حرکت کا مقابلہ جمود سے نہیں کیا جاسکتا

تسلیم حفاظ عالی سماجیات

ملک کے حالات دن بدن ناگفتہ بہ ہوتے جارہے ہیں،یہاں کا ہرذمہ دار اور باشعور باشندہ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے تئیں فکرمندہے۔سماجی تانا بانا پورے طور پر بکھر چکا ہے۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ستیاناس ہوچکا ہے۔اقتصادی صورت حال روزبروز خستہ ہوتی جارہی ہے۔نوجوان طبقہ نان ونمک کے لیے پریشان ہے۔ملازمت کا پتہ نہیں، مخاصمت عروج پر ہے۔بدعنوانی کے اژدہے ہرجگہ منہ کھولے کھڑے ہیں۔انسانی جانوں کی ارزانی اس اقتدار کی شناخت بن چکی ہے۔خصوصاً مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے انھیں مشق ستم بنانا موجودہ حکومت کا جزوِلاینفک بن چکا ہے۔تمام باشندگانِ ملک فرق مراتب کے ساتھ حکومت کی ناکامیوں کی وجہ سے پریشان ہیں۔کسان،مزدور،تاجر،طلبہ،اساتذہ،وکلا اورجج سبھی بےزارنظرآرہے ہیں۔کسانوں کا جدید زرعی قانون کے خلاف ایک لمبی مدت سے جاری احتجاج ان کی ناراضگی اور اس قانون کی خطرناکی کا واضح ثبوت ہے۔ کاشتکاران ملک جس طرح بے گھر سڑکوں پر مصیبت وتکلیف،بےسروسامانی اور اموات کی بڑھتی تعداد کے باوجود برسرپیکار اور سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں،اس سے وہ بتارہے ہیں کہ یہ قانون ان کے مفاد میں نہیں،بلکہ ان کے لیے ہر طرح سے نقصان دہ ہے ۔ مگر حکومت ہے کہ اپنی غیر سنجیدگی پر بضد ہے۔
ملک کے موجودہ حالات کی کشیدگی وسنگینی پر ہر ذمہ دار شہری شکوہ سنج اور ژولیدہ خاطر ہے ،لیکن مسلمان چونکہ مدتوں سے بہت سارے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں،اس لیے ان کی بےچینی اوروں کے مقابلے میں زیادہ سنگین اور کچھ زیادہ ہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ دیگر قومیں اپنے حقوق کی حصول یابی وبازیابی کے لیے کوشاں ہیں،ان کی کوششیں برگ وبار بھی لا رہی ہیں،ان کا ہرہر فرد متحرک وفعال نظر آتا ہے،ان میں آپسی یگانگت اور پختہ منصوبہ بندی کاحسین منظر قدم قدم پہ دکھائی دیتا ہے،لیکن اگر کہیں جمود،انتشار اور بے ضابطگی ہے تو وہ قوم مسلم میں ہے۔یہاں شکوہ کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے،قلمی تنقیدات کا مینا بازار ہے ،زبانی تبصروں کا ہمالیہ پہاڑ ہے،لیکن حرکت کا کوئی وجود نہیں،منصوبہ بندی کا کوئی پتہ نہیں،عملی دنیا ویسے ہی ویران ہے جیسے پہلے تھی۔اندرون خانہ ہزاروں مسائل ومشکلات محتاج حل ہیں،ان کی طرف کوئی دھیان نہیں،لیکن بیرون خانہ کی فکر پریشان کیے ہوئے ہے۔دنیاں جہاں کا احتساب ہورہاہے لیکن احتساب ذات کا پتہ نہیں۔امریکہ،ایران اور سلمان واردگان پر بڑے بڑےتبصرے ہورہے ہیں،عالمی مسائل پر مفت کے مشورے دیے جارہے ہیں، لیکن گھر، خاندان اور معاشرے کے مسائل ومشکلات کےحل کا کوئی لائحۂ عمل مرتب نہیں۔ فرد،جماعت،تعلیمی ادارے،ملی تنظیمیں ہر جگہ انتشاروخلفشار ہے،ہم چومن دیگرے نیست کے ابلیسی مرض میں ہرکوئی مبتلاہے،ملی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینا وقت کا سب سے بڑا المیہ ہے،جس پر سفینۂ ملت کو ساحل مراد تک پہنچانے کی ذمہ داری ہے وہ اپنے مفادات کا اسیر بنا ہوا ہے، ملی مسائل میں ایثاروقربانی کا جذبہ عنقا ہے،خواہشات کی غلامی اور مطالبات نفس وجسد کی بندگی ہوش ربا ہے،اخلاقی فساد کا گھن مسلمانوں کی قومی طاقت کو اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے،غرض اس قوم کے دست وپا سے لے کر دل ودماغ تک سب جمودوتعطل کا شکار ہیں ۔
نئی نسل کی تعلیمی وتربیتی پلاننگ وقت کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت ہے۔تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بات تو مختلف سطحوں سے گاہ بہ گاہ اٹھتی رہتی ہے لیکن عملی میدان میں خلاابھی بھی افسوس ناک ہے۔اعداے دین وملت کی دسیسہ کاریوں وکینہ سازیوں پر زبانی وقلمی تبصرے ہر کوئی کرتا ہے، قوم وملت کی زبوں حالی کا سب کو پتہ ہے،لیکن علاج وتدارک اور منصوبہ بندی کا ہر جگہ افسوس ناک فقدان ہے۔اب بھی اگر اس بگڑتی صورت حال کی طرف التفات نہیں کیا گیا تو بہت بڑاخسارہ اٹھانا پڑےگا۔ہرمحاذپرمسلمانوں کے تئیں موجودہ حکومت کا رویہ جانب دارانہ اور غیر منصفانہ ہے۔تعلیمی محاذ پر بھی اس نےمسلم بچوں کے تہذیبی وعقدی بگاڑ کا اچھاخاصا سامان فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔جدید تعلیمی پالیسی کے مضمرات واثرات پر تدبروتفکر کی نگاہ ڈالنا قوم وملت کےدانشواران وہمدردان کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔بلا شبہ اس نئی تعلیمی پالیسی کا نقصان راست طور پر مذہبی ولسانی اقلیتوں کو ہوگا۔اس پالیسی میں راشٹرواد،بھارتیت اور نیشنل کلچر کی بات بار بار کہی گئی ہے اور نہایت ہی خفیہ طور پر ہندوآئیڈیالوجی اور تہذیب وثقافت کو لوگوں پر مسلط کرنے کی تدبیر کی گئی ہے۔راشٹرواد کے تحت بچوں کو گیتا میں سے اسباق پڑھائے جائیں گے، ہندودیویوں اور دیوتاؤں کی دیومالائی کہانیاں پڑھائی جائیں گی،حفظان صحت کے نام پر یوگا کرایا جائے گا اور اس میں سوریہ نمسکار بھی شامل ہوگا،وندے ماترم کا مشرکانہ ترانہ پڑھایا جائے گا۔ظاہر ہے بچوں کی تعلیم جن عوامل تہذیب کے زیراثر ،جس ماحول اورجس ذہنی فضا میں ہوگی اس کےاثرات ان کے دماغی نشوونما،تہذیب وثقافت اورایمان وعقیدے پر یقینی طورسے مرتب ہوں گے۔ اس طرح نئی پود کے ذہن ودماغ میں شرک کی غلاظت ڈالی جائے گی اوراسے اپنے اسلامی تراث اور تہذیب وثقافت سے دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اس امت کو اللہ تعالی نے خیر امت کا لقب عطا کیا ہے۔لیکن اس خیریت کو فریضۂ دعوت وتبلیغ کی ادائیگی اور ایمان باللہ کے ساتھ مربوط کیا ہے۔گویا یہ امت اگر ان امتیازی خصوصیات کے ساتھ متصف رہے گی تو ’خیر امت‘ہے بصورت دیگر اس امتیاز سے محروم قرار پاسکتی ہے۔آثاروقرائن یہ بتلارہے ہیں یہ امت اپنے فریضے کی عدم انجام دہی کی وجہ سے بہت حد تک اس فضل وامتیاز سے محروم ہوچکی ہے۔مزید غفلت شعاری اسے زوال وادبار کی آخری سرحد تک لے جاسکتی ہے۔مد مقابل اگرہرمحاذ پر متحرک وفعال ہے توہمیں بھی حرکت میں آنا ہوگا۔حرکت کا مقابلہ جمود کسی طور پر نہیں کرسکتا۔ہم مسلمان ہیں تو اسلامی تعلیمات کو ہرمحاذ پرترجیح دینا ہماری اولین ذمےداری ہے۔وراثت انبیا کے دعویدار ہیں تو ہمارے اخلاق وکردار سے عادات نبوت اور اطوار رسالت کا مترشح ہونا ازبس ضروری ہے۔احکام شریعت اور اخلاق نبوت سے انحراف ہی سارے مسائل ومشکلات کا پیش خیمہ ہے۔نئی نسل کو آنے والے طوفان سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمٍ اسے دین کی بنیادی معلومات سے اچھی طرح روشناس کرائیں۔ تعلیمی وتربیتی نظام کو مضبوط ومستحکم بنائیں،دینی تعلیم اوراخلاقی تربیت کا لائحۂ عمل مرتب کریں،دینی اداروں کو عصری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کریں،شورکم اور کام زیادہ کریں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اشتہاربازواقع ہوئے ہیں ۔ہماری ملت کا کوئی فرد اگر کسی معمولی عہدے پر بھی فائز ہوتا ہے یا کسی امتحان میں اچھے نمبرات سے کامیاب ہوتا ہےتو ہم اس کی اس قدر تشہیر کرتے ہیں جیسے سارے جہاں کی حکومت ہاتھ لگ گئی ہو۔سوشل میڈیا پرتبریک وآفریں کاطوفان بپا ہوجاتا ہے۔اس کا منفی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مد مقابل مزید فعال ہوجاتا ہے اور ہم خوش فہمیوں میں مبتلا ہو کر سست روی کے شکار ہوجاتے ہیں ۔
بہر حال نئی نسل کے دین وعقیدے کی سالمیت کے لیے دانشمندانہ لائحۂ عمل کی ترتیب اور دوراندیشانہ منصوبہ بندی وقت کی اہم ضرورت ہے۔یہ کام وقت طلب ضرور ہے لیکن دشوار بالکل نہیں۔ارادہ مضبوط ، حوصلہ بلند اور ایمان باللہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کا عزم مصمم ہوتو پریشانی کے یہ بادل بھی چھٹ جائیں گے۔
اللہ تعالی ہمیں توفیق سے نوازے اور ہماری حفاظت فرمائے۔آمین

2
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
عبد الرحمن صدیقی

ماشاءاللہ عمدہ مضمون

تسلیم حفاظ عالی

شکریہ
جزاكم الله خيرا