دینی صحافت کی عصری ذمہ داریاں

تسلیم حفاظ عالی متفرقات

دنیا کا سب سے طاقتور ہتھیار صحافت ہے۔روے زمین پر جتنے بھی ذہنی انقلابات رونما ہوئے ہیں ،سب کا مدار اسی صحافت پر ہے۔جمہوریت کی کامیابی کا راز عوام کے بیدار اور باشعور ہونے میں ہےاور عوام کی بیداری میں صحافت کا ہمیشہ سےزبردست رول رہا ہے۔ اسی لیے صحافت کو جمہوری نظام کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے۔صحافت انسانی اقدار کے تحفط کی ضامن اور مجبور ومظلوم عوام کے جذبات واحساسات کی ترجمان ہوتی ہے۔جمہوریت کی بقا اور جمہوری حکومت میں عوام کی فلاح وبہبود کے لیے تین ذمہ دار اوراہم ادارے ہوتے ہیں:مقننہ،انتظامیہ اور عدلیہ۔ان تینوں اداروں کی سلامتی اور ان کو اپنی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کے لیے غیرجانبدارا ورایماندار صحافت کا وجود ضروری ہے۔مضبوط صحافت کے بغیر مذکورہ اداروں کی جمہوریت پسندی مشکوک ہوجاتی ہے۔
دراصل دست صحافت ہی میں حکومت کی نکیل ہوتی ہے،صحافت کے ذریعے ہی اسے درست خطوط پر چلنے پرمجبور کیا جاتا ہے اور اس کی پالیسیوں کےمثبت ومنفی پہلوؤں کواجاگر کیا جاتا ہے۔کسی ملک کی صحافت اگر غیرجانبدار ہوکر اپنی ذمہ داریاں مضبوطی کے ساتھ ادا کرے تو اس ملک کی حکومت من مانی کرہی نہیں سکتی۔خواستہ یانخواستہ اسے عوامی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنا ہی پڑے گا۔لیکن اگرصحافت اپنے اخلاقی فرائض اور اپنی منصبی ذمہ داریوں سے دست کش ہوکر مفاد پرستی اور کاسہ لیسی ہی کو اپنا مطمح نظر بنالے تو پھر حکومت کا شتربےمہار بننا یقینی ہے۔
ملک کےسیاسی،سماجی ،تعلیمی اور اقتصادی حالات کو سازگار رکھنے کے لیے صحافت کا متحرک وفعال اورذمہ دار ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔دور حاضر میں الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے لوگوں کے دل ودماغ پر قبضہ جما رکھا ہے۔بطورخاص سوشل میڈیا کے بغیر تو زندگی جامد سی لگنے لگتی ہے۔ پڑھالکھا، غیر پڑھالکھا،مرد،خواتین،بچے،جوان سب اس پر فریفتہ نظر آرہے ہیں۔ایسے میں موجودہ تمام ذرائع ابلاغ کا منصوبہ بند اور پرکشش انداز میں استعمال بہت زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔سردست ذیل کے نکات پر توجہ دینا ہماری دینی صحافت کے لیے بہت ضروری ہے۔
اسلامی تعلیمات وآداب کو سہل اور دلکش اسلوب میں پیش کرنا:
مذہب اسلام کی حقانیت وصداقت جس برق رفتاری کے ساتھ آفاق عالم میں عام ہورہی ہے اور جویاے حق جس تیزی سے شرک وضلالت کی دلدل سے نکل کر دامن اسلام کو تھام رہے ہیں،اس نے باطل پرستوں کوپریشان کردیا ہے اور ان کی نیندیں اڑاکر رکھ دی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق وہ اسلام پر طرح طرح کے بے بنیاد الزامات عائد کرکے اپنے غیظ وغضب اور قلق واضطراب کا مظاہرہ کرنے اور اسلامی تعلیمات سے لوگوں کو متنفر کرنے کی سعی نامسعودمیں لگے ہوئے ہیں۔تشدد پسندی،انتہاپسندی اور دہشت گردی سے اسلام کو جوڑنے کی ناروا کوششیں بڑے منصوبہ بند طریقے سے کی جارہی ہیں۔ہمارے ملک میں بھی ایک شرپسند اور جنونی طبقے نے اسلام جیسے پرامن مذہب کو ایک سخت گیر مذہب کی حیثیت سے پیش کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔
اسلام کے بارے میں غلط اوربے بنیاد افکارونظریات کی تردید وتغلیط کا کام بہت حد تک جاری ہے ، اس میں مزید استحکام اور خوش سلیقگی لانے کی ضرورت ہے۔وطن عزیز میں ابھی جو صورت حال ہے اس کے پیش نظر ذرائع ابلاغ کا دل پذیراستعمال کرکے براداران وطن کو بطور خاص اسلام کی ان تعلیمات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے جن کا تعلق سماجی ومعاشرتی معاملات سے ہے۔فقراومساکین کا تعاون،یتیموں کی کفالت،محتاجوں کی خبرگیری،بھائی چارہ، مساوات،پڑوسی کے حقوق، کفارومشرکین کے ساتھ تعامل کا نبوی طریقہ،مظلوم کی مدد،دست ظالم کی گرفت،خدمت خلق کی اہمیت،انسانیت کا احترام وغیرہ جیسے اسلام کی سنہری تعلیمات کو خوبصورت اسلوب میں پیش کرکے ہم ان کے شکوک وشبہات اور اسلام کے بارے میں ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں۔اسی طرح ملت کے باشعور،قابل اور دعوتی تربیت یافتہ افراد مواقع ومناسبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے توحید ورسالت کے پیغام کو بھی عام کرسکتے ہیں۔
مسلمانوں میں تعلیمی شعور بیدار کرنا:
تعلیم کی اہمیت وضرورت کسی سے مخفی نہیں۔تعلیم سارے اعمال و معاملات کا مقدمہ ہے۔ تعلیم کے بغیر سماج کی اصلاح وترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو ہی نہیں سکتا۔اس حقیقت کے باوجود مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی افسوس ناک ہے۔تعلیم کے انعدام کی وجہ سے مسلم سماج میں بہت سارے باطل عقائد اور بے بنیاد توہمات نے ابھی بھی اپنی جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں۔شرک وبدعات،غیرشرعی رسوم وروایات اور محرمات ومنکرات کو لوگ باگ کار ثواب سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔بہت سارے عبد اللہ وعبدالرحمن کو توحید ورسالت کی بنیادی معلومات تک نہیں۔ہم میں سے بہتوں نے اپنے آپ کو ہفتہ واری اور سالانہ نماز بطور فیشن ادا کرکے دائرۂ اسلام کے اندر زبردستی داخل کررکھا ہے۔بہتوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ نماز روزے کا صحیح مطلب کیا ہوتا ہے۔عصری علوم اور دینی علوم کے حاملین کے درمیان ہم آہنگی وتوافق کا ابھی بھی زبردست فقدان ہے۔ایک عصری علوم سے لیس لیکن دین کی بنیادی معلومات سے بے خبر،دوسرا دینی علوم کابحرذخار لیکن سفینۂ عصر کی ملاحی کے گر سے ناآشناہے۔
دینی ودنیاوی دونوں حقوق کی حصولیابی کے لیے عدم توافق کی اس گتھی کو سلجھانے کی ضرورت ہے۔ عصری علوم حاصل کرنا وقت کی ضرورت ہے، لیکن اس سے بھی اہم اور بڑی ضرورت عقائد ودینیات کی اصلاح ہے۔ اس لیے دینی صحافت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائے۔
اسلام کے بنیادی احکام ومسائل کی توضیح:
دین بےزاری اور بےعملی وبدعملی کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کا اپنے دین کے احکام ومسائل سے واقف نہ ہوناہے۔طہارت ونظافت، وضووغسل، نماز، روزہ، زکات، حج، نکاح، طلاق، خلع، وراثت،وصیت،ہبہ،وقف،اصول تجارت،آداب معاشرت، حلال وحرام جیسے بڑے اور موٹےموٹے احکام ومسائل سے مسلمانوں کی اکثریت صحیح طور پر آشنا نہیں ہے۔دینی معلومات کے ابلاغ وترسیل کے نام پربڑے بڑے جلسے،کانفرنسیں اور اجتماعات تو خوب منعقد ہوتے ہیں،لیکن ثمرات ونتائج صفر۔ دینی پروگراموں کی عدم افادیت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان میں مقصدیت ومنصوبہ بندی کا افسوس ناک فقدان ہے۔پیشہ وارانہ جذبات کے حاملین نے ان جلسوں کے مزاج کو بگاڑنے میں سب سے اہم رول ادا کیا ہے۔خالص دینی واصلاحی جلسوں میں مسلکی اختلافات ، فقہی موشگافیوں اور سیاسی مسائل پر نہایت ہی بھونڈے اور غیرسلیقہ مندانہ تبصروں نے آگ پرتیل ڈالنے کا کام کیا ہے۔
اصلاحی مجلسوں کو افادی بنانے کی کوشش کےساتھ ساتھ دینی صحافت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد واحکام کی نشرواشاعت کی طرف خصوصی توجہ دے۔ادبیت پسندی،جدت طرازی اور اختراع پردازی کی زلف گرہ گیر کی اسیری میں مبادیات اسلام سے انحراف کسی طور پر درست نہیں، بلکہ سراسر گھاتک ہے۔
غیر شرعی رسوم وروایات کے ابطال وتردید کی کوشش:
مسلم معاشرے میں دن بدن باطل وبے بنیاد رسوم وروایات کی درآمد کا سلسلہ جاری ہے۔کچھ رسمیں مسلمانوں کی خود ساختہ ہیں اور کچھ برادران وطن کی مصاحبت کا نتیجہ ہیں۔ان میں شادی اور موت کے مواقع کی رسمیں خصوصی طور پر لائق توجہ ہیں۔مہندی،بھات،منہ دکھائی،پلنگ بچھوائی اور جوتاچرائی وغیرہ اسی قبیل کی رسمیں ہیں۔شادی کے موقعے کی سب سے خطرناک اور ہلاکت انگیز رسم جہیز اور منہ مانگی رقم کی ہے۔اس لعنت نے پورے سماج کو اندر ہی اندر گھن کی طرح کھوکھلا کردیا ہے۔شادی سے پہلے بڑی بڑی رقموں کے مطالبے اور بیش قیمت جہیز کی فرمائش نے شادی جیسی اسلام کی آسان کردہ چیز کو مشکل بناکر رکھ دیا ہے۔اس رسم بد کی وجہ سے دختران حوا پر ظلم وستم کے متنوع دردناک واقعات اور ان کی خودکشی کے دل سوز حادثات انسانی سماج کے سفیدنما چہرے پر بہت بڑا دھبہ ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے دوغلے سماج نے فوت شدگان کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ان کے ساتھ بھی بہت ساری باطل وبے بنیاد رسوم کو وابستہ کردیا ہے۔میت کی زمین جائداد،روپے پیسے اور زیورات کا تو بھرپور استعمال ہوتا ہے،بلکہ سلب ونہب کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے،دوسروں کے حقوق مار کر سب کچھ سمیٹ لینے کی فکر دامن گیر ہوجاتی ہے، لیکن میت کے کپڑے اور دیگر استعمال کی اشیا کے بارے میں یہ خیال ہوتا ہے کہ ان کو استعمال کرنے سے پریشانی لاحق ہوسکتی ہے۔بعض لوگ اس گمراہ کن تصور کے زیر اثر جنازے کے ساتھ اس کے کپڑے بھی لے جاتے ہیں اور کسی گڈھے میں پھینک دیتے ہیں۔میت کے لیے ایصال ثواب کے نام پر تیجہ،دسواں،چالیسواں وغیرہ اسی قبیل کی رسمیں ہیں۔غرض کہ ان غیر شرعی رسموں نے مسلم معاشرے کی شبیہ بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ایسے میں ہمارے قلم کاران اور صحافی حضرات کی ذمہ داری ہے کہ ان رسوم وروایات کی قباحتوں اور خطرناکیوں کو طشت ازبام کریں اور لوگوں کوتوہمات وروایات کی پرپیچ وادیوں سے نکال کر اسلامی شاہ راہ پر گامزن کریں۔ جب افراد معاشرہ کے اندر اسلامی شعور بیدار ہوجائے گا تووہ خودبخود ان فضولیات سے گریزاں ہوجائیں گے۔
ملک کی موجودہ صورت حال اور حکومت کی پالیسیوں سے عوام الناس کو باخبر رکھنا:
تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے ہمارے سماج کے اکثر لوگ ملک کے موجودہ حالات وظروف اورحکومت کی پالیسیوں سے بے خبر رہتے ہیں۔ان کو اپنے حقوق کا پتہ ہے،نہ واجبات کا علم۔یہی وجہ ہے کہ ان کی اس بےخبری وسادہ لوحی کے زبردست استحصال کے تکلیف دہ واقعات وحادثات وقتاًفوقتاً رونما ہوتے رہتے ہیں۔اس لیے ہماری صحافت کی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ یہ منصبی ذمہ داری بھی ہے کہ ملک کے موجودہ حالات اور حکومت کی پالیسیوں سےلوگوں کو باخبر رکھے،نامساعدحالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ان کے اندر حوصلہ وہمت کی جوت جگائے ،مواقع ومناسبات کے اعتبار سے نفع بخش ہدایات وتدابیر کے ذریعے ان کی رہنمائی کرے اور تمام باشندگان ملک کو جذباتی ہم آہنگی،مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ تحمل وبرداشت کی باد نسیم سے شادکام رکھنے کے لیے مسلسل جدوجہد کرتا رہے۔
اللہ تعالی ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق بخشے۔آمین

4
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
2 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
Abdur Rahman banarasi

بہترین قابل عمل تحریر ہے

تسلیم حفاظ عالی

شکریہ
جزاكم الله خيرا

مبارک حسین

آپکی گراں قدر تحریر موجودہ حالات و ظروف کی آواز ہے ۔جزاک اللہ خیرا۔

تسلیم حفاظ عالی

شکریہ
جزاكم الله خيرا