مکمل بازو کو بازو پر رکھ کر نیت باندھنے کا حکم

محمد حامد مدنی افتاء

الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، وأشہد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ، وبعد:
آج کل کثرت سے اس بات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ بہت سارے افراد نمازکی حالت قیام میں اپنے بازو کو پورے بازو پر رکھتے ہیں ، حتی کہ ہاتھ باندھنے کا یہ طریقہ اتنا عام ہوتا جا رہا ہے کہ اکثر لوگ اسی طریقے کو ہاتھ باندھنے کا سب سے بہتراور افضل طریقہ سمجھنے لگے ہیں، حالاں کہ اگر غور کیا جائے تو نیت باندھنے کا یہ طریقہ سرے سے ثابت ہی نہیں ہے، چہ جائے کہ افضل ہو۔
اس مسئلے میں بعض لوگوں کو جس سے شبہ ہوا ہے وہ بخاری کی ایک حدیث ہے جس کے راوی حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہیں، فرماتے ہیں:
کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل الید الیمنی علی ذراعہ الییسری فی الصلاۃ
(صحیح بخاری:۷۴۰) لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ ٓادمی نماز میں داہنے ہاتھ کو اپنے بائیں بازو پر رکھے۔
اس حدیث میں وارد لفظ ذراع کودیکھتے ہوئے لوگوں نے حالت قیام میں مکمل بازو کومکمل بازو پر رکھنے کا عمل شروع کردیا ، لیکن ان کی یہ فہم اور عمل دونوں ہی درست نہیں ، کیوں کہ اہل علم اور شارحین حدیث میں سے کسی نے اس طریقے کو نیت باندھنے کا مستقل طریقہ شمار نہیں کیا ہے۔
چناں چہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرمایا:
قولہ: {علی ذراعہ}: أبھم موضعہ من الذراع، وفی حدیث وائل عندأبی داود والنسائی : ثم وضع یدہ الیمنی علی ظھر کفہ الیسری والرسغ والساعد
(فتح الباری:۲/۲۲۴) یعنی اس حدیث میں بازو پر کہاں ہاتھ رکھا جائے اس جگہ کو مبہم رکھا گیا ہے ، جس کی توضیح سنن ابی داود اور سنن نسائی میں حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے پنجے کی پشت ، جوڑ اور کلائی پر رکھا۔
اس حدیث کی شرح میں اسی طرح کی بات دیگر شارحین حدیث نے بھی کہی ہے۔ملاحظہ کریں: ابوالولید باجی کی المنتقی شرح الموطا (۱/۲۸۱)، بدر الدین عینی کی عمدۃ القاری(۵/۲۷۸)، ابن الملقن کی التوضیح (۶/۶۴۲)، شہاب الدین قسطلانی کی ارشاد الساری(۲/۷۵)، حافظ سیوطی کی التوشیح شرح الجامع الصحیح(۲/۷۳۴)، زرقانی کی شرح موطا(۱/۵۴۸)،محمد خضر شنقیطی کی کوثر المعانی الدراری(۹/۱۱۶)، عبد العزیز راجحی کی منحۃ الملک الجلیل شرح صحیح محمد بن اسماعیل (۲/۳۳۷)وغیرہ۔
ان تمام شارحین نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی شرح میں جو بات کہی ہے اس کا خلاصہ یہی ہے کہ حالت قیام میں ہاتھ کومکمل بازو پر رکھنا نیت باندھنے کا کوئی مستقل طور پر مشروع اور مسنون طریقہ نہیں ہے، بلکہ اس حدیث میں زیادہ سے زیادہ صرف ہاتھ کو ہاتھ پر رکھنے کا ذکر ہے، البتہ ہاتھ پر ہاتھ کو کیسے رکھا جائے اس کی وضاحت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی پشت ، گٹے اور کلائی پر رکھاجائے۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حدیث میں ذراع کالفظ ید کے معنی میں ہے، یعنی حدیث حالت قیام میں محض ہاتھ کو ہاتھ پر رکھنے کی مشروعیت بتا رہی ہے۔نیز حدیث کا یہی مفہوم ان محدثین نے بھی سمجھا ہے جنھوں نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں روایت کی ہے، ان کی یہ فہم اس حدیث پر قائم کیے گئے ان کے ابواب سے واضح ہوتی ہے:
چناں چہ امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں اس حدیث پر باب قائم کیا ہے: باب وضع الیدین احداہما علی الأخری فی الصلاۃ۔(۱/۱۵۸)
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس حدیث پر باب قائم کیا ہے: باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ۔
اسی طرح امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الأوسط فی السنن والاجماع والاختلاف میں اس حدیث کے لیے باب قائم کیا ہے: ذکر وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ۔(۳/۹۰)
اسی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب سنن کبری میں اس حدیث کے لیے باب قائم کیا ہے: باب وضع الید الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ۔(۲/۴۴)
ان ائمہ ومحدثین کے قائم کردہ ان ابواب سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہاتھ باندھنے کا کوئی مستقل طریقہ نہیں بتایا گیا ہے۔
اس بات کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ میرے مطالعے کے مطابق سلف سے خلف تک کسی نے بھی نیت باندھنے کا یہ طریقہ ذکر نہیں کیاہے، بلکہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ حالت قیام میں ہاتھ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہی باندھا جائے گا ، چناں چہ احمد بن اسماعیل کورانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
واتفقواعلی أنہ یضع بطن کفہ الیمنی علی ظہر کفہ الیسری، قابضا علی الکوع مع بعض الرسغ۔
(الکوثر الجاری:۲/۳۷۳)کہ فقہا کا اتفاق ہے کہ نمازی اپنی داہنی ہتھیلی کے اندرونی حصے کو بائیں ہتھیلی کی پشت پر اس طرح رکھے گا کہ پہنچے کے بعض حصے کے ساتھ کلائی کو پکڑے ہوئے ہو۔
مزید بر آں اگر سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق بازو کو بازو پر رکھنے کے طریقے کو مستقل طریقہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی نیت باندھنے کا یہ طریقہ درست نہ ہوگا،کیوں کہ ایسی صورت میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل بالکل معدوم ہو جائے گاجو کہ فقہا اور محدثین کے اصول کے خلاف ہے، کیونکہ ان کے یہاں مشہور قاعدہ ہے:
اعمال جمیع النصوص اذا أمکن أولی من اہمال بعضہا
کہ اگر کسی مسئلے میں وارد تمام نصوص پر عمل ممکن ہو تو بہتر یہی ہے کہ تمام نصوص پر عمل کیا جائے اور کسی بھی نص کو بے کار نہ چھوڑا جائے۔
لہذا ایسی صورت میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل کیا جائے گا ، کیونکہ اس میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث پربھی عمل در آمد ہو جائے گا، وہ اس طرح کہ جب داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی پشت ، پہونچے اور کلائی پر رکھیں گے تو ذراع پر رکھنے کا مفہوم بھی حاصل ہوجائے گا، کیونکہ ذراع درمیانی انگلی کے کنارے سے کہنی کے کنارے تک کے حصے کو کہا جاتا ہے، جیسا کہ ابن منظور نے فرمایا:
الذراع ما بین طرف المرفق الی طرف الاصبع الوسطی
(لسان العرب: ۸/۹۳)کہ ذراع کا اطلاق کہنی کے کنارے سے درمیانی انگلی کے کنارے تک کے حصے کو کہا جاتا ہے ۔
ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ذراع کومکمل ذراع پر رکھنے کا مستقل طریقہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب صفۃ صلاۃ النبی ﷺ میں ذکرکیا ہے، بلکہ شیخ محترم نے اس طریقے سے سینے پر ہاتھ باندھنے کی سنیت کے لیے بھی استیناس کیا ہے، لیکن جب میں نے شیخ رحمہ اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کیا تو معاملہ بر عکس تھا، آپ کی عبارت کچھ یوں ہے:
ومما یصح أن یورد فی ہذا الباب حدیث سہل بن سعد وحدیث وائل المتقدمان، ولفظہ: { وضع یدہ الیمنی علی ظھر کفہ الیسری والرسغ والساعد}۔ ولفظ حدیث سہل:{ کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل الید الیمنی علی ذراعہ الییسری فی الصلاۃ}۔ فان قلت: لیس فی الحدیثین بیان موضع الوضع؟ قلت: ذلک موجود فی المعنی، فانک اذا أخذت تطبق ما جاء فیھما من المعنی فانک ستجد نفسک مدفوعا الی أن تضعہما علی صدرک أو قریبا منہ، وذلک ینشأ من وضع الید الیمنی علی الکف والرسغ والذراع الیسری، فجرب ما قلتہ لک تجدہ صوابا۔
(صفۃ صلاۃ النبی الاصل: ۱/۲۱۸) سینے پر ہاتھ رکھنے کے مسئلے میں سہل بن سعد اور وائل رضی اللہ عنہما کی گزشتہ حدیثیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کی پشت ، گٹے اور کلائی پر رکھا۔ اور سہل رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ: لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنے داہنے ہاتھ کو اپنے بائیں بازو پر رکھے۔
اگر آپ کہیں گے کہ دونوں حدیثوں میں ہاتھ رکھنے کی جگہ بیان نہیں کی گئی ہے تو میں کہوں گا کہ معنوی طور پر موجود ہے، کیونکہ جب آپ ان دونوں حدیثوں پر عمل کرنے جائیں گے تو لا محالہ آپ اپنا ہاتھ سینے پر یا اس کے قریب رکھیں گے، اور وہ داہنے ہاتھ کو ہتھیلی ، کلائی اور بائیں بازو پر رکھنے سے حاصل ہوگا، آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں میری بات درست پائیں گے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ کے اس قول سے کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ نے بازو کو بازو پر رکھنے کا مستقل طریقہ ذکر کیا ہے، بلکہ اس کے برعکس آپ نے اسی جمع کی بات کہی ہے جس کا ذکر اوپرگذر چکا۔
ان تمام توضیحات کے بعد یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ بازو کو مکمل بازو پر رکھ کر نیت باندھنے کا طریقہ بالکل غلط ہے، جو حدیث کو غلط طور پر سمجھنے کی وجہ سے رونما ہوا ہے، لہذا اس طریقے سے اجتناب کرتے ہوئے سنت کے مطابق اپنے داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی پشت، پہونچے اور کلائی پر رکھنا چاہیے، واللہ اعلم۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں سنت کے مطابق اپنی نمازوں کو ادا کرنے کی اور حق واضح ہوجانے کے بعد اسے قبول کرنے کی توفیق عطافرمائے، آمین۔ وصلی اللہ علی النبی الأمین، وعلی آلہ وصحبہ الطیبین الطاہرین۔

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
محمد انس رحمانی

جزاکم الله خيرا

نجيب الدين مروان

جزاك الله خيرا

فاروق نہال

“لا محالہ آپ اپنا ہاتھ سینے پر رکھیں گے” علامہ البانی کے اس قول کا کیا مطلب ہے؟

عبيد سيد

شیخ صاحب! حدیث سہل میں الید الیمنی کو ذراع پر رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔ اگر لفظِ يد کو کف کے معنی میں لیں تو آپکی بات صحیح ہے لیکن اگر لفظ ید مطلق لیا جائے تو ہاتھ کو بازو پر رکھنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے اسلئے کے ایسی صورت میں ہاتھ ظہر کف، رسغ اور ساعد پر آ ہی جائیگا۔ اور شاید یہی شیخ الالبانی رحمہ اللہ کہنا چاہتے ہیں۔
طالبِ علم ہوں ، جوابِ علم سے نوازیں۔
جزاک اللہ خیرا