دعا کیا ہے اور اجتماعی و آن لائن دعا کی حیثیت؟

ذکی نور عظیم ندوی عبادات

دعا عبادت ہی نہیں اصل عبادت ہے:’الدعاء ھو العباده‘(ابوداؤد عن النعمان بن بشير)، دعا بندوں کی ضرورت ہی نہیں بلکہ رب کا مطالبہ ہے:’وقال ربكم ادعوني استجب لكم‘(غافر:۶۰)،دعا ہماری بے بسی کا اظہار نہیں بلکہ اللہ کے نزدیک سب سے محترم شیئ ہے:’ليس شيء اكرم على الله من الدعاء‘(بخارى فى الأدب المفرد عن أبى هريرة)، دعا اللہ کو ناگوار نہیں بلکہ دعا نہ کرنے والا اللہ کے غضب کا مستحق ہے:’من لم يسال الله يغضب عليه‘(ترمذى عن أبي هريرة)، دعا اللہ سے دوری کا نہیں بلکہ اس کو قریب کرنے کا ذریعہ ہے:’واذا سالك عبادي عني فاني قريب‘(البقرة:۱۸۶) دعا کرنے والے کے لیے بشارت اور دعا سے غفلت برتنے والے کے لیے اللہ کی سخت وعید ہے:’ان الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين‘(غافر:۶۰)
دعا نافرمانوں کا طریقہ نہیں بلکہ انبیاء کی بھی سنت اور طریقہ ہے۔
حضرت آدم عليہ السلام کو ممنوعہ درخت کا پھل کھانے کے بعد دعا کی ہی وجہ سے راحت ملی:
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
(اعراف:۲۳)
حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا کی قبولیت ہی تھی کہ مکہ جیسے بے آب وگیاہ علاقہ میں ہر طرح کی روزی اناج اور پھلوں کی کثرت ہونے لگی:
رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
(البقرة:۱۲۶)
حضرت ایوب علیہ السلام کی ساری بیماریاں،پریشانیاں اور نقصانات کی بھرپائی دعا کے بعد ہی ہوئی:
أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ. فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ
(الأنبياء : ۸۳-۸۴)
حضرت یونس علیہ السلام کے لیے تمام وسائل و ذرائع معدوم ہونے کے بعد دعا ہی آخری کارگر سہارا ثابت ہوا:
وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ
(الأنبياء:۸۷)
حضرت زكريا علیہ السلام کو بیوی کے بانجھ پن اور درازی عمر کے باوجود دعا اور اس پر یقین کی وجہ سے اولاد جیسی نعمت ملی:
وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ۔ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ
(الأنبیاء:۸۹-۹۰)
حضرت مریم کی والدہ کی دعا ہی تھی کہ اللہ نے ان کو اور حضرت عیسی کو شیطانی اثر سے محفوظ کردیا:
فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
(آل عمران:۳۶) یہاں تک کہ وہ کائنات کے لیے نشان راہ قرار دیے گئے:
وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ
(الأنبیاء:۹۱)
قرآن و حدیث میں بے شمار دعائیں ہیں۔ عام بھی جس کے لیے خاص موقع اور وقت اور عدد کی شرط نہیں اور خاص موقع اور اوقات کے لیے بھی، مطلق بھی اور عدد و وقت کے ساتھ مقید بھی۔
بعض دعائیں صبح و شام کی ہیں، بعض کھانے سے پہلے اور بعد کی، بعض قضاء حاجت کے لیے جاتے وقت بعض وہاں سے نکلتے وقت،بعض سونے سے پہلے کی بعض سو کر اٹھنے کے بعد کی، بعض سفر کے لیے، تو بعض نئے کپڑے پہننے کے لیے،بعض لیلۃالقدر کے لیے تو بعض یوم عرفہ کے لیے،بعض رکوع و سجود کے لیے تو بعض حج و عمرے کے لیے، بعض بیماری سے شفا کے لیے تو بعض بیماروں کو دیکھنے کے بعد،بعض سفر کے لیے تو بعض سفر سے واپس آنے کے بعد، بعض گھر سے نکلنے وقت تو بعض گھر میں داخل ہوتے وقت۔
مسجد میں داخل ہونے کے لیے الگ دعا اور نکلنے کے لیے الگ، نماز میں ثناء کے لیے الگ، رکوع و سجود کے لیے الگ، رکوع کے بعد کی الگ، سجدے کے درمیان کی الگ، نماز میں سلام سے پہلے الگ سلام کے بعد الگ۔
یعنی خاص موقعوں کے لیے، خاص مقامات کے لیے، خاص عبادات کے لیے خاص دعائیں اور اذکار ہیں۔ لیکن ایک دعا دوسری جگہ کے لیے مناسب نہیں اور دوسری دعائیں ان خاص موقعوں کے لیے خلاف سنت۔ یہاں تک کہ سب سے عظیم عبادت حج کے لیے ’تلبیہ‘ کے نام سے مشہور ذکر غیر حج میں کبھی بھی کسی موقع کے لیے درست نہیں بلکہ حج وعمرہ میں بھی، عمرہ میں طواف سے پہلےاور حج میں یوم النحر کو رمی سے پہلے تک ہی محدود و مشروع ۔
سجدہ میں بندہ رب سے سب سے زیادہ قریب لیکن اس میں رب کا کلام ہی پڑھنے کی ممانعت :
اني نهيت أن أقرا القران راكعا او ساجدا

اسی طرح بعض دعائیں اور اذکار خاص اوقات کے لیے متعین ہیں تو بعض خاص تعداد میں جیسے آیۃ الکرسی اور معوذتین کا صبح و شام تین تین بار پڑھنا،نماز کے بعد سبحان اللہ الحمدللہ اللہ اکبر کا ۳۳ مرتبہ پڑھنا۔
لہذا جو دعائیں جس موقع کے لیے جس عدد میں جس انداز میں پڑھنے کا قرآن و حدیث سے ثبوت اس کو اسی طرح پڑھنا عبادت کی روح کے مطابق ہے اور الگ الگ دعاؤں کو الگ تعداد میں اپنی طرف سے بغیر ثبوت کے خاص اوقات اور مواقع کے لیے خاص کر لینا یہ دعا کی روح کے خلاف۔ کیونکہ دعا عبادت ہے عبادات توقیفی یعنی ثابت طریقے پر کرنا ہی مطلوب ہے، لہذا اس کے خلاف جانا عبادات کو غلط رخ دینے کا ذریعہ جو اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
دعا بندے اور رب کا بالکل نجی اور ذاتی معاملہ ہے، بندہ اپنے رب سے ہم کلام ہو کر اپنی ضروریات اور حاجات پیش کرتا ہے۔ عام طور پر انفرادی طور بندہ اپنے رب کو منانے اور معاف کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جنگ بدر کے موقعہ پر حالات بہت نازک تھے پھر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہی سجدے میں دعا کے لیے گڑگڑاتے رہے۔ جنگ احد، غزوہ خندق اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر حالات بہت نازک ہونے کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی دعا کی طرف رہنمائی نہیں فرمائی۔
اسلامی تاریخ میں بہت سے مشکل مراحل آئے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے اجتماعی طور پر دعاؤں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اجتماعی و انفرادی تمام مواقع پر ہر بندہ اپنے رب سے انفرادی طور پر اپنے گناہوں کی معافی تلافی کرے۔حالات کو بہتر کرنے کی دعا دونوں کو دور کرنے کی دعا کرے یہی دین کا صحیح مزاج اور انبیاء و صحابہ کرام کا طریقہ ہے۔
ان دنوں پوری دنیا خاص طور پر ہندوستان میں کورونا کی وجہ سے حالات نہایت سنگین ہیں، روزانہ بے شمار لوگ موت کی آغوش میں جارہے ہیں۔ ایک بڑی تعداد اس بیماری کا شکار ہو رہی ہے ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کو سنجیدگی سے اللہ سے لو لگانا چاہیے، اس کی عبادت کی طرف توجہ دینی چاہیے، گناہ اور معصیت سے بچنا چاہیے۔ اسی طرح عبادات کے بعد، نماز کے بعد، افطارکے وقت تراویح کے بعد، تلاوت کے بعد یا جب بھی موقع ملے اللہ سے دل لگا کر اس کو دور کرنے اور سب کی حفاظت کی دعا کرنی چاہیے۔
اصل نجات اللہ و رسول کی اتباع و پیروی میں ہے جب کہ ان کے طریقوں کے خلاف چلنا اللہ کی نافرمانی و غضب کا ذریعہ ہے،دعا جو عبادات کی ایک شکل ہے اس میں قرآن و احادیث سے ثابت احکام اور طریقوں کی پابندی ضروری ہے لہذا اجتماعی یا آن لائن دعا درحقیقت دعا کی روح کے خلاف اور شریعت کی منشا کے مطابق نہیں لگتى۔

آپ کے تبصرے

3000