بھینی بھینی یادیں

عتیق الرحمن ندوی تذکرہ

عزم وارادہ کی پختگی کے ساتھ کاردشوار سے عہدہ برآہونے کی خو اگر دیکھنی ہو توآیئے دیکھیں ایک شخصیت کوجس کانام ڈاکٹر عبدالباری خان ہے۔ابھی ماضی قریب میں کتنے ناموراشخاص مسلمانوں اورغیرمسلموں میں سے کوروناکاشکارہوگئے،جس میں ہندو پاک کی نمایاں ترین شخصیات شامل ہیں۔پاکستان کے نامور عالم صاحب احسن البیان وتصانیف کثیرہ حافظ صلاح الدین یوسف ، نہایت صالح فکر اور صاحب نظرعالم دین مولانا عبدالمنان سلفی،استاد الاساتذہ ڈاکٹر ضیاء الرحمن العمری استاد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ،ندوہ کے دورطالب علمی کے میرے ہم عصر مولاناامین عثمانی ندوی سکریٹری فقہ اکیڈمی دہلی اورمیرے رفیق درس مولانا مبارک حسین ندوی وغیرہم رحمہم اللہ اسی درمیان رخصت ہوگئےاور اسی درمیان ڈاکٹر عبدالباری رحمۃ اللہ علیہ کی قدآورشخصیت بھی ہم سے چھن گئی،جن کی طویل مدتی کارگزاری عیاں اور بیاں ہے۔ اس مضمون میں وہی مرکزی شخصیت ہیں جن کے کارناموں کوکسی قدر سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے، جو اس عہد کی زندہ تاریخ کی نمایاں حکایات ہیں ۔خالص دینی اور دنیاوی نقطۂ نظر سے دیکھیں توایک طویل مضمون کی ضرورت پیش آئے گی۔
اور ابھی حال ہی میں استاذ گرامی مولانا قاری ابوالقاسم فیضی صاحب جیسا مرد میدان بھی زندگی سے دامن کش ہوگیا ،جرأت ایمانی کاپیکر ایک ایسا مرد جری جس کی مؤمنانہ ہمت کی مثالیں میری یادداشت کے ذخیرے میں محفوظ ہیں،ایک اور عنوان سے جلد ہی میں اسے قلم وقرطاس کے حوالہ کرنا چاہتا ہوں۔ان شاء اللہ
جیساکہ معلوم ہے کہ تاریخ بنائی نہیں جاتی،شخصیتوں کے بلند کارناموں اور ان کی عہد سازیوں سے تاریخ بن جایا کرتی ہے،ڈاکٹر عبدالباری خان مرحوم کاشمار انھی تاریخ ساز برگزیدہ ہستیوں میں کیاجائے گا، ان شاء اللہ۔جنھوں نے مستقل مزاجی اور جہد مسلسل سے اپنی ایک دنیا بنائی تھی۔ڈاکٹر صاحب کی یہ خوش نصیبی رہی کہ جگہ کا انتخاب پہلا حسن اتفاق رہاہے ،جہاں سے پیشۂ طبابت کی کامیابی نے ان کے حوصلے میں جان ڈال دی اور پھر دوسرا حسن اتفاق یہ ہوا کہ تعلیمی سسٹم کوفروغ دینے کے لیے ڈاکٹر محفوظ الرحمن رحمہ اللہ جیسے مخلص اوربے ریا انسان کی معیت حاصل ہوگئی،جنھوں نے عرب امارات میں رہ کر مختلف شخصیات اور تنظیموں سے مل کر قانونی طور پر مالیات کی فراہمی میں کوئی کمی نہیں ہونے دی اور پھر ان کے بعد مرحوم کے فرزندوں نے اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایاجواب تک الحمد للہ جاری ہے، مگر ڈاکٹر صاحب نے بھی اسے خوب سنبھالا اور درجہ کمال تک پہنچایا۔
ڈاکٹر صاحب کنڈؤ بونڈیہار کے ایک متوسط گھرانے میں تقریبا ۱۹۳۲ءمیں پیداہوئے، والد کا نام جنگ بہادر تھا،بیٹا بھی شجاعانہ شان کا مرد بہادر ثابت ہوا۔ابتدائی تعلیم سراج العلوم بونڈیہار میں حاصل کی اس کے بعد مستند ادارہ دار الحدیث رحمانیہ میں داخلہ لیا، مگر ۱۹۴۷ءکی ہنگامہ خیزی کے سبب جلد ہی دہلی سے رخصت ہوگئے اور بنارس آگئے۔جامعہ رحمانیہ سے تعلیم کی تکمیل کی اور اس کے بعد تکمیل الطب کالج لکھنؤ میں طبابت کاکورس پورا کیا۔
ڈاکٹر صاحب۱۹۶۰ء میں ڈومریاگنج تشریف لائے اور آتے ہی اپنے پیشے سے گہری وابستگی کے سبب مقبول خاص وعام ہوگئے ، پھر ایساہوگیاکہ کون ہے جو ڈومریاگنج کوجانے اورڈاکٹر صاحب سے ناواقف ہو،اسی طرح اس کے برعکس بھی۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے پیشۂ طبابت سے بڑا نام کمایا ،اللہ نے ان کے ہاتھ میں شفارکھی تھی ،اگر چہ آپ طب یونانی کے حکیم تھے مگر اکثر ایلوپیتھک دواؤں سے ہی کام لیتے تھے۔اس کے بعدماڈرن طریقۂ علاج کے مستند ڈاکٹر یو-پی سنگھ آگئے اور وہ بھی اپنے علاج سے برابر مقبول ہوتے گئے، مگر ڈاکٹر صاحب نے ادھر ذمہ داریوں کی کثرت اور پیرانہ سالی کے سبب طبی خدمات کو اپنے بیٹے ڈاکٹر فیضان احمدکو سونپ دیا تھا اور اپنا مشغلہ تعلیمی سسٹم کو بنالیاتھا۔
جماعتی سرگرمیوں کے تعلق سے سب سے پہلے استاذی مولانا عبدالقدوس رحمہ اللہ کے ہمراہ ایک مسجد کی بنیاد ڈالی، مولانا موصوف پابندی کے ساتھ خطبہ دینے کی غرض سے اس مسجد مذکور میں بلا ناغہ تشریف لے جاتے اور دیگر مساجد میں خشک خطبوں کے سبب مولانا کے سامعین کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔میں نے اپنے طالب علمی کے زمانہ میں دیکھا ہے کہ باوجودیکہ اس مسجد کا صحن کچی مٹی کاتھا پھر بھی جگہ تنگ ہونے لگی تھی۔میں نے ایک بار دیکھا کہ معروف وکیل حامد صاحب چوڑی دار پاجامہ اور شیروانی میں ملبوس گرمیوں کے ایام میں اس ننگے فرش پر جماعت میں شامل ہوکر نماز اداکررہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات کی ابتدامیرے طالب علمی کے زمانے میں اس وقت ہوئی جب میں مدرسہ مظہر العلوم اوسان کوئیاں میں کچھ دن زیر تعلیم تھا۔ہوا یوں کہ گرمیوں کے ایام میں ہم چند طلبہ مدرسہ کی چھت پر سوئے ہوئے تھے، دفعتا میرے کان میں شدید تکلیف شروع ہوئی، میں شدت درد سے چھت پر ٹہلنے لگا،بے چینی کے سبب نیند کوسوں دور تھی ،میرے خالہ زاد بھائی شیخ عبدالباری کی آنکھ کھلی،کہنے لگے کیاہوا بھیّا،میں نے کان کی تکلیف بتائی،کہنے لگے کیاکریں،میں نے کہاچارہ ہی کیا ہے،صبح کاانتظار کرنا ہے، ناظم صاحب(مولانا عبدالقدوس ٹکریایوی رحمہ اللہ )آئیں گے تب کوئی صورت بنے گی، چنانچہ کسی طرح صبح ہوئی اور ناظم صاحب تشریف لے آئے ،انھیں حال بتایا گیااور انھوں نے ڈاکٹر عبدالباری کے نام ایک رقعہ لکھ دیااور ہمیں وہیں بھیج دیا،سائیکل بھی نہیں تھی، پیدل چلے گئے، انھوں نے دیکھا،کچھ ٹیبلیٹ دیے اور کان میں کوئی دواڈالی گئی،ہم پہلی بارکسی انگریزی دواسے آشنا ہوئے تھے، درد تو کافور ہوگیا ،پورے جسم میں الگ سے آسودگی کااحساس ہوا،غالبا کوئی انال جیسک ٹیبلیٹ رہا ہوگا،کان میں پھوڑا بن گیاتھا جو اسی روز ٹوٹ بھی گیا اور بتدریج فائدہ ہوتا گیا۔
میری ندوہ سے فراغت کے بعد میرے نانا اور بہی خواہوں کو فکر ہوئی کہ کہیں میں اپنے مسلک کے ہاتھ سے نکل نہ جاؤں،مگر یہ سوچ صحیح نہیں تھی کیوں کہ یہ منہج تودل ودماغ میں مرتسم ہوچکاتھا ،اسی لیے میں ندوہ میں اپنے نام کے ساتھ اثریؔ لکھا کرتا تھا،حالانکہ اس نسبت سے جب مجھے جامعہ اثریہ دارالحدیث کافارغ سمجھاجانے لگا تومیں نے غلط فہمی دور کرنے کے لیے یائے نسبتی ہٹادی اور اس طرح صرف عتیق اثر ؔرہ گیا اور یہ نسبت میری شناخت بن گئی تھی۔فراغت کے بعد میں ندوہ میں کچھ دن اس لیے ٹھہراہواتھا کہ مجھے ندوہ ہی میں ذمہ داروں نے کوئی جگہ دینے کی بات کہی تھی یاپھر شبلی اکیڈمی جاناتھاجیساکہ مفتی ظہوررحمہ اللہ نے فرمایاتھا۔مگر انتظار کرنادشوار تھا، چنانچہ اسی درمیان ناظم صاحب(مولانا عبدالقدوس رحمہ اللہ) نے مجھے اپنے یہاں بلایا اور فرمایا کہ تم مظہر العلوم میں مدرس ہوجاؤ یا پھر جمعیت اہل حدیث بستی کاآفس سکریٹری ہونا پسند کرلو،چنانچہ میں نے آخر الذکر خدمت قبول کرلی مگر مشکل یہ تھی کہ آفس برائے نام تھی ، ڈومریاگنج کی مسجدمذکور کے متصل مدرسہ سسٹم کے بالائی کمرے میں جگہ دی گئی تھی مگر کمرے کے سو اکوئی انتظام اورکام نہ تھا،پھر آرگنائزر کی ذمہ داری دی گئی جس میں مدرسہ سے مدرسہ سائیکل سے سفر کرنا ،وہاں کی تعلیمی کارگزاری تیار کرنا پڑتا تھا،مگر یہ میرا کام نہ تھا، بہر حال کسی طرح تین مہینے نبھائے اور بعد میں اپنے یہاں نیشنل انٹر کالج میں جگہ بنالی۔اس درمیان ڈاکٹر صاحب سے ملاقات اور سلام کا موقع ملتا مگر فاصلے سے،بے تکلفی نہ تھی اور اس وقت ڈاکٹر صاحب کی شہرت کا آفتاب دوپہر کی تمازت میں تھا،پھر جلسوں میں آتے جاتے ملاقات ہوجایا کرتی تھی اور پھر بتدریج بحیثیت ذمہ داران مدرسہ تعارف ہوا۔اس کے بعد میرے خالہ زاد بھائی ابوالقاسم کے یہاں ان کا سمدھیانہ ہوا اور بارات دریاباد آئی،جس کامنتظم میں ہی تھا اور قاضیٔ نکاح بھی۔اس وقت سے ملاقات کی پینگیں زیادہ بڑھیں اور پھر F.C.R.Aکے تعلق سے کچھ مسائل اور الجھنوں کی دریافت کے لیے آناجانا ہوا،ڈاکٹر صاحب نے اپنےسی اے کپور سے ارشاد بھائی کے ذریعہ ملاقات کرائی ،جس سے وہ بعد میں نالاں بھی ہوئے اور میں بھی کچھ خوش نہیں رہا۔
ڈاکٹر صاحب کا حساب کتاب کافی بڑاتھا،اس لیے ITRکی مشکلات سامنے آتی رہتی تھیں اور ان کاسی اےان کی اس مجبوری کا فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر نہ رکھتاتھا ،جس کا ذکر انھوں نے مجھ سے بارہا کیاتھا۔میرے سی اے کے بارے میں اکثرپوچھتے،اس کا رویہ اور حساب کتاب کاطریقہ معلوم کرتے،چنانچہ ان آخری ایام میں ملاقات اور ٹیلیفونک گفتگو کاسلسلہ برابررہا۔ وہ اپنی تقریبات میں مجھے مدعو بھی کرتے اور ایک بارتواپنی پوتی کی تقریب شادی میں علما کاجم غفیر ہونے کے باوجود نکاح خوانی میرے ذمہ کردی تھی۔
قابل ذکر یہ محبت بھرا امربھی ہے کہ میری آخری اولادوں میں عزیزم مزمل اور عزیزہ ناہید کی شادی بتاریخ۱۰؍جولائی۲۰۱۸ء میں موسم کی سختی کے باوجودشرکت کے لیے تشریف لائے،کہنہ عمری،موسم کی شدت،مسافت کی دشواری کوئی بھی چیز اس محبت اور چاہت میں حاضری سے مانع نہ تھی ۔جزاہ اللہ خیر الجزاء
انتقال سے کچھ دنوں قبل فون سے ڈاکٹر صاحب کی احوال پرسی ہوئی،میں نے عرض کیا کہ ابھی حال ہی میں میراڈومریاگنج سے گزرہوا ہے،عیادت کے لیے حاضری چاہتا تھا ،مگر دیکھا کہ آپ کی طرف جانے والے راستے کی بریکیٹنگ ہوئی ہے ۔کہنے لگے :ہاں کوروناکی وجہ سے کیاگیاتھا،میں نے وعدہ کیاکہ جلد ہی ملاقات کروں گا ان شاء اللہ،مگر افسوس کہ پھر جنازے میں میت سے ملاقات ہوئی۔ ’’إناللہ وإناإلیہ راجعون‘‘اللہ مغفرت فرمائے۔(آمین)
بھائی انجینئر ارشادسے ابھی حال ہی میں گفتگو ہوئی ،کہنے لگے کہ ابا کے ملاقاتیوں میں آپ کا خاص درجہ تھا،ان کے اس حسن ظن کو اللہ تعالیٰ حسن مستقل عطاکرے اور انھیں جزائے خیر سے نوازے۔
ڈاکٹر صاحب کی مصروفیات متنوع تھیں،جامعہ خیرالعلوم،خیرٹیکنیکل سینٹر،مدرسہ کلیۃ الطیبات،انٹر کالج،اسی طرح نوگڈھ میں مسجد کے ہمراہ ہائی اسکول کا قیام ،مساجد کی تعمیر کاطویل سلسلہ،مشتاقین سے ملاقاتیں،جلسوں کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے برابر شرکت، اسفار،معاونین وملازمین کی ترتیب وتنظیم،شکایت کاازالہ،کبھی کبھی علاقہ کے بڑے بڑے مسائل کے حل کی کوشش کرنا بھی ذمہ داری بن جاتی تھی۔ایک واقعہ مجھے یادہے کہ ایک بار ۱۹۷۴ءمیں چوکھڑا نامی ایک گاؤں میں جہاں غالباً اکثر قصابوں کی آبادی ہے اور وہ بھی جیسا کہ عام بات ہے کہ تعلیم اصلی سے محروم جس قدر زیادہ لوگ ہوں گے بدعت وخرافات کاچلن بھی وہاں زیادہ ہی ہوگا، چنانچہ وہیں کہیں اہل حدیثیت کابھی کچھ فروغ ہونے لگاتھااور تصادم کی نوبت آگئی۔بات مناظرہ تک پہنچی،اہل حدیثوں کی جانب سے مشہور مناظر مولانا عبدالمبین منظررحمہ اللہ کو پیش پیش رکھا گیا اور علمی معاونت کے لیے علما کی ٹیم موجود تھی، اُدھرسے بھی تیاریاں ہونے لگیں، مناظرے کی کم جھگڑے کی آواززیادہ ہی سنائی دینے لگی،عموما اکثریت کی بنیادپر اقلیتوں کوطاقت کے زور پر دبایاجانا فطری امر ہے،خواہ مسلمانوں کے درمیان کی اپنی اقلیت ہویاملکی پیمانے کی اقلیت۔چنانچہ اس خطرناک رخ کوبھانپ کر ڈاکٹر موصوف نے ڈومریاگنج کی ایک معروف شخصیت جومخالف گروپ سے تعلق رکھتی تھی، سیٹھ قطب اللہ بھٹہ والے کو ہمراہ کیا، چونکہ دونوں حضرات وہاں کے ممتاز اور بااثر لوگوں میں سے تھے ،باہم رسم وراہ بھی تھی،اس لیے انھوں نے اپنے اپنے گروپ کے جذباتی انداز کوفروکرنے کی کامیاب کوشش کی اور اس طرح مناظرہ کاہنگامہ ٹل گیا جسے خیروخوبی سے ہی یاد کیاجائے گا ،کیوں کہ مناظرہ ہی نہیں ٹلاتھا خون خرابہ بھی ٹل گیاتھا۔
ڈاکٹر موصوف کے کاموں کاتفصیلی تعارف کرایا جائے توایک لمبا مضمون تیار ہوجائے گا،وہ ان کاموں کی عنان اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کو نبھانے اور اچھی طرح پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھتے تھے، اس کے علاوہ غربا یتامیٰ کی امداد میں آگے آگے رہتے تھے،ڈاکٹر صاحب کوفیصلہ سازی میں کوئی پس وپیش نہ تھا اور کاموں کابوجھ اٹھانے کی نرالی ہمت حاصل تھی۔
ڈاکٹر عبدالباری مرحوم کاہماری جامعہ کے سرپرست دکتور شیخ عبدالباری فتح اللہ حفظہ اللہ اور مجھ سے کافی ربط وتعلق تھا اور ملاقات پر خیریت دریافت کرتے رہتے تھے ۔ادھر دوچارسالوں میں ڈاکٹر صاحب سے میرے روابط ان کی محبت کے طفیل بہت زیادہ استوار ہوئے تھے،آفیشیل مسائل کے تعلق سے استفسارات،انکم ٹیکس کی فضول دشواریوں سے نمٹنے کی صورتیں تلاش کرنے میں بہت ممدومعاون تھے۔ملاقات کے بعد بے حدمتمنی رہتے ،کبھی کبھی خود ہی فون کرلیتے،ملاقات پر ضیافت فرماتے،کھانے کے لیے اصرار کرتے،مگر افسوس!کہ مرض آخر میں عیادت نہ کرسکا اور وہ بتاریخ۱۰؍جولائی۲۰۲۰ء بروزجمعہ اس دارمحن سے داربقاکی طرف سدھار گئے۔إناللہ وإناإلیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ ان کی جہود کوقبول فرمائے اور انھیں فردوس نشین بنائے ۔آمین
الحمدللہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے پیچھے ایک بھراپُراخاندان چھوڑا ہے،پہلی زوجہ محترمہ سے ایک دختراور دوسری زوجہ سے جوابھی باحیات ہیں،پانچ صاحبزادگان اور ایک دختر نیک اختر (جنھوں نے کلیۃ الطیبات کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے) کی ایک بہترین ٹیم چھوڑ گئے ہیں، ان میں ارشاد احمد خان، فیضان احمد خان،افضال احمد خان،جاوید احمدخان،ریا ض احمدخان حفظہم اللہ ہیں۔سبھی تعلیم یافتہ ہیں اور رواں کاموں کورواں رکھنے اور چھوٹے ہوئے کاموں کوپورا کرنے کی بھر پور صلاحیت سے بہرور ہیں ۔ جہد مسلسل کی یہ تمثال ہمارے لیے ایک آئینہ ہے، جواپنی مجاہدانہ زندگی کے تعب سے اِس دنیا سے اُس دنیا کو سدھار گئے اور گویا یہ کہتے ہوئے گئے؎
تھکا تھکا ساہوں نیند آگئی ہے سونے دو
بہت دیاہے تراساتھ زندگی میں نے

آپ کے تبصرے

3000