دکتور محفوظ الرحمنؒ: جانے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں

عزیزالرحمن سلفی تذکرہ

ڈاکٹر محفوظ الرحمن بن مولانا زین اللہ -رحمۃ اللہ علیہما -جامعہ سلفیہ بنارس کے اولین فارغین میں سے تھے،وہ میرے ایک سال تک ہم سبق رہے،دارالعلوم دیوبندسے فراغت کے بعدجامعہ سلفیہ آئے۔ان کے والدصاحب چونکہ جامعہ کے مخصوص گنے چنے مخلصین،محبین اور معاونین میں سے تھے اس لیے ان کی کوشش پر ان کاداخلہ فضیلت سال آخر میں ہوگیا۔ یہ ان کااختصاص تھا،کیوں کہ جامعہ سلفیہ میں سند کے سالوں میں داخلہ نہیں ہواکرتا ۔بہر حال اس طرح انھوں نے ایک سال تک یہاں تعلیم حاصل کی اور سند فضیلت سے سرفراز ہوئے۔
فراغت کے بعد انھوں نے بعض مدرسوں میں تدریسی خدمت انجام دینے کے بعد مدرسہ انوارالعلوم پرساعماد میں تدریسی ذمہ داری سنبھالی اور میں فراغت کے بعد دوامتحانات کے سلسلے میں ایک سال تک بنارس میں مقیم رہا،امتحان سے فراغت کے بعدجامعہ سلفیہ کے مکتبۂ عامہ میں بعض کاموں پر مامور ہوا،۱۹۷۱ء میں جب میں مدرسہ مظہر العلوم اوسان کوئیاں میں مدر س متعین ہوا توقرب وجوار میں رہنے کی وجہ سے ہم دونوں ساتھیوں کا بہت سارے معاملات میں تعاون رہا۔ اگرچہ میری اور ان کی عمر میں تفاوت تھا پھر بھی وہ ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ لیے رہتے اور ان کی عدم موجودگی میں ساری ذمہ داریاں میرے سرہوتیں۔
اس زمانے میں ضلع بستی کو چار حلقوں میں تقسیم کیاگیاتھا، ضلعی جمعیت کے علاوہ ہر حلقہ کی الگ الگ جمعیت تھی جو تبلیغ ودعوت کاکام اپنے طور پر انجام دیاکرتی تھی۔حلقہ ڈومریاگنج کی جمعیت کے سکریٹری شیخ محفوظ الرحمن صاحب تھے اور احقرراقم الحروف ان کامعاون اور نائب تھا۔ہم لوگ ہفتہ وار اور کبھی پندرہ روز تبلیغی اجلاس الگ الگ مواضعات میں کیاکرتے تھے،جس کاپورے حلقہ میں بڑا اچھا خاصہ اثر تھا۔اس ضمن میں ہم لوگوں نے ٹکریا،ککراپوکھر،مہوارہ،پپرا،کھرگولہ وغیرہ میں تبلیغی جلسے کیے کبھی کبھی کئی حلقے مل کرکوئی مشترکہ بڑا اجلاس کرلیاکرتے ۔اسی طرح کا ایک اجلاس مدرسہ اتحادملت اٹوا بازار میں ہواتھا،جس میں کئی مقررین نے شرکت کی تھی، خصوصا مولانا عبدالحمید رحمانی صاحب رحمہ اللہ کی ’مسلم پرسنل لا‘کے سلسلے میں تقریر ہوئی تھی،اس کا ملخص نوٹ کرنے کی ذمہ داری شیخ محفوظ الرحمن نے میرے سرڈالی تھی،اس زمانہ میں مولانا رحمانی رحمہ اللہ کی تقریروں کا بڑا چرچا تھا ،ابھی نئے نئے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فارغ ہوکر آئے تھے ، جامعہ سلفیہ کی تدریسی مشغولیات سے علیحدہ ہوکر مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلیٰ ہوئے تھے، اس لیے سب کی توجہ ان کی طرف تھی، بڑے بڑوں کے مقابلہ میں ان کی تقریر زیادہ پسند کی جاتی تھی، خصوصاتاریخ اہل حدیث وغیرہ موضوعات پر۔
شیخ محفوظ الرحمن رحمہ اللہ اسی دور سے تبلیغی میدان میں بڑے متحرک تھے،کبھی کبھی مدرسہ کی ڈیوٹی ختم کرکے جب قُبیل مغرب میں گھر پہنچتا تویہ بھی اپنے مدرسہ سے آموجود ہوتے اور کہتے:’’آج فلاں جگہ چلنا ہے‘‘۔اس طرح ان کے ملاقاتی تبلیغی دورے چلا کرتے تھے اور ان کے ساتھ مجھے بھی چلنے میں کوئی دقت محسوس نہ ہوتی تھی۔رات کہیں گزرتی،صبح گھر آکر ناشتہ کیاجاتا اور پھر مدرسہ کی ڈیوٹی۔
شیخ محفوظ الرحمن صاحب کا جب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ ہوگیا توایک طرح میں ان کی شفقتوں سے محروم ہوگیا،لیکن پھر بھی یہ تحریک باقی رہی،ان کی جگہ پر مولوی غیاث اللہ ٹکریاوی صاحب کو ناظم بنادیاگیا اور میں نے خود نیابت ہی میں کام کرنا بہتر سمجھا۔ان کے چلے جانے کے بعد تقریبا چار سال تک یہ تحریک چلتی رہی اور اپنا کام انجام دیتی رہی،مولاناعبدالقدوس مرحوم ٹکریاوالے ہمارے رہبر ہوتے اور ہم سب ان کے جلو میں پندرہ روزہ تبلیغی پروگرام کرتے رہتے،اس طرح پچاسوں مواضعات میں جلسے ہوئے، لوگوں سے فرائض وواجبات کی ادائیگی وپابندی کاعہد لیا جاتا،اس طرح ان دوروں اور جلسوں کابڑا اچھااثرتھا،اسی تحریک کی وجہ سے ۱۹۷۲ء میں ڈومریاگنج میں ایک بڑی کانفرنس ہوئی جس میں عدیل عباسی،مولاناعبدالجلیل ششہنیاں،مولانا عبدالحمید رحمانی اور انھی کی معیت میں مولانا شبیر احمد ازہر میرٹھی وغیرہ شریک اجلاس ہوئے تھے۔
مولانا عبدالقدوس صاحب کا ۱۹۷۶ء میں انتقال ہوگیا۔ادھر شیخ محفوظ الرحمن صاحب پہلے ہی ہم سے دور چلے گئے تھے۔اب کوئی ایسا مستقل مزاج ،متحرک،عقیدہ وعمل کاپختہ شخص نہ تھا جس کی رہبری میں یہ تحریک چلاکرتی۔اس لیے دھیرے دھیرے سردپڑتی گئی اور پھر بالکل بند ہوگئی۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے تعلیمی زمانہ میں کبھی کبھار شیخ محفوظ الرحمن سلفی صاحب سے چھٹیوں میں ملاقات ہواکرتی تھی کیوں کہ انھوں نے اپناآبائی وطن چھوڑ کر ڈومریاگنج میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی مگر جب بھی ملاقات ہوتی وہی پرانی بے تکلفی رہتی اور اسی طرح شفقت بھرے لہجہ میں گفتگو کیاکرتے تھے۔
اپنی خداداد ذہانت کی بدولت انھوں نے جامعہ اسلامیہ کے اساتذہ کواپنی طرف مائل ہی نہیں کیابلکہ مرعوب کرلیاتھا۔اسی زمانہ میں ایک مرتبہ ٹکریا کی مسجد میں علماکے مابین کچھ بات چلی توایک صاحب نے بے ساختہ فرمایا:’’مولوی محفوظ الرحمن سلفی اور مولوی صغیر احمد سلفی نے جامعہ اسلامیہ کے اندر اپنی ذہانت سے تہلکہ مچارکھا ہے‘‘یہ جملہ مجھے برابریادرہتا ہے۔چنانچہ ان کو بی اے اور ماجستر(ایم اے) کے بعد پی ،ایچ،ڈی کاموقعہ ملا اور یہ شہادۂ عالیہ انھوں نے ممتاز پوزیشن سے حاصل کی۔
مدینہ منورہ میں رہائش کے دوران بھی یعنی جامعہ اسلامیہ کے تعلیمی مراحل میں بھی ان کی تبلیغی سرگرمیاں جاری رہیں ،وہاں کی بعض مساجد میں دروس اور خطبہ کاالتزام رکھتے ۔ان لوگوں نے جامعہ اسلامیہ کے اندر ہندوستانی طلبہ کی ایک جمعیت بنائی تھی جس کے صدر شیخ محفوظ الرحمن سلفی ہی تھے۔
اللہ تعالیٰ کی ان کے اوپر بڑی نظر کرم تھی ،امارات میں ان کی تقرری ہوگئی،وہاں وہ کلیۃ الدراسات الاسلامیہ والعربیہ دبئی میں استاد حدیث تھے اور مرکز الدعوۃوالارشاد کے بھی ذمہ دار تھے۔وہاں رہ کر ہندوستان کے لیے اور اپنے علاقہ کے لیے انھوں نے بڑا کام کیا،کچھ مختصر سی جھلک ذیل میں پیش ہے:
(۱)جامعہ خیرالعلوم کی توسیع:
ڈومریاگنج میں مسجد اہل حدیث ہونے کے بعد بچوں کے لیے پرائمری درجات تک تعلیم کا انتظام ڈاکٹر عبدالباری صاحب (رحمہ اللہ) کی نظامت میں ہوا،اس کانام مدرسہ محمدیہ تھا۔ڈاکٹرصاحب (رحمہ اللہ) جامعہ رحمانیہ بنارس کے قدیم فیض یافتہ تھے۔ان کے ڈومریاگنج میں سکونت پذیر ہونے کی وجہ سے اصل سروے سروا وہی تھے۔بعدمیں اس مکتب کی توسیع اس طرح کی گئی کہ مکتب کاحصہ اسی مسجد میں رہا اور عربی شعبہ سیٹھ شہادت حسین(رحمہ اللہ) پرساعماد والے کی مدرسہ کی نیت سے بنوائی ہوئی عمارت میں چلاآیا۔اس کے بعد اس کی تعمیرمیں کئی گنااضافہ ہوا،اسی کانام جامعہ اسلامیہ خیرالعلوم رکھا گیا۔اس کی توسیع وترقی کا سہراشیخ محفوظ الرحمن سلفی کے سر ہے، اس میں ان کابہت زیادہ ہاتھ تھا بعد میں وہ اس مدرسہ کی کمیٹی کے صدر ہوئے اور زیادہ تراخراجات انھی کے توسط سے پورے ہوتے تھے۔
(۲)کلیۃ الطیبات:
کچھ عرصہ قبل تک مسلم لڑکیوں کے لیے اونچی دینی تعلیم کاکوئی بندوسبت نہ تھا ،صرف عصری ادارے تھے جہاں تعلیم مخلوط تھی اور ان میں مسلم لڑکیاں صفر کی حد تک تھیں۔ڈاکٹر محفوظ الرحمن سلفی صاحب کی تحریک پر ڈومریاگنج میں پہلانسواں ادارہ قائم کیاگیا۔اس کے لیے زمین کی خریداری سے لے کر درس گاہ،قیام گاہ اور مسجد (برائے طالبات) کی تعمیر کے سارے اخراجات اور پھر تعلیمی مصارف انھی کے توسط سے پورے ہوتے تھے،میری معلومات کے مطابق بروقت اس ادارہ میں تقریبا آٹھ سوطالبات زیر تعلیم ہیں جن میں تقریبا ساڑھے چار سو پانچ سو طالبات کاقیام ہاسٹل میں ہوتا ہے۔لڑکیوں کے لیے سلائی کڑھائی اور دیگر امورخانہ داری کی تعلیم کابھی نظم ہے۔
(۳)مسجد ومکتب کی توسیع:
ضلعی جمعیت اہل حدیث بستی کی جانب سے جومسجد ڈومریاگنج میں تعمیر ہوئی تھی،اگر چہ دومنزلہ کردی گئی تھی مگر پھر بھی مصلیان کے لیے ناکافی تھی اور تعمیر بھی قدیم طرز کی تھی ،پھر اسی مسجد اور اس سے ملحق چند کمروں میں مکتب کے بچے تعلیم پاتے تھے۔ڈاکٹر محفوظ الرحمن سلفی ہی کے توسط سے دوسری نئی اور کشادہ مسجد کی تعمیر ہوئی،مسجد کے اطراف وجوانب بہت ساری آراضی خریدی گئی اور مکتب کی علیحدہ عمارت بنائی گئی اور اللہ کافضل ہے کہ اب مسجد کے چاروں طرف کی زمین خرید کر اسی کے قبضہ میں آچکی ہے۔
(۴)مدرسہ ابی ابن کعب لتحفیظ القرآن:
جامعہ اسلامیہ خیرالعلوم (موجودہ مدرسہ ابی بن کعب لتحفیظ القرآن)کے پاس جومسجد ہے اسے کسی صاحب خیر نے تنہا اپنے خرچ پر بنوادیاتھااور یہ سب کام ڈاکٹر عبدالباری (رحمہ اللہ) کے میل جول اور انتظامی صلاحیت کی بدولت ہواتھا،بعد میں طلبہ کے لیے تنگی محسو س کی گئی تواس کی بھی توسیع عمل میں آئی ۔ظاہر ہے کہ اس کے بھی اصل محرک ڈاکٹر محفوظ الرحمن سلفیؔ ہی تھے۔
(۵)دارالایتام کاقیام:
یہ اپنے طرز کاواحدادارہ ہے۔ اس میں یتیموں کی دیکھ ریکھ سے لے کر تعلیمی اخراجات،علاج معالجہ ، لباس، صابن تیل اور دیگر ضروریات کی نگرانی کے ساتھ مزید وظائف کابھی بندوبست ہے۔ تقریبا ساڑھے چار سویتیم بچے جواپنے باپ کی گوداور سایہ سے محروم ہوجاتے ہیں ان کی یہ جائے پناہ ہے۔ان کی تعلیم کاالگ انتظام ہے۔ان کی رہائش الگ ہوتی ہے اور ماہانہ وظیفہ ملنے کی وجہ سے کچھ ان کے گھروالوں کی بھی کفالت ہوجایاکرتی ہے۔
(۶)خیرٹیکنیکل کالج کاقیام:
یہ ادارہ بھی اپنی نوعیت کاواحد ادارہ ہے۔اس میں مختلف قسم کے ہنر سکھائے جاتے ہیں۔یہ ادارہ خاص طور سے اس بات کومدنظر رکھ کر کھولا گیاتھاکہ عام طورپر عربی تعلیم پاکر فارغ ہونے والے طلبہ اور علما کے پاس کوئی ہنر نہیں ہوتا،جو لوگ کسی مسجد یامکتب ومدرسہ میں جگہ بھی پالیتے ہیں ،وہاں ان کو بہت معمولی تنخواہ ملتی ہے جس میں ان کی گزربسر بمشکل تمام ہوپاتی ہے، اس طرح ان کی اقتصادی ومعاشی حالت ہمیشہ کمزور اورناگفتہ بہ ہوتی ہے، ان کی زندگی ہمیشہ فقیری کی ہوتی ہے، یہ ادارہ ایسے ہی طلبہ کوپیش نظر رکھ کر کھولاگیاتھا تاکہ اس میں داخل ہوکر ہنر سیکھیں اور وہاں سے نکل کر اپنے ہنر سے پیسہ کمائیں،اپنی اقتصادی حالت مضبوط کریں اور دوسروں کے دست نگر بن کر نہ رہیں۔
ڈاکٹر محفوظ الرحمن سلفی کی یہ خدمات اپنے علاقہ کے لیے منفرد خدمات ہیں، آج بھی دوردورتک اس قسم کے ادارے کم ہی نظر آتے ہیں ،ان ساری چیزوں میں ڈاکٹر عبدالباری صاحب (رحمہ اللہ) کے انتظام وانصرام کابھی برابرکادخل ہے۔
اس کے علاوہ امارات میں رہتے ہوئے وہ کیا خدمات وہاں کے لیے انجام دیتے تھے ،میں کلی طور سے تواس کااستقصا نہیں کرسکتا البتہ معمولی سی جھلک قارئین کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہاہوں:
(۱)تدریس:
ڈاکٹر محفوظ الرحمن سلفی کلیۃ الدراسات الاسلامیہ والعربیہ دبئی میں حدیث کے استاد تھے،نہ معلوم کتنے طلبہ کو آپ نے اپنی علمی صلاحیتوں سے مستفیض فرمایاہوگا۔
(۲)مرکزالدعوۃ والارشاد:
یہ ادارہ دبئی میں ہے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے اس کی زیادہ تر ذمہ داری ڈاکٹر محفوظ الرحمن سلفی ہی کے سرتھی۔مبلغین کے لیے مقامات کی تعیین،مساجد میں دروس کاانتظام،جمعہ کے خطبوں کے خطبا کاتعین اور ساتھ ساتھ خود بھی ان تبلیغی سرگرمیوں میں حصہ لیاکرتے تھے،بلکہ پیش پیش رہاکرتے تھے۔
(۳)علمی خدمات:
انھوں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے لیسانس(بی اے)پاس کیا ،پھر وہیں سے کلیۃ الحدیث سے ماجستر (ایم اے) اور دکتوراہ(پی ایچ ڈی) کی ڈگری حاصل کی،ان دونوں ڈگریوں کے لیے آپ نے اچھے خاصے رسالے لکھے اور بعد میں آئے دن ان کی علمی خدمات میں اضافہ ہوتارہتا تھا۔
حیرت ہے کہ ایک تنہاآدمی اتنی ساری ذمہ داریاںرکھتا تھااور بڑی خوش اسلوبی سے سب کو انجام دیتا تھا،ان کاعلمی رعب داب ماحول پر بیٹھا ہواتھا، علمی دوستوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور تبلیغی جدوجہد کی وجہ سے بہت سارے لوگ ان کے گرویدہ تھے، اسی گرویدگی کے نتیجہ میں اتنے سارے اداروں کی ذمہ داری وہ سنبھالے ہوئے تھے۔
ان کی ان شب وروز کی مصروفیات کودیکھ کر بعض رفقایہ تبصرہ کرتے تھے کہ’’حیرت ہے اس بات پر کہ اتنی ساری خارجہ مصروفیات کے باوجود تصنیف وتالیف کے لیے کہاں سے وقت نکالتے تھےاور پھر ان کے آرام کاکون ساوقت ہوتاتھا‘‘۔
مذکورہ بالااہم کاموں کے علاوہ ان کے ذریعہ کچھ ایسی خدمات بھی انجام پاتی تھیں جن سے فقرا ومساکین کی بڑی دل دہی ہوجایاکرتی تھی۔مثلا:
(۱)فقرا ومساکین کے لیے عید وغیرہ پر کپڑوں کی تقسیم۔
(۲)مختلف مواضعات اور مساجدمیں افطاری کابندوبست۔
(۳)دیہاتوں میں جولوگ قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے ان کے لیے کسی ذمہ دارآدمی کوجانور دے کرگوشت کی تقسیم۔
(۴)محتاجوں کے لیے مساعدت۔
(۵)غریبوں کی بچیوں کی شادی کے لیے مالی مساعدت۔وغیرہ وغیرہ
جب تعطیلات میں گھر تشریف لاتے بہت سے غرباومساکین کاسلسلہ بندھ جاتا،ایک ڈیڑھ ماہ کی تعطیل یہاں ہندوستان آکر بھی انھی مصروفیات میں گزرتی،عموماًہر سال چھٹی کے موقع پر ایک بار ضرورمادر علمی جامعہ سلفیہ میں تشریف لاتے،اس طرح ملاقات کرکے ان کی یادتازہ ہوجاتی۔
معاملات میں بہت کھرے تھے،یوں توسارے عیوب سے پاک ذات صرف اللہ عزوجل کی ہے اور انبیا کے علاوہ انسانوں میں کوئی معصوم نہیں ،لیکن عام انسانوں میں اگر خیر کاپہلو غالب، محاسن کی زیادتی اور دینی میلان زیادہ ہو تووہی قابل تعریف ہے، عقیدہ بڑا پختہ تھا،منہج سلف کے عامل اور حامل تھے،مرکزی جمعیت اہل حدیث سے خصوصی لگاؤ تھا ،بعض مرتبہ اراکین اور ذمہ داروں کے مابین منازعت کے موقع پر اہل فضل اور اہم شخصیات کوڈال کر صلح ومصالحت کی کوشش کی،عوام میں جماعتی بیداری پیدا کرنے کے لیے وفد کی شکل میں دورے کیے اور جامعہ سلفیہ توآپ کا مادرعلمی،بزرگوں کے سپنوں کی حسین تعبیر،شب زندہ داروں کی دعاؤں کاثمرہ ہے ہی۔ ہر سال ان کی آمد ان کی محبت،تڑپ اور لگاؤ کانتیجہ تھی۔
۲۸؍رمضان المبارک۱۴۱۸ھ مطابق ۲۶؍جنوری۱۹۹۸ء بروزمنگل بعد نماز عشاء انتقال ہوا،جب ان کے انتقال کی خبر ملی دل کو یقین نہیں آیا،اس بات کی تحقیق کے لیے گھر سے باہر نکل کر ڈومریاگنج آنے جانے والوں سے تحقیق کرنی پڑی،معلوم ہواکہ خبرصحیح ہے۔’’لکل أجل کتاب‘‘، ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘اور ’’فإذاجاء أجلہم لایستأخرون ساعۃ ولایستقدمون‘‘کے بمصداق ان کی حیات مستعار اس دنیائے فانی میں اتنی ہی تھی۔وہ اجل موقت یہی تھی جس میں آپ کو اس دنیائے دنی سے خدائے لم یزل ولایزال کے پاس جاناتھا۔إناللہ وإناإلیہ راجعون۔
ان کی چومکھی خدمات دیکھ کردماغ میں میر کایہ شعر گردش کرنے لگتا ہے؎
مت سہل ہمیں جانو،پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتاہے
مرحوم بزرگ دوست کی شفقتیں اور محبتیں بہت یاد آتی ہیں،اے اللہ ان کی ساری نیکیوں پر اجر جزیل عطافرما،ان کی لغزشوں اور خطاؤں سے درگزرفرما،ان کے پس ماندگان کوصبر کی توفیق دے،ان کی اولادمیں سے ان کابہتر جانشین پیدا کر،جو ان کے لگائے ہوئے چمنستان کی نگرانی کریں،اس چمن کے پھولوں سے ایک جہان معطر ہو۔ان کے سایے سے ایک عالم مستفیض ہو۔اے اللہ!توہی کارساز ہے،یہ ساری کاریگری تیرے ہی ہاتھ میں ہے،توہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے،توان ساری ضرورتوں کوسمجھتا اور دیکھتا ہے توہی اس کی تکمیل کرسکتا ہے،یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔اللہم تقبل مناإنک أنت السمیع العلیم،وتب علینا إنک أنت التواب الرحیم،وآخردعوانا أن الحمد للہ رب العالمین،آمین یارب العالمین۔

آپ کے تبصرے

3000