اس عالم آب وگل میں خیر وشر کے درمیان کشکمش ہمیشہ سے جاری رہی ہے۔بامقصد زندگی گزارنےوالے خیر اور طرق خیر کی تلاش وجستجو میں منہمک رہتے ہیں، راہ راست پر چل کر اپنے مطلوب اصلی کو پالینا ہی ان کا مطمح نظر ہوتا ہے۔جبکہ بےمقصد جینے والے بے لگام ہوتے ہیں، خواہشات نفسانی کےاشاروں پر ناچنا ہی ان کا مقصودزیست ہوتا ہے،کشت نفس کی آبیاری ہی ان کا نصب العین ہوتی ہے۔نفس پرستی کا مرض ہر زمانے میں رہا ہے،موجودہ دور میں اس کی خطرناکی وہلاکت خیزی شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے۔ اکثریت نفسانی خواہشات کی پرستش میں مصروف ہے۔ زر پستی ،حرص وطمع ،شہوت معدہ،شہوت عہدہ ، خود پسندی ، دجل وفریب ،بغض وحسد ،تملق وکفش برداری ،افتراپردازی وبہتان تراشی ،غیبت وچغل خوری ،قوم پرستی ،ظلم وتشدد وغیرہ سب نفسانی امراض ہیں ۔ شیطان ہواے نفس کو طشت زریں میں سجا کر انسان کے سامنے پیش کرتاہے اوریہ فریب خوردہ انسان رذائل و قبائح اور نفس کی آلودگیوں وآلائشوں میں گرفتار ہوکر دنیا وآخرت دونوں کو برباد کرلیتا ہے۔شیطانی ترغیبات ،شرک ومعصیت اور اخلاقی آلائشوں سےاپنے نفس کا تزکیہ کرکے ان امراض سے نجات حاصل کرنے والا شخص ہی دنیوی واخروی فوزوفلاح سے ہمکنار ہوگا۔ارشاد باری تعالی ہے:
قَدۡ أَفْلَحَ مَنۡ تَزَکّٰی(الأعلی:۱۴)بےشک اس نے فلاح پالی جوپاک ہوگیا۔
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا (الشمس:۹)جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوگیا۔
ذیل میں تزکیۂ نفس کے بعض طرق واسالیب کو قید تحریر میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔
نفع بخش علم:
خیروشر اور حق وباطل کے درمیان تمیز وتفریق علم وعرفان کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ علم ہی وہ آلہ اور ذریعہ ہے جس سے خیر وشر کی معرفت ہوسکتی ہے۔انسان اگر شرشناسی کی صلاحیت سے محروم ہو تو وہ اس سے کیوں کر بچ سکتا ہے۔شر سے بچنے کے لیے شر کی معرفت اسی طرح ضروری ہے جس طرح خیر کو انجام دینے کے لیے خیر کی معرفت۔نفس کے رجحانات ومیلانات کو درست دشا دینے کے لیے ان کی صحت وفساد کا ادراک ضروری ہے۔فضائل کے حسن اور رذائل کے قبح کی پہچان علم ہی کے ذریعے ہوسکتی ہے۔علم ہی سارے اعمال کا مقدمہ ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بَابٌ: العِلْمُ قَبْلَ القَوْلِ وَالْعَمَلِ؛لقولہ عزوجل:﴿فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ﴾ [محمد: 19]، فَبَدَأَ بِالعِلْمِ(باب اس بیان میں کہ علم(کادرجہ)قول وعمل سے پہلے ہے،اس لیے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ (آپ جان لیجیے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے) تو(گویا) اللہ تعالی نے علم سے ابتدا فرمائی۔[صحیح بخاری،کتاب العلم،باب نمبر:۱۰])
اللہ کی کتاب پر تدبر وتفکر:
اللہ تعالی نے قرآن کریم کو انسانیت کی ہدایت اور صلاح وفلاح کے لیے نازل فرمایا ہے۔ جابجا اس کے معانی ومطالب، احکام وفرامین اورواقعات وقصص پر غوروفکرکرنے کی تاکید کی ہے۔تدبر قرآن سے توحید ورسالت کے بارے میں شکوک وشبہات کا ازالہ ہوتا ہے،کفرونفاق کی گندگی صاف ہوتی ہے ، نفس ماحول کی آلودگیوں اورآلائشوں سے پاک ہوتا ہے اوردل باطل اعتقادات و خرافات،فواحش ورذائل اور امراض شرک وبدعت سے شفایاب ہوتا ہے۔اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ (یونس:۵۷)اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے،ایمان والوں کے لیےرہنمائی کرنے والی اور رحمت ہے۔
عمل صالح:
اسلام میں نیک اعمال کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ارکان اسلام پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے تزکیۂ نفس کے باب میں اس کے بے شماراورعظیم الشان فوائد ونتائج برآمد ہوتے ہیں۔چنانچہ کتاب وسنت کی روشنی میں نماز کی ادائیگی نمازی کو بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے،اس کے اندر خشوع وخضوع پیدا کرتی ہے،اللہ تعالی سے اس کے تعلقات استوار کرتی ہے،حقوق بندگان کی ادائیگی پرابھارتی ہے اور اسے پرسکون وباقار بناتی ہے۔زکات کی ادائیگی انسان کے قلب و نفس کو حرص وطمع اور بخل وشح سے پاک کرتی ہے اور اسے محتاجوں کی مدد کرنے پر ابھارتی ہے۔روزے معاصی وسیئات، دجل وفریب،غیبت وچغل خوری، دروغ گوئی اور اس طرح کی دیگراخلاقی بیماریوں سے دور رکھتے ہیں اور فاقہ کشوں اور مجبوروں کے دکھ درد کو سمجھنے میں معاون بنتے ہیں۔حج کی فرضیت بھی عظیم فوائد کے حصول کے لیے ہوئی ہے،حج انسان کو ریاونمود، سمعت وشہرت،فسق وفجور اور جدال ونزاع جیسے رذائل وقبائح سے پاک کرتا ہے اور اسے صبروشکیبائی، غیظ وغضب سے اجتناب، تعاون وتناصر،اتحاد واتفاق، ایثاروقربانی اور تواضع وفروتنی کے اعلا اوصاف واخلاق کے زیور سے آراستہ کرتا ہے۔غرض یہ کہ اسلام میں جتنے بھی اعمال وعبادات ہیں ، سب کے اثرات تزکیۂ نفس پر مرتب ہوتے ہیں۔
صحبت صالحین:
اللہ تعالی نے صحبت میں بڑی تاثیر رکھی ہے۔اچھے لوگوں کی صحبت کے اچھے اثرات اور برے لوگوں کی صحبت کے برے اثرات غیر محسوس طریقے سے انسان کے اخلاق وعادات میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس لیے مذہب اسلام کے اندر اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت کولازم پکڑنے اور برے لوگوں کی صحبت سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے۔کوئی شخص اگر اپنے نفس کو معاشرتی آلودگیوں سے پاک وصاف رکھنا چاہتا ہو اور ہرطرح کی اخلاقی بیماریوں سے محفوط رہنا چاہتا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے بیان کردہ آداب معاشرت کو ملحوظ خاطر رکھے۔نبی ﷺ نے نیک اوربدصحبت کی بڑی خوبصورت مثال بیان فرمائی ہے:
مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ والجَلِيسِ السَّوْءِ، كَمَثَلِ صاحِبِ المِسْكِ وكِيرِ الحَدَّادِ؛ لا يَعْدَمُكَ مِن صاحِبِ المِسْكِ إمَّا تَشْتَرِيهِ أوْ تَجِدُ رِيحَهُ، وكِيرُ الحَدَّادِ يُحْرِقُ بَدَنَكَ أوْ ثَوْبَكَ، أوْ تَجِدُ منه رِيحًا خَبِيثَةً (صحيح البخاري: ۲۱۰۱)نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال مشک بیچنے والے عطار اور لوہار کی سی ہے۔مشک بیچنے والے کے پاس تم دو اچھائیوں میں سے ایک نہ ایک ضرور پالوگے۔یاتو مشک ہی خریدلوگے ورنہ کم از کم اس کی خوشبو تو ضرور ہی پا سکوگے۔لیکن لوہار کی بھٹی یا تمھارے بدن اور کپڑے کو جھلسادےگی ورنہ بدبوتو تم اس سے ضرور پالوگے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے:
وفی الحدیث النھي عن مجالسة من يتأذى بمجالسته في الدين والدنيا، والترغيب في مجالسة من ينتفع بمجالسته فيھما (فتح الباري،الجزء الرابع،ص:۳۲۴)اس حديث سے ايسے شخص کی مجالست وصحبت اختیار کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے جس سے دین ودنیا میں نقصان واذیت پہنچے،نیز اس میں ایسے شخص کی ہم نشینی اختیار کرنےکی ترغیب بھی ہے جس سے دین ودنیا ہردو میں فائدہ ہو۔
ابوحاتم بستی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
العاقل يلزم صحبة الأخيار، ويفارق صحبة الأشرار؛ لأنَّ مَوَدَّة الأخيار سريع اتصالها، بطيء انقطاعها، ومودة الأشرار سريع انقطاعها، بطيء اتصالها، وصحبة الأشرار تورث سوء الظَّن بالأخيار، ومن خَادَن الأشرار لم يسلم من الدخول في جملتهم (روضة العقلاء لابن حبان البستي : ۹۹-۱۰۰)عقلمند آدمی اچھے لوگوں کی صحبت کو لازم پکڑتا ہے اور برے لوگوں کی صحبت سے دور رہتا ہے۔اس لیے کہ اچھے لوگوں کی مودت زودحاصل اوردیر انقطاع ہوتی ہے،جبکہ برے لوگوں کی مودت زود انقطاع اوردیرحاصل۔برے لوگوں کی صحبت اچھے لوگوں کے بارے میں بدگمانی پیدا کرتی ہے۔اورجواشرارکی مصاحبت ومجالست اختیار کرے وہ ان کے گروہ میں شامل ہونے سے نہیں بچ سکتا۔
رشتۂ ازدواج سے انسلاک:
یقینا سلک زوجیت سے وابستگی نفس کی عفت وپاکیزگی کا بہت بڑا عملی وسیلہ ہے۔شادی ایک ایسا حصن حصین ہے جس کے اندر رہ کرانسان سکون واطمینان، مودت ومحبت اور پاکدامنی حاصل کرتا ہے اور اپنے نفس کو حرام کردہ شہوات وخواہشات سے محفوظ رکھتا ہے۔اسی لیے مذہب اسلام نے تجرد کی مذمت اور نکاح کی ترغیب دی ہے۔آپ ﷺنے فرمایا:
يا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فإنَّه أغَضُّ لِلْبَصَرِ وأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، ومَن لَمْ يَسْتَطِعْ فَعليه بالصَّوْمِ فإنَّه له وِجَاءٌ(صحيح البخاري: ۵۰۶۶)اے نوجوانوں کی جماعت!تم میں جس کے پاس نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کرلے،کیوں کہ یہ نظرکو پست رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے،اور جوشخص نکاح کی قوت نہ رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے،کیوں کہ روزہ اس کی نفسانی خواہشات کو توڑ دے گا۔
نکاح نصف دین کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔آپ ﷺنے فرمایا:
إذا تَزَوَّجَ العبدُ فقدِ اسْتكمَلَ نِصْفَ الدِّينِ ، فلْيَتَّقِ اللهَ في النِّصفِ الباقِي (صحيح الجامع: ۴۳۰)جب بندہ شادی کرلیتا ہے تو نصف دین مکمل لرلیتا ہے،اسے چاہیے کہ باقی نصف کے بارے میں اللہ سے ڈرے۔
تزکیۂ نفس کے لیے دعا کرنا:
دلوں کا مالک اللہ تعالی ہے، اسی کا ان پر قبضہ وتصرف ہے، اللہ تعالی جیسے چاہتا ہے دلوں کو پھیرتا ہے۔نفس کےرجحانات ومیلانات اوردلوں کےتغیرات وتقلبات اللہ تعالی ہی کی اجازت وحکم کے ساتھ مربوط ہیں ۔ اسی لیےنبی ﷺ دلوں کے اطاعت شعاروفرماں بردارہونے اور اللہ کی بندگی پر گامزن ہونے کی دعا کیا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ القُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا علَى طَاعَتِكَ ( صحيح مسلم: ۲۶۵۴)اے اللہ! توہی دلوں کو پھیرنے والاہے، ہمارے دلوں کو تیری طاعت وبندگی پر ثابت رکھ۔
اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا، وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَن زَكَّاهَا، أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا(صحيح مسلم: ۲۷۲۲)اے اللہ! میرے نفس کو تقوی شعار بنادے،اس کا تزکیہ فرمادے،توہی نفس کا بہترین تزکیہ کار ہے،توہی اس کا سلطان ومتصرف اور اس کے امور ومعاملات کا مالک ہے۔
اللہ تعالی ہمیں نفس کی تمام بیماریوں اوربرائیوں سے محفوظ رکھے۔آمین
جزاكم الله خيرا، وبارك في حياتكم و في قلمكم وتقبل جهودكم في خدمة الأمة الاسلامية
آمين يارب العالمين
شکریہ
جزاكم الله خيرا