیۃ للحافظ الذہبی
اسے شیخ نے ایم اے کی ڈگری کے حصول کے لیے تیار کیاتھا،جو دو جلدوںمیں مکمل ہوکر زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے۔
(۴)مسند الہیشم بن کلیب الشاسی
یہ کتاب شیخ کی تحقیق وتخریج کے ساتھ تین جلدوں میں طبع ہو کرمنظر عام پر آچکی ہیں۔
(۵)مسند عمر بن خطاب لأبی بکر النجار
یہ کتاب ایک جلد میں مطبوع ہے۔
(۶)رؤیۃ اللہ سبحانہ تعالیٰ لابن النحاس
یہ کتاب بھی ایک جلد میں ہے اور طبع ہوچکی ہے۔
(۷)اتحاف المہرۃ بأطراف المسانید العشرۃ لابن حجر
اس کتاب کی دسویں جلد کی تحقیق شیخ رحمہ اللہ نے مرکز خدمۃ السنۃ والسیرۃ النبویۃ بالمدینۃ المنورۃکی وساطت سے کی ہے،جوزیور طباعت سے آراستہ ہے۔
(۸)لسان المیزان لابن حجر
اس کتاب کی تیسری جلد کی تحقیق مرکز خدمۃ السنۃ والسیرۃ النبویۃ بالمدینۃ المنورۃ ہی کی وساطت سے کی ہے، جوغیر مطبوع ہے۔
(۹)الإرسال فی مصطلح الحدیث للشیخ محفوظ الرحمن
یہ کتاب شیخ حماد بن محمد انصاری رحمہ اللہ کے مراجعہ کے ساتھ زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکی ہے۔
(۱۰)الکامل لابن عدی میں موجودرجال کی فہرست کی ترتیب۔ان کے علاوہ بھی کئی ابحاث وتحقیقات ہیں، جنھیں آپ نے مختلف مناسبات سے تیار کیاہے۔
دعوتی ودینی خدمات:
شیخ نے’جامعہ سلفیہ‘سے فراغت کے بعد ہی دعوتی مشن کاآغازکردیاتھا،لیکن جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد دعوت اسلام کاایساچمن سجایا جس میں طرح طرح کے گل بوٹے ہیں، شیخ رحمہ اللہ کی ان خدمات کے چند خطوط ونقوش ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
(۱)اردوعربی دونوں زبانوں میں دبئی کی مختلف مساجد اور جمعیات میں علمی اور دعوتی دروس اور لیکچر کاباضابطہ پروگرام
(۲)شارقہ کی مختلف مساجد میں اوقاف کی طرف سے دائمی خطیب کی حیثیت سے جمعہ کاخطبہ دینا۔
(۳)مکتبۃ الکتاب والسنۃ دبئی کی ذمہ داریوں کوبحسن وخوبی انجام دینا۔
(۴)جمعیۃ دبئی الخیریۃ،جمعیۃ دارالبر دبئی اور مؤسسۃ محمدبن راشد آل مکتوم کے افراد سے گہرے روابط اور وہاں سے آنے والی مساعدات کی درخواستوں پر وضاحتی نوٹ۔
(۵)عالمی رفاہی کمیٹی’ھیئۃ الأعمال الخیریۃ العالمیۃ‘عجمان کی شمالی ہندوستان کے لیے نمائندگی کرنا۔
(۶)عرصہ تک’مرکز الدعوۃ والارشاد ‘دبئی کے دعاۃ اسلام کے مراقب اور نگران اعلیٰ رہے۔
(۷)کالج بند ہونے پر موسم گرما کی فرصت میں’مرکزالدعوۃ والارشاد‘دبئی کی مسند پر جلوہ افروز ہوتے اور فون پر اردو عربی دونوں زبانوں میں دینی سوالات کے جواب دیتے۔
(۸)شیخ وطن آکر بھی تن آسانی اور سہل پسندی سے کام نہ لیتے بلکہ اپنے دعوتی وعلمی کاموں میں سرگرداں رہتے،چنانچہ ہر جمعہ کو ڈومریاگنج کی جامع مسجد میں خطبہ دینا،’خیرالعلوم‘کی سبھی شاخوں اور شعبوں کاجائزہ لینا اور ضرورت مند حضرات سے ملاقات کرنا ان کا نمایاں کام ہواکرتاتھا۔
(۹)جامعہ’خیرالعلوم‘ڈومریاگنج اور اس کی مختلف شاخوں اور شعبوں کے مالی وثقافتی امور کانظم سنبھالنا،جیسے:
۱۔کلیۃالشریعۃ للبنین
۲۔کلیۃالطیبات للبنات
۳۔مدرسۃابی بن کعب لتحفیظ القرآن
۴۔مرکزالدعوۃ الاسلامیۃ
۵۔قسم کفالۃ الأیتام
۶۔قسم التکافل الاجتماعی
۷۔خیر ٹیکنکل سینٹر
۸۔خیر آٹوموبائل سینٹر
۹۔مجلۃ الفرقان
ان مذکورہ اداروں میں اسٹاف اورطلبا وطالبات کے ماہانہ خرچ کاانتظام کرنااور ان اداروں کی ضروریات وسہولیات کاخیال رکھنا، جامعہ کی مستقل آمدنی کے لیے’وقف خیری‘ کے نام سے انتھک کوشش کرنا اور اس راہ میں معاندین کی ریشہ دوانیوں کامقابلہ کرنا شیخ کاہی خاصہ تھا۔
حیات فانی کے آخری ایام:
یوں توشیخ رحمہ اللہ۱۹۸۰ء سے شوگر کے مریض تھے لیکن دل جواں،ہمت بلند اور قوت دفاع بہت ہی مضبوط تھی۔معمولات زندگی میں کوئی کمی نہ تھی،درس وتدریس، وعظ وبیان ،کتابوں کی تحقیق وتخریج، بچوں کی تعلیم وتربیت اور’جامعہ اسلامیہ خیر العلوم‘کی ترقی کی کوشش کرتے ہوئے ہرپل جواں دکھائی دیتے۔وفات سے ایک سال پہلے نقاہت وکمزوری کی عام شکایت رہنے لگی تھی،جس کی وجہ شوگر میں اضافہ،عمر کا تقاضا اور کاموں کی کثرت تھی،لیکن پندرہ دسمبر۱۹۹۷ءکواس بیماری نے زور پکڑا جو شیخ کو عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف لے جانے کاسبب بنی۔
صبح وشام شوگر کے کنٹرول کے لیے انسولین کاانجکشن لیتے،ایک دوا درداٹھتے ہی زبان کے نیچے رکھنے کے لیے اور بعض دوسری دوائیں کھانے کے لیے دی گئیں اور دوماہ یعنی پندرہ فروری تک آرام کرنے کو کہا گیا۔کھانے،پینے،افطاری اور سحری کے بعد درد اٹھتا، زبان کے نیچے دوا رکھی تھوڑا آرام کیا، درددل جاتا رہا،یہ کیفیت جاری رہی اور شیخ رحمہ اللہ کے علمی اور دعوتی نشاطات بھی،اگرچہ ان میں کمی آگئی،لیکن ۲۰؍جنوری ۱۹۹۸ء مطابق۱۸؍رمضان المبارک کودرداٹھاتوبس؎
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام کیا
دیکھااس بیماریٔ دل نے آخرکام تمام کیا
دوانے کچھ کام نہ کیا،صبح ہوگئی،۲۱؍جنوری۱۹۹۸ءمطابق۱۹؍رمضان المبارک کو شیخ کے بڑے صاحبزادے عبید الرحمن حفظہ اللہ نے دبئی ہاسپیٹل میں کمرہ نمبر۸۱۱ بک کرایا اور آپ کو اسپتال میں داخل کرادیاگیا۔
اب مرض نے ایک سنگین اور نازک مرحلہ اختیار کرلیا،مرض کی تشخیص کاسلسلہ دن رات جاری رہا، حتی کہ ۲۵؍رمضان المبارک موافق۲۳؍جنوری سے ڈاکٹروں کے مشورہ پر روزہ رکھنا چھوڑدیا،اسی دن ڈاکٹروں نے باضابطہ دل کی بیماری کااعلان کیا،شومئی قسمت ڈاکٹروں نے بائی پاس سرجری کاحکم بھی دے دیا۔
وفات اور اسباب وفات:
میڈیکل رپورٹ کے مطابق شیخ کی وفات کے تین بنیادی اسباب تھے:
۱۔موت کابراہ راست سبب :دل کے بائیں حصے کی قوت کارکردگی کاجاتارہنا۔
۲۔موت کااصلی سبب:دل کی بنیادی حرکت کافقدان۔
۳۔موت کاضمنی سبب :شرائین قلب میں کافی مدت سے خون کا جمع ہوجانا۔
شیخ رحمہ اللہ۲۶؍جنوری کورات ساڑھے دس بجے تک بالکل ٹھیک ٹھاک بلکہ دوسرے ایام کے مقابلے میں زیادہ ہشاش بشاش تھے،رات ساڑھے دس بجے کے بعد سینے کا بال صاف کیا گیا، دھویاگیا اور انھیں کرسی پر بٹھایاگیا،وہیں دل کادورہ پڑا،بمشکل بستر تک لائے گئے، ڈاکٹروں اور نرسوں کاہجوم امنڈپڑا لیکن نہ بچا سکے۔(کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والإکرام)
نمازجنازہ اور تدفین:
چونکہ دیش پرایاتھا اس لیے تجہیزوتکفین میں بہت سی قانونی پیچیدگیاں سامنے آئیں ،پہلے اسلامک سینٹر سے پاسپورٹ حاصل کیاگیا،پھرشیخ عبیدالرحمن(شیخ رحمہ اللہ کے بڑے صاحبزادے)دکتور محمدصغیر اورشیخ ممتازاحمدعبداللطیف وغیرہ ’مرقبات‘پولس اسٹیشن گئے اورڈھائی گھنٹے کی کارروائی کے بعدمسئلہ اورالجھ گیا،پولس کانسٹبل نے’وفات سرٹیفکیٹ‘اور’انڈین قونصل آفس‘سے پاسپورٹ کینسل کروانے کاحکم دیا،پولیس رپورٹ کی روشنی میں’شہادۃ الوفاۃ‘(Death Certificate)کی حصولیابی جلد ہوئی اور’انڈین قونصل آفس‘سے بھی کام جلد ہوگیا۔
رات ہی کواعلان ہوگیاتھا کہ نماز جنازہ عصر کے بعد سوناپور کے قبرستان کے پاس ہوگی لیکن غسل اورتکفین سے فارغ ہوتے ہوتے عصر کی نماز ختم ہوگئی،نعش باہر لاکر مسجد کے صحن میں رکھ دی گئی، رونمائی اور دیدار کے بعد شیخ کے بڑے صاحبزادے شیخ عبیدالرحمن حفظہ اللہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور دفن کردیاگیا؎
آسماں تیری لحدپر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
جنازہ کی نماز میں اہل تقوی اور کتاب وسنت کے متوالوں کاایک جم غفیرتھا۔ایک عجمی کے جنازے میں عربوں کی کثرت،سبھوں کے چہرے پر نورانی داڑھی اور پیشانیوں سے نورایمان ہویدا،جن میں صرف شیخ رحمہ اللہ کے شاگرد ہی نہیں بلکہ عقیدت مندبھی تھے۔
اللَّہُمَّ، اغْفِرْ لہ وَارْحَمْہُ وَعَافِہِ وَاعْفُ عنْہ، وَأَکْرِمْ نُزُلَہُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَہُ، وَاغْسِلْہُ بالمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَد

3
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
2 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
ارشادالحق روشاد

اللہ دکتور رحمہ اللہ کی تمام تر خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔۔۔
آپ نے ماشاءاللہ بہت اچھے انداز میں لکھا ہے شیخ۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا

Abdullah

شکراً وجزاکم اللہ خیرا

عبد المقيت عبد الحفيظ

ماشاءالله تبارك الله
الحمد للہ آپ نے بہت عمدہ لکھا ہے
اللہ رب العالمین دکتور رحمہ اللہ کی تمام خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین