آٹھویں صدی عیسوی میں سر زمین مصر پر ایک ایسے نحوی عالم کا ظہور ہوا جس نے پوری زندگی عربی زبان کی خدمت میں وقف کردی، عربی قواعد پر درجنوں کتابیں تصنیف کر کے نہ صرف اس خلا کو پر کیا جو نحو و صرف کی دنیا میں محسوس کیا جاتا تھا بلکہ قیامت تک آنے والے لوگوں کو تالیف وتصنیف کے میدان میں ایک خاص منہج وطریقہ بھی دے گئے۔
نحو وصرف پر پوری زندگی وقف کر دینے والی اس ہستی نے جب اپنی زندگی کی آخری کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو اس کے لیے دنیا کی سب سے بہترین جگہ مکہ مکرمہ کا انتخاب کیا، یہی وجہ ہے سیوطی کے بقول وہ کتاب ان کی زندگی ہی میں مشہور ہوگئى اور لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ (دیکھیں: بغیۃ الوعاۃ فی طبقاۃ اللغویین والنحاۃ:۲/۶۹)
ابن ہشام انصاری (ت۷۶۱ھ) کا شمار چوٹی کے ان نحویوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی تصنیفات میں نئے فوائد بیان کرنے، دقیق معلومات لانے اور قوت استدلال و استنباط سے جانے جاتے ہیں، انھوں نے عربی قواعد پر تقریبا ۲۸ کتابیں لکھیں جن میں ہر ایک کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے اور سب کا منہج بھی الگ الگ ہے۔ ان کی چند کتابیں: شذور الذھب اور اس کی شرح، قطر الندی اور اس کی شرح، اوضح المسالک الی ألفیۃ بن مالک اور مغنی اللبیب عن کتب الأعاریب دنیا کے بہت سے مدارس اور یونیورسٹیوں میں داخل نصاب ہیں اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ ان کی کتابوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔
ابن ہشام اپنی باتوں کو مختصر ومطول دونوں طریقوں سے بیان کرنے پر قدرت رکھتے تھے، اس کی دلیل خود ان کی تصنیفات ہیں؛ چنانچہ انھوں نے متون علمیہ لکھ کر خود ان کی شرح بھی کی ہے۔ ابن خلدون نے ان کو سیبویہ سے بڑا نحوی قرار دیا ہے، وہ کہتے ہیں:
ما زلنا ونحن بالمغرب نسمع أنه ظهر بمصر عالم بالعربية يقال له ابن هشام أنحى من سيبويه(دیکھیں: بغیۃ الوعاۃ از السیوطی:۲/۶۹) یعنی ہم مغرب میں رہتے ہوئے سن رہے ہیں کہ مصر میں عربی قواعد کے ایک عالم کا ظہور ہوا ہے جن کا نام ابن ہشام ہے اور جو سیبویہ سے بھی بڑے نحوی ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ان کی تالیفات میں معلومات کی کثرت بھی ہوتی ہے اور انھیں اچھی عبارت اوراچھے اسلوب میں بیان کرنا بھی خوب جانتے ہیں۔
ان کی زندگی کی آخری کتاب ’مغنی اللبیب‘ کا پورا نام ’مغنی اللبیب عن کتب الأعاریب‘ ہے جس کے معنی ہیں: یہ کتاب عقلمندوں کو دوسری اعراب کی کتابوں سے بے نیاز کر دے گی، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ کتاب نحو کے عام مباحث کو شامل نہیں ہے بلکہ ان مسائل پر روشنی ڈالتی ہے جن کا تعلق اعراب سے ہے چنانچہ ابن ہشام نے مقدمہ میں خود اس کی وضاحت بھی کی ہے۔
یہ کتاب علم نحو بالخصوص علم اعراب میں انسائیکلو پیڈیا ہے جس میں تمام مسائل کو شواہد اورمثالوں کے ساتھ مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے، نیز یہ ابن ہشام کی علم نحو پر لکھی گئی تمام کتابوں سے اچھی ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر محمود فہمی حجازی بیان کرتے ہیں کہ ابن ہشام نے علم نحو میں متون اور شروح دونوں طرح کی کتابیں لکھیں، ألفیۃ کی شرح اوضح المسالک بھی لکھی لیکن ان کی سب سے اچھی کتاب مغنی اللبیب ہے، پس وہ عربی جملے اور نحوی تحلیل کے حوالے سے سب اچھی کتاب ہے۔ (دیکھیں: علم اللغۃ العربیۃ از دکتور محمود فہمی حجازی:۹۳)
یہ کتاب نحو میں اہم مرجع ومصدر کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ اس کتاب کا حوالہ فن نحو میں دیا جاتا رہا ہے اور قیامت تک دیا جاتا رہے گا، بالخصوص شواہد کے باب میں محققین بکثرت اس کا حوالہ دیتے ہیں۔
مغنی اللبیب ان گنی چنی چند کتابوں میں سے ایک ہے جن کے مؤلف نے فن نحو میں ایک نیا منہج پیش کیا ہے اور اس طرح کی کتابوں میں سب سے پہلا نام سیبویہ کی الکتاب ہے، دوسرا نام زمخشری کی کتاب المفصل ہے، تیسرا ابن مالک کی الفیہ ہے اور چوتھا ابن ہشام الانصاری کی مغنی اللبیب ہے۔
یہ کتاب احکام الحروف یعنی حروف کے تعلق سے تمام نحوی مسائل کو یکجا بیان کرنے میں سب سے اچھی کتاب ہے، اگر چہ اس پرمرادی کتاب (الجنی الدانی فی حروف المعانی) موجود ہے تاہم ابن ہشام نے اپنی کتاب میں بہت سی چیزوں کا اضافہ کیا ہے۔ ڈاکٹر تمام حسان کہتے ہیں:
إن شئت أن تنظر في تعدد المعاني الوظيفية للأداة فارجع إلى كتاب مغني اللبيب، وسترى ذلك مفصلا فيه اروع تفصيل (اللغه العربیۃ معناھا ومبناھا از ڈاکٹر تمام حسان:۱۶۴)یعنی اگر آپ کو حروف کے مختلف معانی پر نظر ڈالنا ہو تو مغنی اللبیب کی طرف رجوع کریں، ان شاءاللہ آپ کو یہ مسائل مفصل اور بہترین انداز میں ملیں گے۔
یہ کتاب اچھی تحقیق کے ساتھ کئی بار منظر عام پر آچکی ہے۔ اس میں سب سے اچھی تحقیق استاذ محی الدین عبد الحمید کی ہے جو مصر قاہرہ سے چھپی ہے۔ پھر مازن مبارک اور محمد علی کی تحقیق ہے، جو بیروت سے چھپی ہے۔ پھر برکات یوسف ھبّود کی تحقیق ہے اور یہ بھی بیروت لبنان سے چھپی ہے۔
یہ کتاب نحوی مسائل پر تفصیلی گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ بلاغی وصوتی مسائل کو بھی بیان کرتی ہے، نیز اتنی مفصل کتاب ہونے کے باوجود اس میں کسی مسئلہ کی تکرار بھی نہیں ہے۔
کسی بھی کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ بعد کے لوگوں نے اس پر کتنی توجہ دی ہے اور اس کو کس نظریہ سے دیکھا ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کے نحویوں نے نہ صرف اس پر توجہ دی ہے بلکہ ہر ناحیہ سے اس کتاب پر دراسہ (ریسرچ) کیا گیا ہے؛ چنانچہ کسی نے اس کے متن کی شرح لکھی اور کسی نے اس کے شواہد کو حل کیا تو کسی نے اس کا اختصار کیا اور کسی نے اس کو نظم کی شکل میں لکھا۔ اس کی اہم شروح میں سے درج ذیل ہیں:
(۱)بدر الدین الدمامینی کی شرح اور تعلیق ( تحفۃ الغریب فی حاشیۃ مغنی اللبیب)
(۲)المنصف من الکلام علی مغنی ابن ہشام از تقی الدین الشمنی
(۳)الفتح القریب علی مغنی اللبیب از السیوطی
(۴)منتہی امل الأریب فی الکلام علی مغنی اللبیب از احمد بن محمد الحلبی
(۵)مواھب الأدیب از محمد بن محمد
اور جن علماء نے اس کے شواہد کی شرح کی ہے ان میں اہم:
(۱)شرح شواہد المغنی از السیوطی ( ت۹۱۱ھ)
(۲)شرح ابیات مغنی اللبیب از عبد القادر البغدادی ( ت۱۰۹۳ھ)
اس پر جو مختصرات لکھی گئی ہیں ان میں اہم:
دیوان الأریب فی مختصر مغنی اللبیب از محمد بن عبد المجید الشافعی (ت۹۶۱ھ)
اور جس نے اس کو نظم کی شکل میں لکھی وہ ہے ابو النجا بن خلف۔
اس کتاب کی تالیف کا مقصد بہت اونچا اور اعلی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ قرآن کریم اور حدیث نبوی کو سمجھا سکتا ہے، چنانچہ انھوں نے مقدمہ میں اس بات کی صراحت کی ہے ۔( دیکھیں: مغنی اللبیب کا مقدمہ:۱۲)
ابن ہشام سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے قرآن کریم یا حدیث نبوی کی کسی کتاب کی شرح کی ہے تو ان کا جواب تھا کہ مغنی اللبیب کی تالیف نے مجھے اس سے بے نیاز کردیا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ مغنی اللبیب کو سمجھنے کے بعد قرآن کریم اور حدیث کی کتابوں کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
کتاب کے سبب تالیف پر گفتگو کرتے ہوئے مؤلف نے کہا ہے کہ جب انھوں نے کتاب ’الاعراب عن قواعد الاعراب‘ لکھی تو لوگوں نے اسے بہت پسند کیا حالانکہ اس میں جو کچھ میں نے بیان کیا ہے وہ میرے پاس اعراب کے تعلق سے جو علم ہے اس کے بالمقابل وہ ایک قطرہ کی مانند ہے۔ پس جو کچھ علم میرے پاس چھپا ہوا تھا اس کو میں نے اس کتاب میں انڈیل دیا ہے۔ (دیکھیں: مغنی اللبیب کا مقدمہ:۱۳)
اگر ہم مغنی اللبیب کے علمی مستوی اور معیار کی بات کریں تو کتاب کی عبارت واسلوب سے اندازہ ہوگا کہ اس کا علمی معیار بہت بلند ہے، جو نحو کےمبادیات کو نہیں جانتے، اس کے عربی اسلوب ومنہج سے واقف نہیں ہیں یا جو فن نحو میں دلچسپی نہیں رکھتے یا اعراب کے اہم مسائل کی جانکاری نہیں ہے۔ تو یہ کتاب اس کے پلے پڑنے والی نہیں ہے؛ اسی لیے مولف نے اپنے مقدمہ میں بیان کیا ہے:
وخطابي به لمن ابتدأ في تعلم الإعراب ولمن استمسك منه بأوسق الأسباب( مغني اللبيب:۱۶)
اس کتاب میں ابن ہشام نے جہاں بہت سی جگہوں پر دوسرے نحویوں پر نقد اور ردکیا ہے وہیں کئی جگہوں پر فقہاء کی نوک پلک بھی سیدھی کی ہے۔ ابن ہشام فرماتے ہیں:
وقوله تعالى: للذين يؤلون من نسائهم أي : يمتنعون من وطء نسائهم بالحلف فلهذا عُدِّيَ بمن، ولما خفي التضمين على بعضهم في الآية، ورأى أنّه لا يقال حلف من كذا، بل حلف عليه، قال مِن متعلقة بمعنى للذين، كما تقول لي منك مبرة، وأما قول الفقهاء : آلى من إمرأته فغلط أوقعهم فيه عدم فهم المتعلق في الآية(مغني اللبيب:۱/۸۹۹)
یعنی آیت میں ’مِن‘ کا متعلق ’یؤلون‘ نہیں ہے بلکہ اس کا متعلق فعل محذوف ہے اسی وجہ سے فقہاء کا کہنا ’آلی من امرأتہ‘ غلط ہے۔
اس مختصر سے مضمون میں اس کتاب کی تمام خوبیوں اور مشمولات کو بیان نہیں کیا جا سکتا، اس سلسلے میں مزید معلومات کے لیے درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے:
۱۔بغية الوعاة في طبقات اللغويين والنحاة از السيوطي
۲۔مغني اللبيب عن كتب الأعاريب تحقيق: محيي الدين عبد الحميد
۳۔نشأة النحو وتاريخ أشهر النحاة از الشيخ على طنطاوي
۴۔اعتراضات البغدادي على ابن هشام في شرح أبيات مغنى اللبيب : ایم اے کا مقالہ، از منیرہ بنت احمد۔
بہت عمدہ
ماشاءالله تبارك الله
اللهم زد فزد وبارك فيكم
قرآن مجید کے نحوی وبلاغی لطائف پر کوئی معتبر کتب ہوں تو اس کا مختصر تعارف منہج ترتیب میزات وغیرہ پر روشنی ڈالیں زیادہ کار آمد ثابت ہو گا
إن شاء اللہ
وجزاكم الله خيرا
ماشاءاللہ بہت قیمتی معلومات اور دلچسپ گفتگو
واقعی فن نحو کے طالب علم کیلئے یہ باتیں جواہر پارے سے کم نہیں ،
شیخ ! فن نحو کے طالب علم کیلئے ابتداء سے کون سی کتابیں پڑھنی چاہئیے یہاں تک کہ وہ متخصص ہوجائے ، اس تدریجی مراحل پر روشنی ڈال دیں تو ہم سب کیلئے بھی مشعل راہ ثابت ہو ،
جزاکم اللہ خیرا